بسم الله الرحمن الرحيم
سوال و جواب
چین اور اس کا اپنے محدود علاقائی نقطۂ نظر سے چھٹکارا حاصل کرنا
)ترجمہ(
سوال:
12 اپریل 2014ء کے ایک سوال کے جواب میں یہ بیان کیا گیا تھا: ”چین کے پاس طاقت اور ٹکر دینے کا احساس موجود ہے، اور اگر چین کا مقصد صرف اپنے ہی خطے تک محدود رہنا نہ ہوتا، تو وہ امریکہ کا مقابلہ صرف اُسی وقت ہی نہ کرتا جب امریکہ اس کے خطے کی جانب پیش قدمی کرتا ہے، بلکہ چین تو اپنے متعلقہ اثر و رسوخ کے علاقوں میں بھی امریکہ کو چیلنج کرنے کا خطرہ مول نہیں لیتا … اور اگر چین نے بہت سے شعبوں خصوصاً معیشت میں سرمایہ دارانہ نظام کو اپنانا شروع نہ کر دیا ہوتا… تو بین الاقوامی سطح پر اس کی آواز زیادہ بلند ہوتی، اور امریکہ کے مفادات پر چین کا اثر کہیں زیادہ طاقتور ہوتا۔ بہرحال چین میں قوت کا مضبوط احساس موجود ہے، اور وہ اپنے خطے کی خود مختاری کے تحفظ کے لئے سرگرم ہے، چاہے وہ اپنے ہی خطے کے اندر تک محدود کیوں نہ ہو… “،
سوال یہ ہے کہ: کیا چین کی جانب سے امریکہ پر نایاب زمینی معدنیات (rare earth metal) کی برآمد پر پابندی عائد کرنا، چین کی جانب سے امریکی ٹریژری بانڈز کی فروخت کرنا، چین کا اپنی فوج کو جدید اسلحہ سے لیس کرنا، اور بیجنگ کے جنوب مغرب میں دنیا کا سب سے بڑا فوجی کمپلیکس تعمیر کرنا… کیا یہ سب اس بات کی علامت نہیں کہ چین اپنی سیاست کو صرف اپنے علاقائی دائرے تک محدود رکھنے کی سوچ سے آزاد ہو چکا ہے اور اب عالمی سطح پر امریکہ کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنے نقطۂ نظر کو وسعت دے رہا ہے؟
اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔
جواب:
درج بالا سوال کے جواب کو مزید واضح کرنے کے لئے ہم درج ذیل امور کا جائزہ لیتے ہیں:
1- عوامی جمہوریہ چین 1949ء میں اس وقت قائم ہوا تھا جب ماؤ زے تنگ کی قیادت میں کمیونسٹ پارٹی نے چیانگ کائی شیک (Chiang Kai-shek) کی زیرِ قیادت نیشنلسٹ پارٹی کے ساتھ اقتدار کی کشمکش میں کامیابی حاصل کر لی۔ نیشنلسٹ پارٹی کو امریکہ کی کھلی حمایت حاصل تھی۔ چیانگ کائی شیک کی نیشنلسٹ پارٹی تائیوان فرار ہوگئی اور وہاں خود کو ”جمہوریہ چین“ کا اعلان کر دیا۔ جب 1978ء میں دنگ شیاؤ پنگ (Deng Xiaoping) نے چین کی کمیونسٹ پارٹی کی قیادت سنبھالی، تو اُس نے ماؤ کے برعکس آئیڈیالوجی کے بجائے معیشت کو ترجیح دی۔ اس نے کم اجرت اور زیادہ برآمدات کی بنیاد پر ایک معاشی ماڈل تشکیل دیا، بیرونی سرمایہ کاری کے دروازے کھولے، اور بعد میں 1979ء میں مشرقی چینی شہروں میں خصوصی اقتصادی زون (SEZs) قائم کئے۔
2- دنگ شیاؤ پنگ کے دور میں، چین نے اپنی معیشت اور خارجہ پالیسی وغیرہ میں کمیونسٹ نظریے کو ترک کر دیا تھا اور عملی طور پر سرمایہ دارانہ نظام اور کمیونزم کا ملغوبہ بنا کر اپنانا شروع کر دیا تھا۔ 1980ء کے بعد سے، تقریباً 45 سال کے دوران، چین نے بے پناہ تیز اقتصادی ترقی حاصل کی اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ سال 2010ء تک، چین امریکہ کے بعد دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت بن چکا تھا اور اب بھی وہ یہ مقام برقرار رکھے ہوئے ہے۔ ”بینک آف امریکہ نے یہ کہا کہ چین 2035ء تک اپنے GDP کو دوگنا کرنے کے قابل ہو جائے گا اور اس دوران امریکہ کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کی سب سے بڑی معیشت بن جائے گا …“ (سی بی سی عربیہ، 27فروری، 2021ء)۔ یہ صورت حال اقتصادی اعتبار سے ہے۔
3- عسکری نقطۂ نظر سے، چین اپنی اس اقتصادی طاقت کو ملٹری طاقت میں تبدیل کرنے کی راہ پر گامزن ہے، کیونکہ وہ ہر سال اپنے فوجی بجٹ میں اضافہ کر رہا ہے۔ ”چین نے 05 مارچ، 2025ء بروز بدھ کو اعلان کیا تھا کہ وہ 2025ء کے لئے اپنے قومی دفاعی بجٹ میں 7.2 فیصد اضافہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، جوکہ دفاعی بجٹ میں ایک ہندسہ کی شرح سے اضافہ کرنے کا مسلسل دسواں سال بنتا ہے۔ یوں منصوبہ کے مطابق، اس سال ملک کے لئے دفاعی اخراجات 1.784665 ٹریلین یوآن (یعنی تقریباً 249 ارب امریکی ڈالر) ہوں گے…“ (العربی نیوز، 05 مارچ، 2025ء)۔ اس کے علاوہ، چینی فوج کی روایتی اور نیوکلئیر صلاحیتیں بھی ترقی کر رہی ہے۔ امریکی محکمہ دفاع کی ایک رپورٹ جو بروز بدھ (18 دسمبر، 2024ء)، کانگریس میں پیش کی گئی تھی، کے مطابق، 2024ء کے وسط تک چین کے پاس 600 سے زائد نیوکلئیر وار ہیڈز موجود تھے، اور 2030ء تک یہ تعداد بڑھ کر 1,000 سے تجاوز کر جائے گی… (آر ٹی، 18دسمبر، 2024ء)۔ چین نے 03 ستمبر، 2025ء کو ہونے والی ایک ملٹری پریڈ میں اپنے جدید ترین ہتھیاروں کا مظاہرہ کیا، جوکہ دوسری جنگ عظیم میں جاپان پر فتح کی 80 ویں سالگرہ کے موقع پر منعقد ہوئی تھی۔ اور اس پریڈ میں چین کی فوجی ترقی کی وسعت واضح طور پر نظر آئی۔
4- سیاسی نقطہ نظر سے، چین خطے کی ایک بڑی اور آزاد طاقت ہے جو دیگر علاقائی طاقتوں، جیسے جاپان اور جنوبی کوریا کی طرح امریکہ کے تابع نہیں ہے۔ چین خطے میں سیاسی عزائم رکھتا ہے، جو قومی مفادات اور اقتصادی مفادات پر مبنی ہیں، اور یہ آئیڈیولوجیکل نوعیت کے نہیں ہیں۔ بحیرۂ جنوبی چین، چین کے لئےنہایت اہمیت رکھتا ہے؛ یہاں اہم بحری راستے، ماہی گیری کے علاقے، اور سمندر کے نیچے تیل و گیس کے ذخائر موجود ہیں، جو چین کے مسلسل بڑھتے ہوئے صنعتی اور اقتصادی شعبے کے لئے ناگزیر ہیں۔ امریکی انرجی انفارمیشن ایڈمنسٹریشن (EIA) کی 2013ء کی رپورٹ کے مطابق، اس بحری علاقے میں تقریباً 11 ارب بیرل تیل اور 190 ٹریلین کیوبک فٹ قدرتی گیس کے ذخائر موجود ہیں (EIA - 13 اپریل، 2013ء)۔ اس کے علاوہ، دنیا کی 80 فیصد سے زائد تجارت بحیرۂ جنوبی چین کے راستے سے گزرتی ہے، اور تجارتی اشیاء میں اس کی مالیت تقریباً 5.3 ٹریلین ڈالر ہے (China Power, 2016)۔ لہٰذا، چین اس جغرافیائی اور اسٹریٹجک خطے میں خصوصی دلچسپی رکھتا ہے اور اس پر اپنے حق کا دعویٰ کرتا ہے۔
5- امریکہ، جو خود کو دنیا کا پولیس مین سمجھتا ہے، وہ اپنی ایشیائی حکمتِ عملی کے مطابق چین کے عروج کو روکنے اور اسے اپنے قابو میں رکھنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ اور امریکہ اپنا یہ مقصد کبھی یورپ سے فوجی دستوں اور سازوسامان کو بحرالکاہل کے خطے میں منتقل کر کے، کبھی تائیوان کے بحران سے فائدہ اٹھا کر، کبھی بھارت کو استعمال کر کے، تو کبھی علاقائی طاقتوں کے ساتھ فوجی اتحاد قائم کر کے جیسے AUKUS جس میں آسٹریلیا، برطانیہ اور امریکہ شامل ہے اور QUAD جس میں امریکہ، آسٹریلیا، بھارت اور جاپان شامل ہے، اور کبھی تو ہواوے (Huawei) جیسی چینی کمپنیوں کے خلاف اقتصادی جنگیں چھیڑ کر پورا کیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد امریکہ نے اپنے مخالفین کی فہرست میں اسلام کو اپنا ”آئیڈیا لوجیکل“ دشمن جبکہ چین کو اپنی ریاست کے دشمن کے طور پر سرفہرست رکھا ہوا ہے۔ اگرچہ عراق اور افغانستان کی جنگیں چین کے ساتھ امریکہ کی کشیدگی میں تاخیر اور سست روی کا باعث بنی تھیں، لیکن بہرحال ان جنگوں کے بعد سے امریکہ نے اپنی پوری توجہ چین پر مرکوز کر دی ہے، خاص طور پر تجارتی جنگوں کے ذریعے سے۔
6- اس وضاحت کے بعد اب ہم سوال کے جواب کے جائزے کی طرف بڑھتے ہیں:
الف— جہاں تک نایاب زمینی معدنیات کی برآمد کا تعلق ہے، چین ان کی اہمیت سے بخوبی واقف ہے، خصوصاً جو جدید ٹیکنالوجی کی ترقی یافتہ صنعتوں میں استعمال کی جاتی ہیں۔ یہ نایاب معدنیات تقریباً 17 اقسام پر مشتمل ہیں جو دنیا کی 200 سے زائد جدید صنعتوں میں استعمال ہوتی ہیں۔ یہ معدنیات ملٹری کی صنعتوں جیسے جنگی طیاروں، آبدوزوں، خلائی جہازوں اور ڈرونز کے لئے بھی ضروری ہیں۔ اور ان معدنیات میں سے ایک خاصی بڑی مقدار چین میں ہی کان کنی کے ذریعے حاصل کی جاتی ہے۔ چین نے ان معدنیات کے معاملے کو امریکہ کے خلاف اپنی تجارتی جنگ میں ایک دباؤ کے طور پر استعمال کیا ہے تاکہ مراعات حاصل کی جاسکیں۔ اور یقیناً یہی کچھ حقیقت میں ہوا، جب ٹرمپ نے چین پر محصولات (tariffs) بتدریج بڑھانے کا اعلان کیا، جو آخرکار 08 اپریل 2025ء کو 104٪فیصد تک جا پہنچے، تو چین نے 9 اکتوبر 2025ء کو امریکہ کے لئےنایاب زمینی معدنیات کی برآمدات پر پابندیوں کا اعلان کر کے جواب دیا۔ چین کے پاس دنیا کی نایاب زمینی معدنیات کے 49٪ فیصد ذخائر ہیں اور وہ ان معدنیات کی عالمی سالانہ پیداوار کا 69٪فیصد فراہم کرتا ہے۔ چین کا یہ اقدام، عمل اور ردّ عمل کی ایک مثال تھی۔ پھر یہ عمل اور اس پر ردّ عمل دوبارہ دہرایا گیا: یعنی ٹرمپ نے محصولات کو تقریباً 47٪فیصد تک کم کردیا۔ جنوبی کوریا کے شہر بوسان میں اپنے چینی ہم منصب سے ملاقات کے بعد، جو 30 اکتوبر 2025ء کو ایشیا پیسیفک اکنامک کوآپریشن (APEC) کی 32ویں سربراہی کانفرنس کے موقع پر ہوئی تھی، ٹرمپ نے اپنے طیارے ایئر فورس ون میں واپس روانہ ہوتے وقت کہا کہ ”چین پر امریکہ کی جانب سے عائد محصولات کو 47٪ فیصد تک کم کیا جائے گا، اور نایاب زمینی معدنیات سے متعلق تمام مسائل حل ہوچکے ہیں، اور یہ معاہدہ ایک سال تک جاری رہے گا جبکہ اس میں توسیع کا امکان بھی ہے“ (الشرق الاوسط، العربی الجدید، 30 اکتوبر 2025ء)۔ لہٰذا، نایاب زمینی معدنیات پر چین کی پابندیاں تنگ نظری سے ہٹنے کی علامت نہیں تھیں، بلکہ امریکی محصولات عائد کرنے کے فیصلے پر ایک ردّ عمل یعنی دباؤ کا حربہ تھیں۔ اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ محصولات کم کر دیئے گئے اور نایاب معدنیات پر پابندیاں ایک سال کے لئے معطل کر دی گئیں۔
ب- جہاں تک چین کا امریکی ٹریژری بانڈز کے اپنے حصص کی فروخت کا سوال ہے، جن کی مالیت اکتوبر 2017ء میں 1.189 ٹریلین ڈالر تھی۔ ”چین کے پاس امریکی ٹریژری بانڈز 2009ء کے بعد سے اپنی کم ترین سطح پر آ گئے ہیں... منگل (18 فروری، 2025ء) کو امریکی ٹریژری ڈیپارٹمنٹ کے اعداد و شمار سے پتہ چلا ہے کہ چینی سرمایہ کاروں کے پاس موجود امریکی قرضوں کی مالیت 2024ء میں 57 ارب ڈالر کم ہو کر 759 ارب ڈالر رہ گئی تھی، جبکہ اس میں دیگر ممالک کے اکاؤنٹس میں موجود چینی ملکیت کے ٹریژری بانڈز شامل نہیں ہیں... “ (الجزیرہ نیٹ، 19 فروری، 2025ء)۔ یہ قدم بھی ایک دفاعی حکمتِ عملی کے طور پر اٹھایا گیا تھا تاکہ خطرات کو کم کیا جاسکے، نہ کہ کسی آئیڈیالوجیکل سوچ کے تحت؛ جیسا کہ معلوم ہے کہ امریکہ اور یورپ نے 2022ء میں روس کی یوکرین پر جنگ کے بعد سے روسی اثاثوں میں سے 300 ارب ڈالر منجمد کر دیے تھے اور SWIFT نظام کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا تھا۔ لہٰذا، غالب امکان یہی ہے کہ چین نے ان بانڈز کو سونے کے ذخائر میں تبدیل کر دیا ہو تاکہ تائیوان پر ممکنہ حملے یا تجارتی جنگوں جیسے کسی بھی دیگر سبب سے امریکہ کی جانب سے چینی اثاثوں کو منجمد کر دینے سے بچا جا سکے، جیساکہ امریکہ نے روس کے ساتھ کیا۔ ”صرف گزشتہ سال ہی چین نے اپنے ذخائر میں 550 ارب ڈالر مالیت کا کئی ٹن مزید سونا شامل کر لیا۔ گزشتہ ماہ چین کے سرکاری ذخائر میں سونے کا تناسب بڑھ کر ریکارڈ سطح 4.9٪فیصد تک پہنچ گیا …“ (Artigercek.com، 18 مئی 2024ء)۔ بعض ماہرین کا یہ دعویٰ کہ چین کے اثاثوں میں کمی انہیں بیلجیم کے یوروکلئیر (Euroclear) اور لکسمبرگ کے کلئیرسٹریم (Clearstream) جیسی سکیورٹیز ڈپازٹریز میں منتقل کرنے کی وجہ سے ہے، لیکن یہ دعوٰی درست معلوم نہیں ہوتا۔ کیونکہ ایسی صورت حال میں بھی، چین کے وہ اثاثے جو اگر اس نے امریکہ سے بیلجیم اور لکسمبرگ منتقل کر دیئے ہوں، تو وہ امریکہ کے ان ممالک پر دباؤ ڈالنے کی صورت میں منجمد ہونے کا شکار ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا، سونا اب بھی سب سے محفوظ پناہ گاہ ہے اور یہی ترجیحی انتخاب ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ اقدام بھی چین کے فکری تنگ نظری سے ہٹنے کی علامت نہیں ہے، بلکہ اسے ایک احتیاطی تدبیر کے طور پر دیکھا جانا چاہئے۔ نایاب زمینی معدنیات سے متعلق چین کے اقدامات اور امریکی ٹریژری بانڈز کی فروخت — دونوں ہی امریکہ کی پالیسیوں کے ردِ عمل کے طور پر تھے، جیسا کہ پچھلے جواب میں بیان کیا گیا تھا کہ : ”چین امریکہ کا مقابلہ ردعمل کے طور پر صرف اُسی وقت ہی کرتا ہے جب امریکہ اس کی جانب پیش قدمی کرتا ہے“۔
ج— جہاں تک چین کا اپنی فوج کو جدید بنانے اور بیجنگ کے جنوب مغرب میں دنیا کے سب سے بڑے ملٹری کمپلیکس کی تعمیر کا تعلق ہے: اس سلسلے میں چینی فوج نے اپنے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ وہ 2027ء تک پیپلز لبریشن آرمی (PLA) کے صد سالہ اہداف کی تکمیل کو حاصل کر لیں گے، اور یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ فوج کی جدید کاری کی کوششوں کو تیز کرے گی اور جنگی تیاری میں اضافہ کرے گی۔ پیپلز لبریشن آرمی اور پیپلز آرمڈ پولیس فورس کے وفد کے ترجمان وو چیان (Wu Qian) نے کہا کہ صد سالہ اہداف کا حصول اور عسکری صلاحیتوں میں ترقی ’’اسٹریٹجک ترجیح‘‘ ہے، جو قومی دفاع کی جدید کاری کے لئے چین کی وسیع تر کوششوں کا حصہ ہے۔ وو چیان کا کہنا تھا: ”ہمیں اپنی تمام کوششیں اس بات کے لیے وقف کرنی چاہئیں کہ ہم اپنے اہداف کو مضبوط کارکردگی کے ساتھ اور مقررہ وقت پر حاصل کریں‘‘ (Defense-arabic.com، 13 مارچ، 2025ء)۔ اور ”فائنانشل ٹائمز‘‘ نے موجودہ اور سابق امریکی حکام کے حوالے سے کہا ہے کہ ’’چینی فوج بیجنگ کے مغرب میں ایک وسیع و عریض کمپلیکس تعمیر کر رہی ہے، جسے امریکی انٹیلی جنس ایجنسیاں جنگ کے زمانے کے کمانڈ سینٹر کے طور پر دیکھتی ہیں۔ یہ کمپلیکس امریکی محکمہ دفاع ’’پینٹاگون‘‘ سے بھی کہیں بڑا ہے۔ اخبار کے مطابق حاصل کردہ سیٹلائٹ تصاویر بیجنگ سے 30 کلومیٹر جنوب مغرب میں واقع ایک ایسا زیرِتعمیر مقام دکھاتی ہیں جو 4 ہزار مربع میٹر سے زیادہ رقبے پر محیط ہے۔ بیجنگ کی تصاویر میں گہرے گڑھے دکھائی دیتے ہیں جنہیں فوجی ماہرینِ بڑے اور مضبوط بنکر قرار دیتے ہیں، جو کسی بھی ممکنہ تنازعہ بشمول جوہری جنگ کے دوران چینی عسکری قیادت کی حفاظت کرنے کے کام آئیں گے …‘‘ (الجزیرہ نیٹ، 31 جنوری، 2025ء)۔ اس تمام صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ فوج کی جدید کاری، بیجنگ سے 30 کلومیٹر کے فاصلے پر ایک بڑے کمانڈ سینٹر کی تعمیر، بحیرۂ جنوبی چین میں مصنوعی جزیروں کی تعمیر، یا بحری بیڑے کی تیز رفتار توسیع، یہ سب امریکہ کے اس اقدام کے جواب میں ’’ردِعمل‘‘ کے طور پر سامنے آئے ہیں، کیونکہ امریکہ نے اپنی بحری افواج کا 60٪فیصد حصہ اس خطے میں تعینات کر رکھا ہے۔ بالفاظِ دیگر، اس فوجی کمپلیکس کی تعمیر کا مقصد یہ نہیں تھا کہ امریکہ کے سابقہ نوآبادیاتی علاقوں میں امریکہ سے الجھا جائے اور اسے ہٹا کر اس کی جگہ لے لی جائے، جیسا کہ امریکہ نے خود کیا تھا جب وہ اپنے علاقوں کو دھمکانے کے لئے تنازعہ میں کود پڑا تھا۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد نہ ہی برطانیہ نے اور نہ ہی چین نے امریکہ کی نوآبادیات کالونیوں میں اسے ہٹانے کی کوشش کی، اور نہ ہی چین نے اپنی فوج کی جدید کاری اس لئے کی کہ امریکہ کو اس کی کالونیوں سے نکال باہر کیا جائے، اس کے اثرونفوذ کو کمزور کرے یا اسے ہٹا کر اس کی جگہ لے لے۔ بلکہ یہ تمام اقدامات امریکی اجارہ داری کو روکنے کے لئے ہیں کہ امریکہ چین کے اپنے علاقائی دائرے پر غلبہ نہ حاصل کر لے (چین صرف اپنے علاقے کی حفاظت تک ہی محدود رہتا ہے۔) یعنی چین کی طرف سے یہ سب کچھ خطے میں امریکی فوجی بڑھوتری کے مقابلے میں ایک ردِعمل ہے۔
7- نتیجہ یہ کہ، بہرحال دورِحاظر میں چین ایسی مادی صلاحیتیں رکھتا ہے کہ وہ ایک عالمی سپر پاور بن سکے۔ تاہم ایسا محسوس ہوتا ہے کہ چین نے ابھی تک یہ جرأت نہیں کی کہ وہ امریکہ کو اس کے اثر و رسوخ کے حلقوں یا دیگر علاقوں میں چیلنج کرے۔ یہی وجہ ہے کہ چین نے تائیوان کو زبردستی اپنا حصہ نہیں بنایا، جیسا کہ وہ منصوبہ بناتا رہا اور دھمکیاں بھی دیتا رہا ہے، خصوصاً اس کے بعد جب چین نے، 2022 میں یوکرین پر روسی حملے کے بعد، امریکہ اور مغربی ممالک کی جانب سے روس پر عائد ہونے والی پابندیوں کو دیکھا۔ اسی لیے چین امریکہ کو اس کے اثر و رسوخ کے علاقوں، یا مغرب کے زیرِ اثر افریقہ، ایشیا اور دیگر خطوں میں چیلنج کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔ حتیٰ کہ چین نے اپنی وہ طویل المدتی حکمتِ عملی بھی ترک کر دی ہے جس میں اس نے اپنے بحرالکاہل کے ساحل سے لے کر بحرِ ہند اور افریقہ تک پھیلے ہوئے فوجی اڈے قائم کرنے کا منصوبہ بنایا تھا، سوائے جبوتی میں اپنے اڈے کے۔ چین نے پاناما میں اپنے مفادات کے خلاف امریکی دھمکیوں پر بھی کوئی مضبوط اور سنجیدہ مؤقف اختیار نہیں کیا، کیونکہ پاناما ان دھمکیوں کے سامنے جھک گیا تھا اور 2 جون 2025ء کو چین کے نئی شاہراہِ ریشم (New Silk Road Agreement) کے اُس معاہدے سے دستبردار ہوگیا جس میں نہر پاناما پر چین کی نگرانی کا معاملہ شامل تھا۔ لہٰذا، چین اپنی حدود کے قریب امریکہ کی حرکات کا محض ردِ عمل ظاہر کرتا ہے اور خود سے کوئی اقدام نہیں کرتا۔ اسی وجہ سے پچھلے سوال کے جواب میں جو کچھ ذکر کیا گیا تھا وہ آج بھی درست ہے، یعنی خطے میں چین کا ابھر کر ظاہر ہونا واضح ہے اور وہ اس میں مقابلہ بھی کر رہا ہے، مگر یہ ابھرنا عالمی سطح پر نہیں جس میں وہ امریکہ کے ہم مقابل آن کھڑا ہو۔ تاہم، یہ صورتحال صرف ابھی تک کی ہے، اور یہ بعید نہیں کہ مستقبل میں نئے سیاسی و فکری حالات پیدا ہو جائیں جو چین کو عالمی سطح پر سنجیدہ سیاسی اقدامات کی طرف دھکیل دیں، خصوصاً جب کہ وہ عسکری اور معاشی طور پر ترقی کر رہا ہے۔
8- آخر میں، چاہے یہ ریاستیں امریکا ہوں یا چین، یا دونوں، یہ اس دنیا میں ایک دوسرے سے ٹکرا رہی ہیں اور دونوں ہی ایسی راہ پر ہیں جس میں شر ہی شر ہے، جو ان کے ساتھ ساتھ ان کے پیروکاروں کو بھی گھیرے ہوئے ہے۔ یہ ایک کھوکھلی تہذیب ہے جس کے پیروکار کامیاب نہ ہو سکے۔ آج زمین پر ان کا عروج نظر آنا صرف اس وجہ سے ہے کہ وہ ریاست موجود نہیں جو دنیا بھر میں خیر پھیلائے، ان کے شر وفساد کو ختم کرے اور ان کو نیست ونابود کر دے۔ اور وہ ریاست، خلافتِ راشدہ، دربارہ آئے گی، اِن شاء اللہ، جو انہیں اسی طرح سے ہٹا دے گی جیسے اس سے پہلے ان جیسے لوگوں، فارس اور روم، کو ہٹا دیا گیا تھا۔ اسلامی اُمت ایک زندہ اور سرگرم اُمت ہے، جو تیزی سے اپنی اصل راہ کی طرف لوٹ رہی ہے، اُس راہ کی طرف جو اللہ ﷻ نے اس کے لئے مقرر فرما دیا ہے :
﴿كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ﴾
’’تم بہترین اُمت ہو جو لوگوں کے لئے پیدا کی گئی ہے، تم نیکی کا حکم دیتے ہو، برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘‘۔ [سورۃ آلِ عمران؛ 3:110]
مزید یہ کہ، اُمت کے اندر ایک حزب موجود ہے جو صرف اللہ ﷻ کے لئے مخلص ہے، اس کے رسول ﷺ کے لئے سچی ہے، جو شب و روز مسلسل جدوجہد میں مصروف ہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ اور اس کے رسول ﷺ کی بشارتیں اس کے شباب کے ذریعے پوری ہو جائیں۔ وہ اللہ کے راستے میں کسی ملامت کرنے والے کی پروا نہیں کرتے، اللہ ﷻ کے حکم سے نہ ان کی ہمت ٹوٹتی ہے نہ عزم کمزور ہوتا ہے، یہاں تک کہ اللہ کا وعدہ ان کے ہاتھوں پورا ہو جائے، اور خلافتِ راشدہ اللہ ﷻ کے وعدے اور رسول اللہ ﷺ کی بشارت کے مطابق دوبارہ قائم ہو جائے، اور مسلمان روم کو بھی اسی طرح فتح کریں جیسے انہوں نے قسطنطنیہ کو فتح کیا تھا۔
امام احمدؒ نے اپنی مسند میں عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا: (بَيْنَمَا نَحْنُ حَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ نَكْتُبُ إِذْ سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ، أَيُّ الْمَدِينَتَيْنِ تُفْتَحُ أَوَّلاً قُسْطَنْطِينِيَّةُ أَوْ رُومِيَّةُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ، «مَدِينَةُ هِرَقْلَ تُفْتَحُ أَوَّلاً يَعْنِي قُسْطَنْطِينِيَّةَ») ”جب ہم رسول اللہ ﷺ کے گرد بیٹھ کر لکھ رہے تھے تو رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا: دو شہروں میں سے کون سا شہر پہلے فتح ہوگا، قسطنطنیہ یا روم؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ہرقل کا شہر پہلے فتح ہو گا، یعنی قسطنطنیہ‘‘۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ * بِنَصْرِ اللَّهِ يَنْصُرُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ﴾
”اور اس دن مؤمن خوش ہوں گے * اللہ کی مدد پر۔ وہ جس کی چاہتا ہے مدد کرتا ہے، اور وہ زبردست اور رحم والا ہے‘‘۔[سورۃ الروم: 4-5]
یکم جمادى الآخر 1447هـ
بمطابق 22 نومبر 2025 عیسوی
Latest from
- ٹرمپ کی اطاعت میں، پاکستان کا حکمران مسلمانوں کو قیمتی معدنیات سے محروم کر رہا ہے
- پاکستان کی مسلح افواج کو اللہ رب العزت کے دشمنوں ٹرمپ اور یہود...
- اردن کے بادشاہ عبداللہ دوم کے اسلام آباد کے دورے کے خلاف اپنی آواز بلند کریں
- سرمایہ دارانہ مغربی فکر کا - بحیثیت تہذیب اور ثقافت- تردید
- ٹرمپ اقوام متحدہ کی قرارداد اور مسلم حکمرانوں کی مدد کے ذریعے




