السبت، 30 جمادى الثانية 1447| 2025/12/20
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

مذاکرات کے ذریعے امریکہ خطے میں اپنی موجودگی کو یقینی بنانا چاہتا ہے

پریس بریفنگ

پاکستان کے میڈیا نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے سوالات اٹھائے ہیں۔ لہٰذا پاکستان میں حزب التحریر کے میڈیا آفس نے اس مسئلہ پر مندرجہ ذیل پریس بریفینگ جاری کی ہے۔ امریکی ڈرون حملے میں طالبان رہنما کی ہلاکت کے بعد یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ امریکہ طالبان کے ساتھ مذاکرات چاہتا ہے؟ آخر امریکہ کیوں "معتدل" طالبان کے ساتھ مذاکرات چاہتا ہے؟
میڈیا آفس ان سوالات کے جوابات کو جاننے کے لیے مندرجہ ذیل نکات کو پیش کررہا ہے:
1۔ جہاں تک طالبان سے عمومی طور پر مذاکرات کی بات ہے تو امریکہ افغانستان سے اپنے محدود انخلاء کے منصوبے کی آڑ میں افغانستان میں اپنی مستقل موجودگی کو مذاکرات کے ذریعے ایک قانونی حیثیت دینا چاہتا ہے۔ اسی منصوبے کا حصہ اسلام آباد میں دنیا کے دوسرے بڑے امریکی سفارت خانے کی تعمیر، افغانستان میں نو(9) امریکی اڈوں کا حصول اور ایک لاکھ سے زائد نجی سکیورٹی کنٹریکٹرز کو افغانستان اور پاکستان میں تعینات کرنا بھی شامل ہے۔ افغانستان میں موجود طالبان ، جن کی بڑی تعداد پشتون ہے، اس منصوبے کی تکمیل کے لیے اہم ہیں ۔ ان کی حمائت کے بغیر کوئی بھی معاہدہ بے معنی ہوگا کیونکہ افغانستان کی تاریخ میں پشتون ہی سب سے اہم اور بااثرگروہ ہے۔
جہاں تک پاکستان کے قبائلی علاقوں کے پشتونوں کا تعلق ہے ، امریکہ کو اپنے منصوبے کی کامیابی کے لیے ان کی حمائت بھی درکار ہے۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں کے پشتونوں کے افغانستان کے پشتونوں سے گہرے اور مضبوط روابط ہیں ۔ پاک و افغان سرحد ڈیورنڈ لائن، جوکہ برطانوی استعمارنے قائم کی تھی، کے دونوں جانب رہنے والےپشتونوں کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ مذاکرات پر مجبور کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں سے امریکی قابض افواج کے خلاف لڑنے والوں کے لیے فراہم ہونے والی معاونت کو ختم کیا جائے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے امریکہ یہ چاہتا ہے کہ افواج پاکستان قبائلی علاقوں میں مصروف رہیں اور اس کے خلاف ہونے والی مزاحمت کا خاتمہ کریں اور اس کے ساتھ ساتھ مزاحمت کی ساکھ کو جس قدر ممکن ہو پشتونوں کی نظر میں خراب کردے۔ یقیناً امریکہ یہ امید کرتا ہے کہ اگر وہ امریکی قبضے کے خلاف مزاحمتی تحریک کو کمزور اور اس کی ساکھ کو خراب کردے تواس بات کے زیادہ امکانات ہیں کہ عام پشتون حکومت اور "معتدل" طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات کی حمائت کریں گے۔ اس کے علاوہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ افغانستان اورپاکستان کےقبائلی علاقوںمیں لڑنے والے طالبان کئی چھوٹے چھوٹے گروہوں میں تقسیم ہیں جن میں آسانی سے اپنے ایجنٹ داخل کیے جاسکتے ہیں اور ان گروہوں پر اثر انداز ہوا جاسکتا ہے۔ لہٰذا امریکہ ان گروہوں کو "معتدل" اور "سخت گیر" طالبان کے نام دیتا ہے۔
2۔ یقیناً امریکہ اس بات سے اچھی طرح باخبر ہے کہ مسلمان اس کی مستقل موجودگی کو شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ یہ شک و شبہ طالبان، علماء دیوبند، پشتونوں، عمومی طور پر مسلمانوں اور خصوصاً افواج میں بھی پایا جاتا ہے۔ پہلے بھی یہ دیکھا گیا ہے کہ امریکہ نے یہ محسوس کیا تھا کہ کیانی و زرداری حکومت اس کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عوام کی حمائت حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔یہ نظر آتا ہے کہ اس صورتحال نے امریکہ کو مجبور کیا کہ وہ اس نواز شریف کو دوبارہ اقتدار میں لائے جسے اس نے اپنے ایجنٹ مشرف کے ذریعے تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا تھا کیونکہ امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ نواز شریف دہشت گردی کے خلاف اس کی جنگ کی مزاحمت کرنے والےاسلامی دائیں بازو کی جماعتوں اور قوم پرستوں کے سخت موقف میں نرمی لانے میں کامیاب ہو جائے گا۔نواز شریف اور اس کی جماعت مسلم لیگ (ن) کی معاشرے کے قدامت پسند طبقے میں جڑیں موجود ہیں۔ پاکستان کے لوگوں کو دھوکہ دینے کے لیے، امریکہ نے اپنے ایجنٹ نواز شریف کو اس بات کی اجازت دی کہ وہ "ڈرون حملوں کے خاتمے" اور "انخلاء کے لیے امن مذاکرات" کو اہم مسائل کے طور پر اجاگر کرے۔ امریکہ مخالف موقف اپنانے سے،امریکہ یہ امید رکھتا ہے کہ نواز شریف امریکہ سے اپنے اتحاد کو چھپا سکتا ہے اور امریکہ کے مفادات کو زیادہ مزاحمت کا سامنا کیے بغیر حاصل کرسکتا ہے بالکل ویسے ہی جیسا کہ ماضی میں مسلم دنیا میں دوسرے ایجنٹ بھی یہ کام اسی طرح کرچکے ہیں کہ انھوں نے خوب امریکہ مخالف نعرے بازی کی جبکہ ہر ممکن طریقے سے امریکی مفادات کی تکمیل کے لیے کام بھی کرتے رہے۔
3۔ یہ امریکی منصوبے کا حصہ ہے کہ اس کے ایجنٹ اس کے خلاف بیان بازی کریں تا کہ اس کی خواہشات کی تکمیل ہو سکے ،لہٰذا امریکہ نے اپنے ایجنٹوں کو اس بات کی اجازت دی ہے کہ وہ اس بات کو عام کریں کہ امریکہ مذاکرات کا مخالف ہے۔ تو اس طرح ایسا نظر آئے گا کہ جیسے امریکہ مذاکرات کا مخالف ہے اور امریکی مخالفت میں مسلمان ان مذاکرات کی حمائت کرنا شروع کردیں گے ۔ یہ ایک "ڈبل گیم" ہے جس کے تحت مسلمان یہ سمجھتے ہوئے مذاکرات کو آگے بڑھائیں گے کہ ایسا کر کے وہ امریکی منصوبے کو ناکام کررہے ہیں کیونکہ بظاہر امریکہ تو ان مذاکرات کی مخالفت کررہاہے۔ اس کے علاوہ، حکومت نے یہ جھوٹ بھی پھیلایا ہے کہ مذاکرات امریکہ کے خلاف کامیابی کی نشانی ہےجبکہ امریکہ کو ان مذاکرات کی ضرورت ہے کیونکہ وہ ایک طویل اور مہنگی جنگ کے بعدجو کچھ ممکن ہے اپنے لیےحاصل کرنا چاہتا ہے۔ لہٰذا افغانستان اور پاکستان میں امریکی ایجنٹ اس امریکی "ڈبل گیم" کے تحت اپنا اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔ اس کا عملی مظاہرہ اس وقت دیکھا گیا جب نواز شریف تازہ ترین ہدایت لے کر امریکہ سے واپس آیاتو امریکہ نے پاکستان میں طالبان رہنما حکیم اللہ محسود کو قتل کردیا۔ ایجنٹوں نے بہت شور مچایا کہ مذاکرات کا عمل خطرے سے دوچار ہو گیا ہے۔ یکم نومبر 2013 کو انگریزی اخبار ڈان نے خبر شائع کی کہ "ڈرون حملوں کی مذمت کرتے ہوئے وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کہا کہ ان کا نشانہ ملک میں امن کے قیام کی کوششوں کو سبوتاژکرنا ہے۔ کل(ہفتےکے دن) ایک وفد طالبان سے بات چیت کے لیے روانہ ہونے والا تھا۔ چوہدری نثار نے یہ بیان اس وقت دیا جبکہ اس بات کی تصدیق نہیں ہوئی تھی کہ مارے جانے والا عسکریت پسند کمانڈر حکیم اللہ ہے"۔ پھر 2 نومبر 2013 کو ڈان اخبار نے یہ خبر شائع کی کہ "جمعہ کو ڈرون حملے میں مارے جانے والے پاکستانی طالبان سربراہ کی ہلاکت کو خطے کے امن پر امریکی حملہ قرار دیا گیا ہے۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار نے ہفتے کو کہا کہ امریکہ کے ساتھ دوطرفہ تعلقات پر نظر ثانی کی جائے گی"۔ اور 2 نومبر 2013 کو ہی ڈان اخبار نے یہ خبر شائع بھی شائع کی کہ "وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے اسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت محسود کی تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات کے منصوبے کوآگے لے جانا چاہتی ہے۔ پرویز رشید نے کہا کہ اس بار ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ڈرون نے امن مذاکرات پر حملہ کیا ہے لیکن ہم امن مذاکرات کے عمل کو ختم نہیں ہونے دیں گے"۔ جہاں تک افغانستان میں امریکی ایجنٹوں کا تعلق ہے تو ایکپریس ٹربیون نے AFPکے حوالے سے 4نومبر 2013 کو یہ خبر شائع کی کہ "افغان صدر حامد کرزئی نے تحریک طالبان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کی غلط وقت پر امریکہ کے ہاتھوں قتل کیے جانے پر نکتہ چینی کی اور اس امید کا اظہار کیا کہ واقعہ علاقائی امن کی کوششوں کو ناکام کرنے کا باعث نہیں بنے گا۔ کرزئی نے افغانستان کے دورے پر آئے امریکی کانگریس کے وفد سے کہا کہ ڈرون حملہ صحیح وقت پر نہیں کیا گیا لیکن وہ امید رکھتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں امن کے عمل کو نقصان نہیں پہنچے گا"۔
4۔ یہ اسی "ڈبل گیم" کا نتیجہ ہے کہ امریکی ایجنٹ ڈرون حملے کی مذمت کرنے کے باوجود طالبان کے ساتھ مذاکرات کے سلسلے کو جاری رکھنے پر بھی اصرار کررہے ہیں۔ 3نومبر2013کو ڈان اخبار نے یہ خبر شائع کی کہ "پاکستان کی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ جس ڈرون حملے میں محسود مارا گیا اور اس سے ایک روز قبل ہونے والے ڈرون حملے پر احتجاج کرنے کے لیے اس نے پاکستان میں امریکی سفیر رچرڈ اولسن کوطلب کیا۔ وزارت سے جاری ہونے والے بیان میں اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ ڈرون حملے کے باوجود حکومت تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذکرات کے عمل کو جاری رکھنے کا قطعی ارادہ رکھتی ہے"۔ اور 3نومبر2013 کو ڈان اخبار نے خبر شائع کی کہ "جمعیت علمائے اسلام کے مولانا فضل الرحمن نے ہفتے کو حکومت پاکستان پر زور دیا ہے کہ حالیہ امریکی ڈرون حملے میں طالبان رہنما حکیم اللہ محسود کے قتل کے باوجود وہ طالبان کے ساتھ بات چیت کے اپنے فیصلے پر قائم رہے۔ مولانا نے کہا کہ حکیم اللہ کی موت نے ملک میں ایک جذباتی فضاء قائم کردی ہے۔ انھوں نے کہا کہ تحریک طالبان کے سربراہ کے قتل کے نتیجے میں مذاکرات کا عمل کچھ دنوں کے لیے تاخیر کا شکار ہوجائےگا لیکن امن اور مفاہمت کے دشمنوں کو اپنے مقاصد میں کامیاب ہونے کی اجازت نہ دی جائے"۔

5۔ امریکہ ایک طرف بظاہر یہ تاثر دے رہا ہے کہ وہ مذاکرات کا مخالف ہے جبکہ درحقیقت سرحد کے دونوں جانب "معتدل" طالبان کے ساتھ بات چیت اس کی اس وقت شدید ضرورت ہے تا کہ وہ خطے میں اپنے موجودگی کو جاری رکھ سکے اور یہ مفاد امریکہ اپنے بزدل فوجیوں اور دم توڑتی معیشت کے بل بوتے پر میدانِ جنگ میں حاصل نہیں کرسکتا۔ دوسری جانب امریکہ مسلمانوں کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کررہا ہے کہ "سخت گیر" طالبان صرف امریکہ کے لیے ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کے لیے بھی خطرہ ہیں۔ اس کوشش کا مقصد مزاحمت کی ساکھ کو مسلمانوں کی نظر میں خراب کرنا اور مذاکرات کے لیے فضاء پیدا کرنا ہے اور یہ کہ امریکی قبضے کے خلاف مسلسل مزاحمت کی رائے عامہ کو تبدیل کیا جائے۔
اس مقصد کے حصول کے لیے امریکہ نے پاکستان میں قتل و غارت گری اور بم دھماکوں کی مہم چلائی جبکہ اس کے ایجنٹ ہر بم دھماکے اور قتل کے بعد یہ چلانا شروع کر دیتے ہیں کہ "دیکھو، بہرحال اب یہ جنگ ہماری بھی ہے"۔ دنیا بھر میں اس قسم کی مجرمانہ اور تباہ کن مہم چلانے کے حوالے سے امریکی انٹیلی جنس اور نجی سکیورٹی ادارے خصوصی شہرت رکھتے ہیں۔یہ حملے False flag attacksکہلاتے ہیں جس میں خود ہی حملہ کیا جاتا ہے اور اس کا الزام اپنے مخالف پر ڈال دیا جاتا ہے تا کہ اپنی فوجوں کو اپنے مخالفین کے خلاف لڑنے پر آمادہ کیا جائے اور ان کی ساکھ کو نقصان پہنچایا جائے۔ ایسے حملے کروانا کوئی مشکل کام نہیں کیونکہ امریکی انٹیلی جنس اور نجی سکیورٹی ادارے براہ راست یا مزاحمتی گروہوں میں اپنے ایجنٹ داخل کرکےاور پاکستانی ایجنسیوں میں موجود اپنے ایجنٹوں کے ذریعے ایسے حملے کرنے کے ماہر ہوتے ہیں۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ ان حملوں میں ہمارے بازاروں، گھروں، افواج اور لوگوں کو تو نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ ملک میں موجود سی.آئی.اے اور ایف.بی.آئی کے دفاتر، امریکی فوجی اڈے، بلیک واٹر کی رہائش گاہیں اور امریکی قونصل خانے حملے اور تباہی سے محفوظ رہیں۔ لہٰذا اِن پُر تشدد واقعات کو استعمال کرتے ہوئے امریکہ نے ایک نیا تصور پیش کیا ہے کہ افواج پاکستان کا قبائلی علاقوں میں رہنے کا مقصدپاکستان کو اندرونی خطرے سے محفوظ رکھنا ہے۔اس نئے تصور کواس حقیقت پر پردہ ڈالنے کے لیے پیش کیا گیا ہے کہ قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشنز ان پشتون مسلمانوں کے خلاف کیے جاتے ہیں جو سرحد عبور کر کے افغانستان پر قابض امریکی افواج کے خلاف لڑتے ہیں۔ اور اس کے علاوہ ان حملوں کے ذریعے امریکہ نے اپنی جنگ کے لیے رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کی ہے۔ یکم دسمبر 2009 کواوبامہ نے کہا کہ "ماضی میں پاکستان میں ایسے لوگ رہے ہیں جو یہ کہتے تھے کہ انتہا پسندوں کے خلاف جدوجہد اُنکی جنگ نہیں ...لیکن پچھلے چند سالوں میں جب کراچی سے اسلام آباد تک معصوم لوگ قتل ہوئے ... تو یہ بات واضح ہوگئی کہ پاکستان کے لوگوں کو انتہاء پسندی سے سب سے زیادہ خطرہ لاحق ہے"۔ اور پھر ان بم دھماکوں اور قتل و غارت گری کی شروعات کے تین سال بعد 12 اکتوبر 2012ء کو امریکی دفتر خارجہ کی ترجمان ویکٹوریہ نولینڈ نے کہا کہ "لہٰذا ظاہر ہے کہ پاکستان کےلوگ جتنا زیادہ ان کے خلاف ہونگے اتنا ہی اُن کی حکومت کو اِن کے خلاف کام کرنے میں مدد ملے گی۔ یہ شاید اس بھیانک المیے کا ایک مثبت پہلو ہے"۔
یہ خوفناک اور بہیمانہ تشدد جاری رہے گا تا کہ امریکی ایجنٹ افواج پاکستان کو قبائلی علاقوں میں رکھنے کا جواز پیش کرسکیں۔ یقیناً امریکہ یہ بات جانتا ہے کہ نہ صرف پاکستان کے عوام امریکی جنگ، امریکہ کی موجودگی اور اس کے انخلاء کے منصوبے کو شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھتے ہیں بلکہ پاکستان کے عوام کی اکثریت قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشنز کی مخالف ہے۔ تو امریکہ اپنی یہ کوشش جاری رکھے گا کہ تحریک طالبان پاکستان کے خطرے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرے تا کہ قبائلی علاقوں میں افواج پاکستان کی موجودگی کے لیے ایک جواز مہیا ہوسکے اورپاکستان کے عوام کو کسی حد تک مطمئن کیا جاسکے۔لہٰذا اس کے منصوبے کے ایک حصے کے تحت امریکہ افغانستان کےمسلمانوں سے جنگ کررہا ہے جبکہ اس کے ساتھ ہی انخلاء اور افغان آرمی کو معاملات سپرد کرنے کی بات بھی کررہا ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی وہ اس بات کو یقینی بنا رہا ہے کہ پاکستان کی افواج، پاکستان کے قبائلی علاقوں میں طالبان کے ساتھ جنگ میں مصروف رہیں۔ اس طرح امریکہ اس بات کی امید رکھتا ہے کہ وہ خطے میں اپنی موجودگی کو انخلاء کے پردے میں برقرار رکھ سکے گا۔
6۔ لہٰذا امریکہ ، پاکستان اور افغانستان دونوں ہی جگہ حقیقی امن کے قیام میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔ وہ یہ چاہتا ہے کہ خطے میں فوجی آپریشنز میں اس کی شمولیت کم سے کم ہو کیونکہ اس کی افواج کی ساکھ اور معیشت اگرچہ مکمل طور پر تباہ نہیں ہوئی مگر انتہائی خستہ حال ضرور ہوچکی ہے۔لیکن وہ اپنے سٹریٹیجک مفادات کے حصول کے لیے خطے میں اپنی افواج کی ایک اچھی تعداد کو برقرار رکھنا چاہتا ہے کیونکہ اگر اس نے ایسا نہ کیا تو اب تک کی تمام تر کوششیں ضائع ہو جائیں گی۔ امریکہ کے لیے آگے بڑھنے کا راستہ یہ ہے کہ وہ اپنے اہداف کے حصول اور اپنی موجودگی کو برقرارکے لیےایک معاہدہ چاہتا ہے۔ اس کے علاوہ 2014 کے بعد بھی اپنی افواج کی موجودگی کے جواز کے لیے وہ طالبان کے خطرے کو پیش کرتا رہے گا۔ درحقیقت امریکہ اور افغانستان کے درمیان ہونے والے سٹریٹیجک معاہدے کے تحت 2014 کے بعد بھی امریکی افواج کو افغانستان میں رہنے کی اجازت دینے کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ امریکہ آزادانہ دہشت گردی خلاف فوجی آپریشنزکرسکے۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکی صدر باراک اوبامہ جہاں انخلاء کی بات کرتا ہے وہی انتہاپسندوں کے خطرے کی بھی بات کرتا ہے۔ 23 مارچ 2013 کو اوبامہ نے کہا "افغانستان میں ہم سکیورٹی کی ذمہ داری افغانیوں کے حوالے کردیں گے۔ ہماری افواج گھر واپس آجائیں گی۔ ہمارے جنگی مشن ختم ہوجائیں گے۔ اور ہم افغان حکومت کے ساتھ مل کر ان کی سکیورٹی فورسز کی تربیت کریں گے اور اس دہشت گردی کے خلاف ایک فورس قائم کریں گے جو اس بات کو یقینی بنائے گی کہ القائدہ کبھی بھی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف حملوں کے لیے محفوظ پناہ گاہیں حاصل نہ کرسکے۔ افغانستان سے باہر دہشت گردی کے خلاف ہم عالمی جنگ نہیں کریں گے بلکہ ہماری کوششیں اس بات پر مرکوز ہوں گی کہ ہم امریکہ کے خلاف کام کرنے والے مخصوص انتہاپسند گرہوں کے خلاف ٹارگٹ آپریشن کریں۔ کئی معاملات میں اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے دوسرے ممالک کے ساتھ مل کر کام کیا جائے گا"۔ دہشت گردی کے خطرے کو پیش کرکے امریکہ نے اپنی موجودگی کا مستقل جواز فراہم کردیا ہے جبکہ وہ خود اس خطے کا سب سے بڑا دہشت گرد ہے۔
7۔ خلاصہ:امریکہ طالبان کے ساتھ ایک امن معاہدہ کرنا چاہتا ہے تا کہ وہ اپنی موجودگی کو برقرار رکھ سکے۔ وہ یہ بات جانتا ہے کہ ایسے کسی معاہدے کے بعد ہی وہ ملک میں دہشت گردی کے خلاف آپریشنزاور افغان آرمی کی تربیت کی آڑ میں افغانستان میں اپنی موجودگی کو برقرار رکھ سکتا ہے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو امریکہ یہ جانتا ہے کہ افغانستان میں کوئی امن معاہدہ اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک افغانستان کے سرحدی اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں سے پشتون علاقے کو اس پر راضی نہ کرلے۔ باخبر مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ مسلم علاقوں میں امریکی موجودگی کے خطرات کو سمجھیں، چاہے یہ موجودگی سفارتی شکل میں ہو یا فوجوں کی موجودگی کی شکل میں یا امریکی نجی سکیورٹی اداروں اور امریکی انٹیلی جنس کی موجودگی کی شکل میں ہو۔ یہی وہ امریکی موجودگی ہے جو بم دھماکوں کو یقینی بناتی ہے۔ یہی وہ موجودگی ہے جو بات چیت کو آگے بڑھاتی ہے اور اس کے رخ کا تعین کرتی ہے۔ یہی وہ موجودگی ہے جس نے مسلمانوں کے لیے ہر قسم کی مصیبت پیدا کی ہوئی ہے۔ اسلام اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اس موجودگی کا خاتمہ کیا جائے۔ یہ مقصد نہ تو کوئی گروہ حاصل کرسکتا ہے اور نہ ہی بات چیت کے ذریعے امریکی موجودگی کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ صرف اور صرف ریاست اپنی افواج کو متحرک کر کے ہی امریکی موجودگی کا خاتمہ کرسکتی ہے۔
اس کے علاوہ ہمیں یہ بھی جان لینا چاہیے کہ امریکہ اپنے قیام سے لے کر آج تک کبھی بھی کسی بین لاقوامی معاملے کو حل نہیں کرسکا۔ اور اس کی معیشت میں شدید کمزوری اوراس کی بزدل افواج نے اب تو اس کی یہ صلاحیت مزید کم کردی ہے۔ غدار مسلم حکمران اب بھی اس کے خوف اور دبدبے کی وجہ سے ایسے ہی اطاعت کررہے ہیں جیسا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے انتقال کے بعد بھی جن یہ سمجھتے ہوئے ان کی اطاعت کرتے رہے جیسے کہ وہ اب بھی زندہ ہوں۔ اور اِنہی غداروں کی وجہ سے ہمارے علاقوں میں امریکی اثرو نفوذ اب تک باقی ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کی کرپشن اور اس کے غلط ہونے کی وجہ سے امریکہ کی ناکامی یقینی ہے ۔ یہ وہ نظام ہے جس کا امریکہ عَلم بردار ہے اور اسے پوری دنیا میں نافذ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ کی ناکامی اس کے پالیسی سازوں کی نااہلی کی وجہ سے بھی یقینی ہے۔ لیکن صحیح اور حقیقی رہنما جو اس دنیا کے معاملات کو انصاف اور حق کی بنا پر چلائیں گے جیسا کہ خلفائے راشدین تھے ،تو ایسا صرف جلد ہی قائم ہونے والی خلافت کے قیام کے ذریعے ممکن ہوگا اور حزب التحریر کے شباب وہ رہنما ہوں گے۔ یہی شباب وہ ہوں گے جو امریکہ اور مغرب کو سیکھائیں گے کہ کس طرح دنیا کے معاملات کو خلافت کے زیر سایہ چلایا جاتا ہے۔ اور وہ اس خود ساختہ بین الاقوامی براداری کو اپنے اشاروں پر نچائیں گے اور وہ دن جلد ہی آنے والا ہے۔
وَقَدْ مَكَرُوْا مَكْرَهُمْ وَعِنْدَ اللهِ مَكْرُهُمْ ۭ وَاِنْ كَانَ مَكْرُهُمْ لِتَزُوْلَ مِنْهُ الْجِبَالُ
"یہ اپنی اپنی چالیں چل رہے ہیں اور اللہ کو ان کی تمام چالوں کا علم ہے اور ان کی چالیں ایسی تھیں کہ ان سے پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل جائیں " (ابراھیم:46)

Read more...

آخرکار اتحاد نے فورڈکے سامنے مکمل طور پر سرنگوں ہونے کا اعلان کردیا اگرچہ اس سےپہلے بھی وہ گٹھنےٹیکے ہوئے تھے!

الجربا کے اتحاد(coalition) نےہفتہ اتوار اور پیر 11،10،9 نومبر کوامریکی سفیر فورڈ کی سرپرستی میں استنبول میں اپنے اجلاس کا آغاز کیا، جس میں الجربا نے جنیوا-1 کی طرز پر جنیوا-2 میں جانے کا عندیہ دے دیا اور اس فیصلے کو جاری کروانے والا فورڈ ہی تھا۔یوں الجر با اور اس کے حمایتی جو آج تک جنیوا-2 میں جانے سے پہلے بشار کی برطرفی کا مطالبہ کر رہے تھے یا کم از کم اس کو برطرف کرنے کی ضمانت کا مطالبہ کررہے تھے،اپنے اس مطالبے سے بھی دستبردارہوگئے۔یوں ان دونوں مطالبات کو ہوا میں اڑا دیا گیا اور کھوکھلے الفاظ میں یہ کہا گیا کہ بشار کا کوئی کردار نہیں ہو گا لیکن یہ نہیں بتا یا گیا کہ ایسا کب سے ہو گا!اس اجلاس پر امریکہ مکمل طور پر غالب اور حاوی رہا اس حد تک کہ الجربا ،اس دباؤ کی وجہ سے ،اتحاد میں شامل عسکری نمائندے کے اعتراض کو بھی برداشت نہیں کر سکا اوراس نے بشار کے شبيحہ (اجرتی قاتل)اور دوسرے سرکشوں کے طریقے پر چلتے ہوئے اس کو تھپڑ ماردیاحالانکہ ابھی تو الجربا نے حکمرانی یا اس کا کچھ حصہ بھی نہیں دیکھا!اس کے بعد اتحاد کے بعض لوگوں نے کوئی فیصلہ کرنے سے قبل شام کی داخلی قوتوں سے مشاور ت کرنے کا مطالبہ کیا تو فورڈ نے اس کو مسترد کردیا اور ان کو مشترکہ فیصلہ کرنے کا پابند بنایا،تاکہ اندرونی مشاورت فیصلے کے بعد ہو سکے،یعنی فیصلہ پہلے کیا جائے اور مشورہ بعد میں لیا جائے،تاکہ اندرونی قوتوں کا فیصلے میں کوئی عمل دخل نہ ہو کیونکہ امریکہ جانتا ہے کہ اندرونی قوتوں کی اکثریت آزاد اور باوقار ہے وہ امریکہ اور اس کے ایجنٹوں کے سامنے سر جھکا کر رسوا نہیں ہوں گے۔
یوں محرم الحرام کی آٹھویں رات ، گیارہ نومبر کو جنیوا-2 میں شرکت کا فیصلہ کیا گیا۔پھر اس شرمناک فیصلے کو بےنقاب ہونے سے بچانے کے لیے یہ کہا گیا کہ یہ فیصلہ مشروط ہے جبکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ جب تک یہ ملاقات بشار اور الجربا کے وفود کے درمیان ہےتو ان شرائط کی کوئی اہمیت نہیں!یہ تاثر دینے کے لیے کہ انہوں نے جنیوا-2 سے قبل کوئی فیصلہ کر لیا ہے ، انہوں نے کل پیر کی شام 11نومبر 2013 کو اُس عبوری حکومت کا اعلان کر دیا جس کا سربراہ احمد طعمہ ہو گا ۔ لاحول ولا قوۃ ۔ یہ حکومت سراسر برائے نام ہو گی کیونکہ داخلی قوتیں اس کو مسترد کردیں گیاور یہ حکومت شام کی سرزمین پر اپنے قدم بھی نہیں جما سکے گی۔یوں یہ حکومت "وقت کو ضائع کرنے والا کھیل ہے"تا کہ جنیوا-2 میں امریکہ اپنا حل اِن پر مسلط کرسکے !
امریکہ نے اس فیصلے کی تائید میں بڑی پھرتی دکھائی اور کیری نے یہ کہتے ہوئے اس کی وضاحت کی کہ "کل شامی اپوزیشن نے ووٹنگ کے ذریعے جنیوا-2 میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا،یقینا یہ ایک بڑا قدم ہے"۔ اگرچہ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے بھی ان اقدام پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کو سراہا لیکن ساتھ ہی اس نے یہ بھی کہا"اتحاد (coalition)نے بشار کے کردار کے حوالے سے کوئی شرط نہیں لگائی"۔اس ترجمان کے تبصرے کا معنی صاف ظاہر ہے!کئی اور ممالک نے بھی اس فیصلے کی تائید میں جلد بازی دکھائی۔
اے اہل شام، بشار اور اس کے غنڈوں اورالجربا کے اتحاداور اس کی جماعت کے سامنےڈٹ کر ثابت قدم رہنے والو:
یہ ہوٹلوں میں سر چھپا کر پھرنے والے امریکہ،یورپ،قطر،سعودیہ اور ترکی وغیرہ کےمال ودولت پر داد عیش دینے والے، یہ سب کے سب تمھارے دشمن ہیں۔ان سے ہو شیار رہو۔ان کی منزل وہ نہیں جس خیر کے لیے تم جدو جہدکر رہے ہو بلکہ وہ اس کی مخالف سمت میں جارہے ہیں۔سرکش کے سامنے تمہارا ڈٹ جانا اور تمہاری قابل دید قربانیاں،اسلام کےمسکن شام میں حق کے غلبے،اسلام کی حکمرانی اورامریکی بالادستی کے خاتمے کے لیے اور اسے ماضی کا قصہ بنا دینے کے لئے ہیں۔جبکہ وہ ایسی حکومت چاہتے ہیں جو موجودہ حکومت کی ہی ایک دوسری شکل ہو ،یعنی موجودہ ایجنٹ کی جگہ دوسرا ایجنٹ ۔ ان کی نظر میں بہائے جانے والے اس پاکیزہ خون،اور دی جانے والی ان قربانیوں،اور پامال کی جانے والی ان عزّتوں اور برپاکی جانے والی اس تباہی کی کوئی قیمت نہیں جس نے انسان اور درختوں کے ساتھ پتھروں کو بھی نہیں چھوڑا۔جی ہاں یہ ان کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتے،وہ اپنے آقاؤں کے غلام کے طور پر عیّاشی کی زندگی گزار رہے ہیں،سرنگوں اور ذلیل ہو کر ،اگرچہ سانس تو لیتے ہیں ،کھاتے پیتے بھی ہیں لیکن یہ زندہ نہیں بلکہ مردہ ہیں،﴿لَهُمْ قُلُوبٌ لَا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لَا يَسْمَعُونَ بِهَا أُولَئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ أُولَئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ﴾"ان کے دل ودماغ تو ہیں لیکن یہ ان کے ذریعے سمجھتے نہیں،ان کی آنکھیں تو ہیں لیکن یہ ان کے ذریعے دیکھتے نہیں،ان کے کان تو ہیں لیکن یہ ان کے ذریعے سنتے نہیں،یہ تو جانور وں کی طرح ہیں بلکہ ان سے زیادہ گمراہ ہیں۔ یہی لوگ غافل ہیں"۔
یہ تو ہم جانتے ہی تھے کہ یہ اتحاد بصیرت سے محروم ہے لیکن اب یہ بصیرت کے ساتھ بصارت بھی کھو چکا ہے! یہ کیسے اپنے کرتوتوں پر، اللہ کے سامنے نہیں تو کم ازکم اللہ کے بندوں کے سامنے ہی سہی، شرم سار نہیں ہوتے؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ جنیواکانفرنس میں امریکہ اور اس کے مددگاروں کے دباؤ میں ہونے والے فیصلے میں اِن کی کوئی رائے یا کردار ہو جبکہ استنبول میں فورڈ کے سامنے سرنگوں ہونے کے نتیجے میں پہلے ہی ان کی کمر ٹوٹ چکی ہے ؟
ہر صاحب بصارت وبصیرت شخص یہ سمجھتا ہے کہ جنیوا-2 میں اس اتحاد کے جانے کا مقصد بشار کو محفوظ راستہ دینا ہے اورساتھ ہی بشار کےمتبادل امریکی ایجنٹ کے لیے راہ ہموارکرنا ہے۔اس بات کو سمجھتے ہوئے کہ الجربا کے اتحاد کو اپنے تمام عناصر کے باوجودشام کے اندر کوئی حمایت اور تائید حاصل نہیں ، یہ خارج از امکان نہیں کہ نئی حکومت کی حفاظت کے لئے سلامتی کونسل کی قرارداد کے ذریعے بین الاقوامی مداخلت کی بات کی جائےتاکہ بشار کے "خروج " کا کوئی مناسب طریقہ نکالا جائے!یہی جنیوا کانفرنس کا مقصد اور اس کی غایت ہےاوریہ ایک خیانت ہے جسکا ہر وہ شخص مرتکب ہوگا جو جنیوا کانفرنس میں قدم رکھے گا۔
اے اہل شام، اے صبر کرنے اور کروانے والو،سرکش کے سامنے سینہ سپر لوگو:
یہ خائن کوئی بھی فیصلہ کرلیں یہ کچھ نافذ نہیں کر سکتےجب تک تم حق پر ثابت قدم ہو۔یہ تو اس قدر بزدل ہیں کہ شام کی جہاد اور رباط کی سرزمین میں تم سے ملاقات کے لئے بھی نہیں آسکتے۔ان کوہرگز شام میں کسی قسم کی مداخلت کا موقع نہ دوورنہ تمہاری قربانیاں رائیگاں جائیں گی،تمہارا خون ضائع ہو جائے گا،بلکہ تمہارے رب کے سامنے تمہاری شکایت کرے گا۔ہم شام کے جواں مردوں کو پکارتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے خیانت کرنے والوں کے سامنے کسی قسم کی نرمی اختیار نہ کریں اور نہ اپنے پائے استقلال میں کوئی لغزش آنے دیں ،﴿إِنَّ اللَّهَ يُدَافِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ خَوَّانٍ كَفُورٍ﴾."بے شک اللہ ایمان والوں کی مدد کرتا ہے اور اللہ کسی ناشکر ےخائن کو پسند نہیں کرتا"۔
کامیابی اب کچھ دیر صبرکرنےکی دوری پر ہے ۔امریکہ، اس کا بشار اور اس کا ااتحاد جان کنی کی حالت میں ہیں۔وہ ایسا حل تلاش کر رہے ہیں جو تمہاری ثابت قدمی اور شجاعت سےان کو بچائے۔جس حق پر کاربند ہو اس پر ثابت قدم رہو،اللہ کے حکم خلافت راشدہ کے قیام کو اپنی موت و حیات کا مسئلہ بناؤ ،اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ اخلاص کا ثبوت دو،اللہ کی مدد کرنے اور اس کے دین کی سربلندی کے لیے خلوص کے ساتھ سردھڑ کی بازی لگادواور تب اللہ القویّ العزیزتمہیں اپنی نصر اور فتح سے نوازے گا﴿وَلَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ﴾"اللہ اس کی مدد ضرور کر تا ہے جو اللہ کی مدد کرتا ہے بے شک اللہ ہی طاقتور اور غالب ہے"۔

Read more...

جمہوریت:  عوام کےلئے موت ہے

پریس ریلیز

عوام کو عوامی لیگ اور نیشنل پارٹی کے خونخوار پنجوں سے چھڑانے کا واحد راستہ یہ ہے کہ فوج کے مخلص افسران موجودہ حکومت کو برطرف کرکے اقتدار ان مخلص اور بیدار سیاستدانوں کو منتقل کریں جو اسلام کے ذریعے حکمرانی کریں گے
اپوزیشن اتحاد کی جانب سے انتخابات کے دوران غیر جانبدار عبوری حکومت کے قیام کے مطالبے کے لیے ہونے والے مظاہروں میں گزشتہ چار دنوں کے دوران سیاسی تشدد اور پولیس کی جانب سےگولی چلانے سے 20 سے 25 افراد قتل کردیے گئے ۔اس طرح 2013 میں سیاسی تشدد اور پولیس گردی کے ذریعے قتل کیے گئے افراد کی تعداد تقریبا 2800 ہوگئی ہے۔صرف یہی لوگ جمہوریت کے ہاتھوں مارے نہیں گئے بلکہ جمہوریت نے تو اپنے نفاذ کے پہلے ہی دن سے مختلف طریقوں سے بے شمار لوگوں کو قتل کیاہے۔رانا پلازہ میں اپنے پیاروں کو کھونے والوں کی چیخ وپکار کی آوازیں اب بھی ہمارے کانوں میں گونج رہی ہیں۔جمہوریت کے ہاتھوں قتل ہونے والے تمام افراد کی ایک نہ ختم ہونے والی فہرست ترتیب دی جاسکتی ہے۔اس کے علاوہ جمہوریت کے متعلق بیان کی گئی مندرجہ ذیل تمام باتیں بھی درست ہیں:
جمہوریت کا مطلب ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کرپشن اور لوٹ مار
جمہوریت کا مطلب ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آدھی آبادی کا غربت کی دلدل میں زندگی گزارنا
جمہوریت کا مطلب ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خواتین کو استحصال کا نشانہ بنانا
جمہوریت کا مطلب ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسلام کی صورت کو بگاڑنا اورنبیﷺ کی شان میں گستاخی کرنا
جمہوریت کا مطلب ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔استعمار کا غلبہ
وغیرہ وغیر۔۔۔۔۔
یہ دو دہائیوں سے بھی زیادہ عرصے سے عوامی لیگ، نیشنل پارٹی اور جمہوریت کی پالیسیوں کا انعام ہے۔پھر نام نہاد آزاد اور شفاف انتخابات کی ضمانت کا یہ واویلا کس لیے؟! کیا اس بات کی کوئی اہمیت ہے کہ حسینہ یا خالدہ مذاکرات کرتی ہیں یا نہیں؟! یہ دونوں بے اختیار اور مجبور ہیں۔ یہ دونوں اپنے آقا ؤں ، امریکہ اور ہندوستان کے ایجنٹ ہیں۔ حسینہ اور خالدہ کے درمیان کو ئی بات چیت ہو بھی جاتی ہے یا تمام پارٹیاں انتخابات میں حصہ بھی لے لیتی ہیں، نتائج پھر بھی وہی ہوں گے۔لوگوں کی زندگیوں میں کوئی حقیقی تبدیلی نہیں آئے گی۔حقیقی تبدیلی صرف موجودہ نظامِ حکومت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے سے ہی آئے گی۔ اس مقصد کے حصول کے لیے فوج کے مخلص افسران کو اپنے لوگوں کے ساتھ کھڑاہونا پڑے گا۔ لوگ تبدیلی کے لیے چیخ وپکار کررہے ہیں لیکن ان کے ہاتھ میں تبدیلی لانے کی طاقت نہیں ہے۔ تبدیلی لانے کی طاقت مخلص افسران کے ہاتھوں میں ہے کیونکہ انھیں کے پاس وہ طاقت ہے جس کے ذریعے حکومت کو اٹھا کر پھینکا جاسکتا ہے۔ لہٰذا یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس حکومت کا خاتمہ کریں نہ کہ کوئی فوجی حکومت قائم کردیں، بلکہ ریاست خلافت کے قیام کے لیےاقتدار کو مخلص اور بیدار سیاست دانوں کے سپرد کریں۔
لہٰذا حزب التحریر تمام مخلص اور بیدارلوگوں کو دعوت دیتی ہے کہ:
1۔ عوامی لیگ اور نیشنل پارٹی کی حکو مت کو مسترد کردیں۔ ان کے جرائم پر خاموش نہ رہیں تاکہ یہ(عدم خاموشی) ان کے خلاف شہادت بن جائے۔ اور ووٹ کے ذریعے انھیں دوبارہ اقتدار میں لانے کے لیے ان کے درمیان دوبارہ مذاکرات اور انتخابات کا انتظار نہ کریں۔
2 ۔ اس نظام سے چھٹکارہ پانے اور ریاست خلافت کے قیام کے لیے حزب التحریر کے ساتھ مل کر کام کریں۔
3 ۔ فوج میں موجود اپنے والدین، رشتہ داروں اور دوستوں میں سے مخلص افسران سے حکومت کو برطرف کرکے اقتدار ریاست خلافت کے قیام کے لیے حزب التحریر کو منتقل کرنے کا مطالبہ کریں۔
فوج کے مخلص افسران کو ہماری یہ دعوت ہے کہ :
1 ۔ مسلمان ہونے کے ناطے اپنے فرض کی ادائیگی کے لیے اٹھ کھڑے ہو جاؤ۔ جتنا باقی مسلمانوں پر ریاست خلافت کا قیام فرض ہے اتنا ہی تم پر بھی ہے بلکہ تم پر ریاست خلافت کے قیام کا فرض دوسرے تمام مسلمانوں سے بڑھ کر ہے کیونکہ اقتدار کی کنجی تمھارے ہاتھوں میں ہے۔
2 ۔ اپنے اس حلف کی پاسداری کرو جو تم نے ملک و قوم کی حفاظت کے لیے اٹھا رکھی ہے۔ تمہاری قسم اس حکومت کی چوکیداری کے لیے تو نہیں تھی جو اپنی عوام کو ظلم وستم کا نشانہ بنا کر دشمن کی خدمت کر رہی ہے۔
3 ۔ رسول اللہ ﷺ کی سنت کی پیروی کرو اور دوسری خلافت راشدہ قائم کرکے انصار جیسے بن جاؤ۔ انصار کی مدد سے رسول اللہ ﷺ نے مدینہ میں پہلی اسلامی ریاست قائم کی تھی اور وہ ریاست 1324 ھ/1924ء تک قائم رہی ۔اگر تم دوسری اسلامی ریاست کے انصار بن گئے تو اللہ تمہیں بھی ان شاء اللہ پہلے انصار کی طرح اجر عطا فرمائیں گے۔اس لیے تم فوراَ َ شیخ حسینہ کی حکومت کو برطرف کر کے اقتدار ریاست خلافت کے قیام کے لیے حزب التحریر کے حوالے کرو۔
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ﴾
"اے ایمان والو !اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر لبیک کہو جب وہ تمہیں اس چیز کے لیے پکاریں جس میں زندگی ہے"( الانفال:24)

Read more...

خلافت کے قیام کیلئے جدوجہد

 

انڈونیشیا میں حزب التحریر کے شباب، لوگوں کو بطور مسلمان بہتر انداز میں شریعت کی بنیاد پراسلامی خلافت کے سائے تلےزندگی گزارنے کےلئے اپنے فرائض سمجھنے میں مدد دینے کیلئے، مختلف اسالیب استعمال کرتے ہیں۔
حزب التحریر / انڈونیشیا نے 05 نومبر 2013 کو مغربی جاوا کے ضلع بینڈنگ (Bandung) سے سائیلورں کے کارواں نکالے۔اس سرگرمی کے ذریعے، انہوں کے معاشرے کے تمام مکاتبِ فکر افراد کو دعوت دی کہ وہ اسلامی ریاست یعنی خلافتِ سلامیہ کا دوبارہ قیام کرتے ہوئےجاہلیت اور سیکولر نظام کو اسلامی نظام سے بدلنے کےلئے، محرم کے مہینے کو پرزور تحریک کے طور پر استعمال کریں۔ کارواں نے بینڈنگ (Bandung) شہرگرد 15 میل تک کا فاصلہ طے کیا۔
دریں اثناء مشرقی کلیمنٹن (Kalimantan) کے شہر سمارندا (Samarinda) کےشباب نے اسلامی جھنڈوں، لواء اور رایا، کا مظاہرہ کرتے ہوئے موٹر سائیکلوں کا کارواں نکالا۔
ان سرگرمیوں کا مثبت ردِ عمل سامنے آیاجس نے لوگوں کوحزب التحریر اور اس کی کوششوں کو جاننے کا بھرپُور موقع دیا۔ ان سرگرمیوں نے حزب التحریرکو بھی موقع فراہم کیا کہ وہ لوگوں کے قریب آئیں اور دعوت کیلئے ایک سازگار ماحول مہیا ہو۔ دعاء گو ہیں کہ اللہ جلد اس امت کو خلافت کے قیام میں مدد دے۔

انڈونیشیا میں حزب التحریر کا میڈیا آفس

مزید تصاویر کیلئے یہاں کلک کریں

 

Read more...

سوال و جواب: ریاست کےقیام کے کام میں جہاد


سوال: کچھ لوگ کہتے ہیں کہ حزب التحریر خلافت کے قیام کی اپنی جدو جہد میں مدنی دور پر نہیں بلکہ صرف مکی دور پر اعتمادکرتی ہے اور قتال کی کاروائیوں 'جہاد' کو خلافت کے قیام کے لیے دعوت کے مرحلے میں خلاف شرع قرار دیتی ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے ایسا نہیں کیا۔۔۔
کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ :خلافت کے قیام کی دلائل کو مدنی دور سے کیوں اخذ نہیں کیا جاسکتا جہاں جہاد فرض ہوچکا تھا اور جاری تھا؟
کیا اس مسئلے کا کوئی تسلی بخش جواب ہے؟اللہ آپ کو جزاء خیر دے۔

 

جواب: اس سوال میں کئی امور ہیں جن کی وضاحت کی ضرورت ہے:
1۔ دلائل خواہ کتاب اللہ سے ہوں یا سنت رسول اللہ ﷺ سے،ان پر مکمل طور سے عمل کرنا ضروری ہے،مکی آیات و احادیث اور مدنی آیات و حدیث منورہ میں کوئی فرق نہیں۔
2۔ مطلوبہ دلائل وہ ہیں جو اس مسئلہ سے متعلق ہو ں نہ کہ وہ جس کا اس مسئلہ سے کوئی تعلق ہی نہ ہو:
ا۔ مثال کے طور پر اگر میں یہ جاننا چاہوںکہ وضو کس طرح کروں تو وضو کے دلائل تلاش کروں گا،خواہ یہ مکہ مکرمہ میں نازل ہوئے ہوں یا مدینہ منورہ میں۔پھران سے حکمِ شرعی کو اصول فقہ کے مطابق مستنبط کروں گا۔۔۔۔لیکن ایسا نہیں کر سکتا کہ وضو کے طریقہ کار کا حکم معلوم کرنے کے لیے روزے کے احکامات کی چھان بین کروں۔
ب ۔ اور مثال کے طوراگر میں حج کے احکامات جاننا چاہتا ہوں تو حج کے دلائل تلاش کروں گا ،خواہ وہ مکہ میں نازل ہوئے ہوں یا مدینہ میں۔اور پھران سے اصول فقہ کے مطابق حکم کو مستنبط کیا جائے گا۔لیکن حج کے طریقہ کار اور اس کی ادائیگی کے احکامکا حکم معلوم کرنے کے لیے نماز کے دلائل کونہیں دیکھوں گا۔
ج ۔ اور مثال کے طور پر جب میں جہاد کے احکامات کو سمجھنا چاہوں:کہ یہ فرض عین ہے یا فرض کفایہ ہے ،یہ دفاعی ہے یا اقدامی ،فتح کی صورت میں مال غنیمت اور اسلام کوپھلاجنے کے حوالے سے کیا احکامات ہیں،کیافتح بزور طاقت ہوتی ہے یا صلح کے ذریعے وغیرہ وغیرہ میں جہاد کی دلائل کی چھان بین کروں گا خواہ وہ مکہ میں نازل ہوئے ہوں یا مدینہ میں، اورانہی سے حکمِ شرعی کو اصول فقہ کے مطابق مستنبط کیا جائے گا۔لیکن میں جہاد کا حکم اور اس کی تفصیلات معلوم کرنے کے لیے زکوۃ کی دلائل کی چھان بین نہیں کروں گا۔
د ۔ ہر مسئلہ کے متعلق حکم شرعی جاننے کا یہی طریقہ کار ہے،اس سے متعلق دلائل کی چھان بین ہوگی چاہے وہ مکہ میں نازل ہوئےہوں یا مدینہ میں،اور پھر ان دلائل سے اس مئلےں کے بارے میں حکمِ شرعی مسلمہ شرعی اصول کے مطابق مستنبط کیا جائے گا۔
3 ۔ اب ہم اسلامی ریاست کے قیام کے مسئلے کی طرف آتے ہیں،اس کے دلائل کو تلاش کرتے ہیں خواہ وہ مکہ میں نازل ہوئے ہوں یا مدینہ میں اور ان سے مسلمہ اصول کے مطابق حکمِ شرعی کا استنباط کرتے ہیں۔
اسلامی ریاست کے قیام کی دلائل ہمیں مکہ مکرمہ میں رسول اللہ ﷺکی سیرت میں بیان کیے گئے دلائل کے علاوہ کہیں اور نہیں ملتے۔رسول اللہ ﷺ نے ابتداء میں غیر اعلانیہ طور پر اسلام کی طرف دعوت دی جس کے نتیجے میں مؤمنوں کی ایک صابر جماعت تیار ہوگئی۔۔۔پھر مکہ میں اور مختلف موقعوں پر اس دعوت کا کھلا اظہار کیا۔۔۔اس کے بعد اہل قوت اور اہل طاقت سے نصرت طلب کی اور اللہ نے انصار سے آپ ﷺ کو نوازا،آپﷺ ہجرت کر کے مدینہ گئے اوراسلامی ریاست قائم کی۔
ریاست کے قیام کے یہ دلائل ہیں،اس کے علاوہ ریاست کے قیام کی کوئی دلیل نہیں۔رسول اللہ ﷺنے اپنی سیرت طیبہ میں اس کو ہمارے لیے تشفی بخش انداز سے بیان کیا اورہم پر اسی سیرت کی پابندی لازمی ہے۔بات جہاد کے فرض ہونے سے پہلےمکی دور یا جہاد کے فرض ہونے کے بعد مدنی دور کی نہیں ہےبلکہ بات ریاست کے قیام کے دلائل کو سمجھنے کی ہے۔یہ دلائل ہجرت کر کے مدینہ میں ریاست کے قیام تک مکی دور میں ملتے ہیں۔
ریاست کا قیام اور جہاد دو الگ فرائض ہیں۔جیسا کہ ہم نے کہا کہ ریاست کے قیام کے دلائل اسی موضوع سے لیے جائیں گے اور جہاد کے دلائل اس کے اپنے موضوع سے اخذ کیے جائیں گے۔یہ دونوں الگ چیز یں ہیں اور یہ ایک دوسرے پر موقوف بھی نہیں ہیں۔اسی وجہ سے ریاست خلافت کی عدم موجود گی میں جہاد معطل نہیں ہو تا۔رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے،«وَالْجِهَادُ مَاضٍ مُنْذُ بَعَثَنِي اللهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَى أَنْ يُقَاتِلَ آخِرُ أُمَّتِي الدَّجَّالَ، لَا يُبْطِلُهُ جَوْرُ جَائِرٍ وَلَا عَدْلُ عَادِلٍ»"جہاد اللہ کی طرف سے مجھے مبعوث کرنے کے وقت سے اس وقت تک جاری رہے گا جب میرا آخری اُمتی دجال سے لڑے گا۔ کسی ظالم کا ظلم اور کسی عادل کا انصاف اس کو باطل قرار نہیں دے سکتا"اس کو البیہقی نے السنن الکبری انس بن مالک سے روایت کیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ جہاد،خواہ خلافت موجود ہو یا نہ ہو، احکام شرعیہ کے مطابق جاری رہےگا۔
اسی طرح حکمرانوں کی جانب سے جہاد کو معطل کرنے کےباوجود خلافت کے قیام کی جدوجہد اس وقت تک جاری رہے گی جب تک خلافت قائم نہیں ہو جاتی کیونکہ استطاعت رکھنے والے مسلمانوں کا خلیفہ کی بیعت کے بغیر رہنا حرام ہے۔۔۔۔مسلم نے عبد اللہ بن عمر سے روایت کی ہے کہ :میں نے رسول اللہ ﷺ کویہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ:«مَنْ خَلَعَ يَدًا مِنْ طَاعَةٍ، لَقِيَ اللهَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لَا حُجَّةَ لَهُ، وَمَنْ مَاتَ وَلَيْسَ فِي عُنُقِهِ بَيْعَةٌ، مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً»"جس نے اطاعت سے ہاتھ کھنچا لیا وہ اللہ سے قیامت کےدن اس حال میں ملے گا کہ اس کے پاس کوئی حجت نہیں ہو گی،جو اس حال میں مرا کہ اس کی گر دن پر خلیفہ کی بیعت نہیں تو وہ جاہلیت کی موت مرا"۔
اس بناپر جہاد بھی جاری رہے گا اور خلافت کے قیام کی جدوجہد بھی اس کے قیام تک جاری رہے گا۔یہ دونوں ایک دوسرے پر موقوف نہیں۔یہ دونوں دوالگ الگ مسئلے ہیں۔ہر ایک مسئلے کے بارے میں اس کی اپنے شرعی دلائل کے مطابق بحث ہو گی اور اس کے ساتھ خاص حکم ِ شرعی مسلمہ اصول کے مطابق ہی اخذ کیا جائے گا۔
4 ۔یہی وجہ ہے کہ حزب،رسول اللہ ﷺ کے اس طریقے کی پابند ہے جس پر مکہ میں کاربند رہتے ہوئے مدینہ میں ریاست قائم کردی گئی۔ریاست کے قیام کے لیے دعوت کے مرحلے میں قتال سے اجتناب کیا،اس میں مکی یا مدنی دور کی بات ہی نہیںبلکہ ریاست کے قیام کی دلائل رسول اللہ ﷺ کے وہ اعمال ہیں جو مدینہ میں ریاست کے قیام تک مکہ میں انجام دیئے۔مسئلہ ریاست کے قیام کے طریقے کا ہے۔لہٰذا رسول اللہ ﷺ کے اس بتائے ہوئے طریقے کے علاوہ ریاست کے قیام کا کوئی دوسرا طریقہ نہیں ہے۔
اگر مسئلہ ریاستی اعمال اور اس کے اداروں کا ہو تا تو اس کو ان دلائل سے اخذ کرتے جو رسول اللہ ﷺ نے مدینہ میں ان اداروں کو قائم کر کے دِکھایا کیونکہ ریاست مدینہ میں قائم ہوئی تھی۔
5 ۔ خلاصہ:
ا ۔ کسی بھی مسئلہ کے احکامات اسی مسئلے کے بارے میں وارد شدہ دلائل سے اخذ کیے جائیں گے جو اس کے بارے میں ہیں خواہ مکہ میں نازل ہوئے ہوں یا مدینہ میں۔روزے کے احکامات روزے کے دلائل سے اخذ کیے جائیں گے،نماز کے احکامات نماز کے دلائل سے لیے جائیں گے،جہاد کے احکامات جہاد کے دلائل سے ہی لیے جائیں گے اورریاست قائم کرنے کے احکامات بھی ریاست قائم کرنے کے دلائل سے ہی اخذ کیے جائیں گے۔۔۔ہر جگہ ایسا ہی ہو گا۔
ب ۔ ریاست کے قیام کے لیے رسول اللہﷺ کے اس طریقے کو جو آپﷺ نےریاست کے قیام کے لیے مکہ میں اختیار کیا تھا،اختیار کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اس کے علاوہ ریاست کے قیام کی کوئی دلیل موجود نہیں۔۔۔۔اگر ریاست کے قیام کی کوئی دلیل مدینہ میں وارد ہوتی تو اس سے استدلال بھی لازمی تھا۔
ہم اللہ سبحانہ وتعالی سے اسلامی ریاست خلافت راشدہ کے قیام کے لیے مدد اور توفیق کے طلب گار ہیں تاکہ اسلام اور مسلمان ایک بار پھر معزز،اور کفر اور کفار ذلیل ہوں،چاردنگ عالم میں خیر کا چرچا ہو اور یہ اللہ کے لیے کوئی مشکل نہیں۔

Read more...

تفسیر سورہ البقرہ آیات 92 تا 96

مشہور فقیہ اور رہنما، امیر حزب التحریر، شیخ عطا بن خلیل ابو الرَشتہ کی کتاب "التیسیرفی اصول التفسیر" سے اقتباس

(ترجمہ)

 

وَلَقَدْ جَاءَكُمْ مُوسَى بِالْبَيِّنَاتِ ثُمَّ اتَّخَذْتُمْ الْعِجْلَ مِنْ بَعْدِهِ وَأَنْتُمْ ظَالِمُونَ2)9(وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمْ الطُّورَ خُذُوا مَا آتَيْنَاكُمْ بِقُوَّةٍ وَاسْمَعُوا قَالُوا سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا وَأُشْرِبُوا فِي قُلُوبِهِمْ الْعِجْلَ بِكُفْرِهِمْ قُلْ بِئْسَمَا يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمَانُكُمْ إِنْ كُنتُمْ مُؤْمِنِينَ )93(قُلْ إِنْ كَانَتْ لَكُمْ الدَّارُ الآخِرَةُ عِنْدَ اللَّهِ خَالِصَةً مِنْ دُونِ النَّاسِ فَتَمَنَّوْا الْمَوْتَ إِنْ كُنتُمْ صَادِقِينَ )94(وَلَنْ يَتَمَنَّوْهُ أَبَدًا بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ (95) وَلَتَجِدَنَّهُمْ أَحْرَصَ النَّاسِ عَلَى حَيَاةٍ وَمِنْ الَّذِينَأَشْرَكُوا يَوَدُّ أَحَدُهُمْ لَوْ يُعَمَّرُ أَلْفَ سَنَةٍ وَمَا هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنْ الْعَذَابِ أَنْ يُعَمَّرَ وَاللَّهُ بَصِيرٌ بِمَا يَعْمَلُونَ (96)
"اور موسیٰؑ تمھارے پاس واضح دلائل لے کر آئے تھے، پھر بھی تم نے اس کے بعد (کوہِ طور پر جانے کے بعد) بچھڑے کو اپنا رب بنالیا اور تم ہی ظالم تھے(92)۔ اور جب ہم نے تم سے اقرار لیا اور تمھارے اوپر طور کو بلند کیا اور کہا کہ جو شے ہم نے تمھیں دی ہے اسے مضبوطی سے تھام لو اور حکم سنو!،تو لوگوں نے نے کہا ہم نے سنا مگر نہیں مانتے۔ان کے قلوب ( کے ریشے ریشے ) مں وہی بچھڑا پو ست ہوگاکتھا،ان کے کفرکی وجہ سے، آپ کہہ دیجئےکہیہ افعال توبہت برے ہںک ، جن کی تعلمم تمھارا ایمان تم کوکررہاہے، اگرتم (بزعم خود) اہل ایمان ہو! (93)۔آپ کہہ دیجئے اگر اللہ کے ہاں آخرت کا گھر لوگوں کی بجائے صرف تمھارے لیے ہی ہے تو موت کی تمنا کرو اگر تم سچے ہو(94)۔ لیکن وہ اس کے سبب جو ان کے ہاتھوں نے آگے بھیجا ہے کبھی اس کی تمنا نہیں کریں گے اور اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے(95)۔اور آپ ضرور انہیں لوگوں سے زیادہ زندگی کا حریص پائیں گے،مشرکوں سے بھی زیادہ۔ ان میں سے کوئی کہتا ہے کہ کاش !وہ ہزار سال کی عمر پائے!مگر عمر پانا انھیں عذاب سے نہیں بچا سکتا۔ اور اللہ دیکھ رہا ہے جو وہ کرتے ہیں(96)۔
عطاء بن خلیل ابوالرَّشتہ( امیرحزب التحریر ) اپنی تفسیر(التیسیرفی اصول التفسیر)میں مذکورہ بالاآیات شریفہ کی تفسیرکے تحت فرماتے ہیں:
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ان آیات میں بتلایاہے کہ:
1۔ اللہ جلّ شانہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کوبنی اسرائیل کی طرف قطعی دلائل اوراس کی نبوت ورسالت کی تائید کرنے والے معجزات دے کربھیجا،یہ معجزات وہ9نشانیاں تھیں جن کاذکردوسری جگہ کیا گیا ہے، وَلَقَدْ جَاءَكُمْ مُوسَى بِالْبَيِّنَاتِ "ہم نے موسی ٰ علیہ السلام کو نوواضح نشانیاں عطاکی تھیں" (الاسراء / آیت/101)۔ وہ عصا(لاٹھی) جواژدہاکی صورت اختیارکرلیتی،اوریدبیضایعنی ہاتھ جس کووہ نکال دیتےتو چمکتا دمکتادکھائی دیتا،دریائےقلزم کاپھٹ جانااوراس کاایک خشک راستے میں تبدیل ہوجانا،ٹڈیاں ، جوئیں، مینڈک، خون وغیرہ کی صورت میں نازل کی گئی نشانیاں وغیرہ جیسے معجزات جوموسیٰ علیہ السلام کی نبوت کی قطعی ہونے کےدلائل تھے۔مگر بنی اسرائیل نے جبکہ موسی ٰ علیہ السلام اپنے رب کے ساتھ ملاقات کے لئے کوہ طورپرگئے، ایک بچھڑے کی پرستش شروع کی اوراس کواپنامعبود بنالیا۔اس فعل شنیع کی وجہ سے وہ ظالم ٹھہرے،کیونکہ ان کایہ فعل بے جاتھاکہ ایک بچھڑے کوجو عبادت کے قابل نہیں تھا،اپناخد اتصورکرکے اس کی عبادت کرنے لگے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کویوں فرمایاہے کہ(ثُمَّ اتَّخَذْتُمْ الْعِجْلَ)....
اس آیت میں(ثُمَّ)کاکلمہ تراخی (تاخیر) کیلئے ہے، یعنی انہوں نے ان نشانیوںکااچھی طرح مشاہدہ کرلینے کے کافی عرصہ بعد یہ حرام حرکت کی۔ان کے پاس نشانیاں پہنچیں،انہیں بغور دیکھااورحضرت موسیٰ علیہ السلام کی سچائی پراس کی قطعی دلالت کاانہیں پتہ چلا۔اس سب کے باوجود انہوں نے ایک بچھڑے کومعبود بنالیا۔اس طرح ان کے کردارپرمشتمل یہ تاریخی حقائق ان کیلئے سرزنش اورملامت ومذمت کے آئینہ دارہیں۔

2۔ پھراللہ تعالیٰ بنی اسرائیل کوان سے لئے گئے میثاق اورعہد وپیمان اورکوہ طورکاان کے اوپرلاکھڑکرنےکی یاددہانی کراتے ہیں ،اوران کویہ بھی یاددلاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کوتورات کے اندردئے ہوئے احکامات پرسختی سے عمل پیراہونے کاحکم دیاتھا،جیساکہ اس سے پہلے اسی طرح کی ایک آیت،(وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمْ الطُّورَ خُذُوا مَا آتَيْنَاكُمْ بِقُوَّةٍ وَاذْكُرُوا مَا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ) البقرۃ / (63) گزری ہے کی تفسیرمیں ہم نے بیان کیا.مذکورۃ الصدرآیت میں اسی واقعہ طور کاذکرہے،البتہایک نیامعنی سمجھانے کیلئے اس آیت کو مکررلایاگیا،یعنی یہ کہ اللہ کاامرسننے کی قیمت اس وقت ہوتی ہے،جب اس کاسنناامرالٰہی پرجوں کے توں عمل کی نیت سے ہو۔بالفاظِ دیگرحکم کوتسلیم کرنے اوراس کی پیروی کی نیت سے سناجائے ،ورنہ اس کاکوئی فائدہ نہیں ہوگا۔آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے (وَاسْمَعُوا ) "سنو" لیکن اُن کاجواب تھا(سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا)"ہم نے سنااورنافرمانی کی" ۔جواب پرغورکرنے سے معلوم ہوتاہے کہ(وَاسْمَعُوا) "سن لو"کاجوحکم دیاگیا،یہ ماننے اورطاعت وقبول کے حکم پربھی مشملم تھا(محض سننے کا حکم ان کونہیں دیاگیاتھا) اگرچہ الفاظ میں اس کاذکرنہیں اوربسااوقات سننے سے مراد مان لیناہوتاہے ۔جیساکہ ہم نماز میں کہتے ہیں: سمع اللہ لمن حمدہ( حمد کرنے والے کواللہ تعالیٰ سنتے ہیں)۔
(وَأُشْرِبُوا فِي قُلُوبِهِمْ الْعِجْلَ بِكُفْرِهِمْ قُلْ بِئْسَمَا يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمَانُكُمْ إِنْ كُنتُمْ مُؤْمِنِينَ )93("ان کے قلوب ( کے ریشے ریشے ) میں وہی بچھڑا پیوست ہوگیاتھا،ان کے کفرکی وجہ سے،آپ کہہ دیجئےکہ یہ افعال توبہت برے ہیں ،جن کی تعلیم تمھاراایمان تم کوکررہاہے،اگرتم (بزعم خود) اہل ایمان ہو"۔
آیت کے شروع میں واؤ حالیہ (حالت بتانے کیلئے) ہے،مطلب یہ ہے کہ انہوں نے ایسی حالت میں عَصَینَاکہاجب کہ بچھڑے کی محبت ان کے دلوں میں رچ بس گئی تھی،اوران کایہ قول کہ (سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا) ان کے کفرکے سبب تھا،اس لئے فرمایا(بِكُفْرِهِمْ)" ان کے کفرکے سبب"۔
پھراللہ تعالیٰ آیت کااختتام یہ بیان کرتے ہوئے فرماتےہیں کہ یہ لوگ دعوائے ایمان میں جھوٹے ہیںکیونکہ ایمان کفرکی ضد ہے ،توایمان بچھڑے کوالٰہ بنانے کاحکم دیتا، نہ ہی اس کاکہ اس بچھڑے کیمحبت بطور ایک معبودکے دل نشین ہوجائے ،اوراس کی محبت کی وجہ سے اللہ، جوکہ معبودحقیقی اور خالق ہے،کی بات سننے اوراس پر عمل کرنے سے روکاجائے،(ایمان کبھی بھی اس کی اجازت نہیں دیتا)۔
یہاں ایمان کی طرف حکم دینے کی نسبت اورایمان کاان کی طرف نسبت جواللہ تعالیٰ کے اس قول میں ذکرہے(قُلْ بِئْسَمَا يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمَانُكُمْ إِنْ كُنتُمْ مُؤْمِنِينَ )93(یہ مذاق اُڑانے کیلئے ہے اورایک قسم کی پھبتی کسی گئی ہے۔ جیسے دوسرے مقام پراللہ تعالیٰ نے قوم شعیب کی بات نقل کرتے ہوئے فرمایاہے(اَصَلَوٰتُکَ تَامُرُکَ)(ھود/ آیت /87)"کیاتیری نماز تجھے یہ حکم دیتی ہے"اس لئے اللہ تعالیٰ کے اس قول (قُلْ بِئْسَمَا يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمَانُكُمْ إِنْ كُنتُمْ مُؤْمِنِينَ) کامطلب یوں بنتاہے کہ تم جواپنے آپ کومؤمن کہتے ہو،ایمان توتم نے ایک بچھڑے پرلایاہے ،جسے تم نے معبودبنایااوراس کی محبت تمہارے دلوں میں گھرکرچکی وغیرہ توایساایمان بہت براایمان ہے،یہ وہ ایمان نہیں جس کامطالبہ ربّ العالمین کرتاہے،بلکہ یہ توخالص کفرہے۔
3۔ پھرآیت نمبر 94 میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ ان کے اس جھوٹے دعوے کوبیان کرتاہے کہ جنت تو ہماری ہے،اس کاذکرسورہ بقرہ کی آیت نمبر/ 111میں اس طرح کیا گیا ہے(وَقَالُوا لَنْ يَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلاَّ مَنْ كَانَ هُودًا أَوْ نَصَارَى) "یہ (یہود ونصاریٰ )کہتے ہیں کہ جنت میں ان کے سواکوئی اورہرگزداخل نہیں ہوسکتا"(البقرۃ /آیۃ 111)۔ یہ ان کاایک خودساختہ دعوٰی تھا۔اس کی قلعی کھُلنے کیلئے ان پرحجت قائم کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتےہیں کہ اگروہ واقعی اپنے اس دعوے میں سچے ہیں توانہیں چاہئے کہ وہ موت یعنی اللہ تعالیٰ سے ملنے کی تمناکرکے دکھادیں۔سو اگر یہ لوگ واقعی میں اللہ کے محبوب اورپسندیدہ ہوں،جیساکہ اس آیت میں ان کے اس خیال باطل کاذکرکیاگیاہے(وَقَالَتْ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى نَحْنُ أَبْنَاءُ اللَّهِ وَأَحِبَّاؤُهُ)"یہود اورنصاریٰ (دونوں فریق )یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم اللہ کے بیٹے اوراس کے محبوب ہیں" تواس تحدّی (چیلنج)کے بعدوہ اپنی صداقت کوثابت کرنے کیلئے فوراً موت کی تمنا کریں گے،ورنہ ان کاجھوٹاہوناثابت ہوجائے گا۔اوریہی ہوا،کیونکہ انہوں نے کبھی بھی اس قسم کی کوئی تمناکرنے کی ہمتنہیں کی،کیونکہ ان لوگوں نے جوکفراورشرکے اعمال کئے ہیں،ان کابخوبی علم ہےجس کے ہوتے ہوئے وہ اللہ کاسامناکرنے سے ڈرتے ہیں۔جیساکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں(وَلَنْ يَتَمَنَّوْهُ أَبَدًا بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ)(95("یہ لوگ ہرگز کبھی اس (موت) کی تمنانہ کریں گے،بوجہ (سزاکے خوف کے ) ان اعمال(کفریہ ) کاجواپنے ہاتھوں سمیٹتے ہیں"۔
یہ ان دلائل میں سے ہےجو قطعی ہوتےہیں اورجس کواللہ تعالیٰ نے رسو ل اللہ ﷺ کے زمانے کےیہود ونصاریٰ کے خلاف پیش کیا ہے،کیونکہ اگروہ اس دعوے میں کہ جنت ان کیلئے مخصوص ہے،حق پر ہوں،توپھرانہیں موت کی تمناکرنی چاہئے ،یہ بات یہودکی نسبت سے ہے اوراگرنصاریٰ حق پرہیں ،جیساکہ ان کاعیسی ٰ علیہ السلام کے بارے میں خیال تھاکہ وہ اللہ کابندہ نہیں ،بلکہ وہ خود الٰہ ہے توپھرآئیں اورمباہلہ کریں،اس کاذکر سورہ آل عمران کی آیت نمبر 61 میں ہے ،ارشادہے (فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَةَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ "آپ یوں فرمادیجئے کہ آجاؤ ہم (اورتم) بلاکرجمع کرلیں اپنے بیٹوں کواورتمھارے بیٹوں کواوراپنی عورتوں کواورتمہاری عورتوں کواورخود اپنے تنوں کواورتمہارے تنوںکوپھرہم (سب مل کر) خوب دل سے دعاء کریں اس طورپرکہ اللہ کی لعنت بھیجیں،ان پرجو(اس بحث میں ) ناحق پرہوں "(آل عمران: 61 )۔لیکن عہد رسالت میں ان دونوں فریقوں نے یہ نہیں کیا۔نہ تویہودی اب تک موت کی تمناکرسکے اورنہ نصاریٰ نجران نے مباہلہ کی چیلنج کوقبول کیا۔ یہی ان پرقطعی حجت ہے اگروہ عقل رکھتے ہیں۔ امام احمد ؒنے یہ حدیث نقل کی ہے اورتفسیر طبری میں بھی مذکورہے ، لوان الیہود تمنواالموت لماتواولراوا مقاعدھم من النار،ولوخرج الذین یباھلون رسول اللہ ﷺ لرجعوالایجدون اھلاًولامالاً "اگریہود موت کی تمناکرتے تووہ مرجاتے اورجہنم میں اپنے ٹھکانے ان کونظر آتےاوراگررسول اللہﷺ کے ساتھ مباہلہ کرنے والے باہرآتے تواس حال میں لوٹتے کہ اپنا کوئی مال اوراہل وعیال نہ پاتے۔" (تفسیرطبری 1/424،مسندِاحمد 1/148)

4۔ یہود اپنی تعفن زدہ حقیقت کے نتیجے میں اپنے کالےانجام کاسامناکرنے کی وجہ سے موت سے خائف ہیں ،اس وجہ سے وہ تمام لوگوں سے زیادہ اس حیات دنیوی سے شدید محبت کرتےہیں،بلکہ مشرکین سے بھی بڑھ کرزیادہ محبت کرتے ہیں،جن کادنیاوی زندگی کے علاوہ کسی دوسری زندگی پر ایمان نہیں ۔توان مشرکین کی تمام تر محبت اس زندگی کے ساتھ اس لئے ہے کہ ان کاکسی دوسری زندگی کاعقیدہ ہی نہیں لیکن اس کے باوجود یہود ان مشرکین سے بھی زیادہ دنیاکی زندگی سے محبت کرتے ہیں۔ ٖآخری آیت میں ان کی اس حالت کابیان ہے،چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَلَتَجِدَنَّهُمْ أَحْرَصَ النَّاسِ عَلَى حَيَاةٍ وَمِنْ الَّذِينَ اَشْرَكُوا يَوَدُّ أَحَدُهُمْ لَوْ يُعَمَّرُ أَلْفَ سَنَةٍ وَمَا هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنْ الْعَذَابِأَنْ يُعَمَّرَ وَاللَّهُ بَصِيرٌ بِمَا يَعْمَلُونَ (96) "اور آپ ضرور انہیں لوگوں سے زیادہ زندگی کا حریص پائیں گے،مشرکوں سے بھی زیادہ۔ ان میں سے کوئی کہتا ہے کہ کاش !وہ ہزار سال کی عمر پائے!مگر عمر پانا انھیں عذاب سے نہیں بچا سکتا۔ اور اللہ دیکھ رہا ہے جو وہ کرتے ہیں"
تواس آیت میں جس زندگی کاذکرہے اس سے مطلق زندگی مراد ہے ،یعنی کوئی بھی زندگی۔لیکن آیت کے اس دوسرے ٹکڑے کےمفہوم کےذریعے اس کی مطلقیت کومقید کیاگیا( يَوَدُّ أَحَدُهُمْ لَوْ يُعَمَّرُ أَلْفَ سَنَةٍ )یعنی لمبی عمر ۔
اس آیت میں ( أَحَدُهُمْ ) کی ضمیر مشرکین کی طرف لوٹانابھی جائز ہے ،اور معنی اس طرح ہوگاکہ یہود ان مشرکین سے بھی بڑھ کرزندگی کے حریص ہیں جن میں ایک ایک آدمی ہزارسالہ زندگی کی خواہش کرتاہے کیونکہ یہ مشرکین تودنیاکی زندگی کے علاوہ کسی دوسری زندگی کوجانتے تک نہیں ،اس لئے وہ اس زندگی میں ممکن حد تک عرصہ دراز تک زندہ رہناچاہتے ہیں۔ اوراس میں یہ بھی ممکن ہے کہ ضمیریہود کی طرف لوٹے ،پھر معنی کچھ یوں بنتاہے کہ ان میں سے ہرایک طویل زندگی کاخواہشمند ہوتاہے ۔یہی راجح ہے اوراس کاقرینہ اللہ تعالیٰ کایہ قول ہے(وَمَا هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنْ الْعَذَابِ أَنْ يُعَمَّرَ)ٖ ۔پس مشرکین کااس بات پرایمان نہیں کہ آخرت بھی ہوگی توان کاعذاب سے خائف ہونابھی متصور نہیں۔جہاں تک یہود کی بات ہے توانہیں توآخرت اوروہاں کے عذاب کایقین ہے۔ عذاب کایقین اس لئے ہے کہ اپنے بداعمال کاانہیں احساس ہے ،تووہ کبھی بھی موت کوپسند نہیں کریں گے،تاکہ حتی الامکان عذاب سے بچ سکے۔تو اللہ تعالیٰ جانتے ہیں کہ خواہ ان کی عمریں کتنی لمبی ہوجائیں ،ہزارسال یااس سے بھی زیادہ،عذاب بہرحال انہیں آپکڑےگا،کیونکہ آخرکار انہوں نے مرکر اپنے رب کے پاس لوٹنا ہے۔

Read more...

خلافت کے قیام کے لیے نصرۃ کے حصول کی مہم افواج پاکستان لازماً خلافت کا قیام عمل میں لائیں اور اللہ کےعلاوہ کسی سے نہ ڈریں

حزب التحریر ولایہ پاکستان ،ملک بھر کے بڑے شہروں میں عوامی اجتماعات سے خطاب کی مہم چلارہی ہے۔جس طرح رسول اللہﷺ نے انصارکی نصرۃ (مدد)سے مدینہ میں اسلامی ریاست قائم کی تھی،ویسے ہی حزب کے بہادر شباب نبوت کے اس طریقہ کار کے مطابق افواج پاکستان سے خلافت کے قیام کے لیے نصرۃ کا مطالبہ کررہے ہیں۔ وہ عوام سے کہہ رہے ہیں کہ وہ افواج پاکستان میں موجود اپنے والد، چچاؤں، بھائیوں اور بیٹوں سے مطالبہ کریں کہ وہ کفریہ جمہوریت کی حمائت سے ہاتھ کھینچ لیں اور خلافت کے قیام کے ذریعے اسلام کے نفاذ کے لیے مدد فراہم کریں۔
اے افواج پاکستان کے افسران! اللہ سبحانہ و تعالٰی فرماتے ہیں : وَاتَّقُوا فِتْنَةً لاَ تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ "اور تم ایسے وبال سے بچوکہ جو خاص کر صرف ان ہی لوگوں پر واقع نہ ہوگا جو تم میں سے ان گناہوں کے مرتکب ہوئے ہیں اور یہ جان رکھو کہ اللہ سخت عذاب دینے والا ہے" (الانفال:25)۔ ہمارا ایمان ہمیں اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ ہم کبھی بھی ظالم کے ظلم سے خوفزدہ نہ ہوں بلکہ ہمیں اللہ کے غضب سے ڈرنا چاہیے اگر ہم نے ظالم کے کھڑے کیے ہوئے فتنے اور اس کے نتیجے میں لوگوں کی معاشی بدحالی اوراقوام عالم کے سامنے تذلیل کی دلدل میں ڈوب جانے پر خاموشی اختیار کی۔اب بہت ہوچکا کہ آپ کے درمیان مشرف اور کیانی جیسے لوگوں کو مزید برداشت کیا جائے!بہت ہوچکی ان کی اطاعت جو زرداری اور نواز شریف جیسے حکمرانوں کی حمائت کرتے ہیں! ان غداروں کی غداری کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے اور ان کے امریکی آقاؤں کو ہمارے معاملات میں مداخلت سے باز رکھنے کی حزب التحریر کی جدوجہد کا ساتھ دو۔ اس بات کو جانتے ہوئے کہ اللہ کی مرضی کے خلاف کوئی مصیبت تم پر نہیں آسکتی، اللہ کی راہ میں آگے بڑھو۔ اللہ سبحانہ و تعالٰی فرماتے ہیں، قُلْ مَنْ ذَا الَّذِي يَعْصِمُكُمْ مِنْ اللَّهِ إِنْ أَرَادَ بِكُمْ سُوءًا أَوْ أَرَادَ بِكُمْ رَحْمَةً وَلاَ يَجِدُونَ لَهُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلِيًّا وَلاَ نَصِيرًا "پوچھئے!اگر اللہ تعالٰی تمھیں کوئی برائی پہنچانا چاہے یا تم پر کوئی فضل کرنا چاہے تو کون ہے جو تمھیں بچا سکے؟اپنے لیے سوائے اللہ تعالٰی کے نہ کوئی حمائتی پائیں گے نہ مددگار" (الاحزاب:17)۔

مزید تصاویر کے لئے یہاں کلک کریں

 

Read more...

معاشرے میں زنا بالجبرکی بیماری جنسی آزادی کی لبرل سوچ کا منطقی نتیجہ ہے


اس سال ستمبر میں لاہور کی پانچ سالہ بچی کے ساتھ زنا بالجبر اور پھر اس کو ایک ہسپتال کے باہر پھینک دینے کے واقع نے پاکستان اور پوری دنیا کو لرزا دیا۔ اس بھیانک واقع کو چند روز ہی گزرے تھے کہ فیصل آباد میں ایک چھوٹی بچی اور ٹوبہ ٹیک سنگھ میں کالج کی ایک طالبہ زنا بالجبر کا شکار ہوں گئیں۔ حالیہ چند سالوں میں پاکستان میں عورتوں اور بچوں کے ساتھ زنا بالجبر کے واقعات نے ملکی میڈیا کی کی شہ سرخیاں بنیںاور میڈیا نے پاکستان میں ان بڑھتے ہوئے گھناؤنے واقعات کو عوام کے سامنے پیش کیا ہے۔ اس جرم میں ملوث افراد کا تعلق معاشرے کے کسی مخصوص طبقے سے نہیں تھا بلکہ وہ مختلف پس منظر رکھتے تھے۔اسلام آباد کی ایک غیر حکومتی تنظیم(NGO) "ساحل" کے مطابق 2012 میں بچوں کے خلاف جنسی جرائم کے 3861مقدمات ریکارڈ کیے گئے جوکہ 2011 کے مقابلے میں 17فیصد زائد ہیں۔صرف اس سال ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے لاہور میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے 113 واقعات ریکارڈ کیے ہیں۔ لیکن اس مسئلہ کی شدت ان اعدادوشمار سے کئی گنا زیادہ ہے۔ اس جرم کے حوالے سے معاشرے میں موجود شرم،مجرم کی جانب سے مزید حملے کے خوف اور پولیس کا اس جرم کے شکار مظلوموں کے ساتھ توہین آمیز سلوک کی وجہ سے ماہرین یہ سمجھتے ہیں کہ اس جرم کے واقعات اکثر منظر عام پر لائے ہی نہیں جاتے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان واقعات کو پولیس کے پاس مقدمات کی صورت میں درج نہ کروانے کی وجہ یہ بھی ہے کہ خواتین اور ان کے اہل خانہ اس قانونی نظام پر اعتماد کھو چکے ہیں جو انصاف کی فراہمی میں انتہائی تاخیر کرتا ہےجہاں ان مقدمات میں سزاؤں کا تناسب انتہائی کم ہے اور پولیس اور عدلیہ میں موجود کرپشن کی بنا پر اکثر ملزمان رہا ہوجاتے ہیں۔
ان واقعات کے خلاف ملکی سطح پر غم و غصہ صرف اس جرم میں ملوث لوگوں کے خلاف ہی نہیں کہ انھیں سخت ترین سزا دی جائے بلکہ عوام کا غصہ پولیس، سیاست دانوں اور اس نظام کے خلاف بھی ہے جو اس مسئلہ سے نمٹنے میں بری طرح سے ناکام ہوچکے ہیں۔ لوگوں کا غم و غصہ اس لیے بھی سیاست دانوں کے خلاف شدید ہے کیونکہ عورتوں اور بچوں کی حفاظت اور ان کی فلاح و بہبود کے لیے ان کاتساہل پر مبنی رویہ انتہائی شرمناک اور مجرمانہ ہے۔
جنسی جرائم میں اس قدر اضافے کا شکار صرف پاکستان ہی نہیں ہے۔ ہمارا پڑوسی بھارت پچھلے سال دسمبر میں دہلی کی ایک بس میں 23 سالہ میڈیکل کی طالبہ کے ساتھ ہونے والے زنا بالجبر اور اس کے قتل کے خلاف عوامی غم و غصہ سے گونج اٹھاتھا ۔ اس واقع کے بعد بھی زنا بالجبر کے کئی ایک ایسے واقعات ہوئے کہ جس نے بین الاقوامی میڈیا کو بھی ان واقعات کو اپنی خبروں میں نمایاں جگہ دینے پر مجبور کردیا کیونکہ یہ بات اس لحاظ سے انتہائی اہم تھی کہ یہ مجرمانہ حملے ایک وبا کی طرح اس ملک میں ہورہے تھے جو دنیا کی سب سے بڑی سیکولر جمہوریت بھی ہے۔بھارت میں حالیہ سالوں میں اس قسم کے مجرمانہ حملوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور اب یہ جرم بھارت میں سب سے زیادہ تیزی سے بڑھنے والا جرم بن چکا ہے۔ الجزیرہ کے مطابق بھارت میں ہر بیس منٹ میں ایک خاتون زنا بالجبر کا شکار ہوتی ہے اور ٹائمز آف انڈیا کے مطابق پچھلے چالیس سالوں میں بھارت میں اس جرم میں 792فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ان گھناؤنے جرائم کے خلاف ایک بار پھرعوامی غم و غصہ کا نشانہ پولیس اور سیاست دان بنے کیونکہ انھوں نے اس جرم سے متعلق غفلت کا مظاہرہ کیا اور اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کسی قسم کی تیزی نہیں دِکھائی۔ برطانیہ میں پچھلے ایک سال کے دوران میڈیا میں شوبز کی مشہور و معروف شخصیات کے ہاتھوں بچوں اور چھوٹی بچیوں کو جنسی لذت کے حصول کا ذریعہبنانے اور ملک کے کئی شہروں میں قحبہ خانوں کو چلانے والے گروہوں کی خبریں گردش میں رہی ہیں۔ بچوں کی حفاظت کی ایک تنظیم، NSPCCکے مطابق برطانیہ میں بالغ نوجوانوں کی ایک تہائی تعداد ایسی ہے کہ جو اپنے پچپن میں جنسی زیادتی کا نشانہ بنے جبکہ برطانیہ کے محکمہء صحت کے اعدادوشمار کے مطابق ملک میں ہر دس منٹ میں ایک عورت یا تو جنسی زیادتی کا شکار ہوتی ہے یا اس پر جنسی حملہ کیا جاتا ہے۔ امریکہ میں امراض کو قابو اور اس کے بچاؤ سے متعلق ادارےCenters for Disease Control and Preventionکے مطابق امریکہ میں ہر پانچ میں سے ایک عورت زنا بالجبر یا جنسی حملے کا شکار ہوئی ہے۔ یہ تمام اعدادوشمار اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ سیکولر لبرل ممالک میں جنسی حملے ایک عام جرم ہے۔
ان ممالک نے اس غلیظ اور گھناؤنے جرم کے خلاف ہونے والے عوامی ردعمل کے نتیجے میں محض چند نئی پالیسیاں اور قوانین بنائے جن میں مجرموں کے لیے سخت سزائیں بھی شامل ہیں۔ حکومتوں کا اس قسم کا فوری ردعمل اس مسئلہ کو حل کرنے کے حوالے سے ان کی سُست روی کے خلاف عوامی ردعمل کو ٹھنڈا کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ یہ اس بات کو جانتے بوجھتے نظر انداز کردیتے ہیں کہ اس مسئلہ کو ختم کرنے کے لیے مشرق و مغرب میں کی جانے والی کوششیں، جن میں سخت سزائیں بھی شامل ہیں ، اس مسئلے کو حل کرنا تو دور کی بات ، اس کی شدت میں کمی لانے میں بھی ناکام رہیں ہیں۔
ایک چیز جو اس مسئلہ کو سمجھنے کے لیے انتہائی ضروری ہے وہ یہ کہ لبرل اور سرمایہ دارانہ اقدار اور اس نظام کے متعلق سوالات اٹھائیں جائیں جو اس وقت پاکستان سمیت دنیا بھر کے ممالک میں رائج ہیں۔ زنابالجبر کا عام ہونا، پولیس کا اس کے متعلق بے فکری کا رویہ اور حکومتوں کا اس مسئلہ پر لاپرواہی پر مبنی رویہ دراصل معاشرے کو منظم طریقے سے ایسا بنا دینا ہے جہاں جنسی لذت کا حصول زندگی کے اہم ترین مقاصد میں سےایک ہوتا ہے اور لبرل اقدار مثلاًشخصی آزادی اور جنسی آزادی جس کے نتیجے میں عورت کے وقار اور عزت کو خاک میں ملا دیا جاتا ہے اور سرمایہ دارانہ نظام محض معاشی فوائد کے لیے اس کو فروغ دیتا ہے۔ان تمام چیزوں نے ایسا ماحول پیدا کردیا ہے جس نے مردوں کی نگاہ میں عورت کی عزت و مقام کو پامال کردیا ہے اور ان کی سوچ کو گندا اور غلیظ کردیا ہے جو انھیں ایسے خوفناک جرائم کی جانب مائل کرتا ہے اور پولیس، عدلیہ اورحکمرانوں کی نظر میں اس جرم کی سنگینی کو کم کردیا ہے جس کی وجہ سے وہ اس جرم کو معمول کے کسی بھی دوسرے جرم کی طرح ہی دیکھتے ہیں اور یہ تمام باتیں بچوں اور خواتین کے خلاف جنسی جرائم کو فروغ دیتے ہیں۔
لبرل آزادیاں افراد کو اس بات کی جانب راغب کرتی ہیں کہ وہ اپنی جنسی تسکین کو پورا کرنے کے لیے کسی سے بھی، کسی بھی طریقے سے تعلق قائم کرسکتے ہیں جس کو وہ اپنے لیے مناسب سمجھتے ہوں۔ یہ لبرل اقدار اشتہارات، فیشن، فحش مواد، موسیقی، ٹی وی اور فلمی صنعت کے ذریعے خصوصاً بولی وڈ اور لولی وڈ ثقافت کے ذریعےمعاشرے میں عام کی جاتی ہیں جو پاکستان اور دیگر سرمایہ دارانہ آزاد(لبرل) ممالک میں دیکھی اور پسند کی جاتی ہیں۔ اس قسم کی صنعتیں اور ثقافت معاشرے پر مسلسل فحاشی کی بمباری کرتے ہیں اور جنسی جذبات کو مشتعل کرنے والی خواتین کی تصاویر اور کہانیوں کے ذریعے ایک فرد کے جنسی جذبات کو مسلسل مشتعل کیا جاتا ہے۔ خواتین کو مسلسل ایک شے، ایک چیز کے طور پیش کیا جاتا ہے جس کا مقصد مردوں کی خواہشات اور جذبات کو ہی پورا کرنا ہے اور اس طرح منظم طریقے سے معاشرے میں عورت کے مقام کو پست تر کردیا جاتا ہے۔ ڈرامہ، فلم اور فحش مواد کی صنعت مردوں کے ہاتھوں خواتین کی عصمت دری کو دِکھاتے ہیں جس سے دیکھنے والوں کی نظر میں اس شرمناک تشدد کا احساس ہی باقی نہیں رہتا۔اس کے ساتھ ساتھ شادی کے بندھن سے باہر مرد و عورت کے جسمانی تعلق کو ایک عام حقیقت قرار دیا جاتا ہے بلکہ اسے خوش نما عمل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں ایسی تہذیب پیدا ہوتی ہے جس میں مردو عورت کا تعلق محض ایک جنسی تعلق بن کر رہا جاتا ہے۔
یہ اسی خطرناک ماحول کا نتیجہ ہے کہ بہت سے مرد یہ دیکھتے ہوئے کہ وہ سزا سے بچ نکلیں گے،اپنی جنسی خواہش کو پورا کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں چاہے بچوں، بچیوں اور خواتین کو اس شرمناک حرکت کا نشانہ ہی کیوں نہ بنانا پڑے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس ماحول نے نہ صرف اس جرم کے مرتکب افراد کی نظروں میں عورتوں اور بچے بچیوں کی حرمت کو گھٹا دیا ہے بلکہ اُن لوگوں کی نگاہ میں بھی یہ کوئی غیر معمولی عمل نہیں ہوتا جن کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ معاشرے کے کمزور افراد یعنی بچوں اور خواتین کو تحفظ فراہم کریں اور اسی وجہ سے ہم اس جرم کے خلاف ان میں کسی قسم کی غیر معمولی حرکت نہیں دیکھتے۔ لہٰذا اس قسم کی صنعت کو بے ضرر تفریحی نہیں سمجھنا چاہیے۔ ان کا منظم طریقے سے معاشرے کو جنسیات میں مشغول کردینا اور عورت کے مقام کو کمتر کردینا ریاست میں موجود خواتین اور بچوں کی حفاظت کے حوالے سے منفی نتائج پیدا کرتے ہیں۔ اور کرپٹ سرمایہ دارانہ نظام ان تمام خبائث کی پشت پناہی کرتا ہےکیونکہ اس نظام میں کسی بھی قیمت پر منفعت کی پیاس بجھتی ہی نہیں اور وہ اپنے کاروبار کو بڑھانے کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں چاہے اس کے نتیجے میں معاشرے میں عورت کا وقار مٹی میں مل جائے اور جنسی جرائم میں خوفناک حد تک اضافہ ہوجائے۔
تو پھراس مسئلہ کا حل کہاں ہے؟ اس مسئلے کو اخلاص سے حل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم لبرل، سرمایہ دارانہ اقدار اور اس کے نظام کو مسترد کردیں۔ اس مسئلے کے حل کے لیے لازمی ہے کہ ہم ان اقدار اور اس نظام کو قبول کریں جو کسی بھی صورت عورت کے مقام و مرتبے کی تذلیل نہ کرتا ہو، جو پیسے کو اخلاقیات پر فوقیت نہ دیتا ہو اور مردو وعورت کے تعلق کو محض جسمانی تعلق ہی نہ سمجھتا ہو بلکہ ان کی اس جبلت کو ایسے طریقے سے پورا کرتا ہو جو معاشرے کے لیے نقصان کا باعث نہ بنے بلکہ نہ صرف مرد و خواتین بلکہ معاشرے کی فلاح اور ترقی کا باعث بھی بنے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے ہمیں کہیں اور جانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اسلامی طرز زندگی اور اس کے نظام میں یہ سب کچھ موجود ہے جو کہ اس کے عقیدے سے نکلتا ہے اور اس عقیدے کو پاکستان کے مسلمان دل و جان سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں اور وہ عقیدہ ہے اسلام۔
اسلام نے عورت کے مقام ومرتبے، عفت و عصمت کو دنیا بھر کے خزانوں سے زیادہ قیمتی قرار دیا ہے اور اس کے تحفظ کو ویسے ہی لازمی قرار دیا ہے جیسا کہ اسلام کا تحفظ کرنا۔ رسول اللہﷺ نے خواتین کے متعلق فرمایا:((إنما النساء شقائق الرجال ما أكرمهن إلا كريم وما أهانهن إلا لئيم))"خواتین مردوں کا آدھا حصہ ہیں۔ ایک شریف آدمی خواتین کے ساتھ عزت سے پیش آتا ہے لیکن ایک جاہل مرد،عورت کی تذلیل کرتا ہے"۔ رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا تھا کہ ((اتقوا الله في النساء))"خواتین کے معاملے میں اللہ سے ڈرو" اوررسول اللہﷺ نے عورت کو مرد کے ہاتھ میں ایک امانت قرار دیا اور اس امانت کی حفاظت کے لیے ایک پورے قبیلے کو مدینہ بدر کر دیا کیونکہ بنو قینُقہ نے ایک مسلمان عورت کی عزت پر ہاتھ ڈالا تھا۔لیکن اسلام صرف خواتین اور بچوں کی حفاظت اور ٖفلاح کو ہی انتہائی اہمیت نہیں دیتا بلکہ وہ ایک تفصیلی نظام اور اقداربھی فراہم کرتا ہے جس کے نتیجے میں ریاست اپنے شہریوں کو جنسی جرائم سے تحفظ فراہم کرتی ہے اور معاشرے کو ایک مخصوص شکل دینے کے لیے اس نظام کے قوانین ایک دوسرے سے متصادم نہیں ہوتے بلکہ ایک دوسرے کے لیے تقویت کو باعث بنتے ہیں۔
سب سے پہلے اسلام لبرل شخصی اور جنسی آزادیوں کو مستردکرتا ہے بلکہ معاشرے میں خوف خدا کے احساس کو پروان چڑھاتا ہے جس کے نتیجے میں احتساب پر مبنی ذہنیت پیدا ہوتی ہے جو مردکو خواتین اور بچوں کی عزت کرنے کی جانب مائل کرتی ہے۔ لہٰذا اسلام معاشرے میں جنسیات کی ترویج کی ممانعت کرتا ہے اور جنسی جبلت کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل سے معاشرے کو تحفظ فراہم کرتا ہے اور ایسے تمام اعمال کی ممانعت کرتا ہے جس کے نتیجے میں عورت کو ایک شے کے طور پر دیکھا جائے اور عورت کا استحصال کیا جائے۔ اس طرح مردو عورت کے تعلقات کا محورکبھی بھی محض جنسی تسکین نہیں ہوتی اور عورت کا مقام و مرتبہ بھی برقرار رہتا ہے۔
دوسرا یہ کہ اسلام کا معاشرتی نظام ایسے قوانین کا مجموعہ ہے جو مردو عورت کے تعلقات کو منظم کرتا ہے۔ اس میں شریفانہ لباس، مرد و عورت کے اختلاط کو روکنا اور شادی کے بندھن سے باہر ان کے جسمانی تعلق کی ممانعت بھی شامل ہے۔ یہ تمام اقدامات مرد وعورت کو اس بات پر مجبور کرتے ہیں کہ وہ جنسی جبلت کی تسکین کو صرف اور صرف شادی کے بندھن کے ذریعے سے ہی پورا کرسکتے ہیں۔ لہٰذا جنسی جبلت کو دبایا نہیں جاتا اور نہ ہی کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے بلکہ اس کی اس طرح تسکین کی جاتی ہے کو معاشرے کے لیے فلاح کا باعث ہو۔
اور تیسری بات یہ کہ اسلام جنسی جرائم کے خلاف انتہائی سخت سزائیں مقرر کرتا ہے جس میں چند مخصوص مقدمات میں موت کی سزا بھی دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ اسلام اس بات کو لازمی قرار دیتا ہے کہ ایک ایسا موثر عدالتی نظام ہو جو ان جرائم سے باآسانی نمٹ سکے۔
یہ تمام اقدامات عورتوں اور بچوں پر جنسی حملوں کو انتہائی کم کردیتے ہیں اور ایسا معاشرہ پیدا کرتے ہے جہاں لوگ خوف کی حالت میں نہیں رہتے بلکہ انھیں تحفظ کا احساس ہوتا ہے اور یہ تحفظ کا احساس انھیں بغیر کسی خطرے کےسفرکرنے، پڑھنے اور کام کرنے کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ لیکن یہ ماحول صرف اسی وقت پیدا کیا جاسکتا ہے جب ایک ریاست اسلام کا نظام مکمل طور پر اسلام کے نظام حکمرانی کے تحت نافذ کرے اور خواتین و بچوں کی عفت و عصمت کے تحفظ کو انتخابی نعرے کے طور پر نہیں بلکہ یاست کیپالیسی میں اولین ترجیح قرار دے۔ اس میں تعلیمی نظام اور میڈیا بھی شامل ہے جو معاشرے میں عورت کے بلند مقام کی ترویج کرے گا نہ کہ اس کو ایک ایسی شے کے طور پر پیش کرے جس کا کام مردوں کی خواہشات کو پورا کرنا ہو۔
خلاصہ یہ ہے کہ یہ سمجھنا کہ اس جرم کے خلاف شعور کی بیداری کے لیے مہم چلانے سے، پولیس کو بہتر تربیت دینے سےیا زیادہ سخت قوانین بنانے سے خواتین اور بچوں کے خلاف جنسی جرائم میں قابل ذکر کمی آجائے گی جبکہ دوسری جانب ایسا نظام نافذ ہو جو منظم طریقے سے خواتین اور بچوں کے عزت و مرتبے کو گھٹا تا ہو ، ان کے تحفظ کی ذمہ داری سے کوتاہی برتتا ہو، ایک خواب ہے جس کی تعبیر ممکن ہی نہیں۔ جب تک کہ اس تصور اور اس کی ترویج کرنے والی حکومت کو پاکستان سے اکھاڑ نہیں پھینکا جائے گا جو معاشرے میں ایسے جرائم کے پیدا ہونے کی بنیادی وجہ ہے اور اس کی جگہ اسلام کو نافذ نہیں کیا جاتا جو ایسی اقدار کی ترویج کرتا ہے جس کے نتیجے میں شہریوں کی عزت و حرمت کو تحفظ حاصل ہو، تو ایسے انتہائی افسوسناک اور خوفناک واقعات کا سلسلہ جاری و ساری رہے گا اور خبروں کی سرخیوں کی زینت بنتے رہیں گے۔
ڈاکٹر نظرین نواز
حزب التحریر کے میڈیا آفس کی رکن

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک