الخميس، 06 صَفر 1447| 2025/07/31
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

سوال کا جواب

 

السویداء کے واقعات

 

(عربی سے ترجمہ)

 

سوال:

 

("أکسيوس" نے خبر دی ہے کہ 25 جولائی 2025 کو پیرس میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد ہوا جس میں اسرائیلی وزیر برائے اسٹریٹیجک منصوبہ بندی "رون ڈیرمر" اور شامی وزیر خارجہ "اسعد الشیبانی" نے شرکت کی، اور اس اجلاس کی ثالثی امریکہ کے خصوصی مندوب برائے شام "تھامس باراک" نے کی۔) گزشتہ چند دنوں کے دوران، خصوصاً 12 جولائی 2025 کے بعد سے، شام کے جنوبی علاقے السویداء میں جو کہ اکثریتی طور پر دروز آبادی پر مشتمل ہے، تیزی سے بدامنی اور شورش میں اضافہ ہوا ہے۔ یہودی وجود نے نہ صرف وہاں مداخلت کا اعلان کیا بلکہ شام میں اپنے مسلسل جارحانہ اقدامات کو بھی جاری رکھا، یہاں تک کہ صدارتی محل کے گردونواح پر حملہ کیا، اور دمشق میں وزارتِ دفاع اور آرمی ہیڈکوارٹر پر بھی بمباری کی...

 

سوال یہ ہے کہ: السویداء میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس کی اصل حقیقت کیا ہے؟ یہودی وجود اس علاقے اور عمومی طور پر جنوبی شام کے لیے کیا منصوبہ بندی رکھتا ہے؟ اور کیا امریکہ اس منصوبے میں اس کی پشت پناہی کر رہا ہے؟ اس سب کا ان "نارملائزیشن" کی باتوں سے کیا تعلق ہے جو شامی حکومت اور یہودی وجود کے درمیان ہو رہی ہیں، خاص طور پر وہ ملاقاتیں جو آذربائیجان میں ہوئیں اور پیرس میں مذکورہ ملاقاتیں کا بھی؟ جزاکم اللہ خیراً۔

 

جواب:

 

مذکورہ بالا سوالات کو واضح کرنے کے لیے ہم مندرجہ ذیل نقاط پیش کرتے ہیں؛

 

1- جہاں تک دروز کا تعلق ہے تو شام میں ان کی تعداد تقریباً سات لاکھ کے قریب ہے، جو زیادہ تر جنوبی شام کے علاقوں، خصوصاً صوبہ السویداء میں آباد ہیں۔ ان میں سے ایک حصہ لبنان میں مقیم ہے جن کی تعداد تقریباً دو لاکھ پچاس ہزار ہے، جبکہ ایک اور حصہ، جس کی تعداد تقریباً ایک لاکھ چالیس ہزار بتائی جاتی ہے، شمالی فلسطین اور جولان کی پہاڑیوں میں مقیم ہے۔ یہودی وجود نے مقبوضہ علاقوں میں بسنے والے ان دروز کو اپنی شہریت دے رکھی ہے، اور ان میں سے کچھ نے اس کے فوجی دستوں میں شمولیت بھی اختیار کی ہے... چنانچہ یہودی وجود انہیں شام میں مداخلت کے لیے ایک بہانہ بناتا ہے۔ اس نے گزشتہ ماہ فروری کے آخر سے دارالحکومت دمشق کے قریب جرمانا اور صحنايا کے علاقوں میں دروز کو بھڑکانا شروع کیا...اور جب 12 جولائی 2025 سے السویداء کے حالیہ واقعات شروع ہوئے تو یہودی وجود نے کھلے الفاظ میں اعلان کیا کہ وہ دروز کی حمایت کرتا ہے اور ان کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ چنانچہ دروز کی بعض مسلح گروہوں نے صوبہ السویداء میں مقیم مسلم بدوؤں کے خلاف پرتشدد کارروائیاں کیں اور سینکڑوں کو قتل کر ڈالا۔

 

یہودی وجود کے وزیراعظم نیتن یاہو نے 17 جولائی 2025 کو یہودی اور دیگر عالمی ٹیلی ویژن چینلز پر نشر کیے گئے اپنے خطاب میں کہا: "ہم نے ایک واضح پالیسی اپنا لی ہے، جو کہ جنوبی دمشق کے علاقے سے لے کر جولان کی پہاڑیوں تک اور جبل الدروز تک اسلحہ سے پاک زون بنانا ہے۔ یہ پہلا مرحلہ ہے۔ دوسرا مرحلہ جبل الدروز میں دروز کا تحفظ ہے۔" اسی طرح، یہودی وجود کے وزیر جنگ "یسرائیل کاٹز" نے 16 جولائی 2025 کو ایکس (سابق ٹوئٹر) پر شام کو دھمکیاں دیتے ہوئے کہا: "دمشق کے لیے انتباہی پیغامات ختم ہو چکے ہیں، اب کاری ضربیں آئیں گی... ہماری فوج السویداء میں پوری قوت سے کارروائیاں جاری رکھے گی تاکہ ان گروہوں کو مکمل طور پر پیچھے دھکیلا جائے جنہوں نے دروز پر حملہ کیا تھا۔"

 

یہودی فوج کے ترجمان نے بھی ایکس پر کہا: "فوج شامی حکومت کے فوجی اہداف کو مسلسل نشانہ بنا رہی ہے، ابھی کچھ دیر پہلے دمشق کے علاقے میں شامی آرمی ہیڈکوارٹر پر حملہ کیا گیا ہے۔" اسی روز یہودی فوج کے ریڈیو نے اعلان کیا کہ: "گزشتہ رات سے اب تک شام میں تقریباً 160 اہداف کو نشانہ بنایا گیا ہے، جن میں سے زیادہ تر السویداء میں 'شامی سیکیورٹی فورسز اور بدوؤں' کے خلاف تھے، اور کچھ اہداف دارالحکومت دمشق میں تھے۔" اس کے ساتھ ہی صدارتی محل، وزارت دفاع اور آرمی ہیڈکوارٹر کو نشانہ بنانے کا بھی اعلان کیا گیا

 

2- اس طرح یہودی وجود نے پوری وضاحت کے ساتھ اپنے اہداف اور پالیسی کا اعلان کیا، اور یہ بھی کہ وہ دروز کو شام کے خلاف اپنی اس پالیسی کے نفاذ کے لیے استعمال کر رہی ہے، یوں ظاہر کر کے جیسے دروز اس کے لیے اہم ہیں، نہ کہ شامی حکومت کے لیے! گویا وہ السویداء کے علاقے کو بالواسطہ شام سے کاٹ کر اپنی بالادستی میں لینا چاہتا ہے۔

 

یہ بات قابلِ غور ہے کہ یہودی وجود، بشار الاسد کے دورِ حکومت میں بھی شام پر حملے کرتا رہا ہے، تاہم اس وقت اس نے دروز کو کبھی بھی حملے کی بنیاد نہیں بنایا۔ بلکہ اس وقت وہ ایران کی موجودگی اور اس کے حامیوں کو ہدف بناتا رہا۔ اس نے شام میں حکومت اور ایران دونوں کے کئی فوجی مراکز پر حملے کیے، جو کہ اپنے ملیشیاؤں کے ذریعے بشار حکومت کی حمایت کر رہے تھے، اور اس نے دمشق میں ایرانی قونصل خانے کو بھی نشانہ بنایا اور ایرانی فوج کے کئی اعلیٰ کمانڈروں کو قتل کر دیا۔

 

جب 8 دسمبر 2024 کو بشار الاسد فرار ہوا، تو یہودی وجود نے لگاتار کئی دنوں تک شدید فضائی حملے کیے اور شام کے سینکڑوں فوجی مقامات کو تباہ کر ڈالا۔ اور چونکہ اس کو نہ کوئی جواب ملا، اور نہ کوئی مزاحمت، تو وہ مزید لالچی ہو گیا اور اپنی جارحیت جاری رکھتے ہوئے نئی شامی زمینوں پر قابض ہو گیا، یہاں تک کہ وہ دارالحکومت دمشق سے صرف 25 کلومیٹر کے فاصلے تک پہنچ گیا اور جبل الشیخ پر قبضہ کر لیا، اور 1974ء کے "فصلِ اشتباک" اور "فائر بندی" کے معاہدوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی۔

 

پس، یہودی وجود جنوبی شام کو ایک غیر مسلح، محفوظ اور بفر زون (buffer zone) بنانا چاہتا ہے، اور اس مقصد کے لیے خاص طور پر اقلیتوں، بالخصوص دروز، کے معاملے کو استعمال کر رہا ہے

 

3- ان واقعات کے بعد، شامی صدر احمد الشرع نے 17 جولائی 2025 کی صبح ایک خطاب کیا جو سرکاری شامی ٹیلی ویژن اور عربی نشریاتی اداروں پر نشر کیا گیا۔ اس میں اس نے کہا: "ہمارے سامنے دو راستے تھے: یا تو "اسرائیل" سے جنگ کرتے، یا دروز کے بڑوں کو باہمی معاہدے کا موقع دیتے؛ چنانچہ ہم نے وطن کے تحفظ کو ترجیح دی۔" اور مزید کہا: "اگر امریکی، عربی اور ترک ثالثی نہ ہوتی تو اسرائیل السویداء میں فائر بندی کو سبوتاژ کرنے میں کامیاب ہو چکا ہوتا۔"

 

پھر 19 جولائی 2025 کو اس نے دوسرا خطاب کیا، جسے شامی خبر رساں ایجنسی نے نشر کیا اور مختلف ٹی وی چینلز پر دکھایا گیا۔ اس میں اس نے کہا: "شامی ریاست نے حالات کو پرسکون کرنے میں کامیابی حاصل کی، اگرچہ صورتِ حال بہت دشوار تھی؛ لیکن "اسرائیلی" مداخلت نے ملک کو ایک نہایت خطرناک مرحلے میں دھکیل دیا، جس سے استحکام کو شدید خطرہ لاحق ہو گیا، کیونکہ جنوبی علاقوں پر کھلم کھلا بمباری کی گئی اور دارالحکومت دمشق کی سرکاری عمارتوں کو نشانہ بنایا گیا۔ ان واقعات کے بعد، امریکہ، عرب ممالک، اور ترکی نے ثالثی کے ذریعے حالات کو سنبھالنے کی کوشش کی۔"

 

پس، وہ دیگر ممالک، بالخصوص امریکہ پر بھروسا کر رہا ہے، جو کہ یہودی وجود کا مربی و سرپرست ہے، اور اسے موقع دے رہا ہے کہ امریکہ، شام پر اپنی گرفت مضبوط کر سکے!

 

4- پھر حالات نے مزید شدت اختیار کی اور یہ بات نمایاں طور پر سامنے آ گئی کہ حکمَت الہجری کا یہودی وجود سے گہرا تعلق ہے۔ اس نے السویداء کے اندرونی معاملات پر اپنی مضبوط گرفت قائم کر لی، اور "گروہ کے اندر صف بندی" اور "شہداء کے اہلِ خانہ سے اظہارِ یکجہتی" جیسے نعروں کی آڑ میں اُن تمام آوازوں کو خاموش کرنا شروع کر دیا جو اس کے مؤقف کی حمایت نہیں کرتیں، جیسے کہ الجربوع، البلعوس، اور الحناوی کی آوازیں۔

 

اگرچہ حکمَت الہجری کا دھڑا السویداء میں سب سے بڑا اور غالب دھڑا ہے اور دیگر گروہوں پر حاوی ہے، تاہم مخالفین کی آوازیں — جیسا کہ الجربوع اور البلعوس — نہایت مدھم اور کمزور ہو چکی ہیں۔ ان کی طرف سے شام کے ریاستی نظام کے اندر باقی رہنے کا مطالبہ اب خفیف سا احتجاج معلوم ہوتا ہے، اور میدانی طور پر ان کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہی۔ حقیقت یہ ہے کہ حکمَت الہجری ہی وہ شخص ہے جو جھڑپوں کو ہوا دیتا ہے، اور دمشق کے ساتھ طے پانے والے معاہدوں سے انکار کرتا ہے۔ اس کا دھڑا ہی السویداء پر حاوی ہے، اور وہ اپنے بیانات کو دروز کی "روحانی قیادت" کے نام سے جاری کرتا ہے، جبکہ الجربوع اور الحناوی جیسے دیگر دینی و سماجی حوالوں کو بالکل نظرانداز کرتا ہے۔

 

یہ بات بھی واضح ہو چکی ہے کہ وہ یہودی وجود کے ساتھ براہِ راست رابطے میں ہے، اور اس نے درجنوں دروز زائرین کو "اسرائیل" بھیجا ہے۔

 

حکمَت الہجری نے دروز کی روحانی قیادت کے نام پر ایک بیان جاری کیا، جس میں کہا گیا: "ہم آزاد دنیا، اور اس میں اثرورسوخ والی تمام قوتوں سے اپیل کرتے ہیں، اور معزز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو، سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان، اور اردنی بادشاہ عبداللہ دوم کے حضور، اور ہر اُس شخص کو جو اس دنیا میں آواز اور اثر رکھتا ہے اپنا یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ... السویداء کو بچائیے!"

 

)بحوالہ: اناضول نیوز ایجنسی، 17 جولائی 2025)

 

یہودی وجود نے "اسرائیل" کے اندر سے دروز کے لیے اپنی سرحدیں کھول دیں تاکہ وہ شام کے اندر جنگ میں شامل ہو سکیں۔

 

آر ٹی (RT) نے 19 جولائی 2025 کو اطلاع دی کہ دروز برادری سے تعلق رکھنے والے تقریباً 2000 افراد، جن میں یہودی فوج میں خدمات انجام دینے والے سپاہی بھی شامل ہیں، نے ایک ہی دن میں شام میں لڑائی کے لیے شامل ہونے کے اپنے ارادے کا اعلان کیا۔

 

5- یہ بات خاص طور پر قابلِ توجہ ہے کہ دمشق کی حکومت نے خود کو السویداء اور جنوبی شام کے بحران میں سب سے کمزور کڑی بنا لیا ہے۔ یہ صرف یہودی وجود کے حملوں پر نرمی یا خاموشی کی حد تک محدود نہیں بلکہ اس کے فوجی اثاثے تباہ کیے جا رہے ہیں، جنوبی شام میں اس کی سرزمین پر کھلے عام قتل و گرفتاری ہو رہی ہے، اور گویا شام نام کی کوئی ریاست موجود ہی نہیں!

 

اس ساری بے عملی اور پسپائی کی بنیاد ترک صدر رجب طیب اردگان کے ان "مشوروں" پر ہے، جس نے امریکی صدر کی اُس درخواست کی حمایت کا اعلان کیا کہ دمشق ابراہیمی معاہدات میں شامل ہو جائے (ماخذ: الشرق الأوسط، 6 جولائی 2025)۔ اردگان نے ہی آذربائیجان میں احمد الشرع کی حکومت اور یہودی وجود کے درمیان روابط کی سرپرستی کی۔

 

یوں احمد الشرع کی حکومت السویداء کے بحران میں ایک نہایت کمزور اور بے حیثیت رکن بن کر رہ گئی ہے۔ وہ اس حد تک پستی میں گئی کہ جھڑپوں کو روکنے کی کوشش تو کی، لیکن کمال کی ذلت کے ساتھ علاقہ چھوڑ دیا—کیونکہ یہودی وجود کا بمباری کا سلسلہ نہ صرف شامی افواج کے جنرل اسٹاف تک پہنچ گیا، بلکہ صدارتی محل تک جا پہنچا۔ اس کے بعد امریکہ اور ایسی "ثالثی" سامنے آئی جسے عربی اور ترکیہ کا رنگ دیا گیا، اور اس کی بنیاد پر شامی حکومت کی جانب سے سیکیورٹی فورسز کو دوبارہ بھیجا گیا، مگر اس بار یہ فوج نہیں بلکہ وزارت داخلہ کی پولیس فورسز تھیں، جن کے پاس صرف ہلکا اسلحہ تھا۔

 

مزید یہ کہ ان فورسز نے السویداء کے اندر داخل ہونے کے بجائے، محض عرب قبائل کو السویداء پر حملہ جاری رکھنے سے روکنے کے لیے صوبے کی حدود پر ہی رکنے کا کام کیا۔ درحقیقت، یہ یہودی وجود ہی تھا جس نے ان کو یہی حکم دیا کہ قبائل کو السویداء پر حملے سے روکا جائے!

 

ہر معاہدے میں، حکمَت الہجری ہی وہ شخص تھا جو معاہدہ توڑتا رہا اور نئے مطالبات سامنے لاتا رہا، یہاں تک کہ حکومت کو ہر بار ایک نیا معاہدہ کرنا پڑا۔ محض ایک ہفتے کے دوران چار مختلف معاہدے کیے گئے۔ احمد الشرع کی حکومت نے مذاکرات کے ذریعے قبائلی مسلح افراد کو السویداء سے نکال دیا، لیکن خود وہاں داخل نہ ہوئی۔ اس کے بعد اس نے السویداء میں مقیم عرب قبائل کو بھی وہاں سے نکالنے کا عمل شروع کر دیا، چنانچہ اس نے سینکڑوں مسلم خاندانوں کو السویداء سے بے دخل کر کے درعا کے پناہ گزین مراکز میں منتقل کر دیا۔

 

یہی کچھ حکمَت الہجری بھی کر رہا ہے، جیسا کہ 21 جولائی 2025 کو اناضول نیوز ایجنسی نے رپورٹ کیا: "جمعہ کے روز جھڑپیں اس وقت دوبارہ شروع ہو گئیں جب حکمَت الہجری کے ایک گروہ نے سنی بدو قبائل کے متعدد افراد کو السویداء سے نکالا اور ان کے خلاف سنگین زیادتیاں کیں۔"

 

لہٰذا، نئی شامی حکومت نے عملی طور پر یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ شام پر اسی طرز پر حکمرانی کرے گی جیسا کہ امریکہ چاہے گا، اور یہ اسے امت میں چلے گی جو ترکی میں امریکہ کا سفیر اور شام کے لیے اس کا خصوصی ایلچی، ٹوم باراک ہے اس کے لیے متعین کرے گا!

 

6- اگر شام میں جاری واقعات پر تدبر سے غور کیا جائے تو یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ امریکہ شام کو ایک طے شدہ منصوبے کے تحت چلا رہا ہے، ایسا منصوبہ جو آج سے شروع نہیں ہوا، بلکہ ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ برسراقتدار آنے کے بعد اس میں صرف شدت اور تیزی آئی ہے۔

 

چنانچہ امریکی صدر ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں "اسرائیلی" وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو سے ملاقات کے دوران اس پر زور دیا کہ وہ ترک صدر رجب طیب اردگان کے ساتھ اپنے مسائل حل کرے اور معاملہ فہمی سے کام لے۔

 

ٹرمپ نے صحافیوں سے گفتگو میں اردگان سے اپنی ذاتی قربت کا ذکر کرتے ہوئے کہا: "میری اس شخص کے ساتھ بہت گہری دوستی ہے جس کا نام اردگان ہے۔ میں اسے پسند کرتا ہوں، وہ مجھے پسند کرتا ہے، اور یہی بات میڈیا کو غصہ دلاتی ہے۔" ٹرمپ نے مزید کہا: "میں نے نیتن یاہو سے صاف کہہ دیا کہ میں اردگان کو پسند کرتا ہوں۔ اگر تمہیں اس سے کوئی مسئلہ ہے، تو اسے خود حل کرو۔" ٹرمپ نے زور دیا کہ: "اسرائیلیوں کو ترکی کے ساتھ اپنے اختلافات عقل مندی سے حل کرنے چاہییں۔" (بحوالہ: الجزیرہ، 8 اپریل 2025)

 

پھر، 14 مئی 2025 کو، ٹرمپ نے ریاض میں شام کے عبوری صدر احمد الشرع سے ملاقات کی — یہ گزشتہ 25 برسوں میں اپنی نوعیت کی پہلی ملاقات تھی۔ اس سے ایک دن پہلے ہی ٹرمپ نے شام پر عائد پابندیاں ہٹانے کا اعلان کیا تھا، جس پر دمشق نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اسے "فیصلہ کن موڑ" قرار دیا۔

 

وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے بتایا کہ صدر ٹرمپ نے شامی صدر سے مطالبہ کیا کہ وہ "اسرائیل" کے ساتھ ابراہیمی معاہدات پر دستخط کرے۔ (بحوالہ: فرانس 24، 14 مئی 2025)

 

یوں یہ بات صاف ہو گئی کہ اس ملاقات، پابندیاں ہٹانے، اور نیتن یاہو کو ترکی سے ہم آہنگی کی ہدایت دینے کے ذریعے ٹرمپ اور اس کی انتظامیہ شام پر مکمل امریکی تسلط کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔

 

7- ان تمام حقائق سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ امریکہ کی شام سے متعلق حکمت عملی ایک بنیادی اصول پر مبنی ہے: ایک ایجنٹ کو دوسرے ایجنٹ سے بدل دینا۔

 

اسی مقصد کے تحت امریکہ نے ترکی کو بشار الاسد کی حکومت گرانے اور اس کی جگہ اپنی وفادار ایک نئی حکومت قائم کرنے کے لیے اجازت دی۔

 

اگرچہ شام کے نئے صدر احمد الشرع کی جانب سے مسلسل نرم لہجے اور مفاہمتی بیانات آتے رہے، جو اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ وہ اس تبدیلی پر پوری طرح آمادہ ہے، کیونکہ اس نے اسلام کے نفاذ کو ترک کر دیا، بشار کے پیروکاروں کا محاسبہ نہیں کیا اور اس کے بدلے "قومی مفاہمت" کی راہ اختیار کی، یہاں تک کہ وہ پسِ پردہ "اسرائیلی" ریاست کے ساتھ مذاکرات میں مشغول ہو گیا۔ پہلے آذربائیجان میں، 12 جولائی 2025 کو، اور بعد میں پیرس میں ("أكسيوس" کی رپورٹ کے مطابق، پیرس میں ایک اعلیٰ سطحی ملاقات ہوئی جس میں اسرائیل کے وزیر منصوبہ بندی رون ڈیرمر اور شامی وزیر خارجہ أسعد الشیبانی کے درمیان بات چیت ہوئی۔ اس میں امریکی ایلچی برائے شام، ٹام باراک نے ثالثی کا کردار ادا کیا۔ یہ مذاکرات تقریباً چار گھنٹے جاری رہے۔ یہ 25 برسوں میں اپنی نوعیت کی پہلی براہِ راست ملاقات تھی۔ بات چیت کا محور جنوبی شام میں کشیدگی میں کمی، سیکیورٹی کے قیام اور جنگ بندی تھا۔)

 

شامی انسانی حقوق کے نگران ادارے نے انکشاف کیا کہ امریکی ثالثی کے ذریعے، "اسرائیل" اور شام کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا ہے، جو سات بنیادی نکات پر مشتمل ہے۔ اس میں خاص طور پر السویداء میں جنگ بندی کا ذکر ہے، جہاں 12 جولائی سے سنگین حالات پیدا ہو چکے ہیں۔

 

معاہدے کی اہم شقیں درج ذیل ہیں: السویداء کا پورا معاملہ امریکی انتظامیہ کے سپرد کر دیا جائے گا۔ السویداء کے مقامی باشندوں پر مشتمل بلدیاتی کونسلیں تشکیل دی جائیں گی، جو وہاں عوامی خدمات انجام دیں گی۔ خلاف ورزیوں کو رپورٹ کرنے کے لیے ایک کمیٹی قائم ہو گی، جو براہ راست امریکہ کو رپورٹ دے گی۔ درعا اور قنیطرہ صوبوں کو اسلحے سے پاک کیا جائے گا۔ ان علاقوں میں مقامی سیکیورٹی کمیٹیاں بنائی جائیں گی، جنہیں بھاری اسلحہ رکھنے کی اجازت نہیں ہو گی۔

 

)ماخذ: أكسيوس - عین لیبیا، 25 جولائی 2025(

 

یہ تمام اقدامات اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ امریکہ جنوبی شام کو ایک ایسی "بفر زون اور محفوظ پٹی میں تبدیل کرنا چاہتا ہے جو یہودی وجود کے لیے محفوظ ہو، اور وہ یہودی جارحیت کو نہ صرف نظرانداز کر رہا ہے بلکہ اس سے مطمئن بھی ہے — تاکہ شامی حکومت کو اس معاہداتی دباؤ میں لایا جا سکے جس سے یہودی وجود کے ساتھ رسمی تعلقات قائم کیے جا سکیں۔

 

آذربائیجان اور پیرس میں جو ملاقاتیں ہوئیں، وہ اسی تسلسل کی کڑیاں ہیں۔ میڈیا کے لیکس کے مطابق، مذاکرات کے سب سے اہم نکات یہ ہے کہ جنوبی شام میں یہودی قجود کے لیے ایک "سیکورٹی زون" قائم کیا جائے، بالکل ویسے ہی جیسے سنہ 1979 کے امن معاہدے کے تحت مصر کے صحرائے سیناء میں قائم کیا گیا، جو آج بھی نافذ ہے اور مصریوں کو، نسل کُشی کا سامنا کرنے والے اپنے بھائیوں، کی مدد کے لیے غزہ کی طرف بڑھنے سے روکتا ہے۔

 

8۔ آخر میں، یہ واقعی دکھ کی بات ہے کہ شام کی وہ سرزمین، جس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے اپنی حدیث شریوف میں فرمایا ہے، جسے الطبرانی نے روایت کیا ہے... کی رسول اللہﷺ نے فرمایا: «عقر دار الإسلام بالشام» "اسلام کا گھر شام ہے"۔ اور آج یہ شام ایک ایسء حکومت کے تحت آ گیا ہے جو اسلام سے دور ہے، اور جس کا حاکم امریکا کا وفادار یے اور یہودی وجود کے سامنے سر تسلیم خم کر چکا ہے۔ وہ نہ صرف یہ کہ یہودی وجود کے خلاف لڑ نہیں رہا، بلکہ اس کے ساتھ صلح کے معاہدے کرنے کی جستجو میں ہے، اور وہ سب کچھ کر رہا ہے جو یہودی وجود اور اس کی حامی امریکا کو پسند آئے۔ حتیٰ کہ اس نے حزب التحریر کے وہ نوجوان، جو خلافت راشدہ کے داعی ہیں، کو جیلوں میں بند رکھا ہوا ہے تاکہ امریکا اور یہودی، جو خلافت اور خلافت کی سوچ رکھنے والوں کے دشمن ہیں کو راضی کر سکے۔ وہ اس وہم کا شکار ہے کہ اللہ کے دشمنوں کو راضی کر کے وہ اپنی حکومت قائم رکھ سکے گا! اور وہ رسول اللہ ﷺ کی اس حدیث کو بھول گیا یا نظر انداز کر دیا، جو ابن حبان نے اپنی صحیح کتاب میں عروہ سے روایت کی ہے جنہوں نے عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

 

«مَنِ الْتَمَسَ رِضَا اللهِ بِسَخَطِ النَّاسِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، وَأَرْضَى النَّاسَ عَنْهُ، وَمَنِ الْتَمَسَ رِضَا النَّاسِ بِسَخَطِ اللهِ سَخَطَ اللهُ عَلَيْهِ، وَأَسْخَطَ عَلَيْهِ النَّاسَ»

"جو شخص اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے لوگوں کی ناپسندیدگی کو قبول کرتا ہے، تو اللہ اس سے راضی ہو جاتا ہے اور لوگوں کو بھی اس سے راضی کر دیتا ہے۔ اور جو شخص لوگوں کی رضا حاصل کرنے کے لیے اللہ کی ناراضگی کو قبول کرتا ہے، تو اللہ اس پر ناراض ہوتا ہے اور لوگوں کو بھی اس سے ناخوش کر دیتا ہے۔"

 

اور ترمذی نے اسے سنن میں یوں بیان کیا:

 

«مَنْ الْتَمَسَ رِضَا اللهِ بِسَخَطِ النَّاسِ كَفَاهُ اللهُ مُؤْنَةَ النَّاسِ وَمَنْ الْتَمَسَ رِضَا النَّاسِ بِسَخَطِ اللهِ وَكَلَهُ اللهُ إِلَى النَّاسِ»

"جو شخص  اللہ کی رضا کے لیے لوگوں کی ناراضگی قبول کرتا ہے، تو اللہ اسے لوگوں کی تکلیف کے مقابلے میں کافی ہو جاتا ہے، اور جو شخص لوگوں کی رضا کی خاطر اللہ کی ناراضگی قبول کرے، تو اللہ اسے لوگوں کے حوالے کر دیتا ہے۔"

 

بہرحال، ہم مطمئن ہیں کہ اس جبر کی حکمرانی کے بعد جس میں ہم آج زندگی گزار رہے ہیں خلافت ضرور واپس آئے گی: احمد نے اپنی مسند میں حذيفة سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

 

«.... ثُمَّ تَكُونُ مُلْكاً جَبْرِيَّةً فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةً عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ. ثُمَّ سَكَتَ»

"۔۔۔۔ اس کے بعد جبر کی حکومت ہو گی اور وہ بھی اس وقت رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور ہو گا، پھر جب اللہ اسے اٹھانا چاہئے گا تو اٹھا لے گا، پھر نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت ہو گی۔ پھر آپ ﷺ خاموش ہوگئے" اور یہ روایت الطیالسی نے بھی اپنی مسند میں نقل کی ہے۔

 

اور تب اسلام اور مسلمان عزت پائیں گے اور کفر اور کافروں کو ذلت نصیب ہوگی۔ اور مومنین کو خوشخبری ہے:

 

﴿وَأُخْرَى تُحِبُّونَهَا نَصْرٌ مِنَ اللهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ﴾۔

"اور دوسری چیز جو تم پسند کرتے ہو، وہ اللہ کی طرف سے مدد اور قریبی فتح ہے، اور مومنوں کو خوشخبری دے دو۔"

)سورۃ الصف: آیت 13(

 

01 صفر 1447ھ

 

26/07/2025م

 

Last modified onبدھ, 30 جولائی 2025 21:07

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک