السبت، 30 جمادى الثانية 1447| 2025/12/20
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

مصرکی عبوری حکومت کی طرف سے اخوان المسلمون کودہشت گرد تنظیم قراردینے کااعلان عبوری حکومت کا سامنا كرنے والے ہرشخص کودہشت گردی کاالزام دے کر خوفزدہ کرنے کی ایک کوشش ہے

پریس ریلیز

بدھ25دسمبر2013 کو البیبلاوی حکومت نے اخوان المسلمون کو "دہشت گرد تنظیم" قرار دے دیا۔ یہ اعلان ملک کے شمالی صوبہ دقہلیہ کے سیکورٹی ڈائرکٹریٹ کی عمارت دھماکےکانشانہ بن جانے کے ایک دن بعد کیا گیا، جس میں 16 افراد ہلاک ہوئے۔ یہ اعلان اس حقیقت کے باوجود کیا گیا کہ اخوان کے اس دھماکے میں ملوث ہونے کاکوئی ثبوت پیش نہیں کیاگیا اور "انصار بیت المقدس"نامی ایک تنظیم نے اس دھماکے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
دھماکے کے تھوڑی دیربعدڈاکٹر حازم البیبلاوی نے کابینہ کے ترجمان کے ذریعے اعلان نشر کروایا جو اس کی اس نیت کی غماز ہے کہ اس واقعے کو اخوان کوقانونی طورپردہشت گرد تنظیم قرار دلوانے کیلئے استعمال کیاجائے۔ وزارت داخلہ کے ترجمان جنرل ہانی عبداللطیف نے بدھ 26دسمبر2013 کواپنےاخباری بیان میں کہاکہ اخوان المسلمون کو دہشت گرد جماعت قرار دینے کامطلب یہ ہے کہ جوکوئی اخوان کی طرف سے منعقد کی گئی ریلی کی قیادت کرے گااس کوسزائے موت دی جائےگی خواہ وہ کوئی خاتون ہی کیوں نہ ہو۔ انہوں نے اس بات پرزوردیاکہ کوئی بھی شخص جواس پارٹی کی زیرِقیادت ہونے والی کسی ریلی میں شرکت کرے گاتواسے پانچ سال جیل کی سزاملے گی ۔
اس میں کوئی اچھنبے کی بات نہیں کہ عبوری حکومت نے واقعے کے ذمہ داروں اور شہہ دینے والوں کاپتہ چلانے کیلئے کسی قسم کی سنجیدہ تحقیقات سے پہلے اخوان المسلمون پریہ الزام لگایا، کیونکہ مصری حکومت آغاز سے ہی ، جماعت اوراس کے افراد کے ساتھ ایک دہشت گرد تنظیم جیسا رویہ اپناتی آرہی ہے۔عبوری حکومت نےلمحہ بھر کیلئے تعاقب، قید وبند اور قتل سے ہاتھ نہیں روکے۔ اس کے ساتھ ہی ان کی اسمبلی کوتحلیل کیا، ان کی جائیدادوں پر قبضہ کیا اورابھی کچھ روزہوئے مرکزی بینک نے 1055نجی تنظیموں کے اکاؤنٹس منجمد کردئے ہیں۔ انقلابی اتھارٹی نے کہاکہ ان میں سے بعض کے اخوان المسلمون کے ساتھ روابط ہیں اوربعض اس کے ساتھ ہمدردیاں رکھتی ہیں ۔ مرکزی بینک نے 40 بینکوں کو ان تنظیموں کے سرمائے کو منجمد کرنے کے احکامات جاری کیے۔
ہم یہاں اخوان المسلمون کادفاع نہیں کرناچاہتے اورہم اپنے متعدد سابقہ پمفلٹوں میں موجودہ سیکولرحکومت میں شمولیت کے عدم جوازکوواضح کرچکے ہیں یعنی نہ توجمہوری صدارتی عہدہ جائز ہے اورنہ ہی کوئی وزارتی منصب سنبھالنا۔ ہم ثابت کرچکے ہیں کہ یہ طریقہ نہ صرف یہ کہ حرام ہے بلکہ یہ کسی لحاظ سے سود مند نہیں۔ یہ اس بدحالی میں کوئی تبدیلی نہیں لائے گا۔ اوریہ کہ ہمہ گیراوربنیادی تبدیلی کیلئےجدوجہدہی وہ صحیح عمل ہےجس کے ذریعے موجودہ فاسد نظام کومکمل طور پر اکھاڑا جائے اور اسلام کومکمل اوریکبارگی نافذ کیاجائے، جیساکہ رسول اللہﷺ نے کیاتھا ۔ ہم اس وقت اس بے بنیادالزام تراشی کی مذمت کرتے ہیں،جس کامقصد انتقامی جذبات کی تکمیل اورانقلاب کے مفاد میں برپا اس کشمکش کا خاتمہ کرنا ہے، بالخصوص جبکہ تاحال عبوری حکومت نےپارٹی کے دہشت گردانہ کاروائیوں میں ملوث ہونے کےشواہد پیش نہیں کئےہیں۔
بلاشبہ اخوان کو دہشت گرد جماعت قرار دینے کا مقصد ہر اس شخص کودہشت گرد قرار دینے کی ایک کوشش ہے جوانقلاب کی اتھارٹی سے اختلاف کرتے ہیں اور یہ پوری اسلامی لہرکے خلاف جنگ اوراس کودہشت گردی کی تہمت سے داغ دار کرنے کاایک سوچاسمجھامنصوبہ ہے۔ اس حکومت کے بارے میں خیال کیا جا رہا تھا کہ یہ مستعفی ہوجائے گی یا کم ازکم اس قسم کے بے سروپا الزامات کی ہدایات جاری کرنے سے پہلے وزیر داخلہ کومعزول کردے گی۔
تعجب کی بات یہ ہے کہ کوئی بھی یہودی انٹیلی جنس ایجنسیوں یا مغربی ایجنسیوں کومورد الزام ٹھہرانے کی جرات نہیں کرتا جومصرکے اندرآرام سے اپنے گھناؤنے مقاصد کیلئے سرگرم ِعمل ہیں۔ چنانچہ مصر استعماری ریاستوں کے جاسوس اداروں کیلئے ہمیشہ سےایک سرسبزوشاداب چراگاہ رہاہے۔ ان ریاستوں کاایک ہی ہدف ہے اوروہ یہ کہ مصر ان کےزیراثر ایک سیکولر یا نیم سیکولرریاست کے طورپر قائم رہے،جسے یہودکے ساتھ دائمی امن معاہدات اورکافر امریکی ریاست کے ساتھ اسٹریٹجک تعلقات کی بیڑیوں میں جکڑدیاگیاہو۔
مصر میں امن وامان کی اس ابتر صورتحال اور دونوں طرف سے بڑھتی اوربھڑکتی ہوئی کشمکش اقتدار کے تنازع کے سواکچھ نہیں اورہم سب کویہ کہتے ہیں کہ صرف نبوت کے نقش ِ قدم پرخلافت کے زیرِسایہ ہی امن وامان اور انسانوں کو عزت وآبروحاصل ہوگی جہاں حکمران ایک ڈھال کے مانند ہوتاہے جس کی قیادت میں جنگ کی جاتی ہے اوراسی کے ذریعے تحفظ حاصل کیا جاتا ہے، وہی رعایا کے خون، ان کے اموال اورعزت وآبروکی حفاظت کرتا ہے۔ حزب التحریر سب کودعوت دیتی ہے کہ آئیں اورخلافت کےدوبارہ قیام کےذریعے مصرمیں جاری اس خونریزی اورقتل وغارت گری کی روک تھام کیلئے ‍‍ ہمارے ساتھ مل کر جد وجہد کریں، کیونکہ صرف خلافت ہی تمام لوگوں کیلئے خواہ وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم، امن اور سکون لوٹاسکے گی۔
وَلَيَنصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ
"اور اللہ ضرور ان لوگوں کی مدد کرے گا جواس (کے دین) کی مدد کریں گے ،بے شک اللہ بڑی قوت والا اوراقتداروالا ہے" ( الحج : 40)
شریف زید
سربراہ مرکزی میڈیاآفس حزب التحریر
ولایہ مصر

Read more...

حزب التحریر سرکش حسینہ اور سکیورٹی فورسز اور جھوٹے میڈیا میں موجود اس کے گماشتوں کو عبرت ناک انجام سے خبردار کرتی ہے

پریس ریلیز

حزب التحریر پولیس کی جانب سے اس کے اراکین اور اس کے حمایتی ان متقی مسلمانوں پر وحشیانہ حملوں کی پر زور مذمت کرتی ہے جو اس جلوس میں شرکت کے لیے جارہے تھے جس کا اعلان حزب نے کر رکھا تھا جو کہ جمعہ(27 دسمبر 2013) کا دن تھا، جہاں پولیس نے حسینہ کے حکم پر ان راہ چلتے لوگوں پر اندھا دھند فائرنگ کردی اور تقریباً چالیس لوگوں کو گرفتار کر لیا اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد زخمی ہو گئی اور گرفتار کیے گئے لوگوں پر بھی انتہائی قریب سے گولیاں برسائیں گئیں۔ اس سے بھی رسواکن اقدام یہ تھا کہ پولیس نے قریبی ہسپتالوں میں موجود زخمیوں کا پیچھا کیا اور ان میں سے زیر علاج سات افراد کو گرفتار کرلیا۔ میڈیا کے ایک دھوکہ باز حصے نے بھی حسینہ اور پولیس کی ہاں میں ہاں ملائی جو جھوٹ کو پھیلانے میں حکومت اور پولیس کے ہرکاروں کا کردار ادا کر رہا ہے،جس نے یہ بہتان تراشا کہ حزب کے اراکین اور اس کے حامیوں نے پولیس پر پتھراو کیا اور اینٹیں پھینکیں اور دستی بموں سے حملے کیے۔
حزب التحریر سرکش حسینہ اور سکیورٹی فورسز میں موجود اس کے غنڈوں کوخبردار کرتی ہے کہ عنقریب تم اپنے ان گھناؤنے جرائم کا عبرتناک ترین صلہ پاؤں گے۔ ریاست خلافت جو کہ مخلص افسران کی نصرۃ سے جلد ہی قائم ہونے والی ہے تمھارا احتساب کیے بغیر نہیں چھوڑے گی۔
اور شیخ حسینہ اور اس کے فیصلوں میں شامل اس کے ساتھی آخرت میں بھی بدترین عذاب کا سامنا کریں گے۔ اللہ سبحانہ و تعالٰی فرماتے ہیں: إِنَّ الَّذِينَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَتُوبُوا فَلَهُمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَلَهُمْ عَذَابُ الْحَرِيقِ " جو لوگ مؤمن مردوں اور مؤمن عورتوں کو آزمائش میں ڈالتے ہیں اور پھر اس پر توبہ بھی نہیں کرتے تو ان کے لیے جہنم اور جلنے کا عذاب ہے" (البروج: 10) ۔
اور سکیورٹی فورسز میں کام کرنے والوں سے ہم کہتے ہیں کہ تمہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ حکومت کی جانب سے حزب التحریر کے کارکنوں اور اراکین پر اس یلغار کا سبب صرف یہ ہے کہ یہ دین حق کے پیروکار ہیں اور اسلام کی دعوت کو لوگوں تک پہنچاتے ہیں۔ اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ اللہ اس پر اس وجہ سے تمہارا محاسبہ نہیں کرے گا کہ تم تو "حکومتی احکامات کے پابند ہو "! تو اچھی طرح سن لو اللہ سبحانہ وتعالٰی فرماتے ہیں: يَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوهُهُمْ فِي النَّارِ يَقُولُونَ يَا لَيْتَنَا أَطَعْنَا اللَّهَ وَأَطَعْنَا الرَّسُولَ ط وَقَالُوا رَبَّنَا إِنَّا أَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاءَنَا فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَ "جس دن آگ میں ان چہروں کو الٹ پلٹ کیا جائے گا تو یہ کہیں گے اے کاش ہم نے اللہ کی اطاعت کی ہوتی اور رسول کی اطاعت کی ہو تی ۔ اور کہیں گے کہ اے ہمارے رب ہم نے تو اپنے راہنماؤں اور بڑوں کی اطاعت کی تھی اور انہوں نے ہمیں سیدھی راہ سے بھٹکا دیا" (الاحزاب: 66-67)۔
میڈیا والوں سے بھی ہم کہتے ہیں کہ اس قدر شرمناک جھوٹ کی نشر واشاعت کرتے ہوئے تمہیں شرم بھی نہیں آتی؟! جو تصاویر تم نے دکھائیں ہیں یا جو ویڈیو تم نے نشر کی ہے اس میں تو کہیں بھی کسی نے اینٹ یا پتھر نہیں اٹھا یا یا مارا ہے اور نہ ہی کہیں کسی دستی بم کے نشانات ہیں، پھر یہ سب تم کیسے کہتے ہو ؟ کیا تم نے رسول اللہ ﷺ کی یہ حدیث نہیں سنی ہے کہ : مِن أفرى الفرى أن يُريَ الرجل عينيه ما لم تريا "بدترین جھوٹ یہ ہے کہ ایک آدمی اس چیز کو دیکھنے کا دعویٰ کرے جو اس نے نہیں دیکھی ہے؟"
ہم نے کہا ہے اور ہم پھر کہتے ہیں کہ :حسینہ حکومت گولہ بارود کی گن گرج کے زریعے اور تشدد کے دوسرے طریقوں کے ذریعے حزب التحریر اور دوسرے متقی لوگوں کو خاموش کرنے میں ہرگز کامیاب نہیں ہو گی۔ یہ سارے ہتھکنڈے ان کے حوصلےپست نہیں کریں گے بلکہ اللہ کی مدد سے ان کے عزائم کو جلا بخشیں گے۔ حکو مت اپنی اس روش کے ذریعے اپنی ہی تباہی میں جلدی کر رہی ہے۔
﴿الَّذِينَ قَالَ لَهُمْ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ﴾
"وہ لوگ جن سے لوگوں نے کہا کہ کہ لوگ تو تمہارے خلاف اکھٹا ہو چکے ہیں اس لیے ڈرو تو اس بات نے ان کے ایمان کو اور مضبوط کردیا اور انہوں نے کہا کہ ہمارے لیے اللہ ہی کا فی ہے اور وہی بہترین کار ساز ہے"


https://www.facebook.com/pages/PeoplesDemandBD

Read more...

مسلم افواج کی جانب سے اسلام اور مسلمانوں سے غداری

نصیر الاسلام محمود

جس وقت امت مسلمہ نے خواب غفلت سے بیدار ہو کرمغرب کی غلامی اور بالادستی سے آزادی کا مطالبہ کیا اس وقت یہ مشاہدہ کیا گیا کہ مسلمانوں کی افواج ان غیر شرعی حکومتوں کا دفاع کررہی ہیں جن کو کافر مغرب نے امت مسلمہ پر مسلط کر رکھا ہے۔مسلم افواج کو چاہیے تھا کہ موجودہ خودساختہ حکومتوں سے چھٹکارہ پانے کے ذریعے مغرب کی بالادستی سے آزادی اور ایک ایسے نظام کے قیام کے لیے جس کو اللہ تعالٰی نے لوگوں کے لیے پسند کیا ہے امت کے شانہ بشانہ کھڑی ہوں۔ لیکن افواج نے انہی حکومتوں کا دفاع کیا حتٰی کہ ایجنٹ حکمرانوں کے خلاف آواز بلند کرنے پر حکمرانوں کے حکم پر مسلمانوں کا قتل عام کیا جس سے ایسا لگا کہ مسلمانوں کی افواج بھی حق اور اپنی امت کے خلاف باطل کے دست وبازو بن گئے ہیں۔
امت کی جانب افواج کے اس المناک رویے کے کچھ اسباب ہیں اور ہمیں ان اسباب پر غور کرنا چاہیے جن کی وجہ سے افواج نےان سرکش حکمرانوں کا ساتھ دیا۔ ان اسباب پر غور کرنے کے بعد ہی ہمیں معلوم ہو گا کہ یہ دردناک صورت حا ل دائمی ہے یا عارضی کہ جس پر قابو پایا جاسکتا ہے خصوصاً اس وقت جب ریاست خلافت قائم ہوجائے گی جو انشاء اللہ اب بہت قریب ہے۔
مسلمانوں کی افواج کی جانب سے مغرب کی کٹھ پتلی حکومتوں، جو کہ کفر کے ذریعے حکومت کرتی ہیں، کا ساتھ دینے کےکئی اسباب ہیں جن میں سے نمایاں یہ ہیں:
1۔ عسکری قیادت میں اعلی ترین عہدوں پر مغرب نوازوں کی موجود گی، جن کا نصب العین ہی یہ ہے کہ اپنے تکبر اور بے تحاشہ دولت جمع کرنے کے لیےاپنے عہدے سے ناجائز فائدہ اٹھایا جائے۔ لہٰذایہ اپنے عہدوں سے چمٹے رہتے ہیں اور انہیں بچانے کے لیے اپنی فوجی غیرت سے دسبرتدار ہوتے ہیں۔ کچھ تو ایسے ہیں کہ میدان کارزار کے جرنیل نہیں بلکہ مال ودولت کے جرنیل ہیں۔ یہ قیادتیں مسلم افواج کی قیادت کے اہل نہیں۔ بلاشبہ یہ لوگ دشمن کے مقابلے میں امت کی رسوائی کے ذمہ دار ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے ذریعے مغرب امت کے معاملات میں نہ صرف مداخلت کرتا ہے، بلکہ انہی کے ذریعے حکومت کرتا ہے کیونکہ یہ مغرب کی طرف سے مسلط کردہ خود ساختہ حکومتوں کی چوکیداری کرتے ہیں۔ یوں یہ قیادتیں مسلم علاقوں میں سرکشوں کے تخت و تاج اورخود ساختہ حکومتوں کی حفاظت کے لیے افواج کی قیادت کرتی ہیں۔حقیقی جنگوں میں افواج کی قیادت کرنے کی بجائے استعماری کافر کے مفادات کے لیے امت مسلمہ کے خلاف جنگ میں ان کی قیادت کرتے ہیں۔ اس کی ایک مثال عراق کے خلاف جنگ میں مسلم افواج کا مغربی صلیبی اتحاد میں شامل ہو نا ہے۔اسی طرح ایک اور مثال پاکستانی فوج اور متحدہ عرب امارات وغیرہ کے فوجی یونٹوں کا افغانستان پر قبضے کے لیے نیٹو اور امریکہ کی مدد کرنا ہے۔اگر یہ قیادتیں ان مسلم قیادتوں کی طرح ہوتیں جیسا کہ صحابہ، تابعین اور پھر اسلامی حکومت کے سائے میں تیرہ سو سالتک انکے نہج پر چلنے والے لوگ جن کے ذکر سے تاریخ کے اوراق بھرے ہیں، تو اس امت کو موجودہ کزتوری اور ذلت کا سامنا نہ ہوتا۔کہاں یہ موجودہ قائدین اورکہا ں محمدﷺ، اسلامی فوج کے پہلے کمانڈر انچیف۔ بدر کے دن آپﷺ اپنے صحابہ کی صفیں سیدھی فرمارہے تھے اور آپﷺ کے دست مبارک میں ایک تیر تھا جس سے آپﷺ صفیں درست فرمارہے تھے، اس دوران سواد بن غزیۃ کے پاس سے گزرے جو کہ بنی عدی بن النجار کے حلیف تھے ۔سواد بن غزیتہ صف سے آگے نکلے ہوئے تھے، رسول اللہ ﷺ نے تیر سے ان کے پیٹ کو دبایا اور فرمایا: سواد قطار میں ہو جا ؤ۔ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ! آپ نے مجھے تکلیف دی میں بدلہ لینا چاہتا ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: بدلہ لے لو۔ انہوں نے کہا : آپ ﷺ نے جب دبایا تھا تو میں نے قمیض نہیں پہنی ہوئی تھی۔رسول اللہ ﷺ نے بطن مبارک کو ظاہر کیا اور فرمایا: بدلہ لے لو۔ سواد آپ ﷺ سےلپٹ گیا اور بطن مبارک کو بوسہ دیا۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے سواد تم نے ایسا کیو ں کیا ؟ انہوں نے کہا: آپﷺ کو معلوم ہے کہ جنگ میں کود نا ہے اور ہو سکتا ہے کہ قتل ہوجاؤں تو میں نے چاہاکہ آپﷺ کے ساتھ آخری معاملہ میرا یہ ہو کہ میرا بدن آپﷺ کے بدن کو چھوئے۔رسول اللہ ﷺ نے ان کے لیے خیر کی دعا فرمائی۔ ایک بار ایک مسلم کمانڈر جن کے سامنے لذیذ کھا نا لایا گیا تو انہوں نے پوچھا کہ سپاہیوں کو بھی یہی کھانا دیا گیا ہے۔ کہا گیا نہیں۔ تو انہوں نے کہا کہ پھر میرے لیے بھی وہی کھانا لاؤ جو عام سپاہیوں کے لیے ہے۔
2 ۔ مسلم افواج میں موجود فوجی نظریات اور قوائد کا اسلامی عقیدے سے الگ ہونا۔ اگرچہ عالم اسلام میں افواج کا عقیدہ اسلامی عقیدہ ہی ہے مگر ان افواج کا فوجی نظریہ اسلامی عقیدے سے الگ ہے۔یہی وجہ ہے کہ ایک مسلم سپاہی وطنی چپقلش، نسلی تعصب یا کسی بھی جاہلانہ سوچ کی وجہ سے اپنے ہی ہم عقیدہ بھائی سے لڑتا ہے۔ وہ اسلامی عقیدہ جو ان کو یک جان کر تا تھا باہمی جنگوں اور لڑائیوں میں غیر مؤثر ہے۔ اسلامی عقیدے کی حمیّت عالم اسلام کی افواج میں موجود سپاہیوں پر اثرانداز نہیں ہو رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک سپاہی بشمول اپنے علاقے کے دنیا کے مختلف حصوں میں اپنے بہن بھائیوں کی آہ و بکا سن اور دیکھ کر بھی اس کو اپنے اس اسلامی عقیدے سے مربوط نہیں کرتاجس کی بنیاد پر مجبوروں اور مظلوموں کی مدد کرنا اس کی ذمہ داری ہے۔ اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ بے بس اور ستائے ہوئے مسلمان مدد کے لیے پکار رہے ہیں جیسا کہ شام کے مسلمان، برما کے مسلمان، فلسطین اور کشمیر کے مسلمان اور افغانستان کے مسلمان لیکن مسلم افواج کے سپاہی اس کو اپنے عقیدے سے اس طرح مربوط نہیں کرتے جیسے وہ نمازاوربعض عبادات خصوصاً نوافل کو کرتے ہیں۔ اپنے مجبور بھائیوں کے حوالے سے اپنے اوپر عائد ہونے والے فریضے کواسلامی عقیدے سے مربوط نہیں کرتے۔ وہ اگر چہ اللہ کے اس ارشاد کی تلاوت کرتے ہیں ...وَإِنِ اسْتَنْصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ... (اگر وہ دین کی بنیاد پر تم سے مدد مانگیں تو مدد تم پر لازم ہے)، مگر وہ اس آیت کو اپنے دینی بھائیوں کی مددکے حوالے سے اپنی ذمہ داری سے مربوط نہیں کرتے۔ اسی طرح اگر چہ ان کو اس خاتون کا قصہ یاد ہے جس نے "وامعتصماہ" یعنی "ہائے معتصم " کہہ کر مدد طلب کی تھی اور معتصم بھی اس کی مدد کےلیے نکل پڑا تھا اور اس کو اور اس کے ساتھ دوسرے خاندانوں کو آزاد کرالیا اور اس علاقے کو جس میں "انقرہ" بھی شامل تھا فتح کر لیا۔ مگر یہ اس قصے کو اپنے آباؤاجداد پر فخر کرنے کے لیے پڑھتے ہیں ان کے نقش قدم پر چلنے کے لیے نہیں۔
اسلامی عقیدے کا مسلم افواج کے فوجی نظریے کی اساس ہونا لازمی ہے۔ اسلامی فوج کا نصب العین اسلامی عقیدے، مسلمانوں اور اسلامی ریاست کی حفاظت اور اسلام کی دعوت کو پوری انسانیت تک پہنچانا ہےکیونکہ اسلام پوری انسانیت کے لیے اللہ کی ہدایت ہے۔ کوئی بھی چیز جو مذکورہ امور میں سے کسی ایک کے لیے خطرہ پیداکرے تو اسلامی افواج کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کے دفاع اور حفاظت کے لیے سر دھڑ کی بازی لگادے۔
3 ۔ مسلم افواج میں اسلامی ثقافت(اسلامی تربیت) کا فقدان بلکہ ان کی تربیت غیر اسلامی ثقافت کے ذریعے کی جاتی ہے۔ لہٰذا مسلم افواج کافر استعمار کے سامنے کمزور پڑ جاتے ہیں۔مغرب اپنی ثقافت نافذکرنے کی شرط پر ہماری افواج کو اسلحہ فراہم کرتا ہے ۔وہ ہماری افواج کو ایسے کورسز کرواتے ہیں جن میں کرپٹ مغربی آزادیوں کے تصور اور جمہوریت کی تعریف بیان کی جاتی ہے اور نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر دراصل اسلام کے خلاف لڑنے پر ان کی تعریف وتوصیف کی جاتی ہے۔یہ تربیت اس حد تک کی گئی کہ اب ہماری افواج اپنے ہی لوگوں کو دہشت گرد سمجھتے ہوئے جنگ کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دیکھنے میں آتا ہے کہ فوجی انٹلیجنس ایجنسیاں اسلامی شعائر کے پابند اور امت کے عروج کے لیے کام کرنے والوں کو نشانہ بناتی ہیں اور امت کے خلاف دشمن مغربی ممالک کی سازشوں کی انھیں کوئی پروا نہیں ہوتی ۔ مثال کے طور پر افواج پاکستان کی تربیت اس طرح کی جاتی ہے کہ اس سے امریکہ خوش ہو جائے اور اس کے مفادات کی حفاظت ہو سکے۔ اسی کو بنیاد بنا کر فوج نے یہ نظریہ اپنایا کہ دشمن اندرونی ہے جس کی تعریف امریکہ نے "سیاسی اور جہادی اسلام" کے طور پر کی ہے۔ انھوں نےامریکہ اور بھارت کودشمن نہیں سمجھا بلکہ سیاسی و جہادی اسلام کے لیے جدوجہد کرنے والوں کو دشمن قرار دیا۔ انھوں نے ان مجاہدین کو دبانا شروع کردیا جو خطے میں امریکہ کے قبضے کے خلاف لڑتے ہیں اور یہ کہا کہ یہ لوگ "دہشت گرد" اور "قومی سلامتی" کے دشمن ہیں۔ پاکستان کی فوجی انٹیلی جنس نے فوج اور عام شہریوں میں موجود ان اسلام کے داعیوں کی جاسوسی کرنا شروع کردی جو خلافت کے قیام کے ذریعے امت کی نشاۃ ثانیہ کے لیے سخت جدوجہد کررہے ہیں۔
فوج کو لازمی بہترین اور اعلٰی پیشہ ورانہ تعلیم وتر بیت فراہم ہونی چاہیے اور ان کی سوچ میں فکری بلندی کی سطح بھی ممکن حد تک اعلٰی ہونی چاہیے۔اس کے علاوہ فوج میں ہر شخص کی اسلامی تربیت بھی ہونی چاہیے جو انھیں اس قابل کرے کہ وہ اسلام کو سمجھ سکیں تا کہ ایک سپاہی اپنے اصل دشمن کو جان سکے اور اسے شکست دینے کے لیے لڑے اور اس کو اپنی شرعی ذمہ داری سمجھے اور رسول اللہ ﷺ کے قول کے مطابق عمل کرے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فر مایا ((كُلُّ رَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ عَلَى ثَغْرَةٍ مِنْ ثُغَرِ الْإِسْلَامِ، اللهَ اللہَ لَا يُؤْتَى الْإِسْلَامُ مِنْ قِبَلِك)) "مسلمانوں میں سے ہر شخص اسلام کی چوکیوں میں سے ایک چوکی کا محافظ ہے، اسے اپنی چوکی سے اسلام کا دفاع کرنا ہے اور اپنی چوکی پر شکست کو قبول نہیں کرنا ہے"۔
اس سب کچھ کے بعد اب سوال یہ ہے کہ کیا ان افواج سے امیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں؟
اس کا جواب ہے کہ یقیناً انہی سے امید بھی ہے۔ باوجود اس کے کہ مذکورہ بالا اسباب کی بنا پر ان افواج نے امت مسلمہ کو بے یارومدد گار چھوڑ دیا جس کی وجہ سے امت اپنے دشمنوں کے سامنے شرمندہ ہوئی مگر مسلم افواج میں مخلصین کی بھی ایک بڑی تعداد ہے جو مناسب موقع پر اسلام اور مسلمانوں کی مدد کا انتظار کر رہے ہیں۔ وہ یہ جانتے ہیں کہ ان کی اجل اور رزق اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ امت کا عروج خالدبن ولید رضی اللہ عنہ کے انہی فرزندوں پر موقوف ہے۔خالد نےبستر مرگ پر لیٹے ہوئے فرمایا تھا ((لقد شهدتُ مائة زحف أو زُهاءَها، وما في جسدي موضع شبر إلا وفيه ضربةٌ أو طعنة أو رَمْية، ثم هأنذا أموت على فراشي كما يموت العَيْر، فلا نامت أعين الجبناء)) "میں نے شہادت کی آرزو لیے سیکڑروں جنگیں لڑی ہیں کہ میرے جسم میں کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں تلوار، نیزے اور تیر کے زخم کا نشان نہ ہو۔ پھر بھی اب میری یہ حالت ہے کہ آج اونٹ کی طرح بستر پر مر رہا ہوں، بزدلوں کی آنکھیں ہمیشہ شرمندگی سے نم رہیں"۔یہ وہ سپاہی تھے جو واقعی اللہ کی تلوار کہلوانے کے حقدار تھے اوروہ تلوار اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کے خلاف آخری دم تک حرکت میں رہی۔
ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اسلامی علاقوں میں فوجیوں کی بہت بڑی اکثریت صرف آرڈر(حکم) کی پابندی کر رہی ہے جبکہ ان کے دل خون کے آنسو روتے ہیں کیونکہ وہ بھی اس امت کا حصہ ہیں۔ جیسے ہی ان کو موجودہ ایجنٹ قیادتوں سے جان چھڑانے کا موقع ملے گا تو وہ فوراً یہ کام کرگزریں گے ۔
یوں ان افواج سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں۔ انہی کے اندر امت کے جواں مرد موجود ہیں۔ عنقریب امت اور اس کی افواج کافر مغرب سے چھٹکارا پالیں گی اور ایسے کارہائے نمایاں انجام دیں گی کہ اللہ ان سے راضی ہو جائے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ((وَاعْلَمُوا أَنَّ الْجَنَّةَ تَحْتَ ظِلاَلِ السُّيُوفِ)) "جان لو کہ جنت تلواروں کے سائے میں ہے"۔

Read more...

امریکی راج خاتم کرو، خلافت قائم کرو راحیل-نواز حکومت امریکی موجودگی کو دوام بخشنے کی بھر پور کوشش کررہی ہے

حزب التحریر افغانستان سے محدود انخلاء کے امریکی منصوبے کے اعلان کے بعد راحیل-نواز حکومت کی جانب سے خطے میں امریکی موجودگی کو دوام بخشنے کی کوششوں کی پرزور مذمت کرتی ہے۔ یکم جنوری 2014 کو امریکہ میں پاکستان کے نئے سفیر ، جلیل عباس جیلانی نے ایک انٹرویو میں خبردار کیا کہ " امریکی انخلاء کی محض بات چیت ہونے کی وجہ سے اس کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ پہلے سے زیادہ افغان مہاجرین پاکستان پہنچنا شروع ہوگئے ہیں۔۔۔اگر افواج کی بڑی تعداد واپس چلی جاتی ہیں تو زیادہ ذمہ داری ہمارے کاندھوں پر آجائے گی"۔
یہ بیان ایک جھوٹ ہے کیونکہ اس سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ جیسے محدود انخلاء کے نتیجے میں خطے کی صورتحال مزید خراب ہوجائے گی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ایک دہائی سے مسلسل وسیع ہوتی امریکی موجودگی نے یہ ثابت کیا ہے کہ پاکستان اور افغانستان دونوں کو اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ خطے سے امریکہ کی موجودگی مکمل طور پر ختم ہوجائے جس میں سفارت خانوں، قونصل خانوں ، سفارتی عملے، انٹیلی جنس اور نجی امریکی افواج کا خاتمہ بھی شامل ہے۔ یہ امریکی موجودگی ہی ہے جس کے نتیجے میں پاکستان میں ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک اب تک موجود ہے جو ہمارے ملک میں بم دھماکوں اور قتل و غارت گری کے واقعات کا اصل ذمہ دار ہے اور پھر اس صورتحال کو بہانا بنا کر ہماری افواج کو قبائلی علاقوں میں بھیجا جاتا ہے۔ یہ امریکی موجودگی ہی ہے جس نے افغانستان میں بھارت کی موجودگی کو یقینی بنایا ہے اور پھر بھارت اس سے فائدہ اٹھا کر قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں کاروائیاں کر کے پاکستان کو غیر مستحکم کرتا ہے۔ اور یہ امریکی موجودگی ہی ہے جس نے تباہی و بربادی کے سلسلے کو افغانستان کے مسلمانوں پر مسلط کردیا ہے۔
اس کے علاوہ اس وقت یہ بیان دینااس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ مشرف و عزیز یا کیانی و زرداری کے دور سے جاری پالیسیوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ یہ بیان اس وقت آیا ہے جب امریکہ نے یہ اعلان کردیا ہے کہ وہ مکمل طور پر نہیں جارہا۔ 3 دسمبر 2013 کو نائب سیکریٹری خارجہ برائے جنوبی و وسطی ایشیا، نیشا ڈیسائی بسوال نے اعلان کیا کہ "پاک افغان خطے میں ہماری موجودگی ہمیشہ کے لیے ہے۔ ہم نہیں جارہے۔ ہم کہیں بھی نہیں جارہے"۔ اور یہ بیان اس وقت آیا ہے جب امریکہ خطے میں اپنی مستقل موجودگی کو برقرار رکھنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ 7 دسمبر 2013 کو امریکہ سیکریٹری دفاع چک ہیگل نے کہا کہ " کابل کے دورے کے دوران اسے اس بات کی یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ 2014 کے بعد افغانستان میں امریکی افواج کو برقرار رکھنے کے لیے درکار معاہدہ کو مناسب وقت پر مکمل کرلیا جائے گا"۔ لہٰذا راحیل-نواز حکومت غداری کے اسی راستے پر چل رہی ہے جس پر اس سے پہلے کیانی زرداری حکومت اور اس سے بھی پہلے مشرف و عزیز حکومت چل رہی تھی۔
وقت کی اہم ترین ضرورت یہ ہے کہ خلافت کا قیام عمل میں لایا جائے جو خطے میں موجود دشمن کی تنصیبات اور ڈھانچے کےخاتمے کے لیے تمام دستیاب وسائل کو فوری حرکت میں لائے گی۔ ایسی حکومت صرف خلافت میں ہی ممکن ہے جو دشمن کے احکامات کو تسلیم کرنے کی بجائے صرف اور صرف اللہ سبحانہ و تعالٰی کے احکامات کے آگے جھکے گی۔ اللہ سبحانہ و تعالٰی فرماتے ہیں: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا لاَ تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ وَقَدْ كَفَرُوا بِمَا جَاءَكُمْ مِنَ الْحَقِّ "اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! میرے اور (خود )اپنے دشمنوں کو اپنا دوست نہ بناؤ، تم تو دوستی سے ان کی طرف پیغام بھیجتے ہو اور وہ اس حق کے ساتھ جو تمھارے پاس آچکا ہے کفر کرتے ہیں" (الممتحنہ :1)۔

Read more...

عوام پکار رہے ہیں، "بہت برداشت کرلیا حسینہ اورخالدہ کو، بہت برداشت کرلیا عوامی اور بی۔این۔پی کی حکومتوں کو" اور مخلص افسران سے خلافت کے قیام کے لیے مادی مدد فراہم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں

پریس ریلیز

حزب کی جانب سے آج 27دسمبر 2013 کو مکتنگن، ڈھاکہ میں عوامی اجتماع اور مظاہرے کا اعلان کیا گیا تھا ۔ اعلان کے مطابق حزب التحریر کے ڈھاکہ اور اس کے گردو نواح کے اراکین اور کارکنان عوام کے ساتھ مل کر بڑی تعداد میں اجتماع کی جگہ کے پاس موجود مختلف مقامات پر اکٹھے ہوئے اور اجتماع کے مقام کی جانب پیدل مارچ شروع کیا۔ انھوں نے کلمہ طیبہ سے مزین جھنڈے اٹھا رکھے تھے اور وہ اپنے پُرزور نعروں کے ذریعے افواج میں موجود مخلص افسران سے عوامی-بی.این.پی حکومت کو اکھاڑ پھینکنے اور خلافت کے قیام کے لیے اختیار حزب التحریر کے حوالے کرنے کا مطالبہ کررہے تھے۔ کچھ جلوس اجتماع کے مقام کے پاس موجود مساجد میں نماز جمعہ کے اختتام کے بعد سے ہی شروع ہوگئے تھے۔ ان جلوسوں میں وقفے وقفے سے دوسرے جلوس بھی شامل ہوتے رہے۔ یہ جلوس شینگن، باغیچہ، دینک بنگلہ، بیجوئےنگر، ڈھاکہ یونیورسٹی کے کرزن ہال گیٹ اور دوسرے مقامات سے آئے تھے۔


جلوسوں کو روکنے کے لیے حکومت نے اپنی تمام طاقت کو جھونک دیا اور لاٹھی چارج، تیز آواز پیدا کرنے والے گرینیڈ اور ربڑ کی گولیا ں استعمال کیں۔۔۔لیکن مسلمان بہادری سے ڈٹے رہے اور اپنے آباؤ اجداد، حمزہ بن عبدالمطلب، عمر بن خطاب اور حسین بن علی کے نقش قدم کی پیروی کی۔ حکومت نے کئی افراد کو گرفتار کیا لیکن وہ اپنے مقصد کو حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ جابر حسینہ کی جانب سے گرفتاریاں اور ظلم و تشدد، جو کہ آرمی افسران کی قاتل اوراستعماری طاقتوں کی ایجنٹ ہے، کبھی بھی مسلمانوں کو خلافت کے قیام کے مطالبے اور اس کے حصول کی جدو جہد سے دستبردار ہونے پر مجبور نہیں کرسکتیں۔ اور جب خلافت قائم ہوجائے گی تو وہ لازمی حسینہ کو اس کے مظالم ، بدعنوانی، غداری اور آرمی افسران ، علماء اور متقی و پرہیزگار مسلمانوں کو قتل کرنے کے جرم میں عبرت ناک سزا دے گی۔
حزب التحریر افواج میں موجود مخلص افسران سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ لوگوں اور حزب کے اراکین اور شباب کی اس زبردست اور بہادرانہ جدوجہد کی حمائت کریں۔


اے افسران! لوگ دیکھ رہے ہیں کہ تم اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری، بان کی مون کی پکار پر جنوبی سوڈان جانے کی تیاریاں کررہے ہو۔ وہ یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ تم حسینہ کے حکم کو بجا لاتے ہوئے انتخابات کے دوران "امن"قائم رکھنے کے لیے حرکت میں آگئے ہو جبکہ ان انتخابات کا مقصد محض حسینہ کے ظلم و جبر پر مبنی اقتدار کو مزید طول دینا ہے۔ کیا اقوام متحدہ کے مشن سے حاصل ہونے والے ڈالر تمھیں اپنے لوگوں کی زندگیوں سے زیادہ عزیز ہیں؟ کیا تمھاری حسینہ سے وفاداری اسلام اور مسلمانوں سے زیادہ اہم ہے؟ اگر تمھارا جواب یہ ہے کہ تم صرف آرمی کمانڈکے احکامات کی اطاعت کررہے ہو، تو ہم تم سے سوال کرتے ہیں کہ تمھاری اپنے رب کی اطاعت کہاں گئی؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ "اللہ کی نافرمانی کرکےبندے کی اطاعت نہیں کی جاسکتی "۔


اے افسران! ہم تم میں موجود بہادر مردوں سے ، وہ جو مخلص ہیں، وہ جو اسلام اور اس کی امت کے وفادار ہیں، مطالبہ کرتے ہیں کہ:
دنیا کے عارضی فوائد کے لیے اسلام اور اس کی امت کو تنہا مت چھوڑو۔ غیر شرعی احکامات اور ان کی اطاعت کے نام پر اسلام اور مسلمانوں سے منہ مت موڑو۔ حزب التحریر اور عوام تمھیں اللہ اور اس کے رسولﷺ کی دعوت کی جانب بلاتے ہیں ۔ تو اس دعوت کے علاوہ ہر دوسری دعوت، مطالبے اور احکامات کو ٹھکرا دو۔ لوگوں کی پکار کا جواب دو اور سب سے بڑھ کر اللہ اور اس کے رسولﷺ کے احکام کی اطاعت کرو۔ مسلمان ہونے کے ناطے ظالم حسینہ اور عوامی- بی.این.پی کی حکومت کو ہٹانے اور خلافت کے قیام کی اپنی ذمہ داری کوا دا کرو۔


﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ﴾
"اے ایمان والو !اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر لبیک کہو جب وہ تمہیں اس چیز کے لیے پکاریں جس میں زندگی ہے" (الانفال: 24)

حزب التحریر کامیڈیا آفس
ولایہ بنگلادیش

 

https://www.facebook.com/pages/PeoplesDemandBD

 

مزید تصاویر کے لئے یہاں کلک کریں

 

 

Read more...

شام پر حملہ کرنے کے لیے امریکی قیادت میں عالمی اتحاد کا ہدف حکومت کے بارے میں اپنے منصوبے کو مسلط کرنا،بشار کوبچانا،اسلام پسندوں پر ضرب لگانا اور اسلام کو حکمرانی تک پہنچنے سے روکنا ہے

 

21اگست کو دمشق کے مضافات میں شہریوں کے خلاف بشار کے کیمیائی حملے کے بعد شامی حکومت کو سزادینے کے لیے شام پر حملے کے فیصلے کے اعلان نے دنیا کے کئی ممالک کو ششدر کردیا۔کئی ممالک نے اعلانیہ طور پر اس عالمی اتحاد میں شامل ہونے اور امریکی قیادت میں اس حملے میں حصہ لینے کے لیے کود پڑے۔علاقائی اور بین الاقوامی میڈیا کی لہر بھی تبدیل ہوگئی اور اس مداخلت کے بارے میں بات چیت گفتگو کا اہم ترین موضوع بن گیا۔امریکی صدراوباما نے اس کیمیائی حملے کے بارے میں کہا کہ ''بڑا اور انتہائی تشویش ناک حادثہ ہے"ساتھ ہی امریکہ کی جانب سے شام میں اسٹریٹیجک(اہم) اہداف کو نشانہ بنانے کے امریکی ارادے کا اعلان کیا گیا۔اُس نے اقوام متحدہ کی منظوری کے بغیر شام میں مداخلت کی مخالفت کی۔وائٹ ہاوس کے ترجمان نے بھی اوبامہ کی بات کو دہرایا اور کہا کہ وہ شام کی سرزمین پر امریکی افواج کواتارنے کی ابھی توقع نہیں کرتےجبکہ امریکی وزیر دفاع ہیگل نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا''ہنگامی حالات میں صدر کو اختیار سونپنا وزارت دفاع کی ذمہ داری ہے"۔پینٹاگون کے ایک عہدہ دار نے کہا کہ امریکی بحریہ کے ماتحت 4 جنگی بیڑے شام کے حوالے سے ملنے والے احکامات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے چند گھنٹوں میں تیار ہو سکتے ہیں۔ اخبار"واشنگٹن پوسٹ" نے ایک فوجی عہدہ دار کے حولے سے یہ خبر نقل کی کہ ہر بیڑے میں 90 ''ٹام ہاک"کروز میزائل نصب ہیں،اور بحیرہ روم میں امریکی آبدوزیں بھی کروز میزائلوں سے لیس موجود ہیں،تاہم ان کے صحیح مقام کوخفیہ رکھا گیا ہے۔ساتھ ہی عمان میں دس ممالک کی افواج کا اس فوجی حملے پر گفت وشنید کرنے کے لیے بند کمرے میں اجلاس ہوا۔ اخبار'' واشنگٹن پوسٹ"نے اپنے27اگست کے شمارے میں انکشاف کیا کہ اس کاروائی میں ''وقت کی مناسبت سے تین عوامل پر اعتماد کیا جائے گا:گزشتہ ہفتے کی کیمیائی حملے میں حکومت کے ملوث ہونے کے بارے میں ایجینسیوں کی مکمل رپورٹ،اتحادیوں اور کانگریس کے ساتھ جاری مشاورت کی تکمیل،بین الاقوامی قانون کے مطابق اس حملے کے جواز کی تجدید"۔اس حملے کے ہدف کے بارے میں امریکہ نے اعلان کردیا کہ یہ بشار کی جانب سے کیمیائی اسلحہ استعمال کرنے پر ایک تادیبی سزا ہوگی ناکہ حکومت کو تبدیل کرنے کے لیے۔ایک اعلی سطحی امریکی عہدہ دار نے کہا کہ کیمیائی حملے نے یہ واضح کر دیا کہ شام کے بحران کو ختم کرنے کے لیے ''جامع اور پائیدار سیاسی حل ناگزیر ہے"۔
عسکری حملے کی اس بین الاقوامی تائید ،امریکہ کی جانب سے فوجی حرکت اور اس حملے کے حوالے سے میڈیا میں خبروں کے تسلسل نے شرمناک ڈرامائی انداز سے روسی موقف کو پس منظر میں دھکیل دیا۔ روسی وزیر خارجہ لافروف نے یہ اعلان کردیا کہ روس کسی کے لیے جنگ میں نہیں کودے گا اورحملے کی صورت میں طرطوس کے اپنے بحری اڈے کے جنگی یونٹوں کو خالی کرنے کا بھی اعلان کردیا،اپنے 120 سے زیادہ شہریوں کو بھی وہاں سے نکال لیا،۔ 28اگست کو جنیوا 2 کانفرنس کی تیاریوں کے سلسلے میں لاہی میں امریکیوں کے ساتھ مجوزہ ملاقات ملتوی ہونے پر بھی افسوس کا اظہار کیا۔جہاں تک ایران کا تعلق ہے وہ اچھل کود اور شور شرابہ کر رہا ہے لیکن بڑے نرم انداز سے ،یاد رہے کہ امریکہ اور اقوام متحدہ کا سیاسی عہدہ دار مکار اور شاطر جیفری فلیٹمین نے تہران کا دورہ کیا اور ایرانی قیادت کے سامنے صورتحال اور کرداروں کی تقسیم کی بات رکھ دی۔
یقینا امریکہ ہی شام میں اکیلے بالادستی رکھتا ہے اور اس انقلاب سے اس کی بالادستی کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔وہ ہر قسم کی سیاسی داوپیچ اور وحشیانہ جرائم کو استعمال کرنے کے باوجود انقلاب پر قابوپانے میں ناکام ہو گیا ہے۔وہ بشار کا متبادل ایجنٹ تیار کرنا تو دور کی بات ہے اس کی گرانٹی دینے میں بھی کامیاب نہ ہوسکا۔اب وہ اپنے جہنمی منصوبے کو نافذ کرنے پراتر آیا ہے جس کو وہ خود نافذ کرنا چاہتا ہے۔ وہ لوگوں کو قتل کرنے کے وحشیانہ جرائم اور درند گی میں بشار سے کم نہیں ہو گا۔اس منصوبے کا آغاز بشار کی جانب سے کیمیائی حملے سے ہوا جس کو جواز بنا کر اب امریکہ عسکری مداخلت کر رہا ہے۔پھر اس عسکری مداخلت کے ذریعے سیاسی عمل کی راہ ہموار کی جائے گی جو جنیوا2 کانفرنس کا پیش خیمہ ثابت ہو گا۔شامی اپوزیشن کے ایک لیڈر نے''الشرق الاوسط"سے بات کرتے ہوئے حلیف ممالک اور شامی اپوزیشن کے درمیان طے پانے والے معاہدے کی طرف اشارہ کیااورکہا''اس آپریشن سے بشا ر حکومت کو ختم نہیں کیا جائے گا بلکہ اے جنیوا 2 معاہدے کے لیے مذاکرات کے میز پر لایا جائے گا اوراسی کے نتیجے میں بل آخر مذاکرات کے اختتام پر شامی صدر برطرف ہوں گے"۔بلکہ الشرق الاوسط نے مزید انکشاف کیا کہ اپوزیشن ذرائع کے مطابق امریکہ نے ان سے ''اہداف کے تعین" کا مطالبہ کیا۔یہ بات بھی اٹل ہے کہ یہ کانفرنس اُن لڑنے والوں کو ختم کرنے کے پر بھی بحث کرے گی جن کا منصوبہ شام میں ریاست خلافت کا قیام ہے۔اس وجہ سے یہ بات متوقع ہے کہ یہ حملہ محدود اور ٹارگیٹڈ ہو گا جس سے شام کے بنیادی عسکری ڈھانچے کو تباہ کیا جائے گا تاکہ نیا شام اسرئیل کے مقابلے میں بے دست وپا ہو۔اس سے بے شمار مسلمانوں کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے گا جیسا کہ لیبیا میں ہوا یا افغانستان میں ہو رہا ہے کہ بغیر پائلٹ کےامریکی جہازوں کی بمباری سےالقاعدہ اور طالبان قیادت کو نشانہ بنانے کے نام پر اجتماعی طورپر شہریوں کو قتل کیا جاتاہے۔اس عسکری دباؤ کے ذریعے امریکہ اپنے آپ کو بطور بات چیت کے رکھوالے کے طور پر پیش کرے گا،پھر اپوزیشن اور حکومت پر اپنا منصوبہ تھوپ دے گا،ساتھ بین الاقوامی امن فوج کو قومی فوج سے تعاون کے نام پر اپنے منصوبے کی مخالفت کرنے والوں کو قتل کرنے کے لیے استعمال کرے گا۔اُن سیکیوریٹی اداروں کو باقی رکھے گا جن سے بشار مسلمانوں کا قتل عام کر رہا ہے کیونکہ یہی نئی حکومت کی بقا کی ضمانت ہوگی۔بین الاقوامی عدالتیں بھی قائم کی جائیں گی تاکہ لوگوں کو مطمئن کر نے کے لیے کچھ لوگوں کو سزائیں دی جائے جس سے لوگوں کو یہ احساس ہو جائے کہ ان کے ساتھ انصاف ہوگیا جیسا کہ کوسووو میں کیا گیا۔۔۔۔
اے شام اور ساری اسلامی دنیا کے مسلمانو:امریکہ ہی ساری دنیا میں برائی کی جڑ ہےاوروہی مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن ہے۔وہ اب شام میں قتل و غارت کا بازار گرم کرنے کے لیے آرہا ہے جو اس سے کم نہیں ہو گا جو اس نے عراق اور افغانستان میں کیا ہے۔تم دیکھ لو گے وہ بشار کی جگہ مسلمانوں کی اجتماعی قتل کی مہم جوئی خود انجام دے گا۔اس کو قتل کرنے ، سکیولر آئین اور تم پر ایجنٹ حکمران کو مسلط کرنے کی بین الاقوامی منظوری بھی حاصل ہو گی۔۔۔۔۔لیکن امریکہ آج پہلے کی نسبت خطے میں بہت کمزور ہے۔اس کو اپنی بالادستی کھونے کے خطرے کا سامنا ہے۔وہ مصر اور شام میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے حالات کو قابو کرنے میں ناکام ہو چکا ہے۔مسلمانوں کے ساتھ یہ اس کا تلخ تجربہ ہے۔وہ آج یہ دعوی کر رہا ہے کہ اس کا شام پر قبضے کا کوئی ارادہ نہیں جیسا کہ اس نے عراق اور افغانستان میں کیالیکن وہ بغیر قبضہ کیے اپنے مفادات کے حصول کے لیے اپنے سیاسی ایجنڈے کو مسلط کرنا چاہتا ہے۔۔۔۔امریکہ کی اس مداخلت اور حملے کو مسترد کرنا فرض ہے جو بھی اس کی کوشش کر رہا ہے اور اس میں اس کی مدد کر رہا ہے وہ اپنے دین اور امت کا غدار ہے۔۔۔۔امریکہ اپنے مفادات اور اپنے ایجنٹ بشار جس کو وہ اب بھی صدر تسلیم کرتا ہے بچانے کے لیے آرہا ہے۔وہ اس کو اور اس کے خاندان کو محفوظ راستہ دینے کی ضمانت دے گا۔۔۔۔یہی امریکہ تمہارا اصل دشمن ہے اس کے ساتھ دشمن کا معاملہ کرو اس کے ایجنٹوں کو گھٹلی کی طرح نکال کر پھینک دو۔تم نے جس قتل و غارت ،نِت نئے عذاب،نسل کشی،بھوک،ذلت اور پکڑدھکڑ کا سامنا کیا ہے اس کا بدلہ صرف زمین میں اللہ کے کلمے کو بلند کر نا ہے۔۔۔۔امریکہ اُوباشی اور بدمعاشی کے حدوں کو پار کرہا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ تمہارے خلاف جنگ میں ساری دنیا اس کا ساتھ دے۔وہ بار بار یہی دہرارہا ہےاورتم میں سے کسی کے پاس اس جرم پر خاموشی اختیار کرنے کا کوئی عذر نہیں بلکہ اس کو روکنے کی کوشش فرض ہے۔
اے شام اور ساری دنیا کے مسلمانو:ہمارے تمام اعمال اللہ کی مرضی کے مطابق ہونے چاہیے۔اللہ تعالی نے اسلام کے منصوبے کو ریاست خلافت کے قیام پر مبنی ہونے کو فرض قرار دیا ہے۔اپنے آس پاس دیکھو کیا اس منصوبے کے علاوہ کوئی منصوبہ ہے جو مسلمانوں کو ایک کلمے تلے یکجا کرے گا،جس کے ذریعے ہی تم امریکی منصوبے کا مقابلہ کر سکتے ہو؟!کیا اللہ تعالی کے بغیر تم کفر کی اس جمعیت پر غالب آسکتے ہو؟!تم اللہ کے ساتھ ہو جاؤ اللہ تمہارے ساتھ ہو گا،تم اس کے دین کی مدد کرو وہ تمہاری مدد کرے گا،بے شک حزب التحریر اس عظیم فرض کی ادائیگی کی طرف تمہیں دعوت دیتی ہے جس سے امریکہ اور مغرب اور مسلمانوں کے حکمران اور سیکولر سب لڑ رہے ہیں لیکن اللہ ہی اپنے فیصلے میں غالب ہے ،ارشاد ہے:

أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُواْ وَإِنَّ ٱللَّهَ عَلَىٰ نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌط ٱلَّذِينَ أُخْرِجُواْ مِن دِيَارِهِم بِغَيْرِ حَقٍّ إِلاَّ أَن يَقُولُواْ رَبُّنَا ٱللَّهُ وَلَوْلاَ دَفْعُ ٱللَّهِ ٱلنَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا ٱسمُ ٱللَّهِ كَثِيراً وَلَيَنصُرَنَّ ٱللَّهُ مَن يَنصُرُهُ إِنَّ ٱللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ ط ٱلَّذِينَ إِنْ مَّكَّنَّاهُمْ فِى ٱلأَرْضِ أَقَامُواْ ٱلصَّلواَةَ وَآتَوُاْ ٱلزَّكَواةَ وَأَمَرُواْ بِٱلْمَعْرُوفِ وَنَهَوْاْ عَنِ ٱلْمُنْكَرِ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ ٱلأُمُورِ ط

"جن (مسلمانوں) سے (کافر) جنگ کررہے ہیں انہیں بھی مقابلے کی اجازت دی جاتی ہے کیونکہ وہ مظلوم ہیں ۔ بےشک ان کی مدد پر اللہ قادر ہے ۔ یہ وہ ہیں جنہیں ناحق اپنے گھروں سے نکالا،صرف اس وجہ سے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہمارا رب صرف اللہ ہے۔ اگر اللہ لوگوں کو آپس میں ایک دوسرے سے نہ ہٹاتا رہتا تو عبادت خانے اور گرجے اور مسجدیں اور یہودیوں کے معبد اور وہ مسجدیں بھی ڈھا دی جاتیں جہاں اللہ کا نام بہ کثرت لیا جاتا ہے۔ اللہ کی جو مدد کرے گا اللہ بھی اس کی مددضرور کرے گا۔بے شک اللہ قوی اور زبردست ہے۔یہ وہ لوگ ہیں جن کو ہم زمین میں اقتدار دیں تو وہ نماز قائم کریں گے اور زکواۃ ادا کریں گے اوراچھے کاموں کا حکم کریں اور بُرے کاموں سے منع کریں"(الحج:39-41)

حزب التحریر
ولایہ شام

Read more...

خلافتِ عثمانیہ کی فضائیہ

ڈاکٹر عبدلرافع، فواد سعید

رائٹ برادران کی اوہائیو (امریکا) میں پہلی کامیاب ہوائ جہاز کی پرواز کے صرف چھہ سال بعد ہی اسلامی ریاست (خلافتِ عثمانیہ) فوجی فزائی پروگرام کو شروع کرنے والی دنیا کی پہلی قوموں میں سے ایک بن گئی۔ مسلمانوں کا اس ٹیکنالوجی کو اپنانے میں یہ فوری قدم نہایت اثر انگیز لگتا ہے، دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اسلامی ریاست کی حفاظت اور اس کے پھیلاؤکے مقصد سے نئی نئی تکنیک اور ٹیکنالوجی کو حاصل کرنے کی بنیاد خود رسول اللہﷺ نے رکھی۔
طبریؒ نے اپنی ‘تاریخ' میں روایت کیا ہے کہ رسول اللہﷺ نے اپنے دو صحابہ، عروہ ابن مسعودؓ اور غطان ابن سلمہؓ، کو دبابس (ٹینک کی طرح کے ہتھیار)، منجنیق اور دھابور (ٹینک ہی سے ملتے جلتے) کی تکنیکی کاریگری کو سیکھنے کے لئے شام کے شہر جرش بھیجا تھا ۔
رسول اللہ ﷺ کی سیرت سے اور بہت سی مثالیں ملتی ہیں، جیسے کہ فارس کے لوگوں کے انداز میں غزوہ میں خندق کا استعمال، یا پھر منجنیق کی تیاری اور اس کے استعمال کے فن کو سیکھنے کے لئے ایک گروہ کو یمن بھیجنا۔ اسلامی ریاست رسول اللہﷺ کی سنت پر اس وقت بھی عمل کرتی رہی جب وہ ٹیکنالوجی میں دنیا کی قیادت کر رہی تھی۔ اور جب توانائی کی پرواز اور فضائی ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی پروان چڑھی تو اسلامی ریاست نے ان ٹیکنالوجیوں کو اپنے استعمال کے لئے حاصل کرنے کے لئے کوئی وقت ضائع نہیں کیا۔
فضائیہ کی تاریخ کسی اور سائنس یا ٹیکنالوجی کی تاریخ سے مختلف نہیں ۔ فضائیہ میں یہ ترقی پہلی توانائی کی پرواز سے صرف چند سال پہلے ہی نہیں ہوئی، بلکہ یہ ایک طویل اور بھرپور تاریخ ہے جس میں چھوٹی چھوٹی پیشرفت میں بھی صدیاں بیت گئیں۔ کئی قدیم تہذیبوں نے پروجکٹائل ہتھیار تیار کئے اور اور انسان کی پرواز کے لئے طرح طرح کے آلات اور ڈزائن تیار کئے، جن میں سے بہت سےتجربے ناکام ہوئے لیکن کچھ کامیاب بھی رہے۔ ان میں قدیم یونان سے آرقائیتص کا مکانیکی کبوتر، چین سے آسمانی قندیل (گرم ہوائی غبارے) اور پہلا راکٹ ہتھیار جو چینیوں نے منگولوں کے خلاف استعمال کیا، جیسی مثالیں شامل ہیں۔ گیارہویں صدی ہجری کے تاریخ دان احمد محمد المقاری لکھتے ہیں کہ تیسری صدی ہجری میں عباس ابن فرناس پہلے شخص تھے جنہوں نےاپنے ڈزائن کئے ہوئے ونگ کونٹریپشن (پر نما آلے کے نظام) کے ذریعے سے گلائڈنگ ونگ (ہوا کے بہاؤ میں پروں کی) پرواز میں کامیابی حاصل کی۔
فضائیہ کے جدید دور کو صنعتی انقلاب کی آمد کے ساتھ مذید رہنمائی حاصل ہوئی۔ توانائی کی پرواز میں بڑی پیشرفت انیسویں صدی میں یورپ میں ہوئی جس کے نتیجے میں توانائی کی پروازوں میں کامیابی حاصل ہوئی۔ رائٹ برادران نے اپنے سے پہلے آنے والوں اور اپنے ہم عصر لوگوں کے کام کو بنیاد بناتے ہوئے، توانائی اور کنٹرول کے مسائل کو حل کیا اور ۱۹۰۳ میں اپنی تاریخی پرواز کی۔ اس کے بہت جلد بعد ہی انگلنڈ، فرانس، امریکہ، جرمنی، روس اور اٹلی نے اپنے فوجی فضائیہ کے پروگرام شروع کئے اور اسلامی ریاست نے بھی ان کی برابری کرتے ہوئے اپنا فضائیہ کا پروگرام ‘عثمانلی ہوا کووتلری' شروع کیا۔
اسلامی ریاست کے یورپ میں موجود فوجی سفارتکاروں نے یورپ میں ہونے والی فوجی ہوائی جہازوں کی تیاری کے کام کی معلومات حاصل کی اور بہت جلد ۱۹۰۹ میں خلافت عثمانیہ کے فوجی افسروں نے فرانسیسی ہوا بازوں کو استنبول میں کارکردگی دکھانے کی دعوت دی۔ جنگی وزیر محمت سِوکت پاشہ کی دعوت پر بلجیم کے پائلٹ بیرن ڈی کیٹرز نے استنبول آکر اپنے وائسن بائی پلین (دوہیرے پروں والے جہاز) کی نمائشی پرواز کی۔ اس مظاہرے کا براہ راست نتیجہ یہ نکلا کہ اسلامی ریا ست میں ملٹری ایوییشن (فوجی ہوابازی) کے بارے میں آگاہی اور شوق پیدا ہوا۔ عہدیداروں نے پیرس میں ہونے والی بین الاقوامی ایوییشن کانفرنس میں ایک ڈیلیگیشن بھیجا۔ ۱۹۱۰ میں مسلمان اُمیدواروں کو پائلٹ کی ٹریننگ کے لئے یورپ بھیجا گیا، لیکن ریاست میں مالی مشکلات کی بنا پر اس پلان کو ملتوی کرنا پڑا۔ اس کے باوجود کچھ پائلٹوں نے پیرس کے فزائی اسکولوں میں ٹریننگ حاصل کر کے اپنی فضائی سندیں حاصل کیں۔
عثمانی خلافت کے فوجی عہدیدار یورپ کی قوموں کے درمیاں بڑھتی ہوئی ہتھیاروں کی دوڑ اور مستقبل کی جنگی حکمت عملی میں فضائیہ کی اہمیت سے بھرپور واقفیت رکھتے تھے۔ کسی اچانک حملے یا پھر دوسری قوموں سے پیچھے رہ جانے سے بچنے کے لئے، جنگی وزیر محمت سِوکت پاشہ نے لفٹنٹ کرنل صوریا بےکو ۱۹۱۱ میں ہوائی غباروں کی خریداری، ایوییشن کی فسیلیٹی کی تعمیرکی قیادت اور پائلٹوں کی ٹریننگ کے انتظام کی زمہ داری دی۔ جنگی وزارت کے سائنسی ریسرچ یونٹ کے زیرِ اثر ایوییشن کمیشن کو قائم کیا گیا۔ محمت سِوکت پاشہ کی جانب سے دی گئی زمہ داریوں کے علاوہ اس کمیشن کو جاسوسی اور سٹریٹجک معلومات اکٹھا کرنے کا کام بھی دیا گیا۔ نا صرف ہوائی جہازوں نہیں بلکہ اینٹی ایرکرافٹ (جہاز مار گرانے والے) ہتھیاروں کے بارے میں بھی معلومات کو حاصل کیا گیا۔ جو کہ آنے والی اٹلی کے ساتھ جنگ میں بہت موئثر ثابت ہوئی۔
۱۹۱۱ میں اٹلی نے اسلامی ریاست کے کچھ حصے پر قبضہ کیا جو آج کے دور میں لیبیا کہلاتا ہے۔ خلافت عثمانیہ کی ناتجربے کار فضائیہ ہوائی جہازوں کو رکھنے کے قابل نہیں ہوئی تھی۔ فرانس سے ان ہوائی جہازوں کو خرید کر الجزائر کے زریعے میدان جنگ میں بھیجنے کی کوشش بھی کامیاب نہیں ہو سکتی تھی۔ ۲۸ ہوائی جہازوں اور ۴ ہوائی غباروں کے ساتھ اٹلی دینا کی پہلی قوم بنی جس نے جنگ میں فضائیہ کا استعمال کیا۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ اینٹی ایرکرافٹ (جہاز مار گرانے والے) ہتھیاروں میں ترقی کی وجہ سے اسلامی ریاست تاریخ کی وہ پہلی قوم بنی جس نے جنگ میں اینٹی ایرکرافٹ (جہاز مار گرانے والے) ہتھیاروں کا استعمال کیا۔ مسلمانوں کی فوج نے کامیابی کے ساتھ اٹلی کے ہوائی غباروں اور دوسرے ہوائی جہازوں کو مار گرایا اور ان میں سے کچھ پر قبضہ بھی کر لیا۔
۱۹۱۲ میں اسلامی ریاست کے پہلے پائلٹوں کپتان فیسا بے اور لفٹننٹ یوسف کننان بے اپنی ٹریننگ مکمل کر کے فرانس سے واپس ہوئے۔ انہیں رعایاکے دئے ہوئے فنڈ سے خریدے گئے ۱۵ ہوائی جہازوں میں سے ۲ دئے گئے۔ ۲۷ اپریل، ۱۹۱۲ کو فیسا بے اور یوسف کننان بے نے استنبول کے اوپر ہوائ جہازوں کو اُڑا کر اسلامی سرزمین پرجہاز اُڑانے والے پہلے مسلمان پائلٹ بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ کچھ ہی عرصے بعد، جولائی ۱۹۱۲ میں استنبول کے قریب یسِلکوئے نامی قصبے میں ایک فضائی ٹریننگ اسکول کھولا گیا تاکہ اسلامی ریاست خود اپنے پائلٹوں کو ٹریننگ دے سکے۔ یہ اسلامی ریاست کا ایک بہت اہم قدم تھا کہ جس نے دوسرے ملکوں پر انحصاری کو ختم کیا۔ جلد ہی پائلٹوں کی تعداد ۱۸ اور ہوائی جہازوں کی تعداد ۱۷ ہو گئی۔ جس کو جلد ہی اس وقت آزمالیاگیا جب بلقان کے نیم خودمختار علاقوں نے عثمانی خلافت سے بغاوت کی اور اسلامی ریاست کے خلاف علانِ جنگ کیا۔ اس تنازع کی ابتدا میں تو فضائیہ نے کوئی خاص کردار ادا نہیں کیا لیکن جنگ کے دوسرے مرحلے میں ۹ جنگی ہوائی جہازوں اور ۴ ٹریننگ ہوائی جہازوں نے اہم کارکردگی دکھائی۔
اپنی فضائیہ کی دلیری کا مظاہرہ کرنے کے لئے اور ریاست کے شہریوں میں جزبہ پیدا کرنے کے لئے خلافتِ عثمانیہ کے فوجی افسروں نے کئی طویل فاصلے والی پروازوں کا اہتمام کیا۔ اس سے فضائیہ کی طویل پروازوں کی کارکردگی میں اور پوری ریاست کی وسعت تک حفاظت کی صلاحیت میں بہتری پیدا ہوئی ۔ پہلی طویل پرواز عدرین سے استنبول تک اُڑائی گئی، جس میں ۳ گھنٹوں سے زیادہ وقت لگا۔ ۳۰ نومبر ۱۹۱۳ کو بلقیس سِوکت حنیم پرواز اُڑانے والی پہلی مسلمان خاتون بنیں۔ فرانسیسی پائلٹوں کو ملنے والی پزیرائی کے جواب میں، جنہوں نے پیرس سے قاہرہ تک پرواز کی، اسلامی ریاست نے ۱۹۱۴ میں استنبول سے اسکندریہ تک ۱۵۰۰ میل کے فاصلے کو طے کرنے کے مظاہرے کا اہتمام کیا۔ ٹیکنالوجی کے ان اوائلی ادوار میں موجود ایوییشن کے خطرات کی وجہ سے ایسے دو معرکوں کا نتیجہ جہازوں کی تباہی کی شکل میں نکلا لیکن تیسرا معرکہ کامیاب رہا۔
جب عثمانی خلافت پہلی جنگِ عظیم کی لپیٹ میں آئی تو اُس کے پاس صرف ۷ ہوائی جہاز اور ۱۰ پائلٹ تھے۔ اس کے وزیروں کی ثابت قدمی اور جانفشانی کی وجہ سے اور اس کے نئے حلیف، جرمنی کی مدد سے، فضائیہ ۴۶ پائلٹوں، ۵۹ اوبزرور (مشاہدین)، ۳ اوبزرور غباروں، ۹۲ ہوائی جہازوں (جن میں ۱۴ سمندری ہوائی جہاز) اور اس کے علاوہ، ۱۳ بیک اپ پائلٹ، ۲۲ اوبزرور ٹرینیز اور ۲۱ ٹریننگ ہوائی جہازوں تک بڑہ گئی۔ جیسے جیسےجنگ آگے بڑہی، مسلمانون نےبرتانوی ہوائی جہازوں کو پکڑ کر اِس تعداد کو مزید بڑھانے کی کوشش کی۔ فضائیہ اس بات کی واضح دلیل ہے کے اسلامی ریاست اپنے آخری دنوں میں بھی دنیا کے حالات اور ترقی سے کس حد تک آگاہ رہی۔
یہ ہے وہ داستان جو اسلامی ریاست نے دنیا کے مسلمانوں کے لئے چھوڑی۔ وہ اسلام اور مسلمانوں سے مخلص رہی اور اُس نے مسلمانوں کی زندگیوں کا اوراُنکے مفاد کا تحفظ کیا۔ تُرکی کی موجودہ سیکیولر ریاست، اسلامی ریاست کی فضائیہ کی براہِ راست وارث ہے، جو اسے دنیا کی قدیم ترین فضائیہ میں سے ایک بناتی ہے۔ کیا کرتی ہے یہ ترکی حکومت جب پڑوس میں شام، عراق، لبنان اور فلسطین کے مسلمانوں کو قتل کیا جا تا ہے؟ کیا کرتی ہیں دوسرے مسلمان ممالک کی کٹپتلی حکومتیں جب مسلمانوں پر اُنکے اپنے علاقوں پر حملے کئے جاتے ہیں اور انہیں قتل کیا جاتا ہے؟ کتنے پیچھے ہیں مسلمان اسلامی ریاست کی غیرموجودگی میں نیوکلیئر ٹیکنالوجی، سب مرین ٹیکنالوجی، سیٹلائٹ ٹیکنالوجی اور دوسری ٹیکنالوجیوں میں، جو کہ مسلمانوں کے دفاع کے لئے اتنی اہم ہیں؟ صرف وہ ریاست ہی اسلام اور مسلمانوں کی خیر خواہ ہو سکتی ہے اور اس کے وسائل کو انکی حفاظت اور بہتری کے لئے استعمال کر سکتی ہے جس کی قیادت ایک مخلص مسلمان کر رہا ہو، یعنی خلیفہ ۔ اور یہ صرف اور صرف اسلامی ریاست کے از سرِنو قیام کے زریعے ہی ممکن ہے۔

Read more...

وزیر اعظم کا خطاب امریکی راج کو جاری رکھنے کا اعلان تھا نواز شریف کے خطاب سے ثابت ہو گیا کہ اُسے اقتدار کی کرسی سے اُتر کر خلافت کی واپسی کے لیے راستہ چھوڑ دینا چاہیے


19اگست 2013 کو وزیراعظم پاکستان نے اپنے خطاب میں دو ماہ سے زائد عرصے تک قوم سے خطاب نہ کرنے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا کہ " کوئی دن ایسا نہیں گزرا جب ہم دہشت گردی ، لوڈ شیڈنگ اور دوسرے مسائل کے خاتمے کے منصوبے بنانے کے لیے سر جوڑ کر نہ بیٹھے ہوں"۔ لیکن درحقیقت جولوگ سر جوڑ کر بیٹھے تھے وہ نواز شریف کے امریکی آقا، پاکستان میں امریکی سفیر، امریکی سیکریٹری خارجہ اور دوسرے سیاسی و فوجی اہلکار تھے۔ یہی وہ لوگ تھے جنھوں نے سب سے پہلے سر جوڑ کر نواز شریف کو پانچ سالہ عرصہ اقتدار کے لیے لائحہ عمل بنا کر دیا اور پھر اُسے قوم سے خطاب کرنے کی اجازت دی۔
اِن سر جوڑے امریکیوں نے یہ فیصلہ کیا کہ پاکستان کے توانائی کے شعبے کی نجکاری کی جائے جبکہ اس شعبے کی نجکاری بذات خودمہنگی بجلی اور اور اس کی قلت کی بنیادی وجہ ہے۔ نجی کمپنیاں مسلسل بجلی مہنگی کرنے کا مطالبہ کرتیں ہیں تا کہ اپنے نفع کو بڑھا سکیں اور جب ایسا نہیں ہوتا تو وہ اپنی پیداوار کم کردیتی ہیں یہاں تک کہ بجلی کی پیداوار 10000میگاواٹ یومیہ رہ جاتی ہے جبکہ یومیہ پیداواری استعداد 20000میگاواٹ سے بھی زائد ہے۔ اور جب بجلی مہنگی کردی جاتی ہے تو وہ پوری پیداواری استعداد کے مطابق بجلی پیدا کرتے ہیں لیکن اس سے عوام کی کمر ٹوٹ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نواز شریف نے اپنی تقریر میں پاکستان میں توانائی کے بحران کی اس بنیادی وجہ کو بیان ہی نہیں کیا کیونکہ اس کو اپنے دماغ کو استعمال کرنے کی اجازت ہی نہیں ہے اور اُس کے لب محض امریکی احکامات کا اعلان کرنے کے لیے ہی آزاد ہیں۔
اِن سر جوڑے امریکیوں نے ہی یہ فیصلہ بھی کیا کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر میں جاری ظلم و ستم کو نظر انداز کرے اور اس کی بجائے دنیا کے سب سے بڑے صلیبی دہشت گرد امریکہ کی قبائلی علاقے کے مسلمانوں کے خلاف نام نہاد "دہشت گردی کے خلاف جنگ" میں اس کی شکست کو کامیابی میں تبدیل کرنے کے لیے اپنی توجہ مرکوز رکھے۔ اسی امریکی حکم کے تحت پاکستان میں ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک قائم کیا گیا تھا جو مساجد اور بازاروں میں ہونے والے بم دھماکوں کی نگرانی کرتا ہے تا کہ ہماری افواج کو قبائلی علاقوں میں کاروائی کرنے کے لیے جواز فراہم کیا جاسکے۔ یہی وجہ ہے کہ جب پاکستان میں امریکی راج کے ترجمان جناب نواز شریف نے 40000ہزار پاکستانیوں کے قتل کا ذکر کیا تو اُس نے اِس قتل عام کے ذمہ داران امریکی انٹیلی جنس، نجی امریکی فوجی تنظیموں، امریکی اڈوں، قونصلیٹس اور سفارت خانوں کے متعلق ایک لفظ بھی بولنا گوارہ نہ کیا۔
جہاں تک وزیر اعظم کا کشمیر کو پاکستان کی شہہ رگ قرار دینے کا تعلق ہے تو اُس نے اس بات کی تصدیق کردی کہ وہ خطے میں امریکی بالادستی کے منصوبے کی تکمیل کے لیے اس شہہ رگ کو کچل دینے کے لیے تیار ہے۔ اسی لیے اُس نے بھارت کے ساتھ تجارتی و سفارتی تعلقات میں بہتری کے لیے کشمیر کی آزادی کو ایک شرط کے طور پر پیش نہیں کیا تا کہ بھارت کو امریکی کیمپ میں لاسکے اور امریکہ بھارت کو چین اور امت مسلمہ کے خلاف استعمال کرسکے۔
پاکستان پر بڑھتے ہوئےاستعماری اداروں کے قرضوں کے متعلق نواز شریف نے کہا کہ ان میں اضافہ پچھلے دور حکومت میں ہوا ہے لیکن جانتے بوجھتے یہ نہیں بتا یا کہ اس کی اصل وجہ سود ہے۔ درحقیقت یہ سود ہی تھا جس نے اس سے پچھلے دو دور حکومت کے دوران بھی قرضوں میں اضافہ کیا اور اس دور حکومت میں بھی اسی وجہ سے قرضوں میں مزید اضافہ ہی ہوگا۔
یہ کہا جاتا ہے کہ اگر تمھارے پاس کچھ کہنے کو نہیں تو بہتر ہے کہ خاموش رہا جائےکیونکہ پھر جو کچھ تم کہو گے اس سے نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ یقیناً نواز شریف کا قوم سے خطاب پاکستان میں امریکی راج کو قائم رکھنے کا اعلان ہے جیسا کہ اس سے قبل کیانی و زرداری اور مشرف و عزیز حکومت کرتی رہی ہیں۔قوم کے سامنے اس بات کو ثابت کرنے کے بعد کہ وہ امریکی راج کا نگہبان ہے ، قوم کے لیے جو واحد خدمت وہ کرسکتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ اقتدار کی کرسی سے اتر جائے اور خلافت کے واپسی کے لیے راستہ چھوڑ دے۔
اے افواج پاکستان کے مخلص افسران! کب تک ان جیسے بےوقوف حکمرانوں کے ہاتھوں اپنی قوم کو تکلیف میں مبتلا رہنے کے اجازت دیتے رہیں گے جبکہ آپ نے اپنی قوم کے دفاع کی قسم کھائی ہے؟ کب تک تم امریکی ٹاؤٹوں کو مسلم دنیا کے سب سے طاقتور ملک کی قسمت سے کھیلنے کا موقع فراہم کرتے رہو گے؟ اب یہ آپ پر لازم ہے کہ خلافت کے قیام کے لیے حزب التحریر کو نصرۃ فراہم کریں جو مشہور فقہہ اور رہنما شیخ عطا بن خلیل ابو الرَشتہ کی قیادت میں خلافت کی قیام کی شدید جدوجہد کررہی ہے تا کہ امت کو ایک بار پھر خوشحالی اور امن کے دور میں لے جایا جائے۔ حزب التحریر کے ہاتھ تم مضبوطی سے تھام لو اور اپنے اُن بھائیوں، انصار کو یاد کرو جنھوں نے مدینہ میں پہلی اسلامی ریاست کے قیام کے لیے رسول اللہ ﷺکو مدد فراہم کی تھی۔ انصار کا یہ عمل اس قدر عظیم تھا کہ جب ان میں سے سعد رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا اور ان کی والدہ رونے لگیں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مت رو اور انھیں بتایا کہ ليرقأ (لينقطع) دمعك، ويذهب حزنك، فإن ابنك أول من ضحك الله له واهتز له العرش " تمھارے آنسو تھم جائیں اور تمھارا غم کم ہو جائے اگر تم یہ جان لو کہ تمھارا بیٹا وہ پہلا شخص کہ جس کے لیے اللہ سبحانہ و تعالی مسکرایا اور اس کا عرش ہل گیا ہے"(الطبرانی)

Read more...

سوال کا جواب: کس چیز نے امریکہ کو مرسی کا تختہ الٹنے پر مجبور کردیا؟


سوال:

مصر میں جو کچھ رونما ہوا اس کوبغاوت کہنے میں اب بھی امریکہ کو تردد ہےبلکہ وہ اس روڈ میپ کی پشت پناہی کر رہا ہے جس کا اعلان عبوری حکومت کر چکی ہے۔امریکی محکمہ خارجہ کی خاتون ترجمان نے یہ کہہ کر اس کی وضاحت کی ہے کہ :''اگلے مرحلے کے لیے عبوری حکومت کی جانب سے روڈ میپ کا اعلان حوصلہ افزا امر ہے''جیسا کہ الجزیرہ نیٹ نے 11/07/2013کو نقل کیا۔امریکی وزارت خارجہ کی ترجمان''جین ساکی'' نے 12/07/2013 کو یہ وضاحت کی کہ معزول صدر مرسی کی حکومت''جمہوری نہیں تھی''جیساکہ مصری اخبار (الیوم السابع المصریہ)میں آیا۔اسی طرح وائٹ ہاوس کے ترجمان جے کارنی نے 11/07/2013 کو صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہاجس کو الجزیرہ نیٹ نے نقل کیا کہ ''ہم اس کی نگرانی کر رہے ہیں کہ اتھارٹیز کیا کر رہی ہیں اور وہ موجودہ صورت حال سے کس طرح نمٹ رہے ہیں'' جس میں 03/07/2013 کو مصر کی مسلح افواج کے سربراہ اور وزیر دفاع عبد الفتاح السیسی کی جانب سے محمد مرسی کو معزول کرنے اور آئنی عدالت کے سربراہ عدلی منصور کو عبوری صدر مقرر کرنے کی طرف اشارہ تھا۔
آخر کس چیز نے امریکہ کو مرسی کا تختہ الٹنے پر مجبور کیا حالانکہ پہلے دن سے ان کو امریکہ کی آشیر باد حاصل تھی؟جو کچھ ہوا اس کو امریکہ نے بغاوت قرار کیوں نہیں دیا اورآج کے دن تک بدستور اس کی نگرانی کر رہاہے ۔اس سب سے کیا نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے؟

جواب :
اس کے جواب کے لیے مندرجہ ذیل نکات کا احاطہ کرنے کی ضرورت ہے:
1 ۔ گزشتہ سال جس وقت صدارتی انتخابات کا اجراء کیا گیا اس کے دو مرحلے تھے پہلہ مر حلہ 23/24 مئی 2012 کا تھا جس میں مرسی کامیابی حاصل نہیں کر سکے بلکہ ووٹ کئی امیدواروں کے درمیان تقسیم ہوگئےجبکہ دوسرا مرحلہ 16/17 جون 2012 کو اختتام پذیر ہوا جس میں احمد شفیق کے48.27% (12ملین ووٹ )کے مقابلے میں 51.73% (13ملین ووٹ) سے مرسی کو کامیاب قرار دیا گیا،جس کا یہ مطلب ہے کہ ووٹنگ میں حصہ لینے والوں میں سے تقریباً آدھوں نے مرسی کی صدارت کو قبول نہیں کیا بلکہ سابقہ حکومت، جس کے خلاف انہوں نے بغاوت کی تھے، کے ایک فرد کو ہی ترجیح دی۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ صدارتی انتخابات کے نتائج کے اعلان میں تاخیر کی گئی جو پسِ پردہ ہونے والے گٹھ جوڑ کی نشاندہی کرتا ہے۔اس کے بعد احمد شفیق کے مقابلے میں مرسی کی کامیابی کا اعلان کیا گیا۔یہ تب ہوا جب مرسی نے امریکیوں کو یقین دہا نی کرائی کہ وہ ان تمام معاہدوں کی پاسداری کرے گا جو سابقہ حکومت نے کیے ہیں خاص کر کیمپ ڈیوڈ کا معاہدہ اوریہ معاملہ امریکہ کے لیے بہت اہم تھا جو کہ انتخابات سے قبل اور بعد کی امریکی بیانات سے واضح ہے۔ امریکی سفیر نے 30/11/2012 کو کویتی اخبار الرای سے بات کرتے ہوئے کہا کہ''امریکہ ،مصر اور اسرئیل کے مابین ہونے والے امن معاہدے کا پابند ہے اور وہ اس کو خطے میں امن اوراستحکام کے لیے اہم سمجھتا ہے اورسب سے پہلے یہ مصر اور اسرائیل کی عوام کی خوشحالی کے لیے ہے۔ ہم اس معاہدے کو پورے خطے میں امن اور استحکام کے قیام کے لیے بنیاد سمجھتے ہیں۔ لہذا اس بات سے ہمیں خوشی ہوئی کہ مصر کی حکومت نے حامی بھری ہے کہ وہ مصر کے تمام بین الاقوامی معاہدات کا احترام کرے گا۔'' اس نے مزید کہا کہ : '' ہم سیناء میں امن وامان کی صورت حال اور دوسرے اہم مشترکہ مسائل کے حوالے سے مصر اور اسرئیل کی براہ راست بات چیت کو جاری رکھنے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اورہم اس پر زور دے رہے ہیں کہ سیناء میں امن امان سب سے اہم اور ہر چیز پر مقدم ہے۔'' یہ تمام بیانات اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ دشمن کے خلاف جہاد کی بات کرنے والی مسلح تحریک کے خلاف مصری حکومت کی جانب سے کئی مہینوں تک کی یلغار کے پیچھے امریکہ اور یہودی ریاست تھی۔
2۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے مرسی کی حمایت کی تھی اور اس کے اقتدار کو قائم رکھنے کے لیے کام کرتا رہا۔ اس نے سب پہلے امریکی مفادات اور یہودیوں کی حفاظت کی خاطر غزہ میں یہودی وجود اور حماس کی حکومت کے مابین جنگ بندی کروائی۔ یہ اس درجے کی عملی جنگ بندی تھی کہ جس میں حماس نے اپنے بعض عناصر کو اپنے اور یہود ی وجود کے درمیان اس لیے کھڑا کیا کہ وہ یہودی وجود کے خلاف کسی کاروائی کو یا اس پر کسی قسم کی فائرنگ کو روکیں!غزہ کے حوالے سے مرسی کے اس اقدام کی امریکہ نے زبردست تعریف کی۔
اسی طرح آئینی فیصلے کے معاملے میں بھی مرسی کو استثنی دینے کے حوالے سے اس کی حمایت کی گئی۔ اس دن امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان وکٹوریا نو لینڈ نے اس طرح صدر مرسی کا دفاع کیا کہ ''صدرمرسی نے عدلیہ اور دوسرے اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ تبادلہ خیال کیاہے ۔میرے خیال میں اب تک ہمیں علم نہیں کہ اس تبادلہ خیال کے کیا نتائج نکلیں گے لیکن صورتحال ایسی با لکل نہیں کہ (صدر مرسی کا موقف یہ ہوکہ ) جومیں کہوں وہی ہے ورنہ کچھ بھی نہیں'' (الشرق الاوسط نیوزایجنسی 27/11/2012 )۔
نولینڈنے احتجاج کرنے والوں کے اس دعوے کو مسترد کیا جومرسی کو ڈکٹیٹر یا مصر کا نیا فرعون کہتے تھےاورمرسی کا اور اس کے فیصلوں کا دفاع کیا۔ ملکی قیادت کو اپنے ہاتھ میں لینے کے معاملے میں بھی اس کی حمایت کی چنانچہ اس نے فوجی قیادت خاص کر وزیر دفاع اور فوج کے سربراہ حسین طنطاوی،چیف آف سٹاف سامی عنان کو ہٹادیا،اس سے متعلق ایک ائینی فیصلہ صادر کیاجس میں اس کے خلاف کوئی بڑی مخالفت بھی نہیں کی گئی۔
اس کے بعد آئین کے موضوع پر بھی مرسی کی حمایت کی۔امریکی ترجمان نولینڈ نے کہا:"محترمہ کلنٹن نے اپنے قاہرہ کے دورے اور مصر کے صدر مرسی سے ملاقات کے دوران ایسے آئین کے اجراء کی اہمیت پر بات چیت کی جو مصر کے تمام باشندوں کے تمام حقوق کی حفاظت کا ضامن ہو''۔(الشرق الاوسط 27/11/2012 )۔مرسی کی حکومت اور اس کی اپوزیشن پرامریکی سیاسی اثرو رسوخ بالکل واضح ہے۔
یوں امریکی آشیر باد سے دستور کا اجراء ہو گیاجو کہ سابقہ حکومت کے 1971 کے آئین کا'' نظر ثانی شدہ "نسخہ ہے جس کے لیے عوامی ریفرنڈم کرایا گیا جس میں%9.32نے حق رائے دہی کو استعمال کیا جو کہ ووٹ کا حق رکھنے والے کل لوگوں کا ایک تہائی حصہ بنتا ہے جبکہ دو تہائی نے اس ریفرنڈم کا بائی کاٹ کیا۔ ان ایک تہائی رائے دہندگان کی%8.63 نے اس کی حمایت کی !لہذا لوگوں کی اکثریت اس دستور،صدر اور اس کے فیصلوں سے راضی نہیں تھیں۔
3۔ امریکہ نے صورت حال کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی اور صدر،اس کے فیصلوں اور دستور کے حوالے سے لوگوں کو قائل کرنے کی تگ ودو کی تاکہ اس حکومت کو مستحکم کر سکے جس کو انقلاب کے بعد وہ اپنی مٹھی میں رکھنے میں کامیاب ہوا تھا۔ لیکن اس کے باوجود بھی وہ استحکام حاصل نہ ہو سکا جو مرسی اور اخوان سے نیشل پارٹی کی تحلیل کے بعد بطور سب سے بڑی منظم پارٹی کے امریکہ توقع رکھتا تھا۔ وہ یہ توقع کرتے تھے کہ اسی طرح صورت حال کو قابو کرنے کے لیے کام کریں گے جس طرح نیشنل پارٹی نے 30 سال تک معزول صدر کے ساتھ کیا۔ امریکہ یہ چاہتا ہے کہ مصر امریکی نفوذ کے استحکام کا مرکز بن جائے۔ یہاں مطلوبہ استحکام مصرکی خاطر نہیں ہے بلکہ امریکہ خطے میں اپنے اثر ونفوذ اور منصوبوں کے لیے مستحکم پلیٹ فارم چاہتا تھا۔ تا ہم صورت حال غیرمستحکم ہی رہی۔
حالات کے بگڑنے میں صدرکی جانب سے فیصلے کرنے کے حوالے سےموجود ہچکچاہٹ نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ وہ ایک فیصلہ کرتا اور پھر دباو میں آکر اس سے رجوع کرتا۔ اسی طرح اتحادیوں سے مشورہ کیے بغیر تن تنہا فیصلہ کرتا ان کو قائل کرنے کی بھی کوشش نہ کرتا۔ کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے رائے عامہ ہموار کرنے یا رائے عامہ کو جاننے کی بھی زحمت گوارہ نہ کرتا۔ یوں صدر کے اس ایک سالہ دور کے دوران افراتفری اور اس کے خلاف انقلاب بر پا کرنے کی کوششیں جاری رہیں۔
اس کے بعد 28/06/2013 کو اس کے تفصیلی خطاب کے بعد معاملات اور پیچیدہ ہوگئے۔ ڈاکٹر مرسی کی صورت حال سنگین ہوگئی اوراس نے اعتراف بھی کرلیا کہ اس نےغلطیوں کا ارتکاب کیا ہے۔ اس نے ان غلطیوں کا تعین نہیں کیا لیکن وہ 22/11/2012 کے اپنے اس دستوری اعلان کی طرف اشارہ کررہے تھے جس نے لوگوں کو اس کے خلاف بڑھکایا اور لوگ اس جانب راغب ہوئے کہ وہ اس کو ہٹانے کا مطالبہ کرنے لگے۔ 02/07/2013 کو اپنے آخری خطاب میں محمد مرسی نے غلطیوں کے ارتکاب کی اپنی بات کو دہراتے ہوئے کہا کہ ان سے کوتاہی ہوئی ہے اور وہ ان کا تدارک کرنے کے لیے بھی تیار ہیں،جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ کسی بھی درمیانی حل کو قبول کریں گے،یہ فوج کی طرف سے اس کو 48 گھنٹوں کا الٹی میٹم دینے کی دھمکی کے بعد تھا،جس کا مطلب یہ ہے کہ فوج کی جانب سے اور فوج کی پشت پناہ یعنی امریکہ کی جانب سے مرسی کو کرسی سے ہٹانے کا فیصلہ ہو چکا تھا۔ یاد رہے کہ مذکورہ تمام فیصلوں میں اس کو امریکہ کی آشیرباد حاصل تھی لیکن جس وقت ان اقدامات کے نتائج خلاف توقع نکلے تو امریکہ اس کی حمایت سے دست بردار ہوگیا اور اس کے سقوط کا تماشا دیکھنے لگا بلکہ اس کے خلاف سازشیں کرنے لگاجیسا کہ وہ اپنے ہر اس ایجنٹ کے ساتھ کرتا ہے جو عبرت حاصل نہیں کرتا!
4۔ یوں ہم نے امریکہ کی جانب سے اس سے دستبرداری اور اس کے فیصلوں سے لاتعلقی کو دیکھا، امریکی ٹی وی چینل ''CNN" نے 02/07/2013 کو اعلی امریکی عہدہ داروں کے حوالے سے یہ خبر دی کہ''مصر میں امریکی سفیر ''این پیٹرسن اوروائٹ ہاوس کے دوسرے عہدہ داروں نے کہا ہے کہ مصر کے لوگ اپنے احتجاج میں جو مطالبات پیش کر رہے ہیں وہ بڑی حد تک ان اصلاحات سے مطابقت رکھتی ہیں جن کا مطالبہ واشنگٹن اور اس کے اتحادی کئی ہفتوں سے کر رہے ہیں۔" اس کی تائید 02/07/2013 کو رائٹرز میں شائع ہونے والے وائٹ ہاوس کے اس بیان سے بھی ہو تا ہے کہ :''صدر اوباما نے صدر مرسی پر زور دیا کہ وہ ایسے اقدامات کریں کہ جن سے یہ واضح ہو کہ وہ مظاہرین کے مطالبات کو پورا کر رہا ہے۔" اوبامہ نے اس پر بھی زور دیا کہ ''موجودہ بحران کا حل صرف سیاسی عمل کے ذریعے سے ہی ممکن ہے"جس کا یہ مطلب ہے کہ امریکہ نے مرسی کے سر سے دستِ شفقت اٹھا دیا اور وہ اب نئے سیاسی عمل کا متلاشی تھا۔ اس بیان میں یہ نہیں کہا گیا کہ وہ مصر کے منتخب صدر کی حمایت کرتا ہے بلکہ ان سے مظاہرین کے مطالبات کو پورا کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے جو صدرکو برطرف کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے!مصر میں مرسی کا تختہ الٹنے کے فوراً بعد اوبا مہ نے وائٹ ہاوس کے اپنے بڑے مشیروں کے ساتھ مصر میں رونما ہونے والے صورتحال کے حوالے سے میٹنگ کا اعلان کر دیا جس کے بعد اس نے کہا:''مصر کی مسلح افواج کو چاہیے کہ انتہائی ذمہ داری سے جس قدر جلد ممکن ہو سکے اقتدار کو سول حکومت کے حوالے کرے"(رائٹرز 03/07/2013 )۔ اوبامہ نے اس انقلاب کی کوئی مذمت نہیں کی بلکہ اس کو فوجی انقلاب تک قرار نہیں دیا۔ اس نے برطرفی کے بعد مرسی کی بحالی کا بھی کوئی مطالبہ نہیں کیا،نہ ہی مرسی کے وزیر اعظم کو اس کے منصب سے ہٹانے اور ایک سال قید کی مخالفت کی!بلکہ اقتدار سول حکومت کو منتقل کرنے کا مطالبہ کیا یعنی اقتداربرطرف حکومت کو نہیں بلکہ کسی نئی حکومت کومنتقل کرنے کا مطالبہ کیا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس انقلاب کو اور مرسی اور اس کی حکومت کو برطرف کرنے کے عمل کو امریکی سرپرستی حاصل تھی بلکہ امریکی انتظامیہ نے یہ کہہ کر اس پر تبصرہ کیا کہ:''مرسی نے عوام کی آواز پر کان نہیں دھرا نہ ہی اس کا جواب دیا"(مذکورہ بالا حوالہ)مصر کی عسکری قیادت نے بھی بالکل یہی بات کی کہ''صدر مرسی نے عوامی مطالبات کوپورا نہیں کیا۔" یہ سب جانتےہیں کہ مصر کی فوجی قیادت امریکہ کی جیب میں ہوتی ہے اورامریکہ کی بیشتر امداد جو سالانہ ڈیڑھ ارب ڈالر ہے فوج ہی کو ملتی ہے۔
5۔ مرسی اورالاخوان یہ سمجھ نہ سکے،بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر مرسی امریکہ کی پالیسیوں پر گامزن ہو کر امریکی حمایت کے بارے میں دھوکہ کھا گئے،اس کے مفادات کی نگہبانی کرتے ہوئے اور ان معاہدوں کی پاسداری کرتے ہوئے جو مصر کی جمہوری حکومت نے کیے تھے خاص کر کیمپ ڈیوڈ کا معاہدہ۔پھرامریکہ نے فوج کی پرانی قیادت کو بھی ہٹادیا اور نئی قیادت لاکر ان کو مرسی کا ہمنوا بنادیاجس سے مرسی اس غلط فہمی کا شکار ہوگئے کہ امریکہ کبھی اس کی حمایت سے دستبردار نہیں ہو گا۔ وہ اس بات پر مطمئن تھے کہ امریکہ نام نہاد معتدل اسلام پسندوں کو یا حالات سے سمجھوتہ کرنے والوں کو اقتدار میں لانے اور ان پر دستِ شفقت رکھنے کی پالیسی پر کاربندہے جیسا کہ ترکی میں ہوا۔ وہ یہ نہ سمجھ سکے کہ امریکہ اپنے کسی ایجنٹ سے استعمال کرنے کے بعد یا ناکام ہونے پر اور ملک میں مستحکم حکومت قائم کرنے میں ناکام ہونے کی صورت میں دستبردار ہو جاتا ہے اور اس کی جگہ دوسرا ایجنٹ لاتا ہے،جیسا کہ مرسی کے پیش رو حسنی مبارک کے ساتھ ہوا جو امریکہ کا انتہا درجے کا وفادار تھا اور اسی خوش فہمی میں اپنے بیٹے کو اپناجانشین بنا رہا تھا۔
لیکن جب اس کے خلاف ایک عوامی تحریک برپا ہوگئی اور امریکہ نے دیکھا لیا کہ وہ اس پر قابو پانے کے قابل نہیں رہا اور یہ مصر میں امریکی مفادات کے حصول کے لیے استحکام نہیں لا سکتا تو اس کو ایک طرف کر کے اس تحریک کی لہروں پر سوار ہوکر مرسی کو لے آیا۔
مرسی کے ساتھ بھی یہی ہوا کہ امریکہ نے دیکھا کہ وہ امریکی مفادات کی حفاظت کے سلسلے کو جاری رکھنے اور اس کے اثرو نفوذ کو دوام بخشنے کی خاطر مستحکم حکومت قائم نہیں کر سکتا تو اس کو بھی ایک طرف پھینک دیا۔
یہ کوئی نیا معاملہ نہیں تھا بلکہ ایک عرصے سے اس پر کام ہو رہا تھا۔''مصر کی عوامی تحریک" کی ویب سائٹ، جو کہ ایک لبرل سائٹ ہے، نے دو مہینے سے بھی زیادہ عرصے پہلے 22/04/2012 کواس عنوان سے خبردی تھی کہ "عسکری مداخلت کے بارے میں امریکی شرط یہ ہے کہ وہ فوجی انقلاب نہیں نظر آنی چاہیے! " اس سائٹ نے کہا تھا کہ ''ایک شخص ،جس کے نام کو ہم صیغہ راز میں رکھ رہے ہیں، گزشتہ دنوں امریکہ کا دورہ کر کےواپس آیاہے۔ اپنے اس دورے میں انہوں نے امریکی انتظامیہ کے چوٹی کے اہلکاروں،پینٹاگون اور قومی سلامتی کے عہدہ داروں سے تفصیلی تبادلہ خیال کیا جس میں اخوانی حکومت کے حوالے سے امریکی موقف کے بارے میں بات چیت ہوئی۔" سائٹ نے یہ بھی کہا کہ''جان کیری، جو ان ملاقاتوں میں تھا، نے عوام کی طرف سے سڑکوں پر نکلتے وقت واقعات پر قابو پانے اور مختلف گروہوں کے درمیان خانہ جنگی کو روکنے کے سلسلے میں مصری فوج کے اہم کر دار کے بارے میں بات کی۔ پھر کیری نے مزید کہا:''مجھے الاخوان کی کمزوری اور بات چیت میں ان کی ناکامی دیکھ کر صدمہ ہوا،مجھے یقین ہے کہ وقت آنے پر فوج اپنا کردار ادا کرے گی۔ مذکورہ شخص نے مزید کہا کہ :بات چیت میں اخوانی حکومت کے متبادل کے موضوع پر بات ہوئی اور اس پر بھی کہ عبوری دور میں انتظامی ذمہ داری فوج کی ہو گی،سائٹ نے پینٹاگون کے ایک اعلی عہدہ دار جو کہ American Brookings Institution))کا بھی رکن ہے اور اس ملاقات میں موجود تھاکا قول نقل کیا ہے کہ :''وہ اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ مرسی اقتدار سے الگ ہونے کا قائل بھی ہو جائے، چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے تو بھی بہر حال اس کے حامی اس بات کو قبو ل نہیں کریں گے۔ یہا ں ایک بار پھر مصر کے لوگوں کو کردار ادا کرنا ہو گا کہ وہ بڑی تعدا میں متحرک ہو کر مرسی کی برطرفی کا مطالبہ اور فوج کی حمایت کریں۔" یہ بات 22/04/ 2013 کو یعنی انقلاب کے رونما ہونے سے دو ماہ سے بھی زیادہ عرصہ پہلے افشاں ہوئی جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ امریکہ ہی نے اس انقلاب کی اس دن سے ہی منصوبہ بندی کی تھی۔ اسی نے چاہا کہ معاملات اس نہج کو پہنج جائیں۔ جب 03/07/2013 کو مرسی کا تختہ الٹ دیا گیا تو اس کو انقلاب کہنے سے باز رہا،بلکہ انتہائی مبہم قسم کے بیانات دیتا رہا جیسے''ہم صورت حال کو دیکھ رہے ہیں"، "صورتحال پر مسلسل ہماری نظر ہے"، ''مرسی جمہوری نہیں تھا"، "عبوری حکومت کی جانب سے روڈ میپ مقرر کرناحوصلہ افزا امرہے" جیسا کہ سوال میں کہا گیا ہے۔
6۔ معزول صدر کے حامی احتجاج کے لیےسڑکوں پر آگئے ہیں،اگرانھوں نے اپنے احتجاج کو جاری رکھا ،اس کو آگے بڑھایا اور عوام کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہوگئے تو یہ اس بات کی ضمانت ہو گی کہ وہ عسکری ادارے اور امریکہ کو پریشان کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے یوں امریکہ الاخوان تحریک کے ساتھ سودابازی پر مجبور ہوگا،خاص کر جبکہ ان کے ہاتھ فائدہ مند پتے موجود ہیں جو یہ ہیں کہ مرسی عوم کا منتخب صدر تھا،آئینی عدالت ،عسکری ادارے ،بین الاقوامی اداروں،امریکہ اور تمام ممالک کے لیے قابل قبول تھا،ان کے معیار کے لحاظ سے ایسا کوئی کام نہیں کیا تھا کہ اس کو برطرف کیا جائے۔ وہ ایسے انتخابات کے ذریعے اقتدار تک پہنچے تھے جن کی شفافیت کا اعتراف کیا گیا تھا پھر فوجی طاقت کے ذریعے برطرف کیا گیا۔ اس سے ان کے موقف کو تقویت ملے گی اور ان کو جواز ملے گا جس سے وہ دوسرے لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کرسکیں۔
جن لوگون نے فوجی انقلاب کی حمایت کی اور صدر کو برطرف کیا تو ان کا موقف اس لحاظ سے کمزور ہے کہ وہ فوجی حکومت کو بھی مسترد کرتے ہیں اور انتخابی عمل پر اصرار کر رہے ہیں اور ساتھ ہی وہ عسکری طریقے سے تبدیلی کی بھی حمایت کرتے ہیں! یوں الاخوان انقلاب کو ناکام بنا کر دوبارہ اقتدار میں آسکتے ہیں یا نئی صورت میں کوئی بڑا حصہ دار بن سکتے ہیں،خصوصاً جب وہ لوگوں کے جذبات کوبڑھکانے میں کامیاب ہو جائیں۔ اگر معزول صدر کے حامی مذاکرات اور پیچھے ہٹنے پر راضی ہوئے تو زبردست نقصان اٹھائیں گے جس کی وجہ سے ان کو ندامت کا سامنا ہو گا اور پھر ندامت کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا،یوں ان کی جدوجہد سیاست کے دشت و صحرا اور اس کے بارے میں بیداری نہ ہونے کی وجہ سے رائیگاں جائے گی!
7۔ ہم ایک زمینی حقیقت کے بیان کے ساتھ اس جواب کو ختم کرتے ہیں اور وہ یہ کہ جو بھی اللہ کی ناراضگی مول لے کر لوگوں کو خوش کرے گا اللہ اس کو لوگوں کے ہی حوالے کرے گا،وہ مجبور ہو گا اور لوگوں کے ساتھ اس کا تعلق بھی خراب ہو گا۔ اس کا مشاہدہ کیا جاتا ہے اور یہ محسوس بھی ہو تا ہے۔ مرسی اور الاخوان نے بھی امریکہ کو راضی کرنے کی کوشش کی،اس کے منصوبوں کی حمایت کی اور کیمپ ڈیوڈ کے اس معاہدے کی پاسداری کی جو مسئلہ فلسطین اور سیناء کو کمزور کرتا ہے جوفلسطین کو غصب کرنے والی یہودی وجود کا اقرار اور اعتراف کر تا ہے۔ مرسی اپنے کئی نعروں سے بھی دستبردار ہوا اور جمہوری نظام حکومت اور سکیولر عوامی جمہوری حکومت پر راضی ہوا،جب صدر بنایا گیا اسی کے لیے حلف اٹھا یا،اسلام اور اسلام کی حکمرانی کو پس پشت ڈال دیا،یہ سب کچھ اس نےامریکہ کو راضی کر نے کے لیےکیا تاکہ ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر کرسی پر بیٹھا رہےلیکن آخر میں اپنا نقصان کر بیٹھاسوائے اس کے کہ اگر توبہ کرے اور اپنی اصلاح کرے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرما یا کہ ((من أرضى الناس بسخط الله وكله الله إلى الناس ومن أسخط الناس برضا الله كفاه الله مؤنة الناس)) (الترمذی)، "جو اللہ کو ناراض کر کے لوگوں کو راضی کرے گا اللہ اس کو لوگوں کے حوالے کرے گا اور جواللہ کو راضی کرنے کے لیے لوگوں کو ناراض کرے گا اللہ اس کو لوگوں کے شر سے بچانے کے لیے کافی ہو گا"۔
8۔ بالکل آخر میں یہ یاد دہانی کراتے ہیں کہ ہم نے اس سے پہلے مرسی کو دوبار نصیحت کی۔ دونوں بار ہم نے پمفلٹ شائع کیا پہلی بار 26/06/ 2012 کو جبکہ دوسری بار 13/08/ 2012 کو۔ پہلے پمفلٹ میں ہم نے کہا تھا:
۔۔۔۔''پھر خالص نصیحت کے ذریعے ہم مصر کے نئے صدر کی طرف متوجہ ہوتے ہیں:اللہ سے ڈرو اور ایسی عوامی جمہوری ریاست کی دہائی دینے سے باز آو جو فکر اور منہج کے لحاظ سے خواہشات پر مبنی ہو۔ حق کی طرف رجوع افضل ہے،یہ اس لیے کہ کہیں تم مکمل دنیاوی نقصان نہ کر بیٹھو کیونکہ کافی نقصان تم پہلے ہی کر چکے ہو جب فوجی کونسل تمہارے اختیارات کم کر کے تمہارے پر کاٹ چکی ہے۔ اور کہیں تم امریکہ اور مغرب کو راضی کرنے کی خاطر عوامی جمہوری ریاست کا راگ الآپ کراور خلافت کے قیام اور اللہ کی شریعت کے نفاذ سے پہلو تہی کر کے امریکہ اور مغرب کےکو مالک کوناراض کر کےآخرت تباہ کر بیٹھو۔ یقیناً تم نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث پڑھی ہوگی ((من أرضى الناس بسخط الله وكله الله إلى الناس ومن أسخط الناس برضا الله كفاه الله مؤنة الناس)) "جو اللہ کو ناراض کر کے لوگوں کو راضی کرے گا اللہ اس کو لوگوں کے حوالے کرے گا اور جواللہ کو راضی کرنے کے لیے لوگوں کو ناراض کرے گا اللہ اس کو لوگوں کے شر سے بچانے کے لیے کافی ہو گا" (الترمذی) ابو نعیم نے الحلیہ میں اس کو عائشۃرضی اللہ عنھا سے روایت کیاہے۔
یہ نصیحت صرف اللہ سبحانہ وتعالی کے لیے ہے اس کے بدلے ہم تم سے کسی جزاء یا شکریے کے طلبگار نہیں،یہ ہم صرف اس لیے کر رہے ہیں کہ کہیں کفار اور ان کے ایجنٹ اور تمام اسلام دشمن قہقہے لگا کر نہ ہنسیں کہ سول جمہوری ریاست کے ان کے مشن کے علمبردار خود مسلمان بن گئے، اخوان المسلمون بن گئے،انا للہ وانا الیہ راجعون"۔
دوسرے پمفلٹ میں ہم نے کہا تھا کہ" ہم اپنے بیان کومکمل کرتے ہوئےصدر محمد مرسی کو کی گئی اس نصیحت کو دہراتے ہیں اگرچہ اس نے ہماری پہلی نصیحت پر عمل نہیں کیا۔ ہم کسی مسلمان کو نصیحت کرنے سے کبھی مایوس نہیں ہوتے ،خصوصاً جب وہ حکمران ہو،اس لیے ہم پہلی نصیحت کے بعد ایک بار پھر نصیحت کرتے ہیں:اگر چہ پرانے اور نئی سیاسی میڈیم میں امریکہ کے ہاتھ پہچے ہوئے ہیں،لیکن ان بازوں کو کاٹ ڈالنا ممکن اور آسان ہے،ایک دفعہ غلطی کر کے اگلی غلطی سے پہلے اس کا تدارک کرنا غلطی کو باربار دہرانے سے بہتر ہے،امریکہ کے دست وبازو کے ساتھ محبت اور قربت کا کوئی فائدہ نہیں۔بلکہ ان کو مڑنا اور کاٹ کر پھینک دینا زیادہ بہتر ہے،ورنہ ندامت کا سامنا ہو گا اور اس وقت ندامت کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا!زمین پر اللہ کا تیر کش(مصر) ہر قسم کی قوت اور طاقت سے مالامال ہے،اس کی تاریخ اس کی شاہد ہے،جو بھی حقیقی معنوں میں اللہ کے ساتھ ہوا وہی غالب ہے،قرآن حکیم اس کے بارے میں گویا ہے،خود صدر نے بھی اپنے آخری خطاب میں اس کو دہرایا ﴿والله غالبٌ على أمره ولكن أكثر الناس لا يعلمون﴾ "اللہ ہی فیصلے میں غالب ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے"۔جی ہاں اللہ نے سچ فرمایا ہے،﴿ومن أصدق من الله حديثا) "اللہ سے زیادہ سچی بات کس کی ہو سکتی ہے"۔
اے اللہ ہم نے پہنچا یا تو گواہ رہ۔۔۔۔۔اے اللہ ہم نے پہنچا یا تو گواہ رہ۔۔۔۔۔۔ اے اللہ ہم نے پہنچایا تو گواہ رہ۔

Read more...

لوگوں نے کشمیر سے دستبردار ہونے اور مشرک ریاست کو انعام میں دینے کے لیے نہیں بلکہ افواج کے ذریعے جہاد کرتے ہوئے اِسے آزاد کرانےکااختیار( مینڈیٹ) دیا ہے


ڈیلی ٹیلیگراف کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے 23 اگست 2013 کو پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف نے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی میں کمی کی دعوت دی۔ یہ کمزور اور بزدلانہ ردعمل بھارتی افواج کے ہاتھوں شہید ہونےوالے مسلمانوں، افسران اور سپاہیوں کے مقدس خون کی توہین ہے جبکہ بھارتی افواج مسلسل سرحدوں پرفائرنگ کررہی ہیں۔ جہاں تک جنرل کیانی کا تعلق ہے تو اس نے قبائلی علاقوں میں امریکی صلیبی جنگ پر مسلمانوں کی توجہ مرکوز کی ہوئی ہے جبکہ بھارتی جنرلز پاکستان کو دھمکیاں دیے چلے جارہےہیں۔
بزدل بھارت کی جارحیت کے جواب میں یہ کمزور اورغدارانہ ردعمل اس سرزمین کے قابل اور بہادر بیٹوں کی توہین ہے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت کرتے ہیں۔ بھارت ایک قابض طاقت ہے جو کشمیر کے مسلمانوں کا دشمن ہے اور بھارت میں بسنے والے مسلمانوں پر ظلم کرتا ہے۔ لیکن یہ ایجنٹ حکمران ان باتوں کی بالکل پرواہ نہیں کرتے کہ ان کے اس عمل کے نتیجے میں مسلمانوں کو کیا نقصان پہنچے گا کیونکہ وہ صرف واشنگٹن میں بیٹھے اپنے آقاؤں کے مفادات کی پروا کرتے ہیں۔ امریکہ بھارت کو چین کے خلاف استعمال ہونے کی صورت میں کشمیر تحفے میں دینا چاہتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ پاکستان کی افواج کشمیر کو غاصب بھارت سے آزاد کروانے کے لیے نہیں بلکہ اُن عسکریت پسندوں سے لڑیں جو اُس سے افغانستان میں لڑ رہے ہیں۔
اے افواج پاکستان کے افسران! ان حکمرانوں کو اکھاڑنے کے لیے فوراً حرکت میں آؤں اور خلیفہ راشد کو بیعت دو جو اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے تمھاری قیادت کرے گا۔ امریکی منصوبوں اوران ایجنٹ حکمرانوں کو تباہ کردو جو تم میں موجود ایمان اور طاقت کے باوجود تمھیں بھارت کے سامنے جھکنے پر مجبور کرتے ہیں اور تمھاری تزلیل کرتے ہیں۔ اللہ تمھارے ساتھ ہے اور وہ کبھی تمھارے اعمال کو ضائع نہیں کرے گا۔

((فَلاَ تَهِنُوا وَتَدْعُوا إِلَى السَّلْمِ وَأَنْتُمْ الأَعْلَوْنَ وَاللَّهُ مَعَكُمْ وَلَنْ يَتِرَكُمْ أَعْمَالَكُمْ))
"پس تم بودے بن کر صلح کی درخواست پر نہ اُتر آؤ جبکہ تم ہی بلند و غالب رہو گے اور اللہ تمھارے ساتھ ہے"(محمد:35)

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک