الأحد، 28 ذو القعدة 1446| 2025/05/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

پوری انسانیت کی موت کے اعلان کا وقت آن پہنچا ہے

 

امت کی افواج کی غفلت اور پسپائی کا اعلان، اور پوری انسانیت کے موت کا اعلان،  محض ایک استعارہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک حقیقت ہے۔ ہم یہ الفاظ ادا کر رہے ہیں اور ہمارے دل خون کے آنسو رو رہے ہیں۔ ہمارے دل غم سے پھٹے جا رہے ہیں، کیونکہ واقعی ہم ایک نوحہ کدہ میں جی رہے ہیں۔ 07 اکتوبر 2023ء سے، جب سے یہودی وجود نے، جو پوری دنیا کی پشت پناہی سے قائم ہے، ہمارے اہلِ غزہ پر نسل کشی کی جنگ مسلط کی ہے، ہم اور اہلِ غزہ مسلسل یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ شاید انسانیت جاگے، کچھ کرے، اور اس قتل و غارت کو روک دے۔ ہر بار جب یہودیوں نے ایک نیا خونریز سانحہ برپا کیا، تو ہم نے کہا اور اہلِ غزہ نے بھی کہا: "شاید یہ آخری ہو"—شاید انسانیت کے جذبات بیدار ہو جائیں، یہ ظلم رک جائے، اور دنیا کے ضمیر میں کوئی لرزش پیدا ہو۔ لیکن ہر بار یہودی وجود اپنے جرائم میں مزید آگے بڑھ گیا۔ امریکہ اور اس کا صلیبی اتحادی گروہ نہ صرف اس کی پشت پر کھڑے رہے، بلکہ اسے ہتھیاروں، سیاسی اور اقتصادی سہارا فراہم کرتے رہے، تاکہ قتلِ عام جاری رہے۔ یہاں تک کہ ہر یہودی ایک قصاب فوجی بن چکا ہے، جو اہلِ غزہ کے قتل کے سوا کچھ اور جانتا ہی نہیں۔ یہودی وجود کے تمام شعبے مفلوج ہو چکے ہیں، صرف "قتل کا شعبہ" باقی ہے جو دن رات متحرک ہے۔ اور نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ انہوں نے اُن لوگوں کو بھی بھرتی کر لیا جنہیں کبھی فوج میں شامل کرنے کا وہم و گمان تک نہ تھا—یعنی مذہبی طبقے کے افراد کو، یہاں تک کہ عورتوں اور بزرگوں کو بھی۔ دوسری طرف، امریکہ اور اس کے حلیفوں نے یہودی وجود کی معیشت میں پیدا ہونے والی کمی پوری کی، انہیں نہ صرف سرمایہ اور ہتھیار دیے، بلکہ خوراک، مزدور، اور ہر وہ چیز مہیا کی جس سے وہ پوری طرح غزہ اور بابرکت سرزمین فلسطین کے لوگوں کے قتل میں مشغول رہ سکیں۔

 

مہینوں پر مہینے گزر گئے، اور اب اس قتل عام کا شمار سالوں میں ہونے لگا ہے، مگر انسانیت ان کو روکنے کے لیے ذرا بھی متحرک نہیں ہوئی۔ جو لوگ مختلف عالمی دارالحکومتوں میں ان مظالم کے خلاف احتجاج کے لیے نکلے، ان کی تعداد بظاہر "زیادہ" نظر آتی ہے، لیکن دنیا کے اربوں انسانوں کے مقابلے میں یہ تعداد نہایت قلیل ہے۔ پھر ان مظاہروں کی نوعیت بھی محض پُرامن احتجاج تک محدود رہی، جو اس سنگین اور لرزہ خیز جرم کی شدت سے قطعی طور پر مطابقت نہیں رکھتی۔ وہ لوگ تو بس ایسے ہیں جیسے کوئی سفاک قاتل کے سامنے چیخ رہا ہو، جو بچوں اور عورتوں کو ذبح کر رہا ہو، گھروں کو آگ لگا رہا ہو، اور گھروں کو ان کے مکینوں سمیت زمین بوس کر رہا ہو، مگر وہ چیخنے والا جیسے کہ نہ تو اسے روکنے کی طاقت رکھتا ہے، نہ اس کا ہاتھ پکڑ سکتا ہے، اور نہ اس سے بدلا لے سکتا ہے۔ اور یہی وہ حد ہے جس پر انسانیت آ کر رک گئی ہے—چند چیخیں، وہ بھی جزوی طور پر اجازت یافتہ یا نیم اجازت یافتہ، اور یہ چیخ و پکار بھی ایسی ہے جیسے "دورِ حاضر کی سب سے بڑی بربریت" کے سامنے رسمی سا ردعمل ہو۔ ہر احتجاج کے بعد، لوگ اپنی معمول کی زندگی کی طرف لوٹ جاتے ہیں، گویا انہوں نے اپنا فرض مکمل ادا کر دیا ہو۔ پس اہلِ غزہ کو، اور ہمیں بھی، پورا حق ہے کہ ہم اعلان کریں کہ 'انسانی جذبات مر چکے ہیں، اور انسان اب صرف روح سے خالی محض کھوکھلے جسم ہیں۔'

 

اہلِ غزہ یہ گمان کیے بیٹھے تھے کہ نسل کشی کا تسلسل شاید اُن حکمرانوں کو شرمندہ کر دے جو دو ارب سے زائد مسلمانوں پر حکومت کر رہے ہیں، اور یوں وہ ان مظالم کو روکنے کے لیے کچھ کریں گے۔ لیکن ہوا یہ کہ ان حکمرانوں نے مزید گمراہی، بےحسی اور ظلم کی راہ اختیار کی، اور اپنے عمل سے واضح کر دیا کہ وہ نہ صرف یہودی وجود کے ساتھ صف بستہ کھڑے ہیں بلکہ امریکہ کے احکامات کے سامنے مکمل طور پر سرِ تسلیمِ خم کیے ہوئے ہیں۔ انہوں نے یہودی وجود کو ہر وہ چیز مہیا کی جو قتلِ عام کے لیے درکار تھی۔ چنانچہ ترکی کا منافق حاکم، یہودی وجود کو اپنی اہم اور حیاتیاتی فیکٹریوں کی مصنوعات فراہم کر رہا ہے؛ یہ ابولہب کی اولاد ہے جو یہودیوں کو سبزیاں اور پھل مہیا کر رہی ہے، جبکہ غزہ کے باسیوں پر زندگی تنگ کیے ہوئے ہے؛ اور مصر کا فرعون، اہلِ غزہ کو بلیک میل کر رہا ہے، ان کے خون کی تجارت کر رہا ہے، ان کی مجبوریوں کو منافع کا ذریعہ بنا رہا ہے، اور یہودیوں کو مصری فوج کی خوراک کی فیکٹریوں سے سامان فراہم کر رہا ہے۔ باقی مسلمان حکمران بھی کسی طور ان ملعون ہمسایہ حکمرانوں سے کم نہیں—نہ ذلت میں، نہ رسوائی میں، نہ یہودی وجود کی پشت پناہی میں، اور نہ اہلِ غزہ کو تنہا چھوڑنے میں۔ یہاں تک کہ ان منافقوں نے اپنی ٹولی میں ایک نیا چہرہ بھی شامل کر لیا ہے—وہ شخص جو کل تک مجاہدین سے یہ وعدہ کر رہا تھا کہ وہ صرف دمشق پر رُکنے والا نہیں، بلکہ مسجدِ اقصیٰ میں سجدہ ریز ہو گا، آج وہ بھی ذلت اور غداری میں باقی غدار حکمرانوں سے کسی طرح کم نہیں ہے۔ یہ حکمران اس حد تک گر چکے ہیں کہ اپنی خزانے تک اُس نمرود، ٹرمپ کے قدموں میں نچھاور کر دیے، تاکہ وہ اور یہودی مل کر اہلِ غزہ پر مزید ظلم و ستم ڈھا سکیں۔ پس ہمیں حق ہے کہ ہم نہ صرف ان حکومتوں کی موت کا اعلان کریں، بلکہ اُن کی لاشوں کی بدبو کی گواہی بھی دیں، جو اب ناکوں کو چیرتی ہوئی ہر طرف پھیل چکی ہے۔

 

مہینوں پر محیط طویل عرصہ گزر چکا ہے، اور اہلِ غزہ یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ خون کی یہ نہریں شاید امتِ مسلمہ کی افواج کے دلوں میں کچھ غیرت جگا دیں گی، کہ وہ ان کی مدد کو آئیں گے۔ مگر ان کے سامنے جو منظر آتا ہے، وہ یہ ہے کہ یہ افواج تو صبح و شام مشقوں میں مشغول ہیں، اپنے جسموں کو مضبوط بناتے ہیں اور اپنی تلواروں کو تیز کرتے ہیں، اس لیے نہیں کہ وہ امت کے دشمنوں سے لڑیں گے، بلکہ اس لیے کہ وہ اُمت کے زخم خوردہ عوام کے "احتجاج" کو کچل سکیں، یا ان سرحدوں کی حفاظت کریں جو استعماری قوتوں نے تراشی تھیں، یا اس لیے کہ وہ استعماری کفار کے مفادات کی حفاظت کرنے والی فوجی کارروائیوں میں شریک ہو سکیں، جنہیں "امن قائم رکھنے والی افواج" کا نام دیا گیا ہے لیکن اپنے ہی مظلوم بھائیوں کے لیے امن برقرار رکھنا اس میں شامل نہیں ہے۔

 

اور اس مدت کے بعد، جو اتنی طویل تھی کہ جو لوگ شرعی حکم سے ناآشنا تھے، وہ بھی اہلِ غزہ کی مدد کے اپنے فرض سے متعلق شرعی حکم تلاش کر سکتے تھے، یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ علماء اپنے سر ریت میں چھپائے بیٹھے ہیں، سوائے ان چند افراد کے، جن پر اللہ نے رحم کیا ہے، اور وہ بہت کم ہیں۔ رہ گئی علماء کی اکثریت، اور خاص طور پر "رابطة علماء المسلمین" کی تنظیم، تو وہ پچھلے پندرہ ماہ سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود صرف ایک فتویٰ جاری کرنے تک محدود رہے، جس میں انہوں نے امت کو اللہ کے حکم کے مطابق جہاد کی ترغیب نہیں دی، بلکہ صرف جہاد کے رد نہ کرنے پر اکتفا کیا۔ انہوں نے اور باقی مسلمانوں کے علماء نے، چاہے وہ عالم ہوں یا طالبِ علم، جو منبرِ رسول ﷺ پر بیٹھتے ہیں، اس بات پر زور دیا کہ اہلِ غزہ کی مدد صرف دعاؤں سے حاصل کی جا سکتی ہے۔ یہاں تک کہ ان میں سے ایک نے دعاؤں کو ایٹم بم سے زیادہ طاقتور قرار دیا۔ اور انہوں نے مزاحمت کو صرف "مسنون اعمال کے جہاد" کرنے کی نصیحت کی۔ اس طرح علماء کی یہ کم ہمتی اور پسپائی دیکھ کر، اہلِ غزہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ان علماء سے مکمل طور پر مایوس ہو جائیں۔

 

اہلِ غزہ نے انسانیت سے اور تمام اسلامی ممالک کے موجودہ حکومتی نظاموں سے مایوسی اختیار کر لی ہے، اور اب ان کا واحد سہارا صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، جو الواحد ہے، القهار ہے، اور جو ان کے لیے ایسا مددگار مہیا کرے گا جس کا انہیں گمان بھی نہ ہو گا، اور امید ہے کہ یہ مدد قریب ہی ہو گی۔

 

حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے ریڈیو کے لیے تحریر کردہ

 

بلال المہاجر – ولایہ پاکستان

 

Last modified onہفتہ, 24 مئی 2025 20:20

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک