المكتب الإعــلامي
فلسطين
| ہجری تاریخ | 7 من جمادى الأولى 1447هـ | شمارہ نمبر: 1447 BN/006 |
| عیسوی تاریخ | بدھ, 29 اکتوبر 2025 م |
پریس ریلیز
اللہ ﷻ کو غضبناک کرنے والوں کا ظلم رکنے کا نام ہی نہیں لیتا
کیا کوئی بھی ایسا صالح دلیر کمانڈر موجود نہیں جو ان کی جارحیت کو روکے اور ان کے وجود کو خاک میں ملا دے؟!
(ترجمہ(
غزہ پر جارحیت نے ایک نیا روپ دھار لیا ہے، جیسا کہ مجرم نیتن یاہو کے دفتر نے اعلان کیا کہ یہ “غزہ کی پٹی پر بھرپور زوردار حملے” ہیں (الجزیرہ)، اور انہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ حماس نے اس کے فوجیوں پر غزہ کی پٹی میں حملہ کیا ہے، اور یہ کارروائی لاشوں کی واپسی کے معاہدے کی خلاف ورزی کرنے کے جواب میں کی گئی ہے، حالانکہ حماس نے فائرنگ کے واقعے سے اپنے تعلق کی تردید کی ہے (الجزیرہ)۔ یہودی وجود نے چند ہی گھنٹوں کے دوران پچاس سے زیادہ افراد کو شہید کر دیا، جبکہ اس بات پر بھی زور دیا کہ ان حملوں کا یہ مطلب نہیں کہ جنگ بندی کا معاہدہ ختم ہو گیا ہے! مزید برآں، ٹرمپ نے بھی اس بات کی توثیق کی کہ یہود کے یہ حملے جنگ بندی کو متاثر نہیں کریں گے!
یہ خبیث مجرمانہ یہودی وجود اپنی سرشت میں ہی غدار، عہد شکن اور زمین میں فساد پھیلانے والا ہے؛ اس وجود نے جنگ بندی کو سینکڑوں بار توڑا ہے اور ٹرمپ کے منحوس منصوبے کے اعلان کے بعد سے تقریباً ایک سو شہداء اور چار سو زخمیوں کے ارتکاب کا باعث بنا ہے — ٹرمپ کا وہی منصوبہ جس کا ترکی سے لے کر پاکستان تک اور مصر سے لے کر حجاز تک کے مسلم ممالک میں موجود غدار اور دشمنوں کے ساتھ ملوث حکمرانوں نے خیر مقدم کیا اور اس پر جشن منایا۔ اس کے باوجود وہ خود یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ جارحیت کے رکنے کی کوئی ضمانت بھی نہیں ہے، سوائے ان جیسے بیانات کے، جیسے ترک حکومت کا فقط یہ کہہ دینا کہ یہودی وجود کو جنگ میں واپسی سے روکا جائے!
یہ منظر غزہ کی پٹی پر آنے والے حالات سے خبردار کر رہا ہے، اور یہ کہ یہود کی جارحیت نہیں رکے گی، جیسا کہ لبنان میں ہوتا رہا ہے یا ویسٹ بینک میں ہوتا رہا ہے؛ یہی ان کی خصلت ہے جیسا کہ اللہ ﷻ نے فرمایا:
﴿أَوَ كُلَّمَا عَاهَدُوا عَهْداً نَبَذَهُ فَرِيقٌ مِنْهُمْ﴾
“کیا یہ سچ نہیں کہ جب کبھی انہوں نے کوئی عہد کیا تو ان میں سے ایک فریق نے اسے توڑ ڈالا؟” [البقرۃ؛ 2:100]۔
اور فرمایا:
﴿أَمْ لَهُمْ نَصِيبٌ مِنَ الْمُلْكِ فَإِذاً لَا يُؤْتُونَ النَّاسَ نَقِيرا﴾
“کیا ان کے لئے سلطنت میں کوئی حصہ ہے؟ اگر ایسا ہوتا تو یہ لوگوں کو کھجور کی گٹھلی کے چھلکے کے برابر بھی کچھ نہ دیتے” [النساء؛ 4:53]۔
یہ آیات اُن حکمرانوں کا چہرہ بے نقاب کر رہی ہیں جو یہودی وجود کے یرغمالیوں اور اس کے فوجیوں کے اجساد کو بچانے کے لئے دوڑے چلے جا رہے ہیں، جبکہ مجاہدین کو غیر مسلح کرنے اور غزہ پر یہود کا کنٹرول بڑھانے کے لئے سرگرم ہیں۔ یہاں تک کہ وہ حکمران غزہ میں ایک بین الاقوامی قبضہ لے کر آنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ ٹرمپ کے منصوبے کی پیروی کرتے ہوئے، یہ غدار حکومتیں اس یہودی وجود کے لئے وہ حاصل کر گئے جو وہ جنگ کے ذریعے حاصل نہ کر سکا، اور وہ حکمران اس وجود کے لئے وہ کچھ بھی حاصل کر گئے جو وہ لڑائی سے حاصل نہیں کر سکتا تھا۔ گویا یہ حکمران یہودی وجود کو یہ کہہ رہے ہیں: "جو تم قوت سے حاصل نہ کر سکے تھے ہم دھوکہ اور دغا کر کے لا رہے ہیں۔ درحقیقت، یہی حکمران ہی ہیں جنہوں نے اس یہودی وجود کو اُس طوفان سے بچا لیا جس نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا اور اس یہودی وجود کے چہرہ کو پوری دنیا میں ایک مکروہ مجرم کی طرح آشکار کر دیا تھا۔ انہی حکمرانوں نے دنیا کی توجہ جنگ بندی اور اس کے اثرات کی طرف موڑ دی، اور امت کے اندر شدید غصے و غضب کی بھڑک کو دبا دیا، وہ غصہ جو قریب تھا کہ آتش فشاں کی طرح پھٹ جاتا اور ان حکمرانوں کو جلا کر راکھ کر دیتا۔
یہ سب کچھ دشمن وجود کو اُس طرح طشت میں پیش کر دیا گیا جبکہ غزہ کے عوام کے لئے اس بات کی قطعی کوئی ضمانت نہیں دی گئی کہ ان کا قتل و غارت، ان کے گھروں کی تباہی، یا ان کی امداد کے داخلے پر پابندی ختم ہو جائے گی۔ اور نہ ہی اس بات کی کوئی ضمانت ہے کہ ٹرمپ غزہ کے لوگوں کو بے دخل کرنے پر عمل نہیں کرے گا جو کہ ایک ایسا منصوبہ ہے جس کا ٹرمپ بارہا اعلان کر چکا ہے۔
ان حکمرانوں کی غداری، اور پھر اس یہودی مجرم وجود کے ساتھ مل کر سازباز کرنے جس میں غزہ کا محاصرہ کرنے، یہودی وجود کے لئے محاصرہ کے وسائل فراہم کرنے، غزہ کے لوگوں کو قتل کرنے، اور پھر ٹرمپ کے منصوبے کی پیروی کرتے ہوئے، اہل غزہ کو اُن لوگوں کے حوالے کر دینا جن پر اللہ ﷻ کا غضب نازل ہوا، اور امریکیوں کے حوالے کر دینا تاکہ وہ ان کے ساتھ جیسا چاہیں سلوک کریں، یہ سب عوامل دراصل اس مسئلے کو پھر سے اسی نقطہ پر لے آتے ہیں جہاں سے اس کا آغاز ہوا تھا۔ اہل غزہ کو اُن امدادی ٹرکوں سے کوئی فائدہ نہیں جو یہودی اُن پر احسان جتلاتے ہیں، نہ ہی ان کی اُن ڈاکٹروں سے کوئی مدد کی گئی جن کا داخلہ اُسی یہودی وجود کی اجازت پر موقوف ہے، نہ اُس تعمیرِ نو سے انہیں کوئی فائدہ ہے جسے جلد ہی دوبارہ انہی کے سروں پر ملبے کی صورت میں ڈھا دیا جاتا ہے، نہ ہی اہل غزہ کو اُس جنگ بندی سے کوئی فائدہ ملا جس کی ڈور اُن کے ہاتھ میں ہے جو کبھی کوئی عہد نہیں نبھاتے، اور جس جنگ بندی معاہدے کا ضامن وہ ٹرمپ ہے جو امریکی ہتھیاروں کو بہترین انداز میں استعمال کرنے کا سہرا نیتن یاہو کو پہناتا ہے کہ اس نے غزہ کے لوگوں کے قتل کرنے کے لئے یہ ہتھیار استعمال کئے، اور نہ ہی اہل غزہ کو اُس معاہدے سے کوئی فائدہ ملا جو ان ثالثوں کے ذریعے کرایا گیا جو دراصل ثالث نہیں بلکہ یہود کے ساتھ برابر کے شریک ہیں اور غزہ کے عوام و مجاہدین کی بہ نسبت ان یہود کے زیادہ قریب ہیں۔
غزہ کی حالت صرف اسی صورت میں درست ہوگی جب کوئی ایسا مرد حق آئے جو یہود میں سعدؓ کے مقرر کردہ فیصلہ کو بحال کرے جیسا کہ انہوں نے ان یہود کے پیش روؤں بنو قریظہ کے ساتھ کیا تھا — یعنی ان کی جڑیں کاٹ دے، ان کے شر کی آگ کو بجھا دے اور ان کے فساد کو جڑ سے اکھاڑ دے۔ اہل غزہ کی مدد صرف اسی مرد مجاہد سے ہوگی جو فتح خیبر کے دن کی طرح رسول ﷺ کی تقلید کرے — جب یہودی “محمد والخميس” کہتے تھے “محمد اور عظیم لشکر” — وہ بھی ویسا ہی کہے گا جیسا کہ رسول ﷺ نے فرمایا، «إِنَّا إِذَا نَزَلْنَا بِسَاحَةِ قَوْمٍ فَسَاءَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِينَ» “جب ہم کسی قوم کی زمین پر آن پہنچتے ہیں تو خبردار کر دیئے جانے والوں کی صبح تنگ ہو جاتی ہے”۔
فلسطین کی حالت اسی وقت درست ہو سکے گی، اور اس کے لوگ اسی وقت نجات اور مدد پائیں گے جب مسلمانوں کی افواج جہاد کے نعرہ، تکبیر کی صداؤں اور فتوحات کے لشکروں کی پیش قدمی سے حرکت میں آئیں گی؛ تب غزہ کے لوگ محفوظ ہوں گے اور المسجد الاقصیٰ اور اس میں موجود لوگ ظالموں کے تختوں کے کھنڈرات پر کھڑے ہو کر خوش ہوں گے۔ یہ عظیم کامیابی اور مشن صرف انہی لوگوں کے ذریعے انجام دیا جا سکے گا جو امت مسلمہ اور اس کی افواج میں خالص اللہ کے لئے مخلص ہیں۔ اللہ ان کے دلوں کو ہدایت پر رکھے اور ان کے سینوں کو اپنے دین کی حمایت کے لئے کشاد کرے — اور یہ اللہ کے لئے کچھ بھی مشکل نہیں ہے۔
فلسطین کی مقدس سرزمین پر حزب التحریر کا میڈیا آفس
| المكتب الإعلامي لحزب التحرير فلسطين |
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ تلفون: www.pal-tahrir.info |
E-Mail: info@pal-tahrir.info |




