السبت، 30 جمادى الثانية 1447| 2025/12/20
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

لبرل ازم ( آزاد خیالی)ایک جھوٹ اور دھوکہ ہے جو ایک انسان کو دوسرے انسان کا غلام بنادیتا ہے

تحریر: ابن نصرۃ
لبرل ازم کے بنیادی تصورات سترویں صدی سے لے کر انیسویں صدی کے درمیان برطانیہ میں نمودار ہوئے اور نشونما پائے۔ ان صدیوں میں لبرل ازم کے تصورات اپنے مخالفوں کے خلاف اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے استعمال کیے جاتے تھے۔ لوکی نے لبرل تصورات کو بادشاہت کے خلاف برطانوی تاجروں کی اشرافیہ کی حمائت میں استعمال کیا؛ اور افادیت(Utilitarian) کے نظریات کے حامل فلاسفروں نے لبرل ازم کو برطانوی سرمایہ داروں کی حمائت میں جاگیر داروں کے خلاف استعمال کیا۔اسی دوران انتہاء پسند فرانسیسی انقلابیوں نے خفیہ برطانوی حمائت سے لبرل ازم کو اپنی ریاست اور یورپ کی دوسری ریاستوں کو غیر مستحکم کرنے کے لیے استعمال کیا۔ اس کے علاوہ امریکی سرمایہ داروں کے ایک گروہ نے اس تصور کو برطانیہ میں ایک گروہ کے خلاف استعمال کیا ۔ لبرل ازم کو بین الاقوامی سطح پر عثمانی خلافت کے خلاف استعمال کیا گیا اور اس کے خاتمے کے بعد اس تصور کو نئی دشمن آئیڈیالوجیز (نظریہ حیات) فاشزم اور کمیونزم کے خلاف استعمال کیا گیا۔ بل آخر اکیسویں صدی میں ایک بار پھر لبرل ازم کو اسلامی آئیڈیا لوجی کو اُبھرنے سے روکنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے ۔ لہذا مخلص مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ لبرل ازم کے فلسفے کو جانیں اور مغرب کے ایک نظریاتی ہتھیار کے طور پر اس کا فہم حاصل کریں ۔
لبرل ازم آزادی کے تصور کی ترجمانی کرتا ہے(یہ لاطینی لفظ لیبر جس کا مطلب آزاد ہے سے نکلا ہے)، جو کہ ایک بہت ہی پُرکشش نعرہ ہے خصوصاً ان لوگوں کے لیے جن کا استحصال کیا جارہا ہو لیکن اس کا اصل مطلب عام زبان میں استعمال ہونے والے معنی سے مختلف ہے۔ لبرل کے عام معنی آزادی کے ہی ہیں یعنی کسی مخصوص روکاوٹ سے نجات حاصل کرنا جیسا کہ غلامی سے آزادی یا فوجی قبضے سے آزادی وغیرہ۔ لیکن سیاسی لحاظ سے آزادی کے معنی جیسا کہ لبرل ازم نے واضع کیا ہے وہ یہ ہے کہ انسان کو اس بات کی آزادی حاصل ہو کہ وہ جو چاہے عمل اختیار کرسکے۔ لہذا سیاسی معنوں میں آزادی کا مطلب یہ تصور بن گیا کہ انسان خودمختار(اقتدار اعلیٰ) ہے۔
یہ ضروری ہے کہ آزادی کے عام معنوں سے ہٹ کر انسان کے خودمختار بننے کے تصور اور اس کے نتائج کو سمجھا جائے۔ انسان کی خودمختاری کا مطلب یہ ہے کہ انسان دنیا کی زندگی میں اپنے لیے راہ کا تعین خود کرے، اسے اس بات کی اجازت نہیں کہ وہ کسی اور طاقت اور اقتدار اعلیٰ کے سامنے جھک جائے چاہے وہ ایسا اپنی مرضی سے ہی کیوں نہ کرے۔ مثال کے طور پر اگر ایک شخص آزادنہ طور پر بادشاہت کے زیر سایہ رہنے کا فیصلہ کرتا ہے تو اس نے اپنے اقتدار اعلیٰ(خود مختاری) سے دست برداری اختیار کرلی اور اس طرح اُس نے لبرل ازم کے تحت آزادی کے معنی کے الٹ راہ اختیار کی۔ انسان کا خودمختار (مقتدر) ہونا ہی وہ آزادی کا مقبول عام تصور ہے جو کہ مغربی تہذیب اور زندگی کے پیشتر نظاموں کی بنیاد ہے خصوصاً اس کے لبرل جمہوری حکومتی نظام اور اس سے نکلنے والے سرمایہ دارانہ معاشی نظام کی۔
آزادی کا مطلب طاقتور کے ہاتھوں انسان کی غلامی ہے
لبرل ازم آزادی کا مسحورکُن لیکن دھوکے پر مبنی تصور ہے ،جو طاقتوروں کے ہاتھ میں ایک انتہائی مہلک ہتھیار ہے۔ حقیقت میں ایک واحد انسان یا فرد روزمرہ زندگی میں پیش آنے والے تمام مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا؛ لہذا بل آخر یہی ہوتا ہے کہ وہ دوسروں کے تجویز کردہ حل کو ہی اختیار کرتا ہے۔ لبرل معاشروں میں طاقتور لوگ مسائل کے اُن جوابات کی ترویج کرتے ہیں جو ان کے مفادات کو پورا کرنے کا باعث بنتے ہوں چاہے اس سے ایک عام شہری کا حق ہی کیوں نہ مارا جارہا ہو۔ سرمایہ دارانہ معیشت کاروباری اشرافیہ کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے اور "نمائندہ " جمہوریت سیاسی اشرافیہ کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے۔ لبرل ازم کے تحت حاصل آزادی دراصل ایک عام آدمی کی طاقتوروں کے ہاتھوں غلامی ہے۔
حقیقت میں انسان اس بات کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا کہ وہ اپنی ذات میں خود اپنے آپ پر مقتدرہو۔ اقتدار اعلیٰ صرف اُسی کے لیے ہے جس نے انسان کو پیدا کیا اور صرف وہی ہے جو یہ جانتا کہ اُس نے انسان کو کیوں پیدا کیا اور صرف اُسی کے پاس انسان کی فطرت کے متعلق مکمل علم ہے۔ اپنے لیے غلط طریقے سے اقتدار اعلیٰ کا منصب حاصل کر کےاپنیخدائیکااعلانکردیاہے اور اس حق کو چھین لیا جو صرف اور صرف اُس ذات کے لیے مخصوص ہے جس نے اُسے پیدا کیا ہے ۔
انسان نے خود کو پیدا نہیں کیا بلکہ اسے پیدا کیا گیا ، انسان خود سے اپنی زندگی کا مقصد نہیں جانتا اورنہ ہی انسان کے پاس اپنی فطرت سے متعلق مکمل اور صحیح علم موجود ہے۔ انسان اس قابل ہی نہیں کے خود اپنے آپ پر مقتدر ہو بالکل ویسے ہی جیسے کوئی بھی دوسری پیدا کی گئی یا بنائی گئی چیز خود پر مقتدر نہیں ہوتی یعنی وہ یہ نہیں جان سکتیں کہ انھیں کیوں بنایا گیا ہے۔ یہاں تک کہ خدا کا انکار کرنے والے بھی یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ انھوں نے خود اپنے آپ کو تخلیق کیا ہے، لہذا انسان کے لیے مقتدر ہونے کا دعویٰ کرنا ایک بہت بڑی غلطی ہے۔ جس طرح انسان نے یہ دیکھا کہ اسے پیدا کیا گیا ویسے ہی اُسے اِس بات کی جستجو کرنی چاہیے کہ کس نے اُسے پیدا کیا ہے تا کہ وہ اپنے پیدا کرنے والے کی عظمت کا معترف ہوسکے کیونکہ وہی اصل مقتدر ہے۔
لبرل ازم مذہب کا دشمن ہے
عیسائیت کے زیر سایہ ہزار برس سے بھی زائد عرصے تک رہنے کے بعد مغرب نے مذہب کو زندگی سے جدا کردیا اور لبرل ازم کو نئی تہذیب کی بنیاد کے طور پر اختیار کرلیا۔ لبرل ازم نے عیسائی دنیا کو یہ سوچ دے کر دھوکہ دیا کہ مذہبی آزادی کے تصور کے تحت وہ اپنے مذہب پر جس طرح چاہیں عمل کرسکتے ہیں۔ لیکن حقیقت میں لبرل ازم مذہب کا مخالف تصور ہے جو تمام مذاہب کا دشمن ہے۔ ایسا اس لیے ہے کیونکہ مذہب اپنی فطرت میں انسان کو اپنے سامنے جھکنے کا حکم دیتا ہے۔ کوئی بھی مذہب انسان کو مقتدر قرار نہیں دیتا اور اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ اپنی مرضی اور خواہشات کے مطابق عمل اختیار کرے۔ مذہب انسان کو ایک مخصوص نظم و ضبط کا پابند کرتا ہے چاہے وہ نظم و ضبط اس کی پوری زندگی کا احاطہ کرتا ہو یا صرف اخلاقی اور روحانی مسائل تک محدود ہو۔
لبرل ازم براہ راست مذہب سے ٹکراتا ہے کیونکہ لبرل ازم انسان سے اس بات کا تقاضع کرتا ہے کو وہ خود کو صرف اور صرف لبرل تصور کا پابند بنائے ۔ لبرل ازم اللہ سبحانہ و تعالی کی جگہ انسان کو رب بنا دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فرانس کا نقاب کو مسترد کرنا لبرل ازم کے عین مطابق ہے۔ نقاب اس بات کا مظہر ہوتا ہے کہ انسان نے خود کو اپنے رب کی خواہش کا پابند کردیا ہے اور یہ چیز پورے لبرل مغربی دنیا میں نفرت کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے چاہے ان تمام ممالک نے اس کو غیر قانونی قرار نہیں دیا ہے۔ ایک حقیقی لبرل انسان مذہب کا پابند نہیں ہوسکتا ۔ ایک لبرل انسان مذہب کی کچھ باتوں پر عمل یا اجتناب اختیارکرسکتا ہے لیکن ایسا وہ اپنی مرضی اور خواہش کے تحت ہی کرتا ہے۔
لبرل انسان اپنے رب کی نہیں بلکہ خود اپنی پرستش کرتا ہے۔ یہ اس مقتدر کی پرستش ہے جسے اُس نے خود اپنے لیے چُنا ہے کہ اُس نے کس طرح سے سوچنا ہے اور اپنی خوشی کے مطابق عمل کرنا ہے۔ اگر وہ اپنے رب کی عبادت بھی کرتا ہے تو اس لیے نہیں کہ وہ خود کو اس بات کا پابند سمجھتا ہے بلکہ وہ ایسا اس لیے کرتا ہے کہ وہ اس کی خواہش رکھتا ہے۔ لبرل انسان اس بات میں خوشی محسوس کرتا ہے جب وہ کسیمسلمان کو نماز پڑھنے کے ساتھ ساتھ شراب پیتا ہوا بھی دیکھتا ہے۔ لبرل اس طرح کے مسلمان کو "اعتدال پسند" سمجھتا ہے، جس سے اُس کی مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ مذہب میں اپنی خواہشات کی پیروی کرتا ہے۔ ایک حقیقی لبرل انسان اس شخص سے شدید نفرت کرتا ہے جو خود کو اپنے رب کے سامنے مکمل طور جھکا دیتا ہے۔
آزادی نہیں ذمہ داری
آزادی کے اس تصور نے جس چیزکو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے وہ انسان کا ذاتی احساس ذمہ داری کا تصور ہے۔ انسان کو تخلیق کرنے والے رب نے اُس کو اپنی تمام تر تخلیقات سے برتر قرار دیا ہے کیونکہ رب نے اُسے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے نوازا ہے جس کے ذریعے وہ صراط مستقیم اور بدی کی راہ کے درمیان تفریق اور کسی ایک کا چُناؤ کرسکتا ہے۔ اسلام میں ہر بالغ، عاقل فرد ہر اس معاملے میں ذمہ دار اور قابل احتساب تصور کیا جاتا ہےجس کو اس کے لیے لازمی قرار دیا گیا ہو(فقہ کی اصطلاح میں انسان "مکلف"ہے)۔ لہذا اس پر لازم ہے کہ وہ اس ذمہ داری کو اٹھائے جو اس پر ڈالی گئی ہے نہ کہ وہ یہ کہے کہ میں آزاد ہوں چاہوں تو اپنی ذمہ داری ادا کروں چاہوں تو نہ کروں۔ انسان پر یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان دو راستوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرے اور وہ اپنے اس فیصلے پر قیامت کے دن جوابدہ ہوگا۔
ذمہ داری اور احتساب ، آزادی سے ایک بالکل مختلف شے ہے۔ آزادی تباہ کُن، باغیانہ اور مفاد پرستی کا تصور ہے جو انسان کو اپنی خواہشات اور مفاد کے تحت چلنے کی تعلیم دیتا ہے چاہے یہ اس کے لیے یا کسی دوسرے کے لیے کتنا ہی نقصان کا باعث ہی کیوں نہ ہو۔ ذمہ داری اس بات کا تقاضع کرتی ہے کہ انسان اس بات سے باخبر ہو کہ اس کے اٹھائے جانے والے قدم کا اس کے لیے اور دوسروں کے لیے کیا نتیجہ نکلے گا۔ ہر عاقل و بالغ شخص اس قابل ہوتا ہے کہ وہ روز مرہ کی زندگی میں اپنے اعمال پر ذمہ دار ہو سکے کیونکہ وہ اس قابل ہوتا ہے کہ یہ جان سکے کہ اس کے اٹھائے ہوئے قدم کا اس کے لیے اور دوسروں کے لیے کیا نتیجہ برآمد ہوگا۔ یقیناً تمام مذاہب انسان کو اس دنیا کی زندگی میں اپنے اعمال کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ کوئی بھی مذہب انسان کو آزادی فراہم نہیں کرتا ۔
لبرل ازام ایک جھوٹا فلسفہ ہے جس نے کئی نسلوں کو دھوکہ دیا اورعملاً طاقتور کو اقتدار اعلیٰ دے کر دنیا میں جبر اور استحصال کا ماحول پیدا اور عام کیا۔ یہ تصور پہلے ہی عیسائی اور اسلامی تہذیبوں کو تباہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاچکا ہے جنھوں نے دنیا پر ہزار سال سے بھی زائد عرصے تک اپنی بالادستی برقرار رکھی تھی۔ اب اس تصور کو اسلام کو دوبارہ ایک بالادست قوت بننے سے روکنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ لبرل ازم اپنی بنیاد سے ہی غلط ہے۔ لبرل ازم کے فلسفے میں کی جانے والی تبدیلیاں اس کی غلطی اور جھوٹ کو تبدیل نہیں کرسکتیں۔ لبرل ازم کو مکمل طور پر مسترد کرنا ضروری ہے جس میں مسائل پر سوچنے اور ان کے حل تک پہنچنے کا طریقہ کار بھی شامل ہے جو کہ اس غلط تصور پر قائم ہے۔ مغربی تہذیب کو لازماً ختم کردینا چاہیے اور اس کی جگہ مذہب کی بنیاد پر ایک نئی تہذیب کو کھڑا کرنا چاہیے تا کہ انسان دوسرے انسانوں کی غلامی اور پرستش سے آزادی حاصل کرکے صرف اور صرف اپنے رب کی ہی عبادت کرسکے۔

Read more...

کل جماعتی کانفرنس افغانستان میں امریکی قبضے کو جاری رکھنے اور امریکی جنگ کو ہماری جنگ قرار دینے کے لیے منعقد کی گئی

تحریر: شہزاد شیخ
(پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان)
تاریخ:20ستمبر2013

خبر:

9 ستمبر 2013 کو حکومت پاکستان نے اسلام آباد میں کل جماعتی کانفرنس منعقد کی۔ اس کانفرنس میں صرف سیاسی جماعتوں ہی نے شرکت نہیں کی بلکہ افواج پاکستان کی سینئر ترین قیادت، آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی اور ڈائریکٹر جنرل آئی۔ایس۔آئی ظہیر الاسلام نے بھی شرکت کی۔ اس کانفرنس کا مقصد پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ سے باہر نکالنے کے لیے کسی مشترکہ لائحہ عمل پر متفق ہونا تھا ۔ کانفرنس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ ملک میں امن کی خاطر حکومت قبائلی عوام کے ساتھ فوجی آپریشنز کی جگہ مذاکرات کا سلسلہ شروع کرے۔

تبصرہ:

جیسے جیسے 2014 قریب تر آتا جارہا ہے ویسے ویسے امریکہ افغانستان سے انخلاء کے نام پر اپنے قبضے کو مستقل رکھنے کے لیے طالبان کے ساتھ کسی دیر پا معاہدے کے لیے کی جانے والی کوششوں میں تیزی لاتا جارہا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے امریکہ نے طالبان کو قطر میں اپنا دفتر قائم کرنے کی اجازت دی اور پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کو حکم دیا کہ وہ طالبان قیدیوں کو رہا کریں۔ 9 ستمبر کو ہونے والی کل جماعتی کانفرنس بھی اسی امریکی ہدف کے حصول کو یقینی بنانے کے لیے منعقد کی گئی۔اس کانفرنس میں حکومت کو یہ کہا گیا کہ وہ قبائلی لوگوں کے ساتھ مذاکرات کا راستہ اختیار کرے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی اس کانفرنس نے اس امریکی جنگ کو یہ کہہ کر اپنا قرار دے دیا کہ "دہشگردی کےخلاف جنگ کےطریقہ کاراوروسائل کافیصلہ خودکرینگے"۔ تو اب اگر طالبان امریکی شرائط کے مطابق افغانستان سے محدود انخلاء کے منصوبے کو قبول نہیں کریں گے تو پاکستان فوری طور پر طالبان کے خلاف "ڈنڈا " اٹھا سکتے ہیں۔
یہ بات انتہائی قابل افسوس ہے کہ وہ جماعتیں جو دن رات اس امریکی جنگ سے پاکستان کو نکالنے کا مطالبہ کرتی رہتی ہیں انھوں نے بھی اس کانفرنس کے اعلامیہ پر دستخط کردیے۔ انھوں نے سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کی جانب سے اختیار کیے جانے والے اس موقف کی بھی تائید کردی ہے کہ یہ انخلاء پاکستان کی کامیابی ہے۔ حقیقت یہ ہے امریکی صدر اوبامہ سمیت کئی امریکی عہدیدار اس بات کا اظہار ایک سے زائد بار کرچکے ہیں کہ 2014 کے بعد بھی افغانستان میں امریکی افواج درجنوں کی تعداد میں نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں موجود رہیں گی ۔ ان ہزاروں امریکی افواج کے مستقل قیام کے لیے امریکہ افغانستان میں 9 فوجی اڈے قائم کرنا چاہتا ہے۔ امریکہ یہ بات بھی کئی موقعوں پر واضع کرچکا ہے کہ مذاکرات کی کامیابی کے لیے یہ ضروری ہے کہ امریکہ کی نگرانی میں بنائے گئے افغانستان کے آئین کو لازماً قبول کیا جائے۔ ان تمام باتوں سے بڑھ کر اوبامہ اورکرزئی 2مئی2012 کو ایک سٹریٹیجک معاہدے پر دستخط کرچکے ہیں جس کے تحت 2014 کے بعد بھی امریکہ کو افغانستان میں سیکیورٹی کے امور کے علاوہ بھی کام کرنے کی اجازت ہو گی۔
یہ صورتحال کس طرح پاکستان کی کامیابی ہوسکتی ہے؟ وہ ملک جو اپنے "کالے بجٹ" کا بڑا حصہ اپنے اعلانیہ دشمنوں ایران اور شمالی کوریا کے خلاف خرچ نہیں کررہا بلکہ پاکستان اور اس کے ایٹمی اثاثوں کی جاسوسی پر خرچ کررہا ہے ،اسے پاکستان کی دہلیز،افغانستان میں مستقل قیام کی اجازت دے دی جائے گی۔ اس کے علاوہ پاکستان کا ازلی دشمن بھارت افغانستان میں امریکی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کے خلاف سازشوں کے سلسلے کوجاری رکھ سکے گا۔ یقیناً ہندو ریاست نے پاکستان کے خلاف سازشیں کرنے کے لیے افغان سرحد کے ساتھ قونصلیٹس کے پردے میں سینکڑوں اڈے قائم کررکھے ہیں ۔ تو پھر کس طرح پاکستان کی دہلیز پر ہزاروں امریکی افواج کی موجودگی پاکستان کی کامیابی ہوسکتی ہے؟
یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ آمریت اور جمہوریت دونوں ہی امریکی مفادات کا تحفظ کرتی ہیں اور جو بھی جماعتیں ان دونوں میں سے کسی میں بھی شرکت کرتی ہیں کبھی بھی امریکی مطالبات اور احکامات سے روگردانی کرنے کی جراءت نہیں کرسکتیں۔ پاکستان میں صرف خلافت کا قیام ہی خطے سے امریکی راج کا خاتمہ کرسکتا ہے۔ خلافت امریکی سفارت خانہ، قونصلیٹس، اڈوں اور نیٹو سپلائی لائن کو بند اور اس کے سفارتی و فوجی اہلکاروں کو ملک بدر کردے گی۔ اور اگر اس کے بعد بھی امریکہ نے اس خطے میں رہنے کی کوشش کی تو خلافت افواج اور مخلص مجاہدین کی مشترکہ طاقت کے ساتھ اس کے خلاف جہاد کا اعلان کردے گی۔

Read more...

آل پارٹیز کانفرنس :امریکی راج کو برقرار رکھنے کی کوشش امریکہ کےہاتھوں ہماری خودمختاری کی دھجیاں اڑانے کے لیےکیانی و شریف حکومت نے مزید وقت حاصل کرلیا

9ستمبر2013 کو ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس اور اس میں منظور کی جانے والی قرارداد پاکستان میں امریکی راج کو مزید دوام بخشنے کی ایک اور کوشش ہی ثابت ہوئی۔ ایک طرف تو قرارداد یہ اعلان کرتی ہے کہ پاکستان کی سالمیت اور خودمختاری کا تحفظ کیا جائے گا لیکن اس کے ساتھ ہی اس بات کو بھی یقینی بنایا گیا کہ امریکہ پاکستان کی خودمختاری سے ماضی کی طرح کھیلتا بھی رہے۔ اس قرارداد میں ڈرون حملوں کی مذمت کی گئ جس کے نتیجے میں ہزاروں مسلمان مرد، عورتیں اور بچے شہید ہوچکے ہیں جبکہ پاکستان تن تنہا امریکہ کے ڈرون پروگرام کو تباہ و برباد کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتا ہے ۔اس کے علاوہ اس بات کے باوجود کہ اللہ سبحانہ و تعالی نے مسلمانوں کو اپنے معاملات کو کفار کے پاس لے جانے سے منع فرمایا ہے اور یہ کہ اقوام متحدہ استعماری طاقتوں کی آلہ کار ہے جس کو امریکہ اپنے مفادات کے حصول کے لیے جب چاہتا ہے استعمال کرتا ہے اور جب چاہتا ہے نظر انداز کردیتا ہے ،اس کانفرنس نے ڈرون حملوں کے خاتمے کے لیے سلامتی کونسل سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا۔ اِسی طرح اس قرارداد میں اُن لوگوں سے مذاکرات کرنے کی بات کی گئی ہے جو امریکیوں سے لڑ رہے ہیں جس کا مقصد صرف انخلاء کے دھوکے میں افغانستان میں امریکیوں کے لیے مستقل فوجی اڈوں کے قیام کو یقینی بنانا ہے۔
یہ کانفرنس درحقیقت پاکستان کو اِس امریکی جنگ سے نکالنے کے لیےنہیں بلکہ اِس جنگ کو مزید دوام بخشنے کا باعث ثابت ہوئی کیونکہ کانفرنس میں یہ کہا گیا کہ "دہشگردی کے خلاف جنگ کے طریقہ کار اور وسائل کا فیصلہ خود کرینگے"۔افسوس کہ وہ جماعتیں جو عوام کے سامنےدن رات اِس امریکی جنگ سے پاکستان کو نکالنے کا مطالبہ کرتی رہتی ہیں انھوں نے بھی اس قرارداد پر دستخط کر کے یہ ثابت کیا کہ وہ امریکہ مخالف عوام کے جذبات کو محض اپنے سیاسی فائدے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ لہذا ایک بار پھر یہ ثابت ہواہے کہ جمہوری نظام میں کوئی بھی حکمران بن جائے وہ ہمیشہ امریکہ اور استعماری طاقتوں کے مفادات کا ہی تحفظ کرتا ہے۔
اس کانفرنس میں افغانستان میں صلیبیوں کی زندگی کو برقرا رکھنے والی نیٹو سپلائی لائن کی بندش کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا جووحشی مغربی افواج کے لیے ہتھیار، شراب اور سور کے گوشت کی فراہمی کا باعث ہے۔ نہ اس کانفرنس میں ملک سے امریکہ کے فوجی، انٹیلی جنس اور نجی فوجی اہلکاروں کی ملک بدری کا مطالبہ کیا گیا جو پاکستان میں امریکی جنگ کو جاری رکھنے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ اور نہ ہی اس کانفرنس میں امریکی سفارت خانے اور قونصل خانوں کی بندش کا ٖفیصلہ کیا گیا جہاں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف منصوبے بنائے جاتے ہیں اور ان پر عمل درآمد کے لیے کیانی و شریف حکومت کو احکامات جاری کیے جاتے ہیں۔
حزب التحریر ولایہ پاکستان تمام جماعتوں سے یہ مطالبہ کرتی ہے کہ اگر اُن کی عوام میں کوئی نیک نامی رہ گئی ہے تو اُسےپاکستان کو تباہ کرنے پر تلے، امریکہ اور اس کے ایجنٹوں ،کو مزید وقت فراہم کر کے مت ضائع کریں۔ اب وقت آچکا ہے کہ آپ بھی کھل کر ملک میں امریکی راج کی نگہبان جمہوریت کے خاتمے کا مطالبہ کریں اور خلافت کے قیام کے لیے جدوجہد کریں۔ ایک ایسے وقت میں جب امت اسلام اور اس کی حکمرانی کا مطالبہ کررہی ہے اور خلافت کی واپسی کے آثار بھی واضع ہیں ، اگر آپ ایسا نہیں کریں گے تو وہ وقت دور نہیں جب امت آپ کو بھی غدار حکمرانوں کے ساتھیوں کے حوالے سے ہی یاد کرے گی۔ اور اگر آپ میں کوئی شرم و حیا نہیں تو پھر آپ کا جو جی میں آئے کریئے!

 

Read more...

شام کےجابر اور امریکی ایجنٹ بشار الاسد کی جانب سے شام کے مسلمانوں کے خلاف کیے جانے والے کیمیائی حملے کے خلاف حزب التحریر کے مظاہرے

آج حزب التحریر نے ڈھاکہ، چٹاگانگ اور سلہٹ کی مساجد کے سامنے مظاہرے کیے ۔ یہ مظاہرے شام کے جابر اور امریکی ایجنٹ بشار الاسد کی جانب سے شام کے مسلمانوں کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کے خلاف کیے گئے۔ مظاہروں میں مقررین نے ظالم بشار حکومت کی مسلمانوں کے خلاف گھناؤنے جرائم کی شدید مذمت کی۔ انھوں نے نام نہاد بین الاقوامی برادری خصوصاً امریکہ اور روس کی بشار حکومت کو فراہم کی جانے والی مددو وحمائت پر روشنی ڈالی اور اس کی مذمت کی۔ یہی وہ حکومتیں ہیں جنھوں نے بشار کو مسلمانوں کے خلاف اس قدر ظالمانہ اقدامات اٹھانے کی اجازت دی تا کہ شام کے مسلمانوں کی اس اسلامی مزاحمت کو ختم کیا جاسکے جس کے ذریعے وہ خلافت کا قیام چاہتے ہیں۔
مقررین نے اسلامی افواج سے مطالبہ کیا کہ وہ بشار کے خلاف حرکت میں آئیں۔ انھوں نے بنگلادیش کی فوج سے بھی یہ مطالبہ کیا کہ وہ اس عظیم سعادت کے حصول کے لیے سب سے پہلے حرکت میں آئیں تا کہ دنیا اور آخرت کی عزت حاصل کرسکیں ،جبکہ اقوام متحدہ کے لیے فوجی خدمات انجام دینے کے عوض انھیں"امریکہ اور مغرب کے کرائے کے فوجی" کے ذلت آمیز خطاب سے نوازا جاتا ہے۔ آخر میں مقررین نے اللہ سبحانہ و تعالی سے یہ دعا کی کہ وہ شام میں مسلمانوں کو کامیابی عطا فرمائے اور بشار اور اس کے آقاؤں کو ذلت آمیز شکست سے دوچار کرے۔
مظاہروں کے اختتام پر حزب التحریر کے اراکین اورحامیوں نے حزب التحریر ولایہ شام میں حزب التحریر کے میڈیا آفس کے سربراہ ہشام البابا کی مندرجہ ذیل پریس ریلز بھی تقسیم کی جس کا عنوان یہ ہے:
دمشق کے مضافات میں کیمیائی ہتھیاروں کے ذریعے قتل عام کے بارے میں پریس ریلیز
کیا امت کے شرفا کے لیے اب بھی وقت نہیں آیا کہ وہ اہل شام کی مدد کے لیے حرکت میں آئیں!!

ولایہ بنگلادیش میں حزب التحریر کا میڈیا آفس

 

Read more...

شام کا نکمابشارالاسدبھی کیا عجوبہ ہے: ڈولتی ہوئی کرسی پر کچھ دیر اور بیٹھے رہنے کے بدلے میں اپنے دین، اپنے لوگوں، اپنے اسلحے اورمتاع کوبیچ رہا ہے!

شام کے کیمیائی ہتھیاروں کو تباہ کرنے کی غرض سے ان ہتھیاروں کوبین الاقوامی نگرانی میں دینے کا مطالبہ ڈرامے کی قسطوں کی طرح منظر عام پر آرہا ہے۔ اس کی ابتدا 9ستمبر2013کو جان کیری کی اپنے برطانوی ہم منصب کے ساتھ لندن میں پریس کانفرنس کے دوران اس بیان سے ہوئی کہ بشار کیمیائی ہتھیاروں کا ذخیرہ بین الاقوامی برادری کے حوالے کر کے عسکری حملے سے بچ سکتا ہے۔ اسی کے تھوڑی دیر کے بعد روس کے لاروف نے کہا کہ اس نے جان کیری کی تجویز سن لی ہے اور عنقریب روس شام کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کرے گا۔ اس کے تقریبا ایک گھنٹے کےبعدشام کے وزیر خارجہ ولید المعلم نےماسکو میں صحافیوں کے سامنے کھڑے ہو کر شام کے سرکش کی حکومت کی طرف سے اس تجویز کو قبول کرنے کا اعلان کیا۔ اوراس کے چند گھنٹے بعد10ستمبر 2013 کوفرانسیسی وزیر خارجہ یہ اعلان کرتا ہے کہ وہ اس موضوع کے حوالے سے ایک منصوبہ سلامتی کونسل میں پیش کرے گا۔ ساتھ ہی برطانیہ سے لے کر جرمنی اور چین تک، کئی ممالک شام کے کیمیائی اسلحے کو تباہ کرنے کی حمایت کرنے لگے۔ حتی کہ ایران نے بھی اسے خوش آئند قرار دیا۔ یہ سب ان ممالک پر امریکہ کی بالادستی کو بے نقاب کر تا ہے!
اس تمام کے بعد سرکش بشار نےاس اسلحے کو تباہ کرکےراکھ کا ڈھیر بنا نے کی حامی بھری، جس کی قیمت امت نے اپنے خون پسینے کی کمائی سے ادا کی تھی۔ رہی بات اس بہانے کی کہ جس کا ذکر شامی وزیر خارجہ معلم نے ماسکو میں کیا کہ شام اپنے لوگوں کا خون بہانے سے بچنے اور امریکی عسکری حملے کو روکنے کے لیے یہ تجویز قبول کرنے کے لیے تیار ہے۔ تو یہ سب جھوٹ ہے،کیونکہ اس کا آقا اور اس کے غنڈے تو پہلے ہی بے حساب خون بہا چکے ہیں،لوگوں کی عزتوں کو پامال کر چکے ہیں،ہزاروں کو گرفتار اور لاکھوں کو جلاوطن کر چکے ہیں،لوگوں پر ہوائی جہازوں اور میزائلوں کے ذریعے جلاکر راکھ کردینے والے مواد کے ڈرم گراچکے ہیں۔ اور اس تمام کے بعدوہ اُن کیمیائی ہتھیاروں کے ذریعے بھی شام کے لوگوں کو بے دریغ قتل کر چکے ہیں،کہ جن ہتھیاروںکی قیمت انہی لوگوں نے اپنے بچوں کا پیٹ کاٹ کر اس لیے ادا کی تھا کہ دشمن سے ان کی حفاظت ہو سکے ۔ لیکن یہ ہتھیاردشمن کے لیے توامن اور سلامتی بنے رہے اور ان کے اپنے لیے ایسی آگ ثابت ہوئے کہ جس نے ان کو جلاکر راکھ کا ڈھیر بنا دیا۔ اوریہ کہنا بھی محض جھوٹ ہے کہ عسکری حملے سے بچنے کے لیے ایسا کیا جارہا ہے کیونکہ ان ہتھیاروں کو ضائع کرنے کے بعد عسکر ی مداخلت تو زیادہ آسان ہو گی کیونکہ طاقتور پر حملہ نہیں کیا جاتا۔ یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ اگر امریکہ نے شام پر حملہ کر نے کا فیصلہ کر لیا تو اس کا پالتو بشارالاسدمخالفت کی جرات نہیں کر سکتا،بلکہ وہ امریکہ کی مرضی کے بغیرروتے ہوئے آواز کو بھی بلند نہیں کر سکتا! سرکش بشارکیمیائی اسلحے کے ذخائر کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی نگرانی میں دینے کی حامی بھر کر شام کی سر زمین کی پامالی کی راہ ہموار کر رہا ہے،کیونکہ اس کے بعد ان ذخائر کے مقامات کے تعین کے لیے تفتیش کار وں کی اۤمد کا سلسلہ شروع ہو گا اور اس کے لیے امریکی اور مغربی افواج کی ضرورت پڑے گی،یوں سرکش بشارکی جانب سے کیمیائی ہتھیاروں کو حوالے کر نا امریکی مداخلت کو نہیں روکے گا۔
اے مسلمانو: حافظ الاسداور بشار کا خاندان تقریبا نصف صدی سےامریکہ کی خدمت کر رہے ہیں،انہوں نے خطے میں امریکہ کے مفادات کی حفاظت کی اور یہودی ریاست کے سیکیورٹی گارڈ بنے رہے۔ اورجب لوگ اِس سرکش کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تو امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے ہی سرکش بشارکو لوگوں کےقتل اور پکڑ دھکڑ کے وسائل مہیا کیے تاکہ وہ ان کو کچل سکے، لیکن بشارایسا نہ کر سکا۔ تب بشارکے آقاؤں نے سوچا کہ اس کا متبادل اسی جیسا خائن ایجنٹ لایا جائے جس کے لیے انہوں نے شامی قومی اتحاد اور قومی کونسل تیار کی۔ پھر اندرونی طور پر لوگوں کے سامنے ان کی مارکیٹنگ میں سردھڑ کی بازی لگادی لیکن وہ اپنے منصوبے میں کامیاب نہیں ہو سکے،کیونکہ لوگ چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے کہ ''یہ (انقلاب)صرف اللہ کے لیے ہے،یہ(انقلاب)صرف اللہ کے لیے ہے"، ''ہمارے ابدی قائد اللہ کے رسول محمد ﷺ ہیں" ان نعروں اور فلک شگاف تکبیروں نے ان کی نیندیں حرام کردیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے شام کے سرکش حکمران بشار اور اس کے کارندوں کو قتل اور پکڑ دھکڑ کے لیے مہلت پہ مہلت دی۔ جبکہ شام سے باہر ان طاقتوں کے پالے ہوؤں نےلوگوں کو جمہوریت اورسِول عوامی حکومت کے لیے قائل کرنے کے لیے سرتوڑ کوشش کی،لیکن نامراد ہو کر الٹے پاؤں لوٹ گئے۔
اس کے بعد امریکہ عسکری کاروائی کرنے کے لیے طبل بجانے لگا، جس کا مقصد جنیوا 2 مذاکرات میں متبادل ایجنٹ حکومت کے لیے راہ ہموار کرنا تھا۔ لیکن امریکہ عسکری کاروائی کے لیے مہلت پہ مہلت دیتا رہا تاکہ اس بات کا اطمنالن کیا جاسکے کہ حملے کے نتیجے میں سب کو عسکری دباؤ کے زیر سایہ جنیوا جانے کے لیے مجبور کیا جائے۔ اسی لیے اوباما کبھی بندوق ہاتھ میں اٹھاتا ہے اور کبھی اس کو زمین پر پھینکتانظر آرہا ہے۔ کبھی کہتا کہ میں نے فیصلہ کر لیا، کبھی کہتا کہ مجھے کانگریس کا انتظار ہے۔ اس دوران وہ اس حملے کے ممکنہ نتائج کابھی جائزہ لیتا رہا کہ کیا یہ حملہ جنیوا مذکرات اور متبادل ایجنٹ مسلط کر نے پر مجبور کر سکتا ہے یا نہیں، اوراگر نہیں کرسکتا تو کیااس کو نافذ کرنے کے لیے مزید مہلت دی جائے؟
لیکن شام کی سرزمین پر مسلمانوں کی تکبیروں نے سرکش بشارکے ساتھ مذکرات کے لیے جنیوا جانے کے امکان کو ختم کر دیا، کیونکہ جو بھی سرکش یا اس کے ہر کاروں کے ساتھ بیٹھے گا وہ بدنامِ زمانہ غدارابورغال کے نقشِ قدم پر چلے گا۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے دیکھ لیا کہ اس حملے کے نتیجے میں جنیوا مذاکرات تک پہنچنا مشکوک ہے،لہٰذا مزید وقت اور مزید دباؤ کی ضرورت ہے۔ امریکی مشکل وقت میں مہلت سے کام لینے کے عادی ہیں،چنانچہ وہ یہاں بھی اسی پر مجبور ہیں،کانگریس اور پارلیمنٹ میں بحث کو طول دے رہے ہیں اور ووٹنگ کو اس انتظار میں موخر کر رہے ہیں کہ لوگ قتل و غارت،پکڑ دھکڑ اور عسکری مداخلت کے خوف سے سرکش کے ساتھ مذکرات کے لیے جنیوا جانے پر راضی ہو جائیں۔ کیونکہ حملہ بذات خود مقصود نہیں،بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ اس کے بعد جنیوا مذکرات میں متبادل ایجنٹ کی حکومت کو مسلط کیا جاسکے۔ کیونکہ ان کو ڈر ہے کہ امریکہ کی جانب سے اپنے ایجنٹ تیار کر نے سے قبل شام میں وہ مخلص مسلمان اقتدار حاصل کرلیں گے ، جوکفار کے آلہ کار اور مددگار بننے کے لیے تیار نہیں،اورجو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو خطے سے مار بھگانے کی کوشش کر رہے ہیں،جس کی وجہ سے ان کی لے پالک یہودی ریاست کی سیکیورٹی کو خطرات لاحق ہوجائیں گے، بلکہ اس کے وجود کو ہی صفحہ ہستی سے مٹانا ان مخلص مسلمانوں کا ہدف ہو گا۔ اس وجہ سے ان کفارکے شیطانی ذہن نے یہ منصوبہ بنایا کہ اس طاقت ور اسلحے کو ہی تباہ کردیا جائے جو یہودی وجود کی سیکیورٹی کو متاثر کر سکتا ہے،خاص طور پر جب ان کو معلوم ہے کہ ان کا پالتوبشار ان کے حکم سے سرتابی نہیں کر سکتا،بلکہ ان کے کسی اشارے کو بھی رد نہیں کر سکتا۔ اسی لیے یہ ڈرامہ قسط در قسط منظر عام پر آرہا ہے جس کا پروڈیوسر امریکہ ،اور"کامیڈین"روس ہے جبکہ "قربانی کا بکرا" امت کا خائن شام کا سرکش بشارہے۔
اے مسلمانو! کانٹوں کی سیج جواں مردوں کے لیے ہی ہوتی ہے،کیا ان مصائب سے بڑھ کر بھی کوئی مصیبت ہو سکتی ہےکہ جنہیں تم برداشت کر چکے ہو؟! تم تواُس امت سےتعلق رکھتے ہو جو غفلت میں نہیں پڑی رہتی،وہ امت جس نے صلیبیوں کو شکست سے دوچار کیا اور تاتاریوں کا صفایا کیا۔ یہ اس وقت ہوا کہ جب دشمنوں نے یہ گمان کر لیا تھا کہ یہ ختم ہو چکی ہے،لیکن یہ امت اپنے سرچشمے کی طرف لوٹ اۤئی،اپنے دین اور اپنی خلافت کی طرف اور اس کے بعد پھر دنیا کی قیادت سنبھال لی،تب دشمن کو یہ پتہ چل گیا کہ اس کا گمان محض ایک پراگندہ خواب تھا۔ اس لیے آج بھی تم اپنی قوت کے اسباب کی طرف لوٹ آؤ،اپنے دین اور اپنی خلافت کی طرف۔ کمر کس لو! اے بصیرت رکھنے والو! عبرت حاصل کرو،جان لو کہ مصیبت آتی ہے تو اکیلے سرکش ظالموں پر نہیں آتی بلکہ ظلم پر خاموش رہنے والے بھی اس کی زد میں آتے ہیں۔ اللہ سبحانہ وتعالی کا ارشاد ہے﴿وَاتَّقُوا فتنَةً لَاتُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ﴾"اس مصیبت سے ڈرو جو تم میں سے صرف ظالموں کو ہی اپنے لپیٹ میں نہیں لے گی،اور جان لو کہ اللہ سخت سزادینے والاہے"۔ اورامام احمد نے اپنے مسند میں مجاہد سے نقل کیا ہے کہ:ہمارے مولیٰ(آزاد کردہ غلام )نے روایت کیا کہ اس نے میرے دادا سے سنا ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ:(ان اللہ لا یعذب العامۃ بعمل الخاصۃ، حَتَّى یرَوْا الْمُنْكَرَ بَيْنَ ظَهْرَانَيْهِمْ،وَهُمْ قَادِرُونَ عَلَى أَنْ ينُكِرُوهُ فَلَا يُنْكِرُوهُ فاذا فعلوا ذلک عذب اللہ الخاصۃ والعامۃ)"بے شک اللہ تعالیٰ خواص کے عمل کی وجہ سے عوام کو عذاب نہیں دیتا،یہاں تک کہ وہ اپنے سامنے منکر کو ہوتادیکھیں ،اور وہ اس کا انکار کرنے پر قادر بھی ہوں لیکن انکار نہ کریں ،جب وہ ایسا کریں تو اللہ عوام وخواص دونوں کو عذاب دیتا ہے"۔ اسے ابن ابی شیبہ نے بھی اسی طرح اپنی مسند میں نقل کیا ہے۔
اے مسلمانو! یہ یقینا ایک المیہ ہے کہ ہمارے اسلحے کو طاغوتی حکمرانوں کی رضامندی سے تباہ کیا جارہا ہے۔ یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ امت زمین میں فساد برپا کرنے والے اور ہر سیاہ وسفید کو تباہ کرنے والے ان طاغوتی حکمرانوں کو ہٹا نے کے لیے اپنی افواج پر دباؤ نہیں ڈالتی۔ یہ بھی انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ ہم اپنا خون بہتا ہوا دیکھ رہے ہیں اور اسے روکتے نہیں،اپنے اسلحے کو تباہ ہوتا ہوا دیکھتے ہیں اوراس کی حفاظت نہیں کرتے،اپنی دولت کو لٹتا ہوا دیکھتے ہیں لیکن اس کی طرف بڑھنے والے ہاتھ کو کاٹتے نہیں،ہم اپنے علاقوں کو گھٹتا ہوا دیکھتے ہیں لیکن اس کوروکتے نہیں،عزتوں کو پامال ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں اور ہماری رگوں میں موجود خون نہیں کھولتا۔
اپنے دین کے بارے میں اللہ سے ڈرو،اپنی امت کے بارے میں اللہ سے ڈرو،اپنی خلافت کے بارے میں اللہ سے ڈرو،اپنے اسلحے کے بارے میں اللہ سے ڈرو۔ ان سب کو دانتوں سے پکڑو۔ خلیفہ جو کہ ڈھال ہو تا ہے، کی قیادت میں اپنے دین کی مدد اور اپنے دشمن کو شکست دینے کے لیے تیار ہو جاؤ،اسی کی قیادت میں لڑو،تم اسی کے ذریعے محفوظ ہو گے۔ اگر تم نے ایسا کیا تو اپنی شان وشوکت کو بحال کرو گے اور دنیا وآخرت کی کامیابی تمہارے قدم چومے گی۔ اوراگر تم نے ایسا نہ کیا تو دشمن نہ صرف تمہارے اسلحے کوتمہارے ہی ہاتھوں تباہ کرے گا بلکہ تم اس کو اپنے گھروں میں گھسنے کی دعوت خو ددو گے۔ اوراس وقت تمہاری نجات کا کوئی ذریعہ نہیں ہوگا!
﴿إِنَّ فِي ذَلِكَ لَذِكْرَى لِمَنْ كَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ ﴾"بے شک اس میں اس شخص کے لیے نصیحت ہے جو دل رکھتا ہے یاسنتا ہے اور وہ گواہی دیتا ہے"

Read more...

شام اور مصر میں امریکی جرائم پر مذمتی جلسہ اللہ کے فضل سے اختتام کو پہنچا "ہمارا اسلام نہ کہ ان کی جمہوریت"  

اللہ کے فضل و کرم سے حزب التحریر ولایہ اردن کی جانب سے شام میں امریکی مداخلت اور اپنے ایجنٹ بشار اور مصر میں اپنے ایجنٹوں کے جرائم کی پردہ پوشی کی مذمت کے سلسلے میں منعقد کیا جانے والا جلسہ کامیابی سے اختتام کو پہنچا۔اس جلسے میں شرکت کے لیے شام کی سرزمین اردن کے باشندوں کی ایک بڑی تعداد نے حزب کی دعوت پر لبیک کہا اورانتہائی گرم موسم کےباوجود جلسے میں بہت بڑہ تعداد میں شرکت کی۔

جلسے کا افتتاح قرآن حکیم کی تلاوت سے کیا گیا۔پھر حزب التحریر ولایہ اردن کے میڈیا آفس کے انچارج محمود قطیشات نے ابتدائی کلمات کہے،جس میں انہوں نے کفار کی طرف جھکاؤ اور ان پر اعتماد کرنے کے بارے میں محتاط رہنے پر گفتگوں کرتے ہوئے کہاکہ " یہی امریکہ اور کافر ممالک پسے پردہ خود اور اپنے ایجنٹوں اور کارندوں کے ذریعے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف وحشیانہ صلیبی جنگ میں مصروف ہیں۔وہ افغانستان،پاکستان اور یمن میں اپنے اسلحے اور ڈرونز کے ذریعے مسلمانوں کو قتل کر رہے ہیں اور شام کی سرزمین پر اپنے ایجنٹ سرکش بشار کے ذریعے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیل رہے ہیں اوراس کو جینے کے اسباب مہیا کر رہا ہے۔ یہی مصر میں اپنے ایجنٹ سرکش السیسی کے ذریعے رابعہ ، النہضہ میں،سڑکوں اور مساجد میں مسلمانوں کا قتل عام کروارہےہیں "۔انہوں نے اپنے خطاب میں مسلمانوں کو خبردار کیا کہ مشرقی یا مغربی کافروں کو کسی بھی بہانے اپنے اندرونی معاملات میں سیاسی یا عسکری مداخلت کی اجازت نہ دیں کیونکہ یہ کام اللہ،اس کے رسول اور مؤمنوں سے خیانت ہے۔انہوں نے مسلمانوں پر بھی زور دیا کہ وہ اس پر آشوب دور سے نکلنے کے لیے موجودہ حکمرانوں کو اتار پھینکنے ، اسلام کے اقتدار کو واپس لانے اوراس ریاست خلافت کو قائم کرنے کے لیے جدوجہد کر یں جو امریکہ اور ان ممالک کے ہاتھ کاٹ دے گی جو اسلامی سرزمین میں دراندازی کی جسارت کریں گے۔

استاد بلال القصراوی نے بھی خطاب کیا اور شام میں میں سفاک بشار کی پشت پناہی اور شام کے انقلابی تحریک کے خلاف سازشیں کرنے کے بارے میں امریکہ کے کردار کو بے نقاب کیا۔انہوں نے شام کے مخلص انقلابیوں کو داد دی اور یہ کہا کہ شام کے مخلص انقلابی کبھی بھی اپنے انقلاب کا رخ موڑنے کی امریکی کوششوں کو کامیاب ہو نے نہیں دیں گے اوروہ ایک ایجنٹ کی جگہ دوسرے ایجنٹ کو قبول نہیں کریں گے۔اس کے بعد استاد ابو بکرالفقہاء نے بھی خطاب کرتے ہوئے مسلمانوں کو کفار پر انحصار کرنے سے خبردار کیا اورشام اور مصر کے اسلامی تحریکوں کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ اپنے دین کے کسی بھی جزء سے پیچھے ہٹھنے کو قبول نہ کریں اورآپ کا مقصد کسی صدر کو برطرف کر کے کسی اور کو اس کی کرسی پر برجمان کرنا نہیں،بلکہ آپ کا نصب العین ریاست خلافت کے قیام کے ذریعے اللہ سبحانہ وتعالی کے دین کو نافذ کرنا ہونا چاہیے۔

جلسے میں زبردست نعرے بھی لگائے گئے جن میں سے کچھ یہ ہیں،"شام کے انقلابی کہتے ہیں کہ ہم اپنے دین کو تمہاری جمہوریت سے نہیں بدلیں گے"،"کب تک شام اور مصر میں ہمارا خون مغرب کے لیے قربان ہوتا رہے گا"،"انہوں نے یہ کہہ کر جھوٹ بولا کہ :جمہوریت حل ہے جس کا شاخسانہ رابعہ العدویہ تھا!" اور"تماری مداخلت دشمنی ہےاور تمہارے مددگاروں کو بچانے کے لیے ہے"۔ علاقائی اور بین الاقوامی میڈیا نے اس جلسے کو انتہائی درجے کے سیکیوریٹی کے باوجود کیوریج دی اوربہت سے ذرائع ابلاغ کے اداروں نے میڈیا آفس کے سربراہ اور دوسرے شرکا کا انٹر ویو بھی کیا۔

 

 

میڈیا آفس حزب التحریر
ولایہ اردن

 

Read more...

مصر میں امریکہ ہی درحقیقت شکست کھا گیا

''واشگنٹن نے اپنے مفادات کے لیے مصر کو امداد دے کر یہ سوچ لیا تھا کہ وہ معملات کو قابو کرنے میں کامیاب ہو جائے گا جیسا کہ جیسا کہ ایک لمبے عرصے اس نے ایسا کیا ،مگر عنقریب مصر کے حوالے سے امریکی موقف تبدیل ہو جائے گا اور اس کا کردار محدود ہو گا،،-Steven A Cook. صدرمرسی کو ہٹانے کے بعد تین اہم مسائل پر بڑے پیمانے پر بحث کی گئی جو کہ یہ ہیں:
۔ انقلاب امریکی اشیر باد اور جنرل السیسی کے تقرر سے رونما ہو۔
۔ مرسی حکومت کے دوران سیاسی اسلام فیل ہو گیا،جس کا مطلب ہے کہ پورے خطے میں ایسا ہوا۔
۔ مرسی کے بعد تمرد(نافرمانی)کی تحریک اورعام اپوزیشن کوئی واضح تصور دینے میں ناکام ہوگئی،یہ غلط فہمی بھی کہ مبارک حکومت کے باقیات الاخوان اور حزب اختلاف سے بہتر ثابت ہوسکتے ہیں،تاہم ایک اور موجوع جس کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا وہ ہے مصر میں امریکی بالادستی کا زوال ہے۔
1956 م میں جمال عبد الناصر کے مصر کی سیاسی زندگی میں ظہور کے ساتھ ہی مشرق وسطی میں امریکی پالیسی عروج حاصل ہو ا اور یہ بڑھتا گیا ،امریکہ پہلی بار مصر کے اثر ورسوخ کو عرب دنیا میں ان ممالک میں گھسنے اوراپنی سیاسی بالادستی قائم کرنے کے لیے دروازے کے طور پر استعمال کیا جو اس کے اثر ورسوخ سے باہر اور بر طانیہ کے زیر اثر تھے،یوں خطے کا سیاسی منظر نامہ بدل گیا اور مصر کے اندر اور اس سے باہر امریکہ کے اثر ونفوذ میں روز افزوں اضافہ ہوگیا،مصر پر امریکہ کا پنجہ عبد الناصر کی ہلاکت کے بعد بھی ڈھیلا نہیں ہوا بلکہ صدر السادات کے دور میں بھی بدستور اس کی بالادستی قائم رہی اور اس کے بعد حقیقی عبد الناصر امریکی مفادات کے مخلص محافظ (حسنی مبارک)زمانے میں بھی یہی حال رہا،صورت حال 2011 م جوں کا توں رہی یہاں تک کہ مبارک کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاجات شروع ہوگئے جن سے مصر میں امریکی بالادستی لڑکھڑانے لگی،امریکہ کے پاس عام لوگوں کی سیاسی بیداری اور اسلام کی حکمرانی کے لیے ان کے جوش اور ولولہ کے مقابلے کے لیے سوائے اس کے کوئی آپشن باقی نہ رہا کہ مصر میں سیاسی منظر نامے میں ترجیح تکمیل پر نظر ثانی کی جائے اور بلا آخر اخوان المسلمین کے ساتھ اپنے مفادات کی حفاظت اور امریکی بالادستی کو استحکام دینے کے بدلے سودابازی پر مجبور ہوا،یوں مرسی اور الاخوان کو مبارک کی پرانی حکومت کے باقیات کے ساتھ یکجا کر کے ایک نیا سیاسی میڈیم وجود میں لایا گیا جس پر فوج کی نظر رہے گی۔جوں ہی امریکہ نے اپنے سامنے سے روکاوٹیں ہٹادی اس کو اظمئنان ہو گیا،مطمئن کیسے نہ ہو سوئیس کنال حسب دستور کام کررہا ہو،اسرائیل کی حفاظت برقرار ہو،مصر کو غزہ سے ملانے والے سرنگوں کو معلوم ہو تے ہی منہد م کیا جارہا ہو،حماس مکمل طور پر قابو میں ہو،مرسی نئی لبرل اقتصادی پالیسی کو نافذ کرنے میں مصروف ہو!
لیکن ہوائیں امریکہ کے خوہشات کے مخالف سمت چلنے لگیں،امریکہ اور اس کا مدد گار مرسی خطے میں سیاسی استحکام کو برقرار رکھنے میں ناکام ہو گئے،امریکہ کی جانب سے مرسی کی حد سے زیاد حمایت نے مصر کے رائے عامہ کو ان کے خلاف کر دیا،مرسی مخالف جذبات سے سب سے پہلے اپوزیشن نے فائدہ اٹھا یا اور مصر کے سیکیولر باشندوں اور مسلمانوں کی ایک بڑی اکثریت کے قلوب واذہان پر ایک مختصر مدت کے لیے چھا گیا،یہی وہ طبقہ ہے جس نے صرف ایک سال قبل حزب الحریہ والعدالہ( Party Freedom and Justice)اور مرسی کو مصر کے سیاسی منظر نامے میں نمایاں کیا تھا اب اس کے خلاف ہو گیا اور اس کو برطرف کرنے کا مطالبہ کیا۔
امریکہ نے عوام کے اندر مرسی کی مقبولیت میں کمی کو محسوس کیا اور چند مہینے پہلے فوج کے ذریعے اس کے تختے کو الٹنے کا منصوبہ بنا یا،اپوزشن کو مکمل سول نافرمانی کے لیے تیار کیا گیا آخرکار فوج انقلاب کے ذریعے مرسی کو برطرف کیا گیا،امریکہ نے یہ اعتراف کرنے سے انکار کردیا کہ یہ فوجی انقلاب تھا،یوں امریکہ پھر مربع کے نمبر ایک پہ پہنچ گیا اور مبارک کی ظالم حکومت کے باقیات سے بغلگیر ہو گیا،اب امریکہ یہ باور کرانے کی سرتوڑ کوشش کر رہا ہے کہ جو کچھ ہو یہ انقلاب نہیں!
آج امریکہ کو مصری عوام کے غصے کا سامنا ہے،عالمی رائے عامہ کو جاننے کے لیے پیو سنٹر کے سروے کے مطابق مئی 2013 میں مصریوں کی صرف 16٪ نے امریکہ کے بارے میں مثبت رائے کا اظہار کیا(آج اس بات کا اندازہ لگانا کسی کے لیے مشکل نہیں کہ مثبت رائے رکھنے والوں کی تعداد کتنی ہو سکتی ہے)،ناصری سیاست دانوں نے اپنا اعتبار کھودیا،الاخوان کے حمایتی غصے میں ہیں،وہ وقت بھی دور نہیں کہ فوج بھی عوام کی نظروں سے گر جائے گی۔
اگر امریکہ کسی بھی طریقے سے مبارک کے باقیات اور نئے ناتجربہ کارٹکنوکریٹ جیسے البرادعی کی مدد سے حکومت تشکیل دینے میں کامیاب بھی ہو گیا تو ہم یہ سوال کر سکتے ہیں کہ :''مصر کا مستقبل کیا ہو گا؟!،،کسی دور جانے کی ضرورت نہیں ان حکومتو کو دیکھنے کی ضرورت ہے جو امریکہ نے افغانستان،عراق،لبنان اور پاکستان میں تشکیل دی،سیدھی بات یہ ہے کہ امریکہ ان ممالک میں فیل ہو چکا ہے،امریکہ بڑے پیمانے پر اس کے خلاف پیدا ہونے والے جذبات کے سامنے بہت کمزور ہوچکا ہے،دوسرے ملکوں جیسے لیبیا،شام اور صومال میں بھی اس کی پوزیشن اچھی نہیں۔
زیادہ امکان اسی کا ہے کہ مصر کا تجربہ بھی امریکی پالیسی کی ناکامیوں میں ایک اضافہ ہو گا، مصر کی صورت حال ناگفتہ بہ ہے،زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ ملک میں افراتفری بڑھے گی،مختصرا اب امریکہ پہلے کی طرح عظیم طاقت نہیں رہا،اب وہ بڑی تیزی سے عالم اسلام میں اپنی بالادستی اور اعتبار کھو رہا ہے،ممکن ہے کہ مصر ہی امریکہ کی کمر توڑنے کا سبب بن جائے،بہت سے تجزیہ نگار امریکہ کے ساک میں برق رفتار گراوٹ کا عندیہ دے رہے ہیں، انگریزی رسالہSpectator Magazine کہا ہے کہ:"امریکی بالادستی اب اس حد تک زوال کا شکار ہے کہ اوباما نے زیادہ تر عالمی چودھراہٹ سے دستبردار ہو گیا ہے،،وقت ہی اس بات کی سچائی کو ثابت کرے گا۔

عابد مصطفی

Read more...

مغربی حکومتوں نے ملالہ کی کہانی اور لڑکیوں کی تعلیم کے لیے اس کی جدوجہد کا استحصال کیا اور اپنے استعماری سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا یہ خلافت ہی ہے جو خواتین کے لیے دوبارہ اول درجے کا تعلیمی نظام واپس لائیگی۔

گذشتہ اکتوبر پندرہ سالہ پاکستانی لڑکی ملالہ یوسف زئی کو گولی مارے جانے کے واقعے نے دنیا بھر میں مسلم اور غیر مسلم ، بہت سے لوگوں کو حیران اور وحشت زدہ کر دیا۔ مرکزی ذرائع ابلاغ، انسانی حقوق کی تنظیموں، مغربی حکومتوں اور سیاستدانوں نے اس واقعے کی تشہیر یوں کی کہ ؛ ''اس بچی پر پاکستانی اسلام پسندوں نے اس لیے قاتلانہ حملہ کیا کیونکہ حقوقِ نسواں اور لڑکیوں کی تعلیم کی ترویج کے لیے اس کی کوششوں کے وہ مخالف تھے''۔ حملے کے فوراََ بعد بہت سے ادارے اور شخصیات اس کے مقصد کے لیے اکھٹا ہو گئیں اور اس کو سراہا گیا کہ اس نے عورتوں کی تعلیم کے مسئلہ کو عالمی توجہ دلوائی، ان شخصیات میں سابق برطانوی وزیرِاعظم اور اقوامِ متحدہ کے سفیرِ خاص برائے عالمی تعلیم گورڈن براؤن، اقوامِ متحدہ کے جنرل سیکر یٹر ی بان کی مون، اور سابقہ امریکی وزیرِ خارجہ ہلری کلنٹن شامل ہیں۔
12 جولائی کو نیویارک میں اقوامِ متحدہ کے ہیڈ کواٹرز میں ملالہ کو نوجوانوں کے ایک اجتماع سے خطاب کے لیے مدعو کیا گیا جہاں اس نے اس ضرورت کی حمایت کی کہ ہر بچے کے لیے مفت تعلیم لازمی ہو۔
پاکستان میں اور عالمی سطح پر بچیوں کے تعلیمی حقوق کی بہتری ایک عظیم مقصد ہے۔ مگر مغربی حکومتوں، اداروں، اور سیاستدانوں کی بے شرم کاوشیں عظمت سے کہیں دور ہیں جو اس نو عمر بچی ،اس کی جدو جہد ، اور اس پر ہونیوالے خوفناک حملے کے واقعے کااستحصال کررہی ہیں ، تاکہ وہ اپنے سیاسی مقاصدیعنی مغربی، لا دین اور آزاد خیال اقدار کو تعلیم کے بہانے مسلم دنیا کی خواتین اور بچیوں میں فروغ دیں ، اور ان کی اسلامی شناخت اور اقدار کو کمزور کر دیں۔
ملالہ کے لیے ان کی حمایت کی مضحکہ خیز ی اور مسلم خواتین کے تعلیمی حقوق کے لیے ان کی پریشانی کی حقیقت ان کے اس منافقانہ خاموش رویہ سے ظاہر ہوتی ہے جو انہوں نے لادین ریاستوں مثلاًفرانس ، بیلجیم ، ترکی اور ازبکستان میں حجاب اور نقاب کی پابندی کے بارے میں روا رکھا، جس نے مسلم خواتین اور بچیوں کو محض اسلامی لباس پہننے پر سکول کی معیاری تعلیم سے محروم کر دیا۔ یہ سوال اٹھایا جانا چاہیے کہ ان لادین ریاستوں اور سیاستدانوں کی مضبوط مخالفت سے بھرپور آوازیں اس وقت کہاں تھیں جب یورپی انسانی حقوق کی عدالت نے مسلم خواتین کے ان حقوق کے خلاف فرانس اور ترکی میں فیصلہ دیا، جس میں وہ معیاری تعلیم اور اسلامی عقائدکو ساتھ ساتھ لے کر چل سکیں؟
ملالہ کے واقعہ کو ایندھن بنا کر اس قدیم تہمت کی آگ کو بھڑکایا گیاکہ اسلامی نظام عورتوں کو دباتا ہے اور انہیں ان کے حقوق سے محروم کر دیتا ہے، اور یہ کہ مسلم خواتین مغربی طرزِ آزادی کی ضرورت مند ہیں۔ یہ ایک ایسی تہمت ہے جو تاریخ میں کئی دہائیوں تک استعمال ہوئی، اور دورِ جدید میں بھی کی جارہی ہے تاکہ مغربی لادینیت کا تسلط مسلم علاقے پر قائم رہے اور اسلام کو دوبارہ زور پکڑنے سے روکاجاسکے ، تاکہ مسلم دنیا میں اسلامی ریاست کا قیام نہ ہوسکے، جو کہ مغرب کے سیاسی اور معاشی مفاد کے لیے ایک خطرہ ہے۔ حالانکہ یہ اسلام نہیں بلکہ مغرب کی استعماری خارجہ پالیسی ہے جس نے عورتوں اور بچیوں کو پاکستان اور دیگر بہت سے مسلم ممالک میں قیمتی تعلیم سے محروم کر دیا ہے ۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ اور افغانستان پر قبضے نے پاکستان، افغانستان اور ملحقہ علاقوں میں ایک عدم استحکام اور عدم تحفظ کی فضا پیدا کر دی ہے۔ جس میں بار بار کے ڈرون حملے اور بم دھماکے جنہوں نے گذشتہ سالوں میں ہزاروں لوگوں ، جن میں بے شمار بچے اور عورتیں بھی شامل ہیں ، کو موت کے گھاٹ اتارا۔ بچوں کے حقوق پر اقوامِ متحدہ کمیٹی کی ایک رپورٹ میں کہا گیا، '' اطلاعات کے مطابق 2008 سے 2012 کے درمیان بے دریغ طاقت کا استعمال کرتے ہوئے زمینی اور فضائی حملوں میں افغانستان میں موجود امریکی افواج سینکڑوں بچوں کو مار چکی ہیں''۔ ان بچوں کے حقوق کہاں ہیں؟ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ یہ اموات ان استعماری حکومتوں کو اس مسلم علاقے میں اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر ضمنی نقصان کے طور پر قابلِ قبول ہیں ۔ اس غاصبانہ قبضے، حالت ِجنگ اور عدم استحکام نے ایک ایسی لا قانو نیت کی فضا پیدا کر دی ہے جس میں جرائم، اغوا اور عصمت دری کے واقعات بکثرت ہورہے ہیں۔ ان حالات نے بہت سے والدین کو اس امر پر مجبور کیا ہے کہ وہ اپنی بیٹیوں کو گھر سے دور جگہوں پر، جس میں اسکول بھی شامل ہیں، سفر نہ کرنے دیں ۔ علاوہ ازیں ایسی ریاستیں جو عدم استحکام ، تباہی اور عدم تحفظ کا شکار ہوں کس طرح اپنے شہریوں کو ایک اچھی اور میعاری تعلیم مہیا کر سکتی ہیں؟ دس سال سے زیادہ عرصہ کے قبضہ کے باوجود ، افغانستان میں10 میں سے تقریباََ9 خواتین نا خواندہ ہیں۔ لہٰذا یہ مغربی استعماری خارجہ پالیسی ہے جس نے نہ صرف بچیوں سے تعلیم کو چھینا بلکہ ان کی زندگیوں اور وقار پر بھی ڈاکہ ڈالا اور ان کی سکول کی میعاری تعلیم میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ ، مسلم علاقوں کی مغربی حمایت یافتہ ، لا دین حکومتوں نے اپنی ریاستوں کے اندر آزاد خیال مغربی تہذیب ، نہ صرف تفریحی اور اشتہاری صنعتوں کے ذریعے داخل ہونے دی بلکہ لادین تعلیمی نظام کا نفاذ بھی کررکھاہے۔ یہ تہذیب جو جنسی آزادی کو پروان چڑھاتی ہے، عورت کی ہتک کرتے ہوئے اسے جنسی ضرورت کا سامان بنا دیتی ہے، اور مردوں کو اس پر اکساتی ہے کہ وہ عورتوں کو اپنی خواہشات کے مطابق استعمال کریں، جس کے نتیجہ میں پاکستان، بنگلہ دیش اور مصر جیسے ملکوں کے سکولوں اور گلیوں میں جنسی طور پر حراساں کرنے، ڈرانے اور عصمت دری کے واقعات بلند سطح پر پہنچ گئے ہیں۔ اس صورتحال نے بہت سی خواتین میں احتراز پیدا کیا کہ وہ تعلیم کے حصول کے لیے گھر سے باہر قدم رکھیں۔
مزید برآں کھوٹے مغربی سرمایہ دار انہ نظام نے مسلم دنیا کے ملکوں کی معیشت تباہ کر دی، ان کو بڑے سودی قرضوں کے بوجھ تلے دبا دیا اور ناکام معاشی پالیسیوںمیں جکڑدیا، مثلا ً قرض کی ادائیگی پر خرچ کی جانے والی رقم تعلیم، صحت، انتظامی ڈھانچے اور دیگر عوامی سہولیات پر ہونے والے خرچ سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کا نتیجہ غیر تسلی بخش اور آہستہ آہستہ نا پید ہوتے سکول، محدود اور کم تربیت یافتہ اساتذہ ، ضروری کتابوں اور ساز و سامان کی کمی ہے۔ مزید برآں مسلم علاقوں پر حاوی مغربی ریاستوں اور ان کے آئی ایم ایف جیسے اداروں نے مسلمانوں کو سرمایہ دارانہ پالیسیوں کے ذریعہ مفلس کیا اور ساتھ ہی مفت تعلیم کے فقدان نے بہت سے والدین کو اس بات پر مجبور کر دیا کہ وہ تعلیم دلوانے میں اپنے بیٹوں کو بیٹیوں پر ترجیح دینے لگے۔ اس لیے یہ حیران کن نہیں کہ پاکستان میں تقریباََ60 فیصد اور بنگلہ دیش اور مصر میں 50 فیصد خواتین نا خواندہ ہیں۔ لہذا ہمارے مسلم علاقوں پر مسلط مغربی خارجہ پالیسی اور سرمایہ دار انہ لا دینی نظام ہی دراصل مسلم دنیا میں خواتین اور بچیوں کو اچھی تعلیم کی فراہمی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
خواتین کی تعلیم سے متعلق اسلام کی ہدایات بالکل واضح ہیں۔ اوروہ یہ ہیں کہ نہ صرف اسلام کا علم اور مسائل کے حل جواسلام دیتاہے ان کا علم حاصل کرنا عورتوں پر فرض ہے جیسا کہ رسول ﷺکی اس حدیث سے واضح ہے(طلب العلم فريضة على كل مسلم) ''علم کا حصول ہر مسلمان (مرد و عورت)پر فرض ہے'' بلکہ مسلمان عورت کو یہ ہدایت کرتا ہے کہ وہ اپنے ارد گرد کی دنیا پربھی غور و فکر کرے۔ یقینا رسول اللہ ﷺکی زوجہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نہ صرف ایک عظیم اسلامی سکالر تھیں بلکہ طب ، شاعری اور عمومی علوم میں بھی ماہر تھیں۔ اسلام مسلم امت پر یہ بھی فرض کرتا ہے کہ وہ دنیا میں ایک راہنما قوم ہو، اورمسلم عورتوں اور مردوں کی حوصلہ افزائی کرتاہے کہ وہ معاشرہ کی بھلائی میں حصہ دار ہوں اور زندگی کے مختلف شعبوں مثلاََ تعلیم ، سائنس، طب، ٹیکنالوجی اور صنعت میں سبقت لے جائیں۔ مگرخواتین کے ان تمام تعلیمی فرائض اور حقوق کا تحفظ صرف ایک ایسے نظام کے اندر ہی ممکن ہے جو اسلامی عقائد اور تعلیم نسواں کی اسلام میں اہمیت کی حقیقتاً قدرکرتا ہو۔ وہ نظام ریاستِ خلافت ہے جس کے آئین کی بنیاد صرف اور صرف قرآن اور سنت پر ہوتی ہے۔ لہٰذا اسلام کے حکم کے مطابق ریاستِ خلافت کا فرض ہے کہ وہ کثیر رقم شعبہ تعلیم پر خرچ کرے اور بچوں اور بچیوں کو یکساں طور پر مفت ابتدائی اور ثانوی تعلیم مہیا کرے اور جہاں تک ممکن ہو اعلٰی تعلیم کی فراہمی کو بھی مفت ممکن بنائے ۔ یوں یقینی ہوجاتاہے کہ خواتین کے لیے ایسے خصوصی اور بااختیار اسکول ہوں جو اسلام کے حکم کے مطابق غیر مخلوط ہوں، اورجن کا انتظام چلانے کے لیے ، اچھی اجرت پر لی گئیں، بہترین تربیت یافتہ ، اور اعلی اہلیت کی حامل خواتین اساتذہ موجودہوں ۔ ساتھ ہی خواتین کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور انہیں سہولیات مہیا کی جاتی ہیں تاکہ وہ مختلف شعبوں میں خصوصی مہارت حاصل کریں مثلاً عالمہ دین، ماہر طب(ڈاکٹر)، سائنسدان، حساب دان، ماہر تعمیرات، قاضیہ(جج)، مُدَرِّسہ(لکچرار)، مہندسہ(انجنیئر)، اور آئی ٹی کی ماہر بن سکیں۔ اوریہ سب کچھ اسلام کے دیے ہوئے ٹھوس اقتصادی نظام سے مالی طور پر مربوط ہے ، جو ایک مستحکم معیشت اور معاشی خوشحالی پیدا کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے، اور جسے نافذکرنے کی ذمہ داری اسلامی نظامِ حکومت کی ہے ۔ تعلیم اس نظام حکومت کی ترجیہات میں سے ہے اورتعلیم اسکی نظر میں ہر شہری کا بنیادی حق ہے، لہٰذا وہ اپنے نظام تعلیم، شعبہ ابلاغ (میڈیا)، اور عدالتی نظام کے ذریعے ، اپنی بھرپور کوشش سے معاشرہ میں موجود ایسے رسم ورواج کو مٹا دے گا جو خواتین کی تعلیم کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ علاوہ ازیں اسلامی معاشرتی نظام اور دیگر شرعی قوانین اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ خواتین کا بلند مرتبہ ہمیشہ قائم رہے، اور ان کی قدر میں کمی نہ ہو ، تاکہ مرد ان کے ساتھ عزت سے پیش آئیں ، نہ کہ اپنی مرضی اور خواہشات کے مطابق، اور یہ کے ان کی حرمت اور عزت کے خلاف کسی بھی رویے کی سخت سزا دی جائے گی، اور ایک ایسے محفوظ ماحول کو یقینی بنایا جائے گا جس میں بچیاں اپنے سکولوں تک سفر کر سکیں اور اپنی تعلیم کو جاری رکھ سکیں۔ یہ ہے وہ سب کچھ جو خواتین کی ناخواندگی کو مٹائے گا اور عورتوں کی تعلیمی آرزئوں کو پورا کرے گا۔
تاریخ میں اسی خلافت کے نظام تلے ہی ایساممکن ہوا تھا کہ عورتوں کا تعلیمی معیار بلندیوں پرپہنچااور شاندار خواتین سائنسدان اور موجدات تیار ہوئیں، مثلاً ''اصطرلاب'' ایجاد کرنیوالی مریم الاصطرلابی، جنہوں نے دسویں صدی میں سورج اور ستاروں کی حرکات وسکنات کاحساب لگانے کے لیے اس آلہ کی بنیاد رکھی تھی۔ مثلاً بہترین خاتون انجینیر فاطمہ الفہری جنہوں نے مراکش کے شہر قراویین میں پہلی جامعہ بنائی؛ اور ہزارہا خوتین سکالرز جن کی تفصیل عالم محمد اکرم الندوی کی ٤٠ جلدوں پر مشتمل کتاب سے ملتی ہے جو ہمیں ان آٹھ ہزار خواتین سکالرز کی سوانح عمری بتاتی ہے جو اسلامی تہذیب کے دور میں تھیں۔ اس حقیقی اسلامی نظام تلے قاہرہ کی معروف الاظہر یونیورسٹی تک خواتین کی پہنچ بطور طالبعلم بھی تھی اور بطور لیکچرار بھی ، یہ وہ حق ہے جو مغرب کی خواتین کو ان کی جامعات نے سینکڑوں سال بعد دیا۔ درحقیقت بہت سے قدیم اسلامی کلیات وجامعات میں خواتین مدرسات (لیکچرار) کی تعداد آج کی بہت سی مغربی جامعات کی نسبت زیادہ تھی۔ یہ سب اس کا نتیجہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنی ترقی کے لیے صرف اور صرف اسلام کو اپنا مرکزی قوتِ تحریک بنایا۔ اس لیے خلافت ایک ایسی ریاست تھی جس نے حقیقی طور پر دنیا میں خواتین کی تعلیم کی بنیاد رکھی اور انشا اللہ دوبارہ اپنے قیام کے ساتھ خواتین اور بچیوں کے لیے اول درجہ کا تعلیمی نظام مہیا کرے گی۔
عزیز بھائیو اور بہنو،
ملالہ کی اس کہانی کی نوشت مغربی استعماری حکومتوں کی لکھی ہوئی ہے، جس کا مقصد خواتین کے حقوق کی بہتری نہیں بلکہ ان کی استعماری مداخلت کو جاری رکھنا اور مسلم دنیا کو اپنا تابع بنائے رکھنا ہے۔ اس خطہ کے لیے جو تعلیم وہ پیش کررہے ہیں اس میں ہمارے لیے کوئی اخلاص نہیں ہے بلکہ ان کا اصل مقصد اپنے لا دینی (سیکولر) خیالات اور ان آزاد خیال (لبرل)اقدار کو مزید پھیلانا ہے، جنہوں نے ہمارے نوجوانوں کو گمراہ کیا، یقیناََ اس کو سختی کے ساتھ رد کر دینا چاہیے۔
صرف اور صرف خلافت کے قیام کے ذریعے ہی ہم اپنی اسلامی بنیادوں اور قوانین کی طرف لوٹ سکیں گے اور یہی وہ واحد طریقہ ہے جس میں خواتین کی تعلیمی آرزوئوں کی تکمیل ممکن ہے، اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ان کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت ہے۔
اللہ سبحانہ و تعالٰی فرماتے ہیں:
يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُواْ نُورَ ٱللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَٱللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ ٱلْكَافِرُونَ
"وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھا دیں۔ مگر اللہ اپنے نور کو پورا کر کے رہے گا اگرچہ کافروں کو برا ہی لگے"( سورة الصف ۔8)

Read more...

ابواایاس کی کتاب ''منتخب فقہی مسائل ''سے اقتباس

سوال : مسلمان اپنی طویل تاریخ میں ایک ایسے عہدہ سے آشنارہے ہیں جسے الحسبہ کہاجاتاہے،اس عہدے کوسنبھالنے والے کومحتسب یاقاضی حسبہ کہاجاتاہے۔ ہمارے آج کے ممالک میں یہ عہدہ دیکھنے کونہیں ملتا۔کیاآپ اسلامی ریاست کے اندر اس عہدے کے بارے میں کوئی تصوردے سکتے ہیں ؟براہ کرم محتسب کے کاموں کی تفصیل بھی بتادیجئے۔

جواب : جی ہاں ، مسلمانوں کی طویل تاریخ میں یہ منصب جانی پہچانی چیزہواکرتا تھا، جسے الحسبہ کہاجاتاتھا۔ یہ اسلامی ریاست میں عدالت کی ایک قسم ہے ،کیونکہ ریاست خلافت میں تین قسم کی عدالتیں ہوتی ہیں یعنی قاضی تین طرح کے ہوتے ہیں۔ اول: قاضی عام جو لوگوں کے درمیان تنازعات کا فیصلہ کرتاہے۔ دوم: قاضی محتسب، سوئم:قاضی مظالم۔ ان میں سے ہرعدالت رعایاکے مسائل کی کسی ایک شاخ کیلئے مختص کی گئی ہوتی ہے۔ہم قاضی حسبہ کے بارے میں تفصیلی بات کریں گے ۔
حسبہ عدالت ، وہ عدالت ہوتی ہے جوعام زندگی میں واقع ہونے والے عام مسائل کوحل کرتی ہے یعنی ان عام حقوق کے فیصلے کرتی ہے جن کاکوئی دعویدار نہ ہو۔ اس عدالت کا ریاستِ خلافت میں عام زندگی کو منکرات اورگناہوں سے دور،خالص اسلامی سانچے کے مطابق ڈھالنے میں بڑاحصہ ہوتا ہے،اس لئے یہ انتہائی اہم اورحساس عدالت ہے ۔ یہی وجہ تھی کہ اس عدالت کیلئے ایسے اشخاص کوچناجاتاتھاجواچھے اخلاق اورشفاف کردارکے حامل ہوتے ۔ حسبہ کی متعدد تعریفیں کی گئی ہیں ،ان میں سے کچھ یہ ہیں: محتسب وہ قاضی ہوتاہے جوان عام حقوق سے متعلق، جن کاکوئی دعویدارنہیں ہوتا، تمام فیصلوں کودیکھتاہے ،بشرطیکہ یہ فیصلے حدود اورجنایات کے تحت نہ آتے ہوں ۔ الاحکام السلطانیہ کے مصنف کہتے ہیں: حسبہ عدالت کاکام یہ ہے کہ جب کسی نیکی کولوگ چھوڑرہے ہوںتووہ اس کاحکم دے اورجب لوگ کسی منکرمیں پڑنے لگیں توانہیں منع کرے ۔ امام غزالیؒ فرماتے ہیں : منکرسے مراد وہ منکرہے جو زمانہ حال میں کیاجارہاہواورمحتسب کوبغیرکسی تفتیش کے نظرآئے اورجس کامنکرہونااجتہاد کے بغیرسمجھ میں آئے ۔ یہ اسلامی حکومت کی مشینریوں میں سے ایک مشینری ہوتی ہے جس کاکام خیراورنیکی کوپھیلانااورشراورمنکرکا قلع قمع کرناہوتاہے ۔ اس کی اہمیت اورحساسیت کی وجہ سے اس عہدے کوسنبھالنے والے کیلئے مندرجہ ذیل صفات کاحامل ہوناضروری ہے :
-1 عادل ،نیک اورپرہیزگارہو۔
2- طاقتوراوردین کے بارے میں سخت اورکٹرہو۔
-3 فقیہ ،اوراحکام شریعت کاعالم ہو۔
بعض فقہاء نے محتسب کیلئے کچھ اضافی صفات بھی ذکر کئے ہیں ،وہ محتسب کیلئے ذی حیثیت اورمعزز ہونااور عالی النسب ہوناواجب ٹھہراتے ہیں ۔ جہاں تک تفصیلاً اورپوری گہرائی سے محتسب کے اعمال کابیان ہے تووہ کچھ یوں ہے۔
-1 مارکیٹ کی نگرانی ،ملاوٹ ،ذخیرہ اندوزی ،دھوکہ دہی اورتجارتی معاملات میں نقصان دہی سے روکنا،اسی طرح ناپ تول اورخرید وفروخت کے پیمانوں پرنظررکھنا،سامان او ر خدمات کی قیمتوں کی نگرانی کرنااور تاجروں کوراستوں میں سامان رکھنے سے منع کرنا،صرافوںmoney exchangersاورسکے بنانے والوں کی کارکردگیوں کودیکھنااوران کوسونے ،چاندی کی کرنسیوں اورزیورات کی ہیر پھیر یاسودی معاملات میں پڑنے سے روکنا،کیفے اورکلبوں کی نگرانی کرنا۔جوئے،اورمنشیات استعمال کرنے اورنشہ آوراشیاء کاکاروبارکرنے سے روکنا۔ ہمارے زمانے میں دیہی کونسلز اور میونسپل بورڈ ز یہ کام سرانجام دیتے ہیں ۔
-2 مساجد کی نگرانی ،یعنی ان کی صفائی ستھرائی اوران میں قرآنی نسخوں کی موجودگی کی تسلی کرنا،اپنے فرائض کی ادائیگی کے حوالے سے آئمہ مساجد اورمؤذنین کی نگرانی کرنا،لوگوں کوباجماعت نماز کی ادائیگی کی ترغیب دلانا،مساجد میں تصاویربنانے ،لٹکانے اورنقش ونگاروغیرہ سے روکناتاکہ نمازیوں کی نظریں اس میں نہ لگیں،اس طرح مسجدوں میں ہلڑبازی اورباہم جھگڑوں اورچیخنے چلانے سے روکنا۔ ان جیسے کام موجودہ دور میں وزارت اوقاف سرانجام دیتی ہے ۔
-3 رعایاکے حالات کی خبرگیری ،مثلاًمسلمان خواتین اورذمی عورتوں کوعام زندگی میں شرعی لباس اورستر کے چھپانے کی پابندی کروانا،عورتوں کوچھیڑنے والے بدکارفاسق لوگوں کوان تک رسائی نہ دینا،ان جگہوں میں جہاں عورتوں اورمردوں کے درمیان علیحدگی ضروری ہوتی ہے ، اختلاط اورمیل جول نہ کرنے دینا،جیسے سوئمنگ پول ، نہروں اوردریاؤں کے کنارے،ہوٹلز ،پارک اورکھیل کے میدان،ہمارے اس دورمیں یہ کام اخلاقیات کا نگران ادارہ سرانجام دیتاہے۔
- 4 سڑکوں اورعام راستوں کی آمدورفت کی نگرانی۔ سڑکوں ،پلوں ،نہروں کی حالت پرنظررکھنا،ٹریفک کومنظم کرنا،بندرگاہوں پربحری جہازوں کی نقل وحرکت اورخلاف ورزیوں کوروکنا،نقل وحمل کے وسائل کوکنٹرول کرنا،تاکہ گاڑیاں چلتی رہیں اورسواریاں سہولت، آسانی اورامن کے ساتھ آجاسکیں ۔ ہمارے زمانے میں اس کانام ٹریفک قوانین اور نقل وحرکت کے نظام ہیں جس کی نگرانی پولیس کرتی ہے ۔
-5 ڈسپنسریوں اورمیڈیکل کلینکس ،لیبارٹریوں ،ہوٹلز اورفوڈز فیکٹریوں کی نگرانی کرنا،اوران کے چلانے والوں کوصفائی کی پابندی کروانااوران کوملاوٹ سے منع کرنا،نیزان کواپنی ڈیوٹیاں تقویٰ کے مطابق اداکرنے کاحکم کرنا،یہ کام آج کل وزارت صحت سرانجام دیتی ہے ۔
مختصراً میں کہوں گا کہ محتسب کاکام یہ ہے کہ جہاں منکرنظرآیااس کوروکنا اورریاست خلافت میں عام زندگی کوخالص اسلامی رنگ میں رنگی ہوئی زندگی بنانا۔ چنانچہ اسلامی ریاست میں نہ تو سیاح نیم برہنہ لباس کے ساتھ گھوم سکیں گے، نہ ہی ذمی لوگ شراب اور خنزیر کا گوشت مسلمانوں کوپیش کرسکیں گے ۔ نہ ہی گرجا گھروں کی گھنٹیاں اونچی آواز کے ساتھ بجائی جائیں گی ،بالخصوص مسلمانوں کے نماز کے اوقات میں ،نہ ہی کوڑاکرکٹ کوراستوں اورعام چوراہوں میں پھینکاجائے گاوغیرہ ۔
محتسب کے تصرف میں پولیس کی مناسب نفری رکھنابھی ضروری ہے جس کے ذریعے وہ سزاؤں کوفوراً نافذ کرسکے تاکہ مسئلہ کو فوراً حل کیا جائے۔ محتسب جب بھی کوئی مسئلہ دیکھتاہے کسی تاخیر کے بغیراس کے بارے میں فیصلہ کرتاہے ۔ اُس کوعدالت کے فیصلے کاانتظار نہیں کرناپڑتابلکہ وہ راستوں اورچوکوں میں مسائل کے بارے میں فیصلہ کرتاہے ۔ اُس کے لئے کسی کومعاف کرنابھی جائز ہوتاہے جیساکہ اُس کیلئے کسی کوجھڑکنے اورڈانٹ ڈپٹ کرنے کی اجازت ہوتی ہے ۔ وہ کوڑے لگاسکتاہے ، مال کوضبط کرسکتا ہے، یہاں تک کہ اس کوتلف کرنابھی جائز ہوتاہے۔وہ تمام سزائیں نافذ کرسکتاہے ،سوائے حدودکے جیسے ہاتھ کاٹنا یازناکرنے والے کوسنگسارکرنایاجنایات جیسے قتل اورزخمی کرنے کی سزائیں۔ محتسب کواپنے کسی بھی فیصلے میںمدعی کی ضرورت نہیں ہوتی ،بلکہ وہ منکردیکھتے ہی اپنافیصلہ سناتاہے ،خواہ دن ہویارات اورخلاف وزری کرنے والوں اورسرکش لوگوں کومختلف قسم کی تعزیر دیکر سزادے سکتاہے اوراس کا حکم نافذ العمل ہوتا ہے ،اس کافیصلہ حتمی ہوتاہے جسے توڑنایامعطل کرناجائز نہیں ہے۔

 

Read more...

سوال و جواب :  مصر میں جاری واقعات

 

سوال:مصر میں جاری واقعات کو دیکھ کر میں پریشان ہو گیا ہوں اور معاملات میرے سامنے غیر واضح ہیں:
1 ۔ یہ بات ہمارے علم میں ہے کہ مصر میں عملی بالادستی امریکہ کو حاصل ہے،پھر سعودی عرب،امارات اور کویت کیوں مصر کی نئی حکومت کی مالی مدد کررہے ہیں کیونکہ یہ ممالک برطانیہ کے زیر اثرہیں؟
2 ۔ امارات نے مالی میں بھی فرانس کی حمایت کی اور مالی کو بھی معاشی امداد دی ،حالانکہ مالی میں بالادستی برطانیہ کو حاصل نہیں؟
3 ۔ اسی طرح ہم نے امارات کے ٹی وی چینل العربیہ اور قظر کے ٹی وی چینل الجزیرہ کے موقف میں تضاد کا مشاہدہ کیا باوجود اس کے کہ قطر اور امارات دونوں انگریز ہی کے ایجنٹ ہیں،کیا یہ کہنا مناسب ہے کہ قطر میں حالیہ تبدیلی نے یہاں برطانوی پالیسی کو متاثر کیا؟
4 ۔ پھر ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ شامی اتحاد میں موجود سعودی نواز مثال کے طور پر الجربا کا قطر نواز افراد کے مقابلے میں فعال کردار ہے ،کیا شام میں رونما ہونے والے واقعات میں قطرنواز افراد کمزور ہوگئے اور سعودی نواز مضبوط ہوگئے؟
5 ۔ آ خر میں کیا امریکہ نے مرسی کی پشت پناہی سے ہاتھ کھینچ کر نام نہاد ''اعتدال پسند"اسلام کو اقتدار تک پہنچانے کے لیے راہ ہموار کرنے کے نظرئیے سے دستبردار ہو گیاہے؟مجھے امید ہے کہ اس سوال کی طوالت پر آپ تحمل کا مظاہرہ کریں گے اللہ آپ کو جزائے خیر دے،اس کی طولت اور کثرت پر میں پہلے ہی معذرت خواہ ہوں،لیکن ہمیں اپنے امیر کی وسعت علمی کے ساتھ ان کے فراخ دلی کا بھی ادراک ہے،ممکن ہے کہ ان کے جواب سے ہماری تشنگی دور ہو اور ہمارے دل ٹھنڈے ہوں۔

جواب:میرے بھائی یہ سوال نہیں بلکہ سوالات کی ایک ''گھٹڑی" ہے!!بہر حال مختصر جواب پیش خدمت ہے جو ان شاء اللہ آپ کو پریشان نہیں کرے گا:
برطانوی پالیسی کے کچھ خطوط(ھیڈ لائینز)ہیں جن کو جان کر جو کچھ ہو رہا ہے آپ اس کو سمجھ سکتے ہیں:
1 ۔ موجودہ وقت میں برطانیہ اعلانیہ طور پر امریکہ کے مد مقابل آنے کی جرات نہیں کر سکتا ، بلکہ ایسا ظاہر کر رہا ہے کہ وہ بھی امریکہ ہی کے صف میں ہے،لیکن پس پردہ اور اپنے ایجنٹوں کے ذریعے سے ایسا لائحہ عمل مرتب کر کے جو بظاہر کچھ اور نظر آتا ہے امریکی پالیسیوں کو ناکام بنانے کی کوشش کرتا ہے۔۔۔۔۔۔
2 ۔ برطانیہ اپنے ایجنٹوں کو اکثر ایسا کردار دیتا ہے جس سے بظاہر ایسا نظر آئے کے وہ بھی اسی سمت جارہے ہیں جس طرف امریکہ گامزن ہے تاکہ اس کے ساتھ کوئی تصادم نہ ہو،چنانچہ سیاسی بیداری سے محروم شخص کے لیے اردن کا امریکہ کے ساتھ تعلقات ایسے ہیں کہ وہ بھی امریکہ ہی کے صف میں ہے،حالانکہ اردن برطانوی سیاست کا بنیادی رکن ہے،یہی حال امارات اور دوسرے ایجنٹوں کا ہے۔۔۔۔۔۔۔ مگر برطانیہ اپنے بعض ایجنٹوں کو بعض دفعہ امریکہ کے سامنے ڈٹ جانے کی اجازت دیتا ہے ،یہ دوسرے ایجنٹوں سے مختفج کردار ہو تا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اس کے مختلف ایجنٹوں کا مختلف کردار ہو تا ہے:ان میں سے اکثر بظاہر امریکہ کے سامنے مسکراتے ہیں اور پیار کا اظہار کرتے ہیں اور پس پردہ اپنے آقا برطانیہ کے طرز پر اس کو تنگ کرتے رہتے ہیں،ان میں سے بہت کم کا کردار واضح طور پر امریکہ کو تشویش میں مبتلا کرتا ہے۔۔۔۔۔۔
3 ۔ برطانیہ امریکہ کی پالیسیوں کا سامنا کر نے کے لیے فرانس کا سہارا لیتا ہے جو کہ یورپی خصوصا برطانیہ اور فرانس کی پالیسی کے ضمن میں ہو تا ہے،فرق صرف اتنا ہے کہ برطانیہ انتہائی خباثت سے نرم ونازک انداز سے امریکہ کو دھوکہ دیتا ہے جبکہ فرانس چلاتا اور چنگاڑ تا ہے۔۔۔۔۔اکثر وبیشتر برطانیہ فرانس کے پشت پر اپنی پالیسی کو عملی جامہ پہنا تا ہے !مشہور مثل ہے کہ ''برطانیہ آخری فرانسیسی سپاہی تک لڑے گا"اگر چہ یہ پرانے زمانے کی بات ہے لیکن اس کا اثر اب بھی کسی حد تک ہے۔
4 ۔ سعودیہ میں حکومت کے سربراہ اگرچہ عبداللہ ہے جو کہ برطانیہ پیروکار ہے لیکن بعض شہزادوں پر امریکہ کا اثر ہے اسی اثر کی وجہ سے اس کی پالیسوں کے لیے راہ ہموار ہو تی ہے۔۔۔۔۔۔۔
اس کی روشنی آپ کے سوالات کے جوابات کی وضاحت ممکن ہے:
ا۔ جہاں تک قطر کا تعلق ہے اس کے سابق امیر نے وزیر خارجہ سے مل کر قطرکو خلیج میں برطانیہ کی توجہ کا مرکز بنانے میں کا میاب ہوگیا،یہی سے اس نے مختلف ملکوں میں دو موثر وسیلوں سے مداخلت شروع کردی:میڈیا''الجزیرہ" اورمال''پٹرول"سے۔۔۔۔۔۔یوں اس کی سرگرمیاں شام اور فلسطین حتی کہ مصر وغیرہ میں امریکی پالیسی کو ڈسٹرب کرنے میں موثر ثابت ہوئیں۔۔۔۔امریکہ کا پریشان ہونا برطانیہ سے پوشیدہ نہیں تھا،چونکہ برطانیہ یہ ظاہر کرنا چاہتا تھا کہ وہ امریکہ کو تنگ نہیں کر رہا اسی لیے اس نے امیر کو تبدیل کرنے کی حامی بھر لی،لیکن اس کا متبادل کسی اور کو نہیں اس کے بیٹے کو لایا گیا ،یعنی برطانوی پالیسی تبدیل نہیں ہوئی،لیکن اس بیٹے کو امریکہ کو تنگ کرنے میں اپنے والد کی طرح موثر ثابت ہو نے کے لیے وقت درکار ہے،اس تبدیلی کے ذریعے برطانیہ نے امریکہ کی پریشانی کو کم کردیا ۔۔۔۔۔یعنی جو کچھ ہوا یہ امریکہ کو راضی کرنے کا برطانوی اسلوب تھا جو کہ صرف ظاہری ہے جس میں امریکہ کو کچھ حاصل بھی نہیں ہوا!
ب ۔ اس تبدیلی کے ساتھ قطر کا کردار تھوڑا پوشیدہ ہو گیا کیونکہ نئی حکو مت کے کارندے سیاسی داوپیچ میں پرانی حکومت کے کارندوں سے کم تجربہ کار ہیں،تاہم قطر بدستور برطانوی سیاست کے زیر اثر ہے اس لیے خفیہ اور خبیث انداز سے کام کرتا ہے،اس کا اعلانیہ کردار گزشتہ دور سےکم فعال ہے،یہی وجہ ہے کہ شام میں بھی اس کے کارندوں کی چستی پرانوں کے مقابلے میں کم ہے۔
ج ۔ جہاں تک سعودی نوازوں کا تعلق ہے تو وہ زیادہ فعال ہیں اور امریکہ اور برطانیہ سے زیادہ مقبول ہیں کیونکہ سعودی بادشاہ کی وفاداری برطانیہ کے لیے ہے اور امریکہ بھی شاہی خاندان میں بعض شہزادوں کو استعمال کرتے ہوئے جانفشانی سے تگ ودو کر رہا ہے۔
رہی بات الجربا کی تو اگر چہ یہ سعودیہ کا مقرب ہے لیکن یہ امریکی پالیسی کا حصہ ہے،سعودیہ چاہے اس کی کتنی ہی حمایت کرے یہ امریکہ کی اطاعت سے منہ نہیں موڑ سکتا،یہ اتحا د مکمل طور پر امریکہ کا بنا یا ہوا ہے،اس لیے یہ اسی شخص کی سربراہی میں ہی آگے بڑے گا جو امریکہ کی کٹ پتلی ہو۔
د ۔ جہاں تک مالی اور امارات کی معاشی امداد کا تعلق ہے ۔۔۔۔۔آپ کو معلوم ہے کہ امریکہ ہی مالی میں رونما ہونے والی پہلی تبدیلی کا پشت بان تھا جو 22/03/2012 کو واقع ہوئی،یہ فرانس کے لیے کاری ضرب تھی،اسی لیے فرانس نے انتہائی جانفشانی اور محنت سے اپنے اثرورسوخ کو دوبارہ قائم کرنے کی کوشش شروع کردی۔برطانیہ کو اس بات کا ادراک ہے کہ مالی میں اس کا کوئی اثرورسوخ نہیں بلکہ یہا ںفرانس کو بالادستی حاصل ہے اور امریکہ مزاحمت کر رہا ہے۔رسہ کشی امریکہ اور فرانس کے درمیان ہو تو برطانیہ فطری طور پر فرانس کا معاون ہوتا ہے۔امارات کی جانب سے مالی کی معاشی مدد بھی برطانیہ کی جانب سے فرانس کی مدد کے تناظر میں ہے۔
ھ ۔ رہی بات مصر میں جو کچھ ہوا اس حوالے سے امارات کے وفد اور اردن کے بادشاہ کی جانب سے مصرکا دورہ کرنے کی شکل میں برطانوی موقف کی تفسیر کی اور برطانوی ایجنٹوں کی جانب سے مصر کی مالی امداد کی تو یہ بھی مذکورہ بالا خطوط (ھیڈلائنز)سے باہر نہیں۔۔۔۔۔جہاں تک امارات اور قطر کے کردار کے تضاد سے پیدا ہونے والے التباس کا تعلق ہے تو یہ برطانوی پالیسی کے مطابق کرداروں کی تقسیم ہے،مصر کے واقعات کے نتائج کے انتظار میں ایک قریب ہوتا ہے تو دوسرا دور جاتا ہے۔۔۔۔۔امارات کی جانب سے مبارک حکومت کے عناصر کی میزبانی بھی ان خطوط سے ہٹ کر نہیں۔مبارک کے آدمیوں کے دوبارہ برسر اقتدار آنے کی توقع بھی امارات کے ذریعے برطانوی پالیسی کاایک راستہ ہو گا اگر چہ یہ راستہ تنگ ہوگالیکن یہ بھی اچھا جواب دینے کے ضمن میں ہوگا!
و ۔ رہی یہ بات کہ کیا امریکہ کی جانب سے مرسی کے سر سے دست شفقت ہٹانے کا مطلب نام نہاد ''اعتدال پسندوں"کو اقتدار تک پہنچانے کے لیے راہ ہموار کرنے سے دستبرداری ہے۔تو بات دستبردار ہونے یا نہ ہونے کی نہیں بلکہ مسئلہ مصر میں امریکی اثرو رسوخ کو برقرار رکھنے کا ہے،کیونکہ امریکہ کا اثر ورسوخ مصرکے غالب سیاسی طبقے میں گزشتہ کئی دہائیوں سے راسخ ہے۔امریکہ چاہتا ہے کہ مصر میں امریکی بالادستی مستحکم مرکز رہے۔ وہ یہاں استحکام مصر کے باشندوں کی خاطر نہیں چاہتا،بلکہ امریکہ کو اپنی بالادستی اور منصوبوں کے لیے ایک محفوظ اور مستحکم پلیٹ فارم چاہیے۔۔۔۔۔ جس وقت 25/01/2011 کی عوامی تحریک نے امریکہ کو پریشان کردیا اور مبارک اس تحریک کو دبانے اور مصرکو دبارہ امریکی مفادات کے حصول کے لیے ایک مستحکم ماحول مہیا کرنے میں ناکام ہو گیا توامریکہ نے اس کو ایک طرف کردیا اور عوامی تحریک کی موجوں پر سوار ہوگیا ۔اس کے بعد مرسی کو اس وقت لایا جب اس نے امریکی منصوبوں کو نافذ کرنے کی ضمانت دی خاص کریہودی وجود کے ساتھ کیمپ ڈیوڈ معاہدے کی تب امریکہ نے اس کی حمایت کردی۔۔۔،اس سے یہ توقع بھی کی کہ استحکام کو حاصل کرے گا کیونکہ اس کی جماعت الاخوان ہی نیشنل پارٹی کو کالعدم قرار دینے کے بعد سب سے بڑی اور منظم پارٹی ہے۔امریکہ یہ توقع کرتا تھا کہ یہ حالات کو قابو کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے جیسا کہ نیشنل پارٹی نے معزول صدر کے ساتھ کیا تھا۔۔۔۔لیکن مرسی ایسا نہ کر سکا تو اس سے بھی دستبردار ہو گیا۔۔۔۔۔اور03/07/2013 کو نئی حکومت کا حمایتی اورپشت بان بن گیا ۔۔۔۔
اس بنا پر امریکہ کا مصر میں ''اعتدال پسند اسلام "والوں سے دستبردار ہونا حالیہ سالوں میں ''اعتدال پسند اسلام"والوں کو اقتدار تک پہنچانے کے لیے راہ ہموار کرنے کی پالیسی سے باہر ہے،امریکہ نے اس پالیسی کو ایک تیر سے دوشکار والی کہاوت کی طرح استعمال کیا:
پہلا:ان عام مسلمانوں کو دھوکہ دینا جو اسلام کی حکمران چاہتے ہیں۔۔۔۔اگر چہ ''اعتدال پسند اسلام"والے اعلانیہ طورپر جمہوریت کی بات کرتے ہیں اوراسی کو قائم دائم رکھنے کا حلف اٹھاتے ہیں!لیکن ان کا نام کے لحاظ سے بھی ''اسلامی" ہونا مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکاتا ہے اور وہ یہ گمان کرنے لگتے ہیں کہ ان اسلام پسندوں کے اقتدار تک پہنچنے سے اسلام کی حکمرانی آئے گی اور یوں وہ اسلام کی حکمرانی یعنی خلافت کے نظام کے لیے صحیح معنوں کام کرنے کے عزم سے پیچھے ہٹتے ہیں ۔۔۔۔۔اور امریکہ یہی چاہتا ہے کہ مسلمان خلافت کے قیام کے لیے کام کرنے کا عزم نہ کریں، کیونکہ خلافت ہی نے اس کی نیند حرام کر رہی ہے۔۔۔۔۔
دوسرا:اسلام پسندوں کے ذریعے لوگوں کے جذبات سے کھیل کر اپنی بالادستی کو برقرار رکھنا۔۔۔۔اگر وہ امریکی بالادستی کو برقرار رکھنے کے لیے استحکام قائم نہ کرسکیں تو ان سے دستبردار ہونا،جیسا کہ مرسی کے ساتھ کیا،پھر دوسروں کی حمایت شروع کردی،خاص کر اس صورتحال میں کہ اس کے پاس ایجنٹ سیاست دانوں کی کوئی کمی نہیں جو اس نے مصر میں گزشتہ کئی سالوں کے دوران تیارکیے ہیں!
ز ۔ اہل کنانہ(اہل مصر)کو چاہیے کہ اس بات کو سمجھیں کہ امریکہ کو معزول صدر مبارک کے دور میں جو بالادستی حاصل تھی وہی معزول صدر مرسی کے دور میں بھی حاصل تھی اور اسےہی اب بھی موجودہ حکومت کے دور میں حاصل ہے۔امریکہ ہی مصر کی بیماری اور مصیبت کی وجہ ہے ۔یہ ہر مسلمان پر واجب ہے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺپر ایمان رکھتا ہے کہ وہ امریکی بالادستی کا قلعہ قمع کرنے ،اس کے ایجنٹوں کو ہٹانے اور اسلام کی حکمرانی خلافت راشدہ کو دوبارہ کنانہ کی سرزمین میں لانے کے لیےزبردست جدوجہد کرے تاکہ یہ اسلامی دنیا کا مرکز بن جائے اور اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کا صفایا کرے،یہودی وجود کو مٹادے ارض مقدس کو اسلام اور مسلمانوں کو واپس کرے جیسا کہ انہوں نے صلیبیوں اور تاتاریوں کا قلع قمع کرنے میں کیا اور یہ اللہ کے لیے کوئی مشکل بھی نہیں۔

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک