الثلاثاء، 03 ربيع الأول 1447| 2025/08/26
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

اسباب اور مسببات… کیا نتائج کا حاصل کرنا ہمارے ہاتھ میں ہے؟

 

مثال کے طور پر نصرۃ۔

 

(ترجمہ)

اسباب اور مسببات کا مطالعہ، اسباب اور نتائج کے باہمی تعلق کا جائزہ، یا جسے سببیّت کا قانون کہا جاتا ہے، اور یہ کہ آیا یہ تعلق ثابت اور غیر متغیر ہے یا نہیں، یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر علمی، فکری اور شرعی تحقیق کرنے والے علماء طویل عرصے سے غور وفکر کرتے آئے ہیں۔ عملی طور پر تمام لوگوں کے درمیان یہ بات مسلم ہے کہ یہ تعلق بدیہی اور قطعی ہے، اور یہ ربط و تعلق دراصل اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی عطا کردہ قدر اور اس کی وہ قدرت ہے جو اشیاء اور انسانوں میں کبھی تبدیل نہیں ہوتی۔

اس سیاق میں "سبب" کی اصطلاح دو معنوں میں استعمال ہوتی ہے۔ ایک وہ مفہوم جو عقلی اور مادی امور دونوں میں مراد لیا جاتا ہے، یعنی کوئی ایسی چیز جو کسی دوسری چیز کا سبب ہو اور جس سے کوئی نتیجہ پیدا ہو۔ مثال کے طور پر، کسی ٹھوس چیز سے ٹکرانے پر شیشے کا ٹوٹ جانا، یا اگر رسی ٹوٹ جائے تو اس سے لٹکی ہوئی کسی شے کا گر جانا، یا اندرونی دباؤ کے بڑھتے چلے جانے سے کسی بند شے کا پھٹ جانا۔ یہ ٹکر لگنا، ٹوٹ جانا یا دباؤ عقلی اعتبار سے ایک سبب ہے جس سے ایک نتیجہ یا اثر پیدا ہوتا ہے، یعنی ٹوٹنا، گرنا یا پھٹنا۔ یہ اثر لازمی طور پر اس وقت ہی پیدا ہوتا ہے جب وہ سبب موجود ہو، اور اس سبب کے موجود ہونے سے ہی پیدا ہوتا ہے۔ "سبب" کی اصطلاح اصول الفقہ میں اصطلاحی طور پر شرعی معنی میں بھی استعمال ہوتی ہے۔ جیسے رمضان یا شوال کے ہلال کا نظر آنا، جس سے روزے یا عید کا شرعی حکم ثابت ہوتا ہے، یا سورج غروب ہونا، جس سے مغرب کی نماز کا شرعی حکم قائم ہوتا ہے۔ یہ سبب اس معنی میں ہے کہ اس سے روزے، عید یا نمازِ مغرب کا حکم وجود میں آتا ہے، لیکن یہ سبب حکم کے لئے شرعی دلیل فراہم نہیں کرتا۔ یعنی شرعی حکم اپنی شرعی دلیل کی بنیاد پر ثابت ہوتا ہے، نہ کہ سبب کی وجہ سے، کیونکہ یہ کوئی عقلی سبب نہیں ہے۔ اس لئے کہا جاتا ہے کہ عقلی امور میں سبب، مسبّب کو وجود میں بھی لاتا ہے اور اسے ثابت بھی کرتا ہے، لیکن شرعی امور میں سبب صرف حکم کو وجود میں لاتا ہے، اسے بطورِ دلیل ثابت نہیں کرتا۔ اس تحقیق میں مراد وہ سبب ہے جو عقلی یا مادی امور کا ہو، یعنی وہ عمل یا اعمال جن کے ذریعے کسی مقصد تک پہنچنا مقصود ہو، اور مطلوب مقصد ہی "مسبّب" یا نتیجہ کہلاتا ہے۔

اسباب اور مسببات پر بحث ہر اس سبب اور نتیجے کے لئے عمومی طور پر ہے، یا اس کے لئے جو غالب گمان کے مطابق سبب اور نتیجہ ہو۔ مثال کے طور پر، تعلیم ایک سبب ہے جس کا مقصود اور مطلوب نتیجہ کامیابی ہے۔ کھیتی باڑی ایک سبب ہے جس کا مقصود اور مطلوب نتیجہ فصل کی کٹائی ہے۔ جنگ کی تیاری اور لڑائی ایک سبب ہے جس کا مطلوب نتیجہ فتح و نصرت، دھاک و اثر اور طاقت کا پھیلاؤ، اور دشمن پر ہیبت طاری کرنا ہے۔ سزائیں دینا ایک عقلی، مادی اور عملی سبب ہیں تاکہ قانون کی خلاف ورزی کا سدباب کیا جا سکے۔ اسلامی ریاست قائم کرنے کا شرعی طریقہ ایک مادی اور عملی سبب ہے جس کا نتیجہ اس ریاست کا قیام ہے، جو کہ مطلوبہ نتیجہ ہے۔ پس، اسباب اور مسببات کا موضوع عمومی معنی میں ہے، اور درج بالا تمام مسائل یا مثالیں اسی کے تحت آتی ہیں۔ اس میں عربی کہاوت "[مَن جَدَّ وَجَدَ وَمَن زَرَعَ حَصَدَ]" "جس نے محنت کی اُس نے پایا، اور جس نے بویا اُس نے کاٹا"  کا مفہوم بھی اپنی عمومیت کے ساتھ شامل ہے۔

چونکہ یہ بحث ان موضوعات میں عام ہے، اس لئے جو بات ان میں سے کسی ایک پر اس کے سبب، مسبب، نتیجہ یا مقصد ہونے کے اعتبار سے صادق آئے گی، وہ سب پر لاگو ہوگی۔ لہٰذا ان میں سب سے زیادہ ذکر کیا جانے والا اور جس کے بارے میں سب سے زیادہ سوال کیا جاتا ہے، وہ "نصرۃ" کا موضوع ہے، بطور ایک ایسے نتیجے کے جو کچھ اعمال سے حاصل ہوتا ہے۔

پس اگر سبب اور اس کے مسبب کے درمیان تعلق قطعی ہو اور جو کہ ایسا ہی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اسباب کو اختیار کرنا لازماً ان کے نتائج تک پہنچا دے گا۔ یعنی، "نصرۃ" کے اسباب اختیار کر لینا لازماً "نصرۃ" تک پہنچائے گا، تو کیا یہ بات درست ہے؟ اور اگر "نصرۃ" کے اسباب اُن کے ہاتھ میں ہوں جو اسے حاصل کرنا چاہتے ہیں، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ نتائج بھی اُنہی کے ہاتھ میں ہیں، تو کیا یہ بات درست ہے؟ یہی سوالات اس تحقیق کی بنیاد ہیں۔

اور اس بحث کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ جب یہ بات طے ہو جائے کہ نصرۃ اور اس کے اسباب کے درمیان تعلق قطعی ہے، تو اس حقیقت اور اُن شرعی نصوص کے درمیان تطبیق کی جائے جو قطعی الثبوت اور قطعی الدلالہ کے ساتھ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ نصرۃ صرف اللہ کی طرف سے ہے، جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا فرمان ہے:

 

  ﴿وَمَا النَّصْرُ إلَّا مِنْ عِنْدِ اللهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ

"اور (یہ بات تو واضح ہے کہ) مدد اور فتح و نصرت اللہ ہی کی طرف سے ہے جو زبردست ہے اور بڑی حکمت والا ہے" (سورۃ آل عمران؛ 3:126)

اور مزید فرمایا:

﴿إن يَنْصُركُمُ اللهُ فَلَا غَالِبَ لَكُمْ وَإنْ يَخْذُلْكُمْ فَمَنْ ذَا الَّذِي يَنْصُرُكم مِنْ بَعْدِهِ وَعَلَى اللهِ فِلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُون

"اگر اللہ تمہاری مدد کرے۔ تو کوئی بھی تم پر غالب نہیں آسکتا اور اگر وہ تمہیں چھوڑ دے (تمہاری مدد نہ کرے) تو اس کے بعد کون ہے جو تمہاری مدد کرے اور اہل ایمان کو صرف اللہ پر ہی بھروسہ کرنا چاہیے" (سورۃ آل عمران؛ 3:160)

 

اور مزید فرمایا:

 

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إنْ تَنْصُرُوا اللهَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ

 

"اے ایمان والو! اگر تم اللہ (کے دین) کی مدد کرو گے تو وه تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم جما دے گا" (سورۃ محمد؛ 47:7)۔

یہ وہ معاملہ ہے جس میں بعض غور کرنے والے تعارض محسوس کرتے ہیں، اور جو اس حقیقت کے بارے میں شک و شبہ پیدا کرتا ہے یا کم از کم سوالات کو جنم دیتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں، سوال یہ پیدا ہوتا ہے: کیا نصرۃ کا حصول مادی قانونِ سببیت کے تحت صرف اسباب پر ہی موقوف ہے؟ یا پھر یہ صرف اللہ کی طرف سے ہے، خواہ اسباب اختیار کئے گئے ہوں یا نہ کئے گئے ہوں؟ یعنی کیا اس بات میں تضاد ہے کہ نصرۃ کے مادی اسباب ہیں اور اگر ان کو صحیح طور پر اختیار کر لیا جائے تو اس کا نتیجہ لازمی طور پر نصرۃ ہی ہو گا، اور اس بات میں کہ کیا نصرۃ صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے؟ کیا یہ کہنا کہ اگر اسباب اختیار کر لئے جائیں تو نصرۃ ناگزیر ہے اور ہمیشہ حاصل ہوتی ہے، تو یہ حقیقت ان نصوص سے متصادم ہے جو نصرۃ کو صرف اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتی ہیں؟ کیا یہ کہنا کہ نصرۃ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور وہ جسے چاہے دیتا ہے، چاہے اسباب اختیار کیے جائیں یا نہ کیے جائیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ تیاری کرنا محض ایک شرعی، رسمی حکم ہے جس کا نصرۃ پر کوئی مثبت یا منفی اثر نہیں، اور یہ مادی قانونِ سببیت کے منافی ہے؟ یوں یہ واضح ہو جاتا ہے کہ یہ ظاہری مسئلہ آخر کیا ہے اور یہ کس طرح سوالات کو جنم دیتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ سبب اور مسبب کا تعلق ایک قطعی عقلی حقیقت ہے، جبکہ شرعی نصوص کا یہ بیان کہ نصرۃ صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، یہ بھی ایک قطعی حقیقت ہے، اور دو قطعی حقائق میں تضاد نہیں ہو سکتا۔ تو پھر اس کی وضاحت کیا ہے؟ یہ مسئلہ کس طرح حل کیا جا سکتا ہے، یعنی ان دونوں حقائق کے درمیان تضاد کو کس طرح ختم کیا جائے، اور ان کی باہمی مطابقت کس طرح واضح کی جائے؟

تو سب سے پہلے جواب یہ ہے کہ سچائی نہ تو آپس میں ٹکراتی ہے اور نہ ہی متصادم ہوتی ہے، چاہے وہ بذاتِ خود عقلی سچ ہوں، یا بذاتِ خود شرعی سچائی، یا پھر شرعی اور عقلی دونوں ہوں۔ یہ سب حقیقت ہی ہیں۔ اگر ان کے درمیان کوئی بظاہر ٹکراؤ نظر آئے، تو وہ حقیقی نہیں ہوتا بلکہ ایک غلط فہمی ہوتی ہے، جسے علم، غور و فکر اور باریک بینی سے دور کیا جا سکتا ہے۔ اسی لئے اسے حقیقی نہیں بلکہ "ظاہری تعارض" کہا جاتا ہے۔

لہٰذا، قانونِ سببیت یا اسباب اور ان کے نتائج کے درمیان قطعی تعلق، اور یہ حقیقت کہ نصرۃ صرف اللہ کی طرف سے ہے، ان دونوں میں کوئی تعارض نہیں۔ اگر سبب مکمل طور پر واقع ہو جائے تو مسبب یا نتیجے کا حصول لازمی ہے۔ یہی طریقہ اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمایا ہے اور اسی کا حکم دیا ہے۔ اگر ہمیں یہ نظر آئے کہ نتیجہ ظاہر نہیں ہوا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ قانون ٹوٹ گیا، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ سبب یا تو سرے سے واقع نہیں ہوا، یا پھر مکمل طور پر واقع نہیں ہوا۔ کبھی غلطی اس وجہ سے ہو سکتی ہے کہ فاعل یعنی عمل کرنے والا یہ سمجھتا ہے کہ جو وہ کر رہا ہے وہ ایک سبب ہے، حالانکہ وہ سبب نہیں ہوتا۔ یا پھر حالات و واقعات اس سبب کو ختم یا روک دیتے ہیں اور اس میں رکاوٹ بنتے ہیں، اور یہ اکثر ہی ہوتا ہے۔ یا اسباب کو اختیار کرنے میں کمی اور نقص رہ جاتا ہے، جس کی وجہ سے نتیجہ یقینی کے بجائے محض ممکن ہو جاتا ہے۔ نتیجے کے ممکن ہونے کی قوت اس بات کے متناسب ہوتی ہے کہ اسباب کس حد تک اختیار کئے گئے۔ یہ معاملہ ہمیشہ رہتا ہے، کیونکہ کوئی شخص، چاہے وہ کتنا ہی عالم یا اہم کیوں نہ ہو، اسباب کو مکمل طور پر اختیار نہیں کر سکتا، اس لئے کہ وہ ان سب کو پوری طرح جان ہی نہیں سکتا، اور جو کچھ وہ جانتا ہے اسے بھی مکمل طور پر عملی جامہ نہیں پہنا سکتا۔ اس پر مزید یہ کہ وہ ان نئے واقعات اور تبدیلیوں سے بھی لاعلم ہوتا ہے جو پیش آ سکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسباب کو مکمل طور پر اختیار کرنا ناممکن ہے۔

لہٰذا کسی نتیجے کے حاصل نہ ہونے میں جو غلطی یا کمی واقع ہوتی ہے، وہ اس قانون میں نقص کی وجہ سے نہیں ہوتی جو اسباب کو ان کے نتائج سے جوڑتا ہے، بلکہ یہ اسباب کو اختیار کرنے میں کمی اور نقص کی وجہ سے ہوتی ہے۔ یہ کمی، اور اس کے ساتھ وہ اسباب جو انسان کے ادراک یا اس کی قدرت سے باہر ہیں، نتائج کو غیر یقینی بنا دیتی ہے۔ اس لئے یہ بات یقینی ہے کہ نتائج صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں، اور انسان کے ہاتھ میں نہیں، چاہے وہ کتنے ہی اسباب اختیار کر لے۔ انسان کوشش کرتا ہے کہ ایسے اسباب اختیار کرے جن کے بارے میں اسے گمان ہوتا ہے کہ وہ مطلوبہ نتیجے تک پہنچا دیں گے۔ اور جب وہ ایسا کرتا ہے، تو بھی وہ صرف اتنے ہی اسباب اختیار کر سکتا ہے جتنے وہ دیکھ اور سمجھ سکتا ہے، اور جتنے اسباب پر وہ اپنی استطاعت کے مطابق عمل کر سکتا ہے۔ چونکہ انسان کی بصیرت محدود اور ناقص ہے، اور اس کی قدرت بھی محدود اور ناقص ہے، اسی لئے نتیجے یا مقصد کا حاصل ہونا اس کے ہاتھ میں نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے علم اور اس کے اختیار میں ہے۔

کہا جا سکتا ہے کہ: "بہت سے اعمال میں دیکھا جاتا ہے کہ نتائج فوراً حاصل ہو جاتے ہیں، چاہے وہ عمل سادہ ہو، جیسے کسی دیوار کو گرا دینا یا قتل، یا پھر پیچیدہ ہوں، جیسے ایسے کام جن میں کئی مراحل اور اقدامات ہوں، مثلاً جدید اور ترقی یافتہ صنعتیں"۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جتنا مقصود کے اسباب قریب اور غیر پیچیدہ ہوں، یا مطلوبہ نتیجے کے اسباب قریب اور آسان فہم ہوں، اور ان اسباب کو اختیار کرنا جتنا زیادہ ممکن اور قابلِ حصول ہو، اتنا ہی نتیجہ زیادہ حاصل ہونے کے قریب ہو جاتا ہے۔ تاہم، نتیجہ پھر بھی مکمل درجے تک نہیں پہنچتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمیشہ کچھ نہ کچھ ایسا ہوتا ہے جو انسانی فہم اور قدرت سے باہر ہوتا ہے۔ مزید برآں، کچھ رکاوٹیں یا مانع پیش آ سکتے ہیں جو اسباب کو مکمل طور پر اختیار کرنے میں حائل ہو جاتے ہیں، جیسے بھول جانا، موت آ جانا، مخالفانہ اقدامات، یا قدرتی آفات جیسے زلزلہ، طوفان، یا وبائی امراض وغیرہ۔ چنانچہ، اگرچہ اسباب کو اختیار کرنا نتیجے تک پہنچاتا ہے، لیکن کوئی انسان، چاہے اس کے پاس کتنا ہی علم اور طاقت کیوں نہ ہو، اور خواہ وہ نبی ہی کیوں نہ ہو، اسباب کو سو فیصد مکمل طور پر اختیار نہیں کر سکتا۔ یہ معاملہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے مزید واضح ہو جاتا ہے:

 

﴿إنّ اللهَ لَا يُغَيّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ

 

"بے شک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت کو نہ بدلیں" (سورۃ الرعد: 11)

یہ شرعی نص اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی وہ ذات ہے جو کسی قوم کی حالت اور کیفیت کو بدلتا ہے۔ یہ آیت یہ بھی واضح کرتی ہے کہ اللہ اس وقت تک ان کی حالت نہیں بدلے گا جب تک وہ خود اپنی اندرونی حالت کو نہ بدلیں۔ یہ نکتہ بھی غور طلب ہے، کیونکہ اگر وہ اپنی اندرونی حالت کو بدل لیں تو وہ خود بدل چکے ہیں اور تبدیلی واقع ہو چکی ہے، تو پھر اللہ تعالیٰ کیوں فرماتا ہے کہ وہ اس کے بعد ان کی حالت بدلے گا؟ اس کا جواب وہی ہے جو پہلے بیان ہوا کہ تبدیلی کے ایسے اسباب ہیں جو انسان کے اختیار میں ہیں، اور ایسے بھی ہیں جو اس کی سمجھ اور قدرت سے باہر ہیں۔ اس لئے انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی اندرونی حالت کو بدلے، کیونکہ یہ اس کے اختیار میں ہے۔ جب وہ ایسا کرے گا تو اللہ تعالیٰ وہ تبدیلی لے آئے گا جو اس کے اختیار سے باہر ہے، اور یوں مطلوبہ تبدیلی مکمل طور پر واقع ہو جائے گی۔

جنگ میں فتح و نصرت کی مثال لیں تو اوپر بیان کی گئی بات مزید واضح ہو جاتی ہے۔ فتح و نصرت ایک مطلوبہ نتیجہ ہے، جو جنگ کے اسباب، جیسے تیاری، منصوبہ بندی، جنگ اور دیگر اقدامات کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔ فتح و نصرت کے اسباب اختیار کرنا اسے حاصل کرنے کے لئے لازمی ہے۔ تاہم، خواہ کتنی ہی فکری، مادی اور عسکری طاقت یا تجزیہ اور منصوبہ بندی کی صلاحیت موجود ہو، اسباب اختیار کرنے والے نصرت کے تمام اسباب یا حتیٰ کہ اس کے اصل سبب کو بھی کبھی مکمل طور پر نہیں جان سکتے۔ اور تیاری ہمیشہ ادھوری ہی رہے گی۔ اس پر مزید یہ کہ دشمن بھی منصوبہ بندی کرتا ہے اور اسباب اختیار کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ہنگامی حالات بھی ہوتے ہیں جنہیں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی ذات کے سوا کوئی نہیں جانتا، جیسے کسی خلل کا پیدا ہونا، غداری، بغاوت، قتل و غارت گری، قائدین کی موت، بیماریوں کا پھیلاؤ، قدرتی آفات وغیرہ۔ یہ حقیقی زندگی کی مثالیں اس بات کو ظاہر کرتی ہیں کہ فتح و نصرت کے اسباب کو مکمل طور پر جاننا ممکن نہیں، اور اختیار کیے گئے اسباب کو انسانی یا قدرتی عوامل بھی بگاڑ سکتے ہیں۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ محسوس و مادی حقائق بھی اس حقیقت کی تائید کرتے ہیں کہ نتائج اور مقاصد، بشمول نصرت، صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتے ہیں۔ اس طرح، اوپر ذکر کیا گیا مبینہ تضاد تطبیق کے ذریعے حل ہو جاتا ہے اور یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ محض ایک ظاہری اور وہمی تضاد تھا، حقیقی نہیں۔

اس موضوع سے متعلق دیگر مسائل بھی ہیں، مثلاً یہ حقیقت کہ فتح و نصرت اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے۔ اگر کفار، کفار پر یا مسلمانوں پر غالب آ جائیں، تو کیا یہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو انہیں فتح و نصرت دیتا ہے؟ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ قرآن کی آیات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اہل ایمان کو فتح و نصرت سے نوازنا اس بات پر مشروط ہے کہ وہ اس کی مدد کریں، اور اگر وہ اس کی مدد کریں تو وہ انہیں فتح و نصرت سے نواز دے گا۔ اللہ تعالیٰ کی مدد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اہل ایمان اس کی عبادت اور اطاعت کریں۔ کیا اس شرط کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ اس کی نافرمانی کریں تو وہ انہیں فتح و نصرت سے نہیں نوازے گا؟ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ جب یہ کہا جاتا ہے کہ نتائج اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں، ہمارے ہاتھ میں نہیں، تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگ، اور وہ جن پر شرعی ذمہ داریاں عائد کی گئی ہیں، شکست یا اپنے مقاصد میں ناکامی پر ذمہ دار نہیں ٹھہرتے؟ پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

 

﴿وَمَا النَّصْرُ إلَّا مِنْ عِنْدِ اللهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ

 

"فتح تو صرف اللہ ہی کی طرف سے ہے، بے شک اللہ زبردست، حکمت والا ہے" (سورۃ الأنفال: 10)

فتح ونصرۃ کو صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص کیا گیا ہے، اور یہ اصول تمام فتوحات پر لاگو ہوتا ہے، چاہے وہ اہل ایمان کے لئے ہوں یا کفار کے لئے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اہل ایمان اور اس کی مرضی کے تابع لوگوں کو بھی فتح دیتا ہے، اور کفار کو بھی، جو نہ موم ن ہیں، نہ عبادت گزار اور نہ ہی فرمانبردار۔ پھر یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر نافرمانوں، کفار اور ان جیسے لوگوں کی فتح و نصرت بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، تو کیا یہ ان آیات کے خلاف نہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اہل ایمان کا ایمان اور اللہ تعالیٰ کی مدد کرنا، اللہ کی طرف سے فتح و نصرۃ پانے کی شرط ہے؟ ان قرآنی آیات میں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان شامل ہے:

 

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إنْ تَنْصُرُوا اللهَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ

 

"اے ایمان والو! اگر تم اللہ (کے دین) کی مدد کرو گے تو وه تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم جما دے گا" (سورۃ محمد؛ 47:7)

 

اور اللہ کا یہ بھی فرمان:

 

﴿إن يَنْصُركُمُ اللهُ فَلَا غَالِبَ لَكُمْ وَإنْ يَخْذُلْكُمْ فَمَنْ ذَا الَّذِي يَنْصُرُكم مِنْ بَعْدِهِ وَعَلَى اللهِ فِلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُون﴾

 

"اگر اللہ تمہاری مدد کرے۔ تو کوئی بھی تم پر غالب نہیں آسکتا اور اگر وہ تمہیں چھوڑ دے (مدد نہ کرے) تو اس کے بعد کون ہے جو تمہاری مدد کرے اور اہل ایمان کو صرف اللہ پر ہی بھروسہ کرنا چاہیے" (سورۃ آل عمران؛ 3:160)

 

اور اللہ کا یہ بھی فرمان شامل ہے:

 

﴿وَكَانَ حَقَّاً عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِينَ

 

"اور مومنوں کی مدد ہم پر لازم تھی" (سورہ الروم: 47)

 

اور یہ بات بھی معروف ہے کہ 'الشرطُ یَلزَمُ مِن عَدمِه العَدم' "شرط کے عدم ہونے سے مشروط کا عدم لازم آتا ہے" (یعنی اگر شرط پوری نہ ہو، تو جس چیز کی وہ شرط ہے، وہ بھی حاصل نہیں ہو گی)۔ تو کیا اس بات میں تضاد نہیں کہ ایک طرف اللہ تعالیٰ گنہگاروں اور کافروں کو فتح و نصرت سے نوازتا ہے، اور دوسری طرف ایمان اور اطاعت کو اللہ کی فتح و نصرت پانے کی شرط قرار دیا گیا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ شریعت کے ان نصوص میں بالکل بھی کوئی تضاد نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے :

 

﴿وَمَا النَّصْرُ إلَّا مِنْ عِنْدِ اللهِ

 

"فتح تو صرف اللہ ہی کی طرف سے ہے" (سورۃ الأنفال: 10)

یہ ہر قسم کی فتح و نصرت کے بارے میں عمومی معنی میں ہے، چاہے وہ کفار کے لئے ہو یا مؤمنین کے لئے۔ اس عام دلیل کے علاوہ، اس کی عمومیت کی تصدیق کرنے والی ایک خاص دلیل بھی موجود ہے۔ یہ دلیل اللہ تعالیٰ کی جانب سے رومیوں کی فارس والوں پر فتح کی تائید ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں خبر دی کہ رومی غالب آئیں گے، اور یہ ان پر اللہ کی مدد کی وجہ سے ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

 

﴿وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُون * بِنَصْرِ اللهِ يَنْصُرُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ

 

"اور اُس روز مومن خوش ہو جائیں گے۔ (یعنی) اللہ کی نصرت سے، اللہ جسے چاہتا ہے نصرت عطا فرماتا ہے اور وہ غالب ہے (اور) بڑا رحم کرنے والا ہے" (سورۃ الروم:4-5)

 

اور ہمیں یہ بات بھی معلوم ہے کہ رومی کافر تھے، یعنی ان میں ایمان اور اطاعت کی شرط موجود نہیں تھی، اس لئے یہ بات ثابت ہے۔ اسی طرح نصوص اس بات کی بھی وضاحت کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مدد مؤمنین کے لئے اس وقت آتی ہے جب وہ اللہ کی مدد کریں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

 

﴿إنْ تَنْصُرُوا اللهَ يَنْصُرْكُمْ

 

"اگر تم اللہ (کے دین) کی مدد کرو گے تو وه تمہاری مدد کرے گا" (سورۃ محمد؛ 47:7)

 

یہ قطعی دلیل ہے۔ البتہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ نافرمانی اللہ تعالیٰ کی مدد کے امکان کو ختم کر دیتی ہے۔ اس کی وضاحت یہ ہے کہ یہ شرط خود فتح کے وقوع ہونے کی شرط نہیں ہے، بلکہ یہ شرط مؤمنین کے لئے اللہ کی مدد کے یقینی اور حتمی ہونے کی ہے، کیونکہ وہ اس کی مدد کے مستحق ہوتے ہیں۔

یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر لازم کر لیا ہے کہ مؤمنین کا ایمان اور اس کی مدد کرنا (دین کی نصرۃ) اس کے لئے لازم کرتا ہے کہ وہ ان کو اپنی مدد عطا کرے۔ یہ اللہ کی طرف سے ایک وعدہ ہے یا ایک عہد ہے جو اس نے اپنے اوپر مؤمنین کے لئے فضل کے طور پر مقرر فرما دیا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں ہے :

 

 ﴿وَعْدَاً عِلِيْهِ حَقَّاً فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ وَالْقُرْآنِ وَمَنْ أَوْفَى بِعَهْدِهِ مِنَ اللهِ

 

"اس پر سچا وعده کیا گیا ہے تورات میں اور انجیل میں اور قرآن میں اور اللہ سے زیاده اپنے عہد کو کون پورا کرنے والا ہے، تو تم لوگ اپنی اس بیع پر جس کا تم نے معاملہ ٹھہرایا ہے خوشی مناؤ، اور یہ بڑی کامیابی ہے" (سورۃ التوبہ:111)

 

اور جیسا کہ اس نے فرمایا:

 

﴿كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ

 

"تمہارے رب نے اپنے اوپر رحمت کو لازم کر لیا ہے" (سورۃ الانعام:54) اسی طرح یہ معاملہ نصرۃ میں بھی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے ثابت ہوتا ہے:

 

﴿وَكَانَ حَقَّاً عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِينَ

 

"یقیناً ہم پر لازم ہے کہ ہم مؤمنین کی مدد کریں" (سورۃ الروم:47)

 

یہ اللہ تعالیٰ پر ایک حق ہے، یعنی اس کی طرف سے ایک عہد یا وعدہ ہے جو اس نے اپنے اوپر لازم کیا ہے کہ اگر تم ایسا کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کے فرمان :

 

 ﴿إنْ تَنْصُرُوا اللهَ يَنْصُرْكُمْ

 

"اگر تم اللہ (کے دین) کی مدد کرو گے تو وه تمہاری مدد کرے گا" (سورۃ محمد:7)

کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ کی مدد کے لئے یہ شرط بذاتِ خود ضروری ہے، بلکہ یہ شرط اس عہد اور وعدے کے لئے ہے جو اللہ نے مؤمنین کے ساتھ کیا ہے کہ وہ ان کی مدد کرے گا، اور اللہ اپنے وعدے یا عہد کے خلاف نہیں کرتا۔ پس اگر ایمان یا اطاعت نہ ہو تو اللہ کی مدد کلی طور پر مفقود نہیں ہوتی، بلکہ اس کی طرف سے مدد کا وعدہ مفقود ہو جاتا ہے۔ پھر اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے، وہ چاہے تو مدد دے یا نہ دے، چاہے تو اس گروہ کو مدد دے یا دوسرے کو، اور چاہے تو کسی کو چھوڑ دے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الروم میں فرمایا:

 

﴿يَنْصُرُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ

 

"اللہ جسے چاہتا ہے نصرت عطا فرماتا ہے اور وہ غالب ہے (اور) بڑا رحم کرنے والا ہے" (سورۃ الروم:5)

اور اگر وہ ایمان لائیں اور عہد پورا کریں تو اللہ تعالیٰ ان کو ضرور مدد عطا کرے گا۔

جہاں تک ناکامی، شکست یا نصرۃ کے نہ آنے کی ذمہ داری کا تعلق ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ سب نتائج ہیں۔ پہلے ہی بیان کیا جا چکا ہے کہ نتائج کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور یہ انسانوں کے اختیار سے باہر ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

 

﴿لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسَاً إِلّا وُسْعَهَا لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ

 

"اللہ تعالیٰ کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔ اچھے کام کرے گا تو اس کو ان کا فائدہ ملے گا برے کرے گا تو اسے ان کا نقصان پہنچے گا" (سورۃ البقرہ:286)

لہٰذا، کسی کام کے کرنے والوں کو نتائج پر نہیں پرکھا جا سکتا، لیکن ان سے یہ ضرور پوچھا جا سکتا ہے اور پوچھا جانا چاہیے کہ کیا انہوں نے ان اسباب کو اختیار کیا جو نتائج تک پہنچانے والے تھے، اور اس پر ان کا محاسبہ ہونا چاہیے۔ اس طرح وہ اپنی کوتاہی، غفلت یا اسباب کو اختیار کرنے میں غلطی پر جوابدہ ہوں گے۔ شریعت کی ذمہ داری نتائج حاصل کرنے پر نہیں بلکہ اسباب اختیار کرنے پر عائد ہوتی ہے۔ اسی لئے ہم شریعت میں یہ حکم نہیں پاتے کہ "اپنے لئے فتح کو یقینی بناؤ"، بلکہ قرآنِ کریم میں ہمیں یہ احکام ملتے ہیں؛

 

﴿وَأَعِدُّوا "اور تیاری کرو" ﴿انْفِرُوا "نکل کھڑے ہو" ﴿قَاتِلُوا "لڑو" ﴿اقْتُلُوهُمْ "انہیں قتل کرو" ﴿فَضَرْبَ الرِّقَابِ "گردنیں مارو" ﴿فَشُدُّوا الْوَثَاقَ "اور قیدی مضبوط باندھو" اگر کوئی شرعی حکم نتیجے کے طور پر آیا ہو تو اس کا مطلب یہ لیا جائے گا کہ وہ نتیجہ نہیں بلکہ اس کے اسباب مطلوب ہیں۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ شریعت مسلمانوں کو ایک دوسرے سے محبت کرنے کا حکم دیتی ہے۔ لیکن محبت ایسا عمل نہیں ہے جو انسان براہِ راست اپنے ارادے سے کر سکے، یہ خریدوفروخت، لڑنا، نماز یا گفتگو کی طرح کوئی اختیاری فعل نہیں، بلکہ یہ ایک نتیجہ ہے جو صرف اپنے اسباب سے پیدا ہوتا ہے۔ اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے ایسے اختیاری اعمال کی رہنمائی فرمائی جو محبت پیدا کرنے کے اسباب بنتے ہیں، جیسے ایک دوسرے کو سلام کہنا اور تحائف دینا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

 

«لا تَدْخُلُونَ الجَنَّةَ حتَّى تُؤْمِنُوا، ولا تُؤْمِنُوا حتَّى تَحابُّوا، أوَلا أدُلُّكُمْ علَى شيءٍ إذا فَعَلْتُمُوهُ تَحابَبْتُمْ؟ أفْشُوا السَّلامَ بيْنَكُمْ»

 

"تم جنت میں داخل نہ ہوگے جب تک ایمان نہ لاؤ، اور ایمان نہ لاؤ گے جب تک ایک دوسرے سے محبت نہ کرو۔ کیا میں تمہیں ایک ایسی بات نہ بتاؤں کہ اگر تم اسے کرو تو تم میں محبت پیدا ہو جائے؟ آپس میں سلام کو عام کرو"۔ اسے بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے، اور یہاں مسلم کے الفاظ ہیں، جبکہ بخاری نے روایت کیا: «تَهَادُوا تَحَابُّوا» "تحائف دو، محبت پیدا ہوگی"۔

جہاں تک ذمہ داری اور جواب دہی کے معاملے کا تعلق ہے، اور یہ کہ یہ نتائج پر نہیں بلکہ اسباب اختیار کرنے پر مبنی ہوتی ہے، تو میں مختصر طور پر کچھ واقعات بیان کرتا ہوں جو نبی ﷺ کے ساتھ پیش آئے، اور ان پر غور کرنے سے اوپر بیان کردہ بات واضح ہو جاتی ہے۔ ان واقعات میں سے ایک یہ ہے کہ مسلمانوں کو غزوۂ اُحد میں شکست ہوئی، حالانکہ قیادت نبی ﷺ کے ہاتھ میں تھی۔ آپ ﷺ کو اس نتیجے پر نہ تو جواب دہ ٹھہرایا جا سکتا ہے اور نہ ہی کوتاہی کا الزام دیا جا سکتا ہے، کیونکہ آپ ﷺ معصوم تھے اور آپ پر وحی نازل ہوتی تھی۔

اسی طرح یہ صرف یہی کہا جا سکتا ہے کہ آپ ﷺ نے اپنی استطاعت کے مطابق ضروری اسباب اختیار کیے۔ یہی بات غزوۂ حنین کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے، جہاں مسلمان ابتدا میں شکست سے دوچار ہوئے، پھر فتح حاصل ہوئی۔ غزوۂ بدر کے بارے میں، آپ ﷺ نے لشکر کے پڑاؤ کے لئے ایک جگہ منتخب کی تھی، اور یہ بھی ضروری اسباب اختیار کرنے میں شامل تھا۔ تاہم حُباب بن مُنذرؓ نے آپ سے بحث کی کہ اس سے بہتر جگہ موجود ہے جو فتح حاصل کرنے میں زیادہ معاون ہوگی، تو آپ ﷺ نے ان کی رائے قبول کی اور اپنی جگہ تبدیل کر لی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسباب اختیار کرنے میں کمی اور غلطی کا امکان ہوتا ہے، لیکن ساتھ ہی اس میں محنت، مخلصانہ مشورہ اور محاسبہ بھی شامل ہوتا ہے۔ جبکہ نتائج کے بارے میں معاملہ اس کے برعکس ہے؛ غزوۂ اُحد کی شکست پر کوئی محاسبہ نہیں ہوا، اور نہ ہی غزوۂ حنین کے آغاز میں پیش آنے والے حالات پر۔ غزوۂ خندق میں، آپ ﷺ تقریباً صلح کی طرف مائل ہو گئے تھے، حالانکہ آپ ﷺ نے خندق کھودی اور اپنی استطاعت کے مطابق پوری تیاری کی تھی۔ یہ صلح ایک ایسا سبب تھا جو آپ ﷺ کے اختیار میں تھا، اور جسے آپ ﷺ ممکنہ شکست کو روکنے کے لئے اختیار کرنا چاہتے تھے جو آپ کے قابو سے باہر تھی۔ تاہم صحابہؓ نے اس سبب کے بارے میں آپ سے بحث کی، تو آپ ﷺ نے اپنا ارادہ بدل دیا۔

مندرجہ بالا مثالیں بے شمار ہیں، اور یہ اس بات کو واضح کرتی ہیں کہ لوگوں کا ضروری اسباب کو اختیار کرنا قطعی نتائج کے حصول کے لئے کافی نہیں ہوتا۔ یہ اس بات کو بھی ظاہر کرتی ہیں کہ نتائج کا اختیار صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، اور محاسبہ نتائج پر نہیں بلکہ اسباب کے اختیار کرنے پر ہوتا ہے۔ یہ مثالیں یہ بھی دکھاتی ہیں کہ چونکہ اسباب کا اختیار کرنا مکمل نہیں ہوتا، بلکہ یہ کم علمی اور غلط اندازوں سے متاثر ہوتا ہے، رکاوٹوں سے گھرا ہوتا ہے اور ناکامی کا باعث بن سکتا ہے، اس لئے ضروری ہے کہ ہر رکاوٹ، غلطی یا کمی کو دور کرنے کے لئے اسباب کا ازسرنو جائزہ لیا جائے اور اللہ ہی توفیق دینے والا اور مدد کرنے والا ہے۔

ڈاکٹر محمود عبد الہادی کی طرف سے حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لئے تحریر کیا گیا

Last modified onمنگل, 26 اگست 2025 18:51

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک