السبت، 17 محرّم 1447| 2025/07/12
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

سوال کا جواب:

 

یہود کا ایران پر جارحانہ حملہ اور اس سے نکلنے والے نتائج

 

)ترجمہ(

 

 

 

سوال:

 

العربیہ نے اپنی ویب سائٹ پر 27 جون 2025ء کو شائع کیا: چار باخبر ذرائع نے بتایا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ ایران کو سول نیوکلیئر انرجی پروگرام کے لیے 30 ارب ڈالر تک رسائی دینے کے امکان پر بات چیت کر رہی ہے۔ ذرائع کے مطابق، ان مذاکرات کا سلسلہ رواں ہفتے بھی جاری رہا، جنگ بندی کے معاہدے کے بعد۔ ٹرمپ انتظامیہ کے حکام نے تصدیق کی کہ ابتدائی اور پیشرفتہ دونوں نوعیت کی تجاویز پیش کی گئیں، جن میں ایک ناقابلِ مفاہمت شرط یہ تھی: "ایران یورینیم کی افزودگی مکمل طور پر بند کرے"۔

 

ٹرمپ نے ایران اور یہودی وجود کے درمیان اپنی تجویز کردہ جنگ بندی کے نفاذ کا اعلان کیا۔ “نیتن یاہو نے کہا کہ اس نے ٹرمپ کی تجویز قبول کر لی ہے… رائٹرز نے ایک سینئر ایرانی عہدیدار کے حوالے سے بھی کہا کہ تہران نے قطر کی ثالثی اور امریکہ کی تجویز کردہ جنگ بندی پر رضامندی ظاہر کی ہے۔” (الجزیرہ عربی 24/6/2025)

 

یہ سب کچھ اس کے بعد ہوا جب ٹرمپ کی افواج نے 22/6/2025 کو ایران کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا، اور جب یہودی وجود نے 13/6/2025 سے ایران پر اچانک اور وسیع حملہ شروع کیا۔

 

تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ: یہودی وجود نے یہ اچانک جارحیت کیوں کی، خاص طور پر جب وہ اکثر و بیشتر امریکی احکامات پر عمل کرتا ہے؟ کیا ایران خود امریکی اثر و رسوخ کے دائرے میں نہیں آتا؟ اگر ہاں، تو پھر امریکہ ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے میں کس طرح شامل ہو سکتا ہے؟

 

شکریہ۔

 

جواب:

 

وضاحت کے لیے ہم درج ذیل نکات کا جائزہ لیتے ہیں:

 

1- جی ہاں، ایران کا جوہری پروگرام یہودی وجود کے لیے وجودی خطرہ سمجھا جاتا ہے، اسی وجہ سے وہ ہر قیمت پر اسے ختم کرنا چاہتی ہے۔ اسی بنیاد پر اس نے صدر ٹرمپ کی جانب سے 2018ء میں 2015ء کے جوہری معاہدے سے دستبرداری کا خیرمقدم کیا۔ یہودی وجود کا مؤقف بالکل واضح ہے: وہ صرف لیبیا ماڈل کو قبول کرے گی، جس میں ایران مکمل طور پر اپنے جوہری پروگرام کو ختم کر دے، یعنی جوہری عزائم سے مکمل دستبرداری اختیار کر لے۔

 

یہودی وجود نے اس مقصد کے تحت ایران کے اندر اپنی جاسوسی سرگرمیوں میں غیر معمولی تیزی لائی ہے۔ درحقیقت، پہلے ہی روز کے حملے نے ایران کے اندر موساد سے منسلک ایجنٹوں کے ایک منظم نیٹ ورک کو بے نقاب کر دیا — وہی ایجنٹس جو معمولی مالی فوائد کے عوض یہودی انٹیلیجنس کے ساتھ تعاون کر رہے تھے اور حساس اہداف کا سراغ لگا رہے تھے۔ ان افراد نے ڈرونز کے پرزے ایران میں درآمد کیے، مقامی چھوٹی ورکشاپس میں انہیں جوڑا، اور بعد ازاں مختلف اہم مقامات پر حملے کیے، جن میں ایرانی حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں کی رہائش گاہیں بھی شامل تھیں۔ یہ منظرنامہ لبنان میں ایران کی پراکسی تنظیم حزب اللہ کے ساتھ پیش آنے والے واقعے سے مماثلت رکھتا ہے، جب یہودی وجود نے اس کے رہنماؤں کو نشانہ بنایا تھا۔

 

2- امریکہ کا مؤقف اصولی طور پر یہودی وجود کی پشت پناہی پر مبنی تھا؛ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ایران کے جوہری منصوبے کے خلاف کارروائیوں میں اصل محرک قوت خود امریکہ ہی تھی۔ البتہ، ٹرمپ نے اس مقصد کے لئے دو راستے کھلے رکھے: ایک مذاکرات کا، دوسرا فوجی کارروائی کا۔

 

اسی سلسلے میں اپریل 2025ء میں امریکہ اور ایران نے عمان کے دارالحکومت مسقط میں مذاکرات کیے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے ان مذاکرات کو مثبت قرار دیا اور کہا کہ ایران جوہری مسئلے پر جو رعایتیں دے رہا ہے، ان کی نوعیت اور گہرائی اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ ایک نیا معاہدہ قریب ہے۔

 

ٹرمپ نے اس معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے دو ماہ کی ڈیڈلائن مقرر کی۔ ادھر یہودی وجود کے حکام امریکی نمائندے سے باقاعدگی سے ملاقاتیں کرتے رہے، جو خطے کے لئے امریکی نمائندہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایران کے ساتھ مذاکرات میں امریکی وفد کی قیادت بھی کر رہا تھا۔ ہر ایرانی وفد سے ملاقات سے قبل وہ یہودی وجود کے نمائندوں کو مذاکرات کی پیشرفت سے آگاہ کرتا تھا۔

 

3- ٹرمپ انتظامیہ نے اپنے بعض کلیدی افراد کے سخت گیر مؤقف کو اپنایا، جو یہودی وجود کے مؤقف سے گہری مطابقت رکھتے تھے۔ اسی دوران یورپ میں بھی اسی طرح کے سخت گیر خیالات ابھرنے لگے۔

 

یورپی ممالک اس بات پر ناخوش تھے کہ امریکہ ایران کے ساتھ تنہا مذاکرات کر رہا ہے، اور اس طرح اگر کوئی معاہدہ ہوا تو اس کے زیادہ تر فوائد صرف امریکہ کو حاصل ہوں گے۔ یہ اس لئے بھی یورپ کے لئے باعثِ تشویش تھا کہ ایران ٹرمپ انتظامیہ کو پرکشش تجارتی مواقع کا لالچ دے رہا تھا، جن میں تیل و گیس کے معاہدے، ہوابازی کے سودے اور دیگر شعبہ جات شامل تھے، جن کی مالیت سینکڑوں ارب ڈالر تک پہنچ سکتی تھی۔

 

یہ سخت گیر مؤقف ایک سخت رپورٹ کی صورت میں سامنے آیا، جو بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (IAEA) کی جانب سے پیش کی گئی: “تقریباً 20 سالوں میں پہلی بار، آئی اے ای اے کے بورڈ آف گورنرز نے آج، جمعرات 12 جون 2025ء کو اعلان کیا کہ ایران نے جوہری عدم پھیلاؤ سے متعلق اپنی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی کی ہے…” (ڈوئچے ویلے، جرمنی، 12/6/2025)

 

یہ بیان اُس وقت سامنے آیا جب ایرانی سپریم لیڈر پہلے ہی یورینیم کی افزودگی روکنے سے انکار کر چکے تھے۔ خامنہ ای نے کہا: "چونکہ مذاکرات جاری ہیں، میں دوسری جانب کو ایک انتباہ دینا چاہتا ہوں۔ امریکی فریق، جو ان بالواسطہ مذاکرات میں شریک ہے، کھوکھلے بیانات سے گریز کرے۔ ان کا یہ دعویٰ کہ ’ہم ایران کو یورینیم افزودہ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے‘ ایک سنگین غلطی ہے۔ ایران کسی سے اجازت لینے کا محتاج نہیں"۔ ادھر، مشرق وسطیٰ کے لئے امریکی نمائندے اسٹیو وٹکوف نے اتوار کو کہا کہ واشنگٹن کسی بھی ممکنہ معاہدے میں یورینیم افزودگی کی کسی بھی سطح کو قبول نہیں کرے گا۔ انہوں نے اے بی سی نیوز کو بتایا: "ہمارے پاس ایک واضح ریڈ لائن ہے، اور وہ افزودگی ہے۔ ہم 1% بھی افزودگی کی صلاحیت کی اجازت نہیں دے سکتے" (ایران انٹرنیشنل، 20 مئی 2025)

 

4- جب ایران نے یورینیم افزودگی روکنے سے انکار کر دیا اور امریکہ نے مکمل بندش پر اصرار کیا، تو امریکہ اور ایران کے درمیان مذاکرات ایک بند گلی میں داخل ہو گئے، اگرچہ رسمی طور پر ان مذاکرات کے خاتمے کا اعلان نہیں کیا گیا تھا۔ تاہم، 12/6/2025 کو آئی اے ای اے کی رپورٹ کے اجراء کے بعد، یہودی وجود نے امریکہ کے ساتھ ہم آہنگی میں، ایک خفیہ منصوبے کے تحت 13/6/2025 کو اچانک حملہ شروع کیا۔

 

اس حملے کے دوران یہودی وجود نے ایران کی نطنز جوہری تنصیب کو نشانہ بنایا، جو یورینیم افزودگی کا سب سے بڑا مرکز ہے اور جہاں 14,000 سینٹری فیوجز نصب ہیں۔ یہودی وجود نے ایرانی فوج اور پاسدارانِ انقلاب کے کمانڈروں اور جوہری سائنسدانوں کو ہدف بنا کر متعدد قتل کی کارروائیاں کیں، اور میزائل لانچنگ پلیٹ فارمز پر بھی حملے کیے۔

 

اگرچہ یہودی وجود نے حملے کو اس بنیاد پر جائز قرار دیا کہ ایران نے مبینہ طور پر جوہری ہتھیاروں کی تحقیق و ترقی دوبارہ شروع کر دی ہے، جیسا کہ نیتن یاہو نے کہا (روس ٹائمز، 14/6/2025)، لیکن یہ دعویٰ ایرانی بیانات سے رد ہو جاتا ہے، جن میں بارہا کہا گیا ہے کہ ایران کا جوہری ہتھیار بنانے کا کوئی ارادہ نہیں، اور وہ بین الاقوامی معائنہ کاروں کو ہر سطح پر رسائی دینے کے لئے تیار ہے تاکہ اس کے جوہری پروگرام کے پُرامن ہونے کی تصدیق ہو سکے۔

 

البتہ یہ بات ناقابل تردید ہے کہ یہودی وجود امریکی منظوری کے انتظار میں تھی۔ اور جیسے ہی اسے امریکہ کی جانب سے اجازت ملی، حملے کا آغاز ہو گیا۔

 

5- لہٰذا، یہ تصور بھی محال ہے کہ کوئی ذی شعور یہ مانے کہ یہودی وجود نے یہ حملہ امریکی منظوری کے بغیر کیا۔ ایسا ہونا ناممکن ہے۔

 

امریکہ کے اسرائیل میں سفیر، مائیک ہکابی نے جمعرات کو کہا کہ انہیں توقع نہیں کہ اسرائیل، امریکہ سے ’گرین سگنل‘ لئے بغیر ایران پر حملہ کرے گا۔” (عرب 48، 12/6/2025)

 

ٹرمپ اور نیتن یاہو کے درمیان چالیس منٹ کی فون کال کے بعد، “ایک اسرائیلی عہدیدار نے ٹائمز آف اسرائیل کو جمعہ کے روز انکشاف کیا کہ تل ابیب اور واشنگٹن نے ایک ’وسیع میڈیا اور سکیورٹی فریب کاری کی مہم‘ چلائی، جس میں خود ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی بھرپور حصہ لیا، تاکہ ایران کو یہ باور کرایا جائے کہ اس کی جوہری تنصیبات پر حملہ فوری نہیں ہونے والا… اس عہدیدار نے وضاحت کی کہ اس دوران اسرائیلی میڈیا میں یہ خبریں لیک کی گئیں کہ ٹرمپ نے نیتن یاہو کو ایران پر حملے سے باز رہنے کی تنبیہ کی ہے، اور ان لیکس کو ’فریب کاری مہم‘ کا حصہ قرار دیا۔” (الجزیرہ نیٹ، 13/6/2025)

 

اس کے ساتھ ہی امریکہ نے حملے سے قبل یہودی وجود کو مخصوص ہتھیار بھی فراہم کیے، جو حملے میں استعمال ہوئے۔ “میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکہ نے منگل کے روز خفیہ طور پر تقریباً 300 AGM-114 ہیل فائر میزائل اسرائیل کو بھیجے، جیسا کہ امریکی حکام نے بتایا۔ یروشلم پوسٹ نے رپورٹ کیا کہ حکام نے تصدیق کی کہ واشنگٹن کو جمعے کی صبح ایران کی جوہری اور عسکری تنصیبات پر اسرائیلی حملے کا پیشگی علم تھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکی فضائی دفاعی نظام نے بعد میں ایران کی جوابی کارروائی میں داغے گئے 150 سے زائد بیلسٹک میزائلوں کو روکنے میں مدد کی۔ ایک اعلیٰ امریکی دفاعی عہدیدار نے کہا کہ ہیل فائر میزائل ’اسرائیل کے لیے مفید‘ ثابت ہوئے، اور بتایا کہ اسرائیلی فضائیہ نے 100 سے زائد طیارے استعمال کیے تاکہ پاسدارانِ انقلاب کے سینئر افسران، جوہری سائنسدانوں اور اصفہان اور تہران میں کمانڈ سینٹرز کو نشانہ بنایا جا سکے” (روس ٹائمز، 14/6/2025)

 

6- پس، ٹرمپ انتظامیہ نے دانستہ طور پر ایران کو گمراہ کیا، حالانکہ وہ اس سے مذاکرات بھی کر رہی تھی، تاکہ یہودی وجود کا حملہ اچانک اور زوردار ہو، اور اس سے زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالا جا سکے۔ امریکی بیانات اس ارادے کی واضح نشاندہی کرتے ہیں۔ یعنی، امریکہ چاہتا تھا کہ یہودی حملہ ایران پر دباؤ کے ایک ہتھکنڈے کے طور پر استعمال ہو تاکہ وہ جوہری مذاکرات میں مزید رعایتیں دے۔

 

یہ حقیقت اس بات سے بھی واضح ہوتی ہے کہ امریکہ نے یہودی وجود کے حملے کا کھل کر دفاع کیا، اسے “ self defence” قرار دیا، ہتھیار فراہم کیے، اپنے طیارے اور فضائی دفاعی نظام استعمال کیے تاکہ ایران کے ردعمل کو روکا جا سکے — یہ سب اقدامات ایک تقریباً براہ راست امریکی جارحیت کے مترادف ہیں۔

 

امریکی ارادے کو ظاہر کرنے والے بیانات میں ٹرمپ کا وہ تبصرہ بھی شامل ہے جو اس نے اتوار کے دن کینیڈا میں جی 7 اجلاس کے لیے روانگی سے پہلے صحافیوں سے گفتگو میں کیا: “جب تک مجھے لگتا ہے کہ کوئی معاہدہ موجود ہے، میں نہیں چاہتا کہ وہ (اسرائیل) اندر جائیں، کیونکہ میرا خیال ہے کہ یہ سب کچھ برباد کر سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے اس سے فائدہ بھی ہو، لیکن یہ نقصان بھی پہنچا سکتا ہے”۔

 

اسی طرح، اے بی سی نیوز کو دیے گئے انٹرویو میں ٹرمپ نے اسرائیل کی مدد سے ایران کے جوہری پروگرام کو ختم کرنے میں امریکی مداخلت کے امکان کی طرف بھی اشارہ کیا۔ (عرب 48، 16/6/2025)

 

7- امریکہ جنگ کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے تاکہ ایران کو زیر کرے، جیسا کہ ٹرمپ کے اس بیان سے واضح ہوتا ہے: “جب تک مجھے لگتا ہے کہ کوئی معاہدہ موجود ہے، میں نہیں چاہتا کہ وہ (اسرائیل) اندر جائیں، کیونکہ میرا خیال ہے کہ یہ سب کچھ برباد کر سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے اس سے فائدہ بھی ہو، لیکن یہ نقصان بھی پہنچا سکتا ہے”۔ اس بات کی مزید تصدیق ٹرمپ کی جانب سے ایران پر یہودی حملے کو “شاندار” قرار دینے سے ہوتی ہے۔ اس نے کہا: “اب تک بہت زیادہ ہلاکتیں اور تباہی ہو چکی ہیں، لیکن ابھی بھی وقت ہے کہ اس قتلِ عام کو مزید بڑھایا جائے، اور اگلے حملے تو پہلے سے بھی زیادہ سفاک ہوں گے۔” (اے بی سی نیوز، 13/6/2025)

 

ٹرمپ نے یہ بھی کہا: “ایران کو میری بات مان لینی چاہیے تھی جب میں نے انہیں خبردار کیا تھا — شاید آپ کو معلوم نہ ہو، لیکن میں نے انہیں 60 دن کا انتباہ دیا تھا، اور آج اکسٹھواں (61) دن ہے۔ اب انہیں مذاکرات کی میز پر آنا چاہیے، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔ یہ ان کے لیے بہت دیر ہو جائے گی” (سی این این، 16/6/2025)

 

یہ بیانات واضح طور پر ظاہر کرتے ہیں کہ امریکہ نے نہ صرف یہودی وجود کو اس جارحیت کی اجازت دی، بلکہ اسے اس پر عمل کرنے کی ہدایت بھی دی۔

 

ٹرمپ نے اپنے پلیٹ فارم “ٹروتھ سوشل” پر لکھا: “اگر وہ بات کرنا چاہتے ہیں تو جانتے ہیں کہاں آنا ہے۔ انہیں وہ معاہدہ قبول کر لینا چاہیے تھا جو میز پر موجود تھا — اس سے بہت سی جانیں بچ جاتیں!!!” اس نے مزید کہا: “ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی” (روس ٹائمز، 16/6/2025)

 

ایک یہودی عہدیدار نے ایران کی مضبوط فورڈو تنصیب پر بمباری میں امریکہ کے کردار کی وضاحت کرتے ہوئے کہا، ‘امریکہ ایران کے خلاف فوجی کارروائی میں شامل ہو سکتا ہے’، اور یہ کہ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کو بتایا تھا کہ وہ ضرورت پڑنے پر ایسا کرے گا” (العربیہ، 15/6/2025)

 

8- اور بالآخر، یہی کچھ ہوا۔ اتوار کی صبح، 22 جون 2025 کو صدر ٹرمپ نے اعلان کیا کہ "تین ایرانی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا ہے"، اور ساتھ ہی امریکی حملے کی کامیابی کی تصدیق بھی کی۔ اُن کے مطابق، حملے میں فورڈو، نطنز اور اصفہان کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا، اور انہوں نے ایران سے مطالبہ کیا کہ وہ جنگ ختم کر کے امن قائم کرے۔ اسی دن امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگسیٹھ نے بیان دیا: "امریکی حملے نے ایران کے جوہری عزائم کا خاتمہ کر دیا ہے۔" (بی بی سی، 22 جون 2025)

 

اس کے بعد “سی این این نے پیر کی شام انکشاف کیا کہ ایران نے قطر میں امریکی العدید ایئربیس پر مختصر اور درمیانے فاصلے کے بیلسٹک میزائلوں سے حملہ کیا۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ امریکی جنگی طیاروں کو اس حملے سے قبل ہفتے کے اختتام پر وہاں سے منتقل کر دیا گیا تھا۔ رائٹرز نے مزید بتایا: “ایران نے حملے سے چند گھنٹے قبل امریکہ کو اس کی اطلاع دے دی تھی اور دوحہ کو بھی مطلع کر دیا تھا” (سکائی نیوز عربیہ، 23/6/2025)

 

پیر کے دن ٹرمپ نے کہا: “میں ایران کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ اس نے ہمیں پہلے ہی خبردار کر دیا، جس کی وجہ سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔” (سکائی نیوز، 24/6/2025)

 

9- پھر، امریکہ اور یہودی وجود کے حملوں اور ایران کے جوابی حملوں کے بعد، جن میں جانی و مالی دونوں لحاظ سے بڑا نقصان ہوا، “ایرانی وزارتِ صحت کے ترجمان نے کہا کہ اسرائیلی حملوں میں اب تک 610 افراد شہید اور 4,746 زخمی ہو چکے ہیں… جبکہ اسرائیلی وزارتِ صحت کے مطابق، 13 جون سے اب تک 28 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔” (بی بی سی نیوز، 25/6/2025)

 

ان حملوں کے بعد، ٹرمپ — جس نے یہ جنگ یہودی وجود کو حملے پر اکسا کر شروع کی، اور خود اس میں شریک بھی ہوا — اب منظر پر واپس آ کر جنگ بندی کا اعلان کرتا ہے۔ اور یہودی وجود اور ایران دونوں اس جنگ بندی کو قبول کر لیتے ہیں، گویا ٹرمپ ہی ان دونوں کے درمیان جنگ کا منیجر ہے، اور وہی فیصلہ کرتا ہے کہ جنگ کب شروع ہو اور کب ختم“۔ ٹرمپ نے ایران اور یہودی وجود کے درمیان اس جنگ بندی کے نفاذ کا اعلان کیا، جسے اس نے خود تجویز کیا تھا۔ نیتن یاہو نے کہا کہ وہ ٹرمپ کی تجویز سے متفق ہے… رائٹرز نے ایک سینئر ایرانی عہدیدار کے حوالے سے بتایا کہ تہران نے قطر کی ثالثی اور امریکہ کی تجویز کردہ جنگ بندی کو قبول کر لیا ہے” (الجزیرہ، 24/6/2025)۔

 

اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ جنگ، جسے ٹرمپ نے بھڑکایا اور پھر روکا، دراصل اس کے اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے تھی، جن میں ایران کی جوہری و میزائل صلاحیتوں کا خاتمہ شامل ہے۔ نیٹو سمٹ کے لئے دی ہیگ روانگی سے قبل صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا: “ایران کی کلیدی افزودگی تنصیبات مکمل طور پر تباہ کر دی گئی ہیں”۔ اس نے مزید کہا کہ “اسرائیل ایران پر حملہ نہیں کرے گا اور جنگ بندی نافذ ہو چکی ہے” (الجزیرہ، 24/6/2025)

 

10- جہاں تک ایران کا امریکہ کے دائرہ اثر میں ہونے کا تعلق ہے، تو ہاں، ایران حقیقتاً ایک ایسی ریاست ہے جو امریکہ کی مدار میں گردش کر رہی ہے، یعنی ایک تابع ریاست۔ یہ امریکی مفادات کی تکمیل کے ذریعے اپنے مفادات کو حاصل کرنا چاہتی ہے۔

 

اسی بنیاد پر اس نے افغانستان اور عراق پر امریکی قبضے میں مدد دی، اور اس قبضے کو مستحکم کیا۔ اسی طرح اس نے شام میں امریکی ایجنٹ بشار الاسد کی حفاظت کے لئے مداخلت کی، اور یمن و لبنان میں بھی ایسا ہی کیا۔ ان تمام اقدامات کا مقصد اپنے علاقائی اثر و رسوخ کو بڑھانا تھا، اگرچہ وہ امریکہ کے دائرہ اثر کے اندر رہ کر ہی ہو۔

 

لیکن ایران یہ حقیقت سمجھنے سے قاصر رہا کہ جب امریکہ محسوس کرتا ہے کہ کسی تابع ریاست سے اپنے مفادات حاصل کر چکا ہے، یا اس ریاست کے کردار اور اثر و رسوخ کو محدود کرنا چاہتا ہے، تو وہ پہلے سفارتی دباؤ ڈالتا ہے، اور اگر ضروری ہو تو فوجی دباؤ کا سہارا لیتا ہے۔ یہی صورتحال آج ایران کو درپیش ہے۔

 

لہٰذا، یہ حملہ جو یہودی وجود نے امریکی ہدایت اور حمایت سے کیا، اس کا مقصد ایران کی عسکری قیادت، خاص طور پر جوہری شعبے میں، اور ان مشیروں کا خاتمہ ہے جو حالیہ عرصے میں یہودی وجود سے متعلق امریکی پالیسی کے برخلاف نقطہ نظر اپنانے لگے تھے۔

 

امریکہ کو ان ریاستوں کی کوئی پرواہ نہیں، کیونکہ اسے یقین ہے کہ آخرکار یہ اسی حل کو قبول کریں گی جو امریکہ پیش کرے گا۔

 

11- یہ اب جنگ بندی کے بعد امریکی منصوبے کے طور پر کھل کر سامنے آ چکا ہے، جس کا مقصد ایران کی فوجی جوہری صلاحیت کو ختم کرنا ہے:

 

چار باخبر ذرائع نے انکشاف کیا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ ایران کو دوبارہ مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے 30 ارب ڈالر تک مالی رسائی دینے، اقتصادی پابندیوں میں نرمی، اور منجمد اثاثوں کی بحالی پر غور کر رہی ہے۔ ذرائع کے مطابق، گزشتہ دو ہفتوں کے دوران ایران اور اسرائیل پر ہونے والے فوجی حملوں کے باوجود، امریکہ اور مشرق وسطیٰ کے اہم فریقین نے ایران سے خفیہ مذاکرات جاری رکھے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ یہ مذاکرات جنگ بندی کے بعد اس ہفتے بھی جاری رہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کے حکام نے تصدیق کی کہ ایران کے ساتھ ابتدائی اور پیشرفتہ دونوں نوعیت کی متعدد تجاویز پر بات چیت ہوئی، تاہم ایک غیر لچکدار شرط واضح طور پر رکھی گئی: ایران کو یورینیم کی افزودگی مکمل طور پر روکنا ہو گا۔(العربیہ، 27 جون 2025)

 

12- آخرکار، اس امت کی سب سے بڑی مصیبت اس کے حکمرانوں میں ہے۔ ایران کو مسلسل حملوں کی دھمکیاں دی جاتی رہیں، مگر اس نے کبھی دفاع میں پہل نہ کی—حالانکہ ایسے دشمن کے مقابلے میں، جیسا کہ یہودی وجود، حملہ ہی بہترین دفاع ہوتا ہے۔ ایران مسلسل خاموش رہا، یہاں تک کہ اس کی جوہری تنصیبات تباہ کر دی گئیں، اور اس کے سائنس دانوں کو شہید کر دیا گیا۔ تب جا کر اس نے محدود ردعمل دکھایا۔ امریکی حملوں کے معاملے میں بھی ایران کا یہی کمزور اور تاخیری رویہ سامنے آیا۔

 

پھر ٹرمپ جنگ بندی کا اعلان کرتا ہے، اور یہودی وجود اور ایران دونوں اس کو قبول کرتے ہیں۔ اس کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ امریکہ مذاکرات چلا رہا ہے، منصوبے پیش کر رہا ہے، اور اعلان کر رہا ہے کہ ایران کی یورینیم افزودگی کی مکمل بندش ایک ناقابلِ تبادلہ شرط ہے!

 

ہم خبردار کرتے ہیں کہ یہ جنگ کسی بھی قسم کے یہودی وجود کے ساتھ امن یا ایران کے غیر مسلح کیے جانے پر ختم نہ ہو۔

 

 

مسلمان ممالک کے دیگر حکمرانوں کا بھی یہی حال ہے، خاص طور پر وہ جو یہودی وجود کے آس پاس ہیں — دشمن کے طیارے ان کے سروں پر پرواز کرتے ہیں، مسلمانوں کی زمینوں پر بم گراتے ہیں، اور بحفاظت واپس لوٹتے ہیں، اور ان پر کوئی فائر تک نہیں کرتا! یہ مکمل طور پر امریکہ کے تابع ہیں…یہ اپنی بے عملی کو جواز فراہم کرتے ہیں، اور ان مصنوعی قوم پرستانہ سرحدوں کی تقدیس کرتے ہیں، بھول کر یا جان بوجھ کر نظرانداز کرتے ہوئے کہ مسلم سرزمین ایک ہے، چاہے وہ زمین کے کسی بھی کونے میں ہو۔

 

اہلِ ایمان کی جنگ اور امن ایک ہے۔ ان کے فقہی مذاہب انہیں تقسیم نہیں کر سکتے، جب تک وہ مسلمان ہیں۔ یہ حکمران اپنے عمل سے تباہی کے راستے پر گامزن ہیں۔ یہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ کے سامنے جھک کر وہ محفوظ ہو جائیں گے۔ لیکن یہ نہیں جانتے کہ امریکہ انہیں ایک ایک کر کے نشانہ بنائے گا، اور ان کے ایسے ہتھیار چھین لے گا جو یہودی وجود کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں — جیسا کہ وہ شام کی عسکری قوت کو تباہ کر چکا، اور اب ایران کے ساتھ بھی یہی کر رہا ہے۔

 

آخرکار، یہ حکمران دنیا و آخرت میں صرف ذلت در ذلت کے وارث ہوں گے:

 

﴿سَيُصِيبُ الَّذِينَ أَجْرَمُوا صَغَارٌ عِندَ اللهِ وَعَذَابٌ شَدِيدٌ بِمَا كَانُوا يَمْكُرُونَ﴾

” وہ لوگ جنہوں نے جرائم کیے، ان پر عنقریب اللہ کے ہاں ذلت و خواری نازل ہو گی، اور ان کی سازشوں کے بدلے شدید عذاب بھی“ [الأنعام: 124]

 

کیا وہ عقل نہیں رکھتے؟ یا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

 

﴿صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَعْقِلُونَ﴾

”وہ بہرے ہیں، گونگے ہیں، اندھے ہیں، پس وہ کچھ سمجھتے نہیں۔“ [البقرہ: 171]

 

 

اے مسلمانو!

 

تم دیکھ رہے ہو اور سن رہے ہو کہ تمہارے حکمرانوں نے کس طرح تم پر ذلت، رسوائی اور کفار استعمار کے آگے جھکاؤ مسلط کر دیا ہے۔ حتیٰ کہ وہ یہودی جن پر ذلت اور پستی مسلط کی گئی تھی، آج مقدس سرزمین پر قابض ہیں!

 

اور بلاشبہ، تم جانتے ہو کہ تمہاری عزت صرف اسلام اور اسلامی ریاست، خلافت راشدہ میں ہے، جس کی قیادت ایک نیک خلیفہ کرے گا، جس کے پیچھے تم جہاد کرو گے اور جس کے ذریعے تم محفوظ رہو گے۔ اور بلاشبہ، اللہ تعالیٰ کے حکم سے یہ خلافت مخلص مومنوں کے ہاتھوں قائم ہو گی، ان الفاظ کی تکمیل کرتے ہوئے جو رسول اللہ ﷺ نے فرمائے:

 

»لَتُقَاتِلُنَّ الْيـهُودَ فَلَتَقْتُلُنَّهُمْ«

 ” تم ضرور یہودیوں سے جنگ کرو گے، اور یقیناً انہیں قتل کرو گے“

 

پھر زمین، اللہ کی غالب و حکیم نصرۃ سے روشن ہو جائے گی۔

 

آخر میں، حزب التحریر — وہ رہنما ہے جو اپنی امت سے جھوٹ نہیں بولتی — تمہیں پکارتی ہے کہ اس کی مدد کرو، اور اس کے ساتھ مل کر خلافتِ راشدہ کے قیام کے لئے کام کرو، تاکہ اسلام اور اہلِ اسلام کو عزت حاصل ہو، اور کفر اور اس کے پیروکاروں کو ذلت نصیب ہو۔ یہی ہے اصل، عظیم کامیابی:

 

﴿وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ * بِنَصْرِ اللهِ يَنْصُرُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ﴾

”اور اس دن مومن خوش ہوں گے * اللہ کی نصرت سے، وہ جسے چاہے نصرت دیتا ہے، اور وہی زبردست، نہایت رحم کرنے والا ہے۔ “

[الروم: 4–5]

 

3 محرم 1447 ہجری

 

28 جون 2025 عیسوی

 

#أمير_حزب_التحرير

 

#Ameer_Hizb_ut_Tahrir

 

Last modified onجمعرات, 10 جولائی 2025 20:33

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک