الأحد، 12 جمادى الأولى 1447| 2025/11/02
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

سونا اور ڈالر کے مابین جاری مخمصہ

 

بقلم: ڈاکٹر محمد جیلاني

 

https://www.alraiah.net/index.php/political-analysis/item/9880-between-gold-and-the-dollar

(ترجمہ)

 

15 اگست 1971ء کو، صدر نکسن کے دور میں، امریکہ نے بریٹن ووڈز معاہدہ ختم کر دیا، وہ معاہدہ جس کے تحت سونے کی قیمت 35 ڈالر فی اونس مقرر تھی۔اس تاریخی فیصلے کی بنیادی وجہ فیڈرل ریزرو کی جانب سے بے تحاشا ڈالر کا اجراء کرنا تھا، خاص طور پر وہ فنڈز جو امریکہ نے یورپ کی بحالی کے لیے مارشل پلان کے تحت مختص کیے تھے۔ بریٹن ووڈز معاہدے کے مطابق، 1971ء تک یورپ کے پاس اندازاً 10 سے 40 ارب ڈالرجمع ہو چکے تھے، جو 11.2 سے 40.8 ٹن سونا کے مساوی بنتے تھے۔ یورپ کے پاس سونے کی یہ مقدار امریکہ کے سونے کے ذخائر سے زیادہ تھی، جو اُس وقت کے اعداد و شمار کے مطابق 10,000 ٹن کے برابر تھے۔امریکہ کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا تھا کہ وہ بریٹن ووڈز کے اصول سے دستبردار ہو جائے، جو دنیا کے مرکزی بینکوں کو یہ حق دیتا تھا کہ وہ اپنے ڈالر کے بدلے سونا حاصل کریں۔امریکہ کی جانب سے اس معاہدے کو منسوخ کرنے پر یورپ نے خاصی مخالفت کی، اور  خصوصاً فرانس اس فیصلے کے خلاف تھا، مگر امریکہ اپنے فیصلے پر ڈٹا رہا اور بالآخر یورپ کو بھی اسی راستے پر چلنے پر مجبور کر دیا۔ یہ خاص طور پر اُس وقت ممکن ہوا جب امریکہ نے سعودی قیادت میں چلنے والے ادارے، اوپیک (OPEC) کو اس بات پر قائل کر لیا یا مجبور کر دیا کہ وہ سونا-ڈالر معیار کو بدل کر تیل-ڈالر معیار (Petrodollar) کو اپنا لے۔

 

جب ہم ڈالر اور تیل کے تعلق، اور ڈالر اور سونے کے تعلق کا جائزہ لیتے ہیں، تو ہمیں امریکی کنٹرول شدہ مالیاتی نظام ایک بڑے مخمصہ کا سامنا کرتے نظر آتا ہے۔ جب ڈالر نے سونے سے دامن چھڑا لیا، اور جس کے نتیجے میں اقتصادی ترقی میں رکاوٹیں آئیں جنہیں صدر ریگن نے اپنے دورِ صدارت (1980–1988) میں ختم کرنے کی کوشش کی، تو امریکہ نے خود کو یہ اجازت دے دی کہ وہ بے تحاشا مقدار میں ڈالر جاری کرے، ایسی مقدار جو امریکہ کے پاس موجود سونے یا تجارتی اجناس سے کئی گنا زیادہ تھی، خواہ وہ سونا یا اجناس مقامی سطح پر ہو یا عالمی سطح پر موجود ہو۔

 

یوں بے پناہ مقدار میں جاری ہونے والے یہ ڈالر عالمی منڈی میں پہنچ گئے۔ دنیا میں دستیاب حقیقی نقد رقم (M0) کی مقدار تقریباً 8.3 کھرب ڈالرہے، جبکہ بینک چیکوں کے ذریعے گردش کرنے والے ڈالر (M1)کی مقدار 56.7 کھرب ڈالر بنتی ہے۔ اور اگر اس مقدار میں بینک سیونگ اکاؤنٹس (M3) کو بھی شامل کر لیا جائے، تو دنیا میں گردش کرنے والے کل ڈالرز کی مقدار تقریباً 123 کھرب ڈالربنتی ہے۔ تاہم، EBC فنانشل گروپ کے مطابق دنیا بھر میں ڈالرز کی مجموعی قیمت تقریباً 471 کھرب ڈالرکے برابر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ڈالر کی شکل میں موجود دولت کی مقدار دنیا کے تمام دستیاب سونے کو صرف کر سکتی ہے، چاہے وہ سونا نکالا جا چکا ہے یا ابھی زمین کے اندر موجود ہے۔ امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق، اب تک دنیا میں 244,000 ٹن سونا دریافت کیا جا چکا ہے، جبکہ 50,000 ٹن سونا ابھی زمین کے نیچے موجود ہونے کا اندازہ ہے۔ یوں اگرسونے کی کُل مقدار کو  300,000 ٹن تصور کیا جائے تو، اس کا مطلب یہ ہے کہ فیڈرل ریزرو کے جاری کردہ یا ممکنہ طور پر جاری کئے جانے والے ڈالرزمیں سے دنیا میں موجود ڈالرز کی مقدار کا 7٪ سے بھی کم حصہ کافی ہو گا کہ  اس سے اس تمام سونے کو موجودہ قیمت پر خرید لیا جائے۔

 

بہرحال یہ بات درست ہے کہ سونا اب مالیاتی پالیسی کی بنیاد نہیں رہا، اور ڈالر کو سونے میں تبدیل کرنا کسی ملک پر لازمی قرار نہیں دیا گیا۔ تاہم، جب امریکہ نے بریٹن ووڈز معاہدہ ختم کیا، تو اس کے بعد صرف ایک چیز کی ضمانت دی گئی اور وہ تھی سونے اور ڈالر کے درمیان زرِ مبادلہ کی شرح (exchange rate) میں استحکام ۔لیکن یہی وہ امر ہے  جہاں خطرہ پوشیدہ ہے کیونکہ اب دنیا میں ڈالرز کی اتنی زیادہ مقدار جمع ہو چکی ہے کہ وہ دنیا میں موجود تمام سونے کو پندرہ مرتبہ خریدنے کے لیے بھی کافی ہے۔

 

دوسری جانب، جسے ہم افراطِ زر (Inflation) کہتے ہیں، اس سے مراد ہے کہ مارکیٹ میں گردش کرنے والی رقم یا قابلِ تجارت کرنسی کی مقدار میں غیر معمولی اضافہ ہو جائے، جبکہ خریداری کے لیے دستیاب اشیاء کی مقدار نسبتاً کم رہے۔

 

گرچہ افراطِ زر کو کھانے پینے کی اشیاء (consumables)، استعمال میں لائے جانے والے سامان جیسے مشینری (utilizable goods)، یا حکمتِ عملی کی اشیاء جیسے اسلحہ (strategic goods) کی دستیابی کے ذریعے ناپا جا سکتا ہے، لیکن ان سب میں سونا ہمیشہ سے افراطِ زر کا سب سے اہم اعشاریہ رہا ہے، خاص طور پر اُس وقت جب سونا سرمایہ کاری کرنے یا ذخیرہ کرنے کے لیے انتہائی مطلوب بن جائے۔ اگر ہم دنیا بھر میں استعمال ہونے والے اثاثوں  کی مقدار اور قیمت پر غور کریں جن میں خوراک، دوا، دفاعی سامان، فضائی و دیگر تمام ترصنعتیں شامل ہیں اور اس میں سونا بھی شامل کر لیں تو ان سب کی مجموعی قیمت کا تخمینہ 2023ء میں تقریباً 40 کھرب ڈالر اور 2024ء میں 64 کھرب ڈالر تک لگایا گیا ۔ اور اب اگر ہم اس مالیاتی قدر کا موازنہ صرف گردش کرنے والی کرنسی سے ہی کر لیں، جوکہ 160 کھرب ڈالرکے برابر ہے، تو ہمیں عالمی مالیاتی صورتحال کی سنگینی کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔ یہاں یہ بات نوٹ کرنا ضروری ہے کہ 2023ء اور 2024ء کے درمیان تجارتی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ تقریباً 4 کھرب ڈالر تک جا پہنچا۔ قیمتوں میں خطرناک حد تک ہونے والے اضافے کی بنیادی وجہ زیادہ تر اجناس، ضروریاتِ زندگی، اور اسٹریٹجک اشیاء کی قیمتوں میں ہونے والا اضافہ تھا، نہ کہ استعمال یا کھپت میں اضافے کی وجہ سے۔

 

آج سونے کی قیمتوں میں نمایاں اور قابلِ غور اضافے کا یہ رجحان اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ سونا وہ جنس (commodity) ہے جس کی قیمت میں نمایاں اضافہ کیا جا سکتا ہے بغیر اس کے کہ دنیا بھر میں معاشی انتشار (global chaos)  پیدا ہو۔افراطِ زر کو قابو کرنےکے لیے شرحِ سود (interest rates) میں نمایاں اضافہ کرنے یا ضروری اشیاء (consumable goods) کی قیمتیں بڑھانے کے بجائے، اب توجہ سونے پر مرکوز کی جا رہی ہے کیونکہ سونے کی قیمت میں اضافہ عام لوگوں کی روزمرہ زندگی کو براہِ راست متاثر نہیں کرتا۔ بلکہ، سونے کی قیمت میں اضافہ کو ایک سرمایہ کاری کے موقع (investment opportunity) کے طور پر دیکھا جاتا ہے، نہ کہ اسے افراطِ زر کی علامت سمجھا جاتا ہے وہی افراطِ زر جو دنیا کی زیادہ تر آبادی کو متاثر کر رہا ہے۔

 

درحقیقت، قیمتوں میں اضافے کا بنیادی مسئلہ، خواہ وہ سونے کی قیمتوں میں اضافہ کا ہو یا دیگر اشیاء کی قیمتوں کا، در اصل کاغذی کرنسی (fiat money) کے اجراء کے عمل کا فطری انجام ہے۔ صدیوں تک دنیا نے ایک ہی حقیقی کرنسی کے نظام کے تحت مالی زندگی گزاری یعنی سونا یا اس کے مساوی کرنسی جو گردش میں رہا کرتی تھی۔ایسا نظام کبھی افراطِ زر (inflation) کا شکار نہیں ہوتا تھا۔ اس کے برعکس، پیداوار میں اضافہ ہمیشہ قیمتوں میں فطری کمی کا باعث بنتا تھا۔مگر یہ صورتحال سرمایہ دارانہ نظام میں مختلف ہے وہی نظام جس کا مالی ڈھانچہ امریکہ کی جانب سے دنیا پر مسلط کیا گیا۔

 

بہرحال سوال یہ ہے کہ : کیا سونے کے معیار پر واپس جانا ممکن ہے، جہاں سونا عالمی کرنسی بن جائے اور تمام کوششوں اور سرمایوں کی قدر سونے اور چاندی میں کی جائے؟ اس کا جواب صرف مالیاتی نظام سے نہیں بلکہ مجموعی طور پر معاشی نظام اور اس سیاسی نظام سے بھی جڑا ہے جو دیگر ممالک کے مؤقف کی پرواہ کیے بغیر اقتصادی فیصلے کر سکتا ہو۔ یہ کہنا آسان ہے، کرنا نہیں، کیونکہ یہ ایک ایسا فیصلہ ہے جو دنیا کی سرکردہ طاقت، امریکہ کو مشتعل کر دیتا ہے جو کہ اپنی عالمی برتری حاصل کرنے کےبنیادی عناصر میں سے ایک اس پر انحصار کرتا ہے کہ سونے کو کسی مالیاتی بنیاد سے الگ رکھا جائے۔ ہم نے دیکھا کہ یورپ جو کہ امریکہ کا سب سے زیادہ مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا، کم از کم تقریباً 75 سال پہلے جب سے اس نے سونے کے معیار کو ختم کیا تو وہ امریکہ کے سامنے کھڑا بھی نہ ہو سکا۔ اسی طرح سوویت یونین کو بھی امریکہ کے فیصلے کو چیلنج کرنے کا کوئی راستہ نہ ملا، اور وہ بھی صرف حقیقی سونے سے غیر ملکی کرنسیاں خریدنے اور دنیا کے مختلف ممالک سے سامان خریدنے پر اکتفاء کرتا رہا، حالانکہ اس نے عالمی اشیاء کی درآمدات میں نمایاں کمی بھی کر دی تھی۔

 

اور آج تک، BRICS اور شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) جیسی تنظیموں کا کھڑے ہو جانا بھی عالمی مالیاتی نظام کے بارے میں انتہائی احتیاط کے ساتھ بات کرتا ہے۔ تاہم، ان تنظیموں کے تمام تر مباحثے اپنے رکن ممالک کے مابین علاقائی تجارت تک ہی محدود ہیں، جس میں وہ اپنی ملکی کرنسیوں کے استعمال کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کی حکمتِ عملی ابھی تک سونے پر مبنی عالمی کرنسی جاری کرنے کے تصور تک نہیں پہنچی۔

 

امریکہ نے مالیاتی پالیسی اور ڈالر کی بالادستی کو دنیا کے ساتھ اپنے تعلقات میں ایک اسٹریٹجک مسئلہ بنا دیا ہے۔ اس نظام سے کسی بھی قسم کے انحراف  کے انتہائی سنگین نتائج ہو سکتے ہیں۔ دنیا کی طاقتور ترین ریاستیں اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں اور وہ بڑی احتیاط کے ساتھ ایسے کسی اقدام سے گریز کرنے کی کوشش کر رہی ہیں جو امریکہ کو مشتعل کر سکے۔

 

لہٰذا، عالمی مالیاتی نظام کو چیلنج کرنا دراصل عالمی نظام  کو مجموعی طور پر چیلنج کرناہے چاہے وہ فکری، نظریاتی، معاشی یا مالی سطح پر ہو موجودہ عالمی طاقتوں کی حکمتِ عملی سونے پر مبنی کرنسی جاری کرنےکے تصور سے کوسوں دور ہے۔ یہ ہدف صرف خلافت کے ذریعے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے جو ایک ایسا سیاسی و معاشی نظام قائم کرے گا جو روشن فکر پر مبنی ہو، اور جو قدرتی وسائل جیسے گیس، تیل، معدنیات اور دنیا کی اہم آبی گزرگاہوں پر کنٹرول رکھتا ہو۔

 

اس کے ساتھ ساتھ، خلافت کے پاس بے پناہ افرادی قوت بھی موجود ہو گی۔ وہی خلافت جو ان شاء اللہ جلد ہی قائم ہوگی، وہ  دنیا کی واحد ریاست ہوگی جو پوری انسانیت کو ایک ایسا مالیاتی، معاشی، سیاسی اور انسانی نظام فراہم کر سکتی ہے جو نظریاتی بنیادوں پر قائم ہو، نہ کہ  ذاتی مفاد پر، خواہ وہ ریاست فوری قائم ہو یا مستقبل میں۔

Last modified onہفتہ, 01 نومبر 2025 20:29

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک