بسم الله الرحمن الرحيم
زنگیزور راہداری: جیو پولیٹکس بمقابلہ جیو اکنامکس
(ترجمہ)
تحریر: استاد لطیف الراسخ
زنگیزور راہداری کا منصوبہ بات چیت کے مرحلے سے تکنیکی عمل درآمد کے مرحلے میں داخل ہو رہا ہے۔ آذربائیجان اپنی سرزمین پر نقل و حمل کے بنیادی ڈھانچے کو فعال طور پر ترقی دے رہا ہے، جس میں نخجوان کی سرحد بھی شامل ہے۔ ترکی نے بھی کارس کے راستے ریلوے لائن فراہم کرنے کے لیے اپنی تیاری کی تصدیق کی ہے۔ اسی دوران، آرمینیا نے یکطرفہ طور پر راہداری منصوبے کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے، اور اپنی سرزمین پر نقل و حمل کے راستے پر مکمل کنٹرول کا مطالبہ کیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اس منصوبے کا نفاذ آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان سیاسی معاہدوں اور خطے میں نئے نقل و حمل کے ڈھانچے میں مداخلت کی خواہشمند بڑی بیرونی طاقتوں کے موقف پر منحصر ہے
بادی النظر میں، یہ لاجسٹک اقدام آذربائیجان، آرمینیا اور ترکی جیسے علاقائی کھلاڑیوں کے درمیان مفادات کے تصادم کے طور پر نظر آتا ہے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ زانگیزور راہداری ایک عالمی مقابلے کا میدان بنتی جا رہی ہے، جس پر امریکہ، چین اور روس اپنا کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ تنازعہ صرف اشیاء کی ترسیل تک محدود نہیں ہے، بلکہ نقل و حمل کی راہداریوں پر اثر انداز ہونے، منڈیوں تک رسائی کھولنے اور یوریشیا میں اسٹریٹجک توازن کو تبدیل کرنے کا ایک ذریعہ بھی ہے
اقتصادی لحاظ سے، اگر ہم زنگیزور راہداری کا سوئز اور پاناما نہروں سے موازنہ کریں، تو ہم دیکھتے ہیں کہ اس کے فوائد بہت کم ہیں۔ ان دونوں نہروں سے گزرنے والے سامان کا حجم اور عالمی تجارت میں ان کی اہمیت کہیں زیادہ ہے۔ مثال کے طور پر، سوئز نہر عالمی تجارت کے تقریباً 12% حجم کا احاطہ کرتی ہے، جس سے مصر کو سالانہ 9 سے 10 ارب ڈالر کی آمدنی ہوتی ہے۔ جبکہ پاناما نہر، جو بحر اوقیانوس اور بحر الکاہل کے درمیان مرکزی رابطہ ہے، سالانہ 4 ارب ڈالر کی خالص آمدنی حاصل کرتی ہے۔
اس کے برعکس، زانگیزور راہداری سے سالانہ صرف 1 کروڑ سے 1 کروڑ 50 لاکھ ٹن مال گزرتا ہے، اور اس سے ہونے والی آمدنی کی زیادہ سے زیادہ حد چند سو ملین ڈالر ہے — جو کہ اس میں شریک ممالک، یعنی آذربائیجان، ترکی، آرمینیا اور قازقستان کے درمیان تقسیم ہوتی ہے۔ اس زمینی ڈھانچے کی تعمیراتی لاگت، بالخصوص پیچیدہ لاجسٹک زنجیروں اور سیاسی عدم استحکام کے خدشات کے تناظر میں، بحری نہروں کی لاگت سے کہیں کم ہے۔
تاہم، امریکی خارجہ پالیسی کے زاویے سے دیکھا جائے، تو زانگیزور راہداری اسٹریٹجک کنٹرول کے ایک ہدف کے طور پر اہم قدر رکھتی ہے۔ امریکی تاریخ میں نہر پانامہ کبھی محض اقتصادی منصوبہ نہیں تھی، بلکہ یہ سمندری تجارت اور عسکری نقل و حرکت پر کنٹرول کا ایک اسٹریٹجک ذریعہ تھی۔ موجودہ دور میں زانگیزور راہداری کے ایک حصے کو لیز پر لینے کی امریکی پیشکش، دراصل اس خطے میں اپنی موجودگی اور اثرورسوخ قائم کرنے کی خواہش کی غماز ہے۔ امریکہ اس اقدام سے مالی آمدنی نہیں، بلکہ سیاسی اثرورسوخ حاصل کرنا چاہتا ہے۔
امریکہ اس راہداری کے اہم حصے، جس کی لمبائی 32 کلومیٹر ہے، پر آرمینیا کو کنٹرول دینے اور اس حصے کو 100 سال تک اپنی بیرونی انتظامیہ کے تحت لینے کے امکان پر غور کر رہا ہے۔ یہ طریقہ کار پاناما نہر یا فوجی اڈوں میں استعمال ہونے والی حکمت عملیوں سے مشابہت رکھتا ہے۔ بنیادی ہدف جیو پولیٹکس ہے، نہ کہ لاجسٹکس۔ مریکہ اس اقدام کے ذریعے روس کو بے دخل کرنے، ایران کو کمزور کرنے اور "مشرقی پٹی" کے اس حصے میں چین کے اثر و رسوخ کو محدود کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔چنانچہ، زنگیزور پر کنٹرول، امریکہ کےبراہ راست کنٹرول کے بغیر بھی، چین کو یوریشیائی بنیادی ڈھانچے کو استعمال کرنے سے روکنے کا ایک ذریعہ ہے۔
دوسری جانب، چین اس راستے کو روس کے راستے کا متبادل سمجھتا ہے، کیونکہ روسی راستے پابندیوں اور عسکری خطرات سے دوچار ہیں۔ بیجنگ "ایک پٹی، ایک شاہراہ" منصوبے کے تحت راہداریوں میں تنوع لانے کا خواہاں ہے، لہٰذا وہ بحیرۂ کیسپین اور جنوبی قفقاز کے بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کر رہا ہے، بندرگاہوں، ٹرمینلوں، اور ریلوے لائنوں کو فروغ دے رہا ہے۔ تاہم، چین اس سمت میں محتاط اور بالواسطہ اقدامات کو ترجیح دیتا ہے، اور براہِ راست سیاسی یا عسکری مداخلت کے بجائے، کثیر الجہتی لاجسٹک پلیٹ فارمز اور مشترکہ تعاون پر مبنی نقل و حمل کو فروغ دے رہا ہے۔
آذربائیجان اس کشمکش میں ایک نازک صورتحال سے دوچار ہے۔ ایک طرف، باکو اس راہداری کو اپنے اثرورسوخ کے فروغ، اقتصادی نمو، اور نخجوان کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرنے کے لیے فعال طور پر استعمال کر رہا ہے؛ لیکن دوسری طرف، زانگیزور راہداری کا افتتاح — خاص طور پر اگر اس میں بیرونی طاقتوں کی عسکری یا سیاسی مداخلت شامل ہو — اس خطے کو عملی طور پر استعماری مفادات کے تصادم کا میدان بنا سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ آذربائیجان قلیل مدتی طور پر آرمینیا سے عبوری آمدنی اور سیاسی مراعات حاصل کر لے، لیکن طویل مدتی طور پر اسے اس راہداری پر اپنی خودمختاری کھو دینے، بیرونی دباؤ کا شکار ہونے، اور سرحدی علاقوں میں عدم استحکام کے خطرات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ترکی اس منصوبے میں ایک فعال شراکت دار کے طور پر ابھرتا ہے، لیکن اس کے اہداف محض لاجسٹک حدود تک محدود نہیں۔ انقرہ ایک ایسی سیاسی راہداری قائم کرنے کی کوشش میں ہے جو آبنائے باسفورس سے لے کر بحیرۂ کیسپین، وسطی ایشیا، اور پھر بیجنگ تک جائے — اور اس سب کو وہ "ترک دنیا" کے تصور کے تحت جواز فراہم کر رہا ہے۔
امریکہ خود اس منصوبے میں براہِ راست شامل نہیں، لیکن وہ ایک توازن قائم کرنے والی قوت کے طور پر ترکی کی حمایت کر رہا ہے، جو بیک وقت ایران، روس اور چین کے اثرورسوخ کو محدود کر سکتی ہے۔ اس طرح، امریکہ ترکی اور باکو کے ساتھ ایک مفاداتی اتحاد قائم کر رہا ہے، جو بظاہر خودمختار لیکن مربوط کھلاڑیوں کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ تاہم، یہ اتحاد اندرونی تضادات سے خالی نہیں: جہاں ترکی مشرق و مغرب کے درمیان توازن برقرار رکھتا ہے، وہیں آذربائیجان مغرب کی حکمتِ عملی کی شکارہو سکتا ہے۔
رہی بات آرمینیا کی، تو کمزوری کے باوجود، اس کے پاس ایک نہایت قیمتی اثاثہ ہے: وہ زمین جس سے یہ راہداری گزرنی ہے۔ کیا یریوان اس خطے پر اپنی خودمختاری برقرار رکھ پائے گا یا نہیں؟ یہی سوال اس راہداری کے مستقبل کی شکل طے کرے گا۔ دوسرے الفاظ میں، آیا یہ راہداری آرمینیائی خودمختاری کے تحت ہوگی یا سرحدوں سے ماورا ایک امریکی کنٹرولڈ منصوبہ؟ اس کا فیصلہ آنے والی مذاکراتی پیش رفت کے نتائج پر منحصر ہے۔
لہٰذا، زانگیزور راہداری کا منصوبہ اس وقت ایک عبوری مرحلے میں ہے۔ اگرچہ اس کا بنیادی ڈھانچہ ترقی کر رہا ہے، لیکن سیاسی طور پر یہ اب بھی غیر مستحکم ہے۔ یہ منصوبہ تب تک کاغذی خاکہ ہی رہے گا جب تک کہ شریک ممالک کو وعدہ شدہ اقتصادی فوائد اور قابلِ اعتماد ضمانتیں فراہم نہ کر دی جائیں۔
اسی دوران، ان مسلم اکثریتی ممالک پر سیاسی خطرات بڑھتے جا رہے ہیں۔ آذربائیجان جہاں کنٹرول اور آمدنی کے حصول کی خواہش رکھتا ہے، وہیں اس کی زمین بڑی طاقتوں — جیسے امریکہ، چین اور روس — کے درمیان معرکۂ کار بننے کے خطرے سے دوچار ہے۔ اس سے سیاسی انحصار اور طویل مدتی عدم استحکام کے خطرات پیدا ہو رہے ہیں۔ اس پورے خطے میں حقیقی خوشحالی اور استحکام کی ضمانت، صرف دوسری خلافتِ راشدہ کے قیام کی صورت میں ہی ممکن ہے۔