نصرۃ میگزین جمادی الاول / جمادی الثانی 1435 بمطابق مارچ / اپریل 2014
- Published in دیگر
- سب سے پہلے تبصرہ کرنے والے بنیں
- |
پریس ریلیز
کل بروز پیر 17 فروری 2014 کو بی بی سی کی ویب سائٹ نے رپورٹ کیا کہ "وسطی افریقہ میں افریقی فورسز نے انٹرینشنل سپورٹ مشن فار سنٹرل افریقن ری پبلک(ISMCA) کی سرپرستی میں ان 2,000 مسلمانوں کی ملک بدر ی پر قابو پا لیا ہے، جومسیحی ملیشیا کے فرقہ وارانہ تشددکے حملوں سے فرار ہوکر کیمرون کی طرف منتقل ہورہےتھے۔ بی بی سی کے رپورٹر کے مطابق، جوروانڈا کے فوجیوں کے قافلے کے ساتھ سفر کر رہا تھا، "فوجیوں کے قافلے پر بندوقوں، نیزوں، تلواروں، تیروں، پتھروں اور چھریوں سے حملہ کیاگیا"۔
عیسائیوں کی طرف سے مسلمانوں کو قتل کرنے اور ان کے جسموں کے بخیے ادھیڑنے، بلکہ ان کے گوشت تک کو کچا کھانے کے کئی یقینی شواہد موجود ہیں۔ بی بی سی نے 13 جنوری 2013 کو ایک ایسے شخص کے بارے میں جس کا گوشت انتقامی طور پر کھایا گیا تھا، کے متعلق تفصیلی تحقیقات پر مبنی ایک مضمون نشر کیا۔ مضمون میں بتایا گیا ہے کہ عینی شاہدین کے مطابق 20 سے زائد لوگوں نے ایک گاڑی والے کو زبردستی روکا، جو کہ ایک مسلمان تھا۔ انہوں نے اس کو سڑک پر گھسیٹا، اور اس کو زدوکوب کرنے لگے، اس کے سر پر ایک بڑا پتھر مارا، پھر اس کو آگ لگا دی، پھرایک شخص جھپٹ کر اس کے پورے پاؤں کو کاٹ ڈالتاہے اور اسے کچا کھانا شروع کر دیتا ہے۔ جمہوریت پسند وں نے اس بدترین جرم پرچپ سادھ لی ہوئی ہےاور قاتلوں کے ساتھ مل کران کی اس "بہادری" پرانہیں شاباش دیتے ہیں۔ ان میں سے ایک نے کہا "ہم سب مسلمانوں سے نہایت غصہ میں ہیں، ہم اس کو روکنے کے لئے کچھ نہیں کرسکتے"۔
دوسری طرف افریقی امن فورسز کے ساتھ تشدد کو روکنے کے سلسلے میں تعاون کرنے کے بہانے فرانس نے اپنی فوجیں داخل کیں۔ ان فوجوں نے ان صلیبی قاتلوں کی بھرپورجانب داری کی جومسلمانوں اور ان کے مقدسات کے خلاف جرائم کے مرتکب تھے۔ اس لئے وسطی افریقہ میں عالمی فورسز سے تحفظ کی امید کرنے والوں کی حالت یوں ہے جیسے کو ئی کڑکتی دھوپ سے بھاگ کر آگ کے ذریعے پناہ حاصل کرنے کی کو شش کرے۔
وسطی افریقہ میں ہمارے مسلمان بھائیوں کے ساتھ روارکھے جانے والے جرائم اور ظلم وستم کی یہ ایک جھلک ہے، اس کی وجہ اسلام اور مسلمانوں کے دشمن صلیبیوں کاوہ حسد ہے جس میں جل کر وہ اس قسم کی ناپاک کاروائیوں پراترآتے ہیں۔ فرانس کے تعاون اور عالمی گٹھ جوڑ کے سائے تلےبدترین قتل وغارت گری اور بد ترین تشدد، اعضاء کو الگ کرکے ٹکڑے کردینا، آگ میں جلادینا، جسموں کو چیرپھاڑکرنااور خام انسانی گوشت کاکھانا، وہ صورتحال ہے جس کاسامناوہاں کے مسلمان کررہے ہیں۔ دوسری طرف مسلم ممالک کے حکمران شرمناک بزدلی کامظاہرہ کررہے ہیں۔ وسط افریقی مسلمانوں کے ساتھ ان کارویہ بالکل ویساہی ہے جیساکہ 1995 میں سربرانیکاکے مسلمانوں کے ساتھ انہوں نے روارکھا، جس میں 8ہزارسے زائد عام شہریوں کو موت کے گھاٹ اتاردیاگیااور اقوام متحدہ کے ڈچ فوجیوں کے آنکھوں کےسامنے بوسنیائی مسلمان خواتین کی منظم طورپرعصمت دری کی گئی۔ شام میں امریکہ کے ہاتھوں خونریزی کی داستان ہویابرمامیں جاری صورتحال، فلسطین، آوانتی، کشمیر، مشرقی ترکستان اور مسلمانوں کے دیگرمصیبت زدہ علاقوں کے لہورنگ مناظر۔۔۔۔۔۔ان تمام مصائب وآلام اور ظلم وستم کاخاتمہ جودنیابھرمیں مسلمانوں پر ڈھائے جاتے ہیں، صرف اور صرف اس خلافت کے قیام کے ذریعے ممکن ہے، جوامت کی ڈھال اور جس کافریضا اس کی رکھوالی کرناہوتا ہے۔
لہٰذا حزب التحریر کامرکزی میڈیاآفس وسطی افریقی مسلمانوں کے حق میں ایک مہم کاآغاز کرنے والاہے، کیونکہ رسول اللہﷺ کاارشاد گرامی ہے «مَثَلُ الْمُؤْمِنِينَ فِي تَوَادِّهِمْ وَتَرَاحُمِهِمْ وَتَعَاطُفِهِمْ، مَثَلُ الْجَسَدِ إِذَا اشْتَكَى مِنْهُ عُضْوٌ تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالسَّهَرِ وَالْحُمَّى». " آپس کی محبت، ہمدردی اور مہربانی میں مسلمانوں کی مثال ایک جسم کی طرح ہے، جب اس کے کسی عضو میں تکلیف ہوتوساراجسم اس کی وجہ سے جاگتااور بیماررہتاہے"۔ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا۔ اس مہم اور اس کے مندرجات کااعلا ن اپنے وقت پرعنقریب ہورہاہے۔
﴿إِنَّ الَّذِينَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَتُوبُوا فَلَهُمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَلَهُمْ عَذَابُ الْحَرِيقِ﴾
"یقین رکھوجن لوگوں نے مؤمن مردوں اور مؤمن عورتوں کو ظلم کانشانہ بنایاہے، پھرتوبہ نہیں کی ہے، اُ ن کے لئے جہنم کاعذاب ہے اور ان کو آگ میں جلنے کی سزادی جائے گی"۔ (سورۃ البروج: 10)
عثمان بخاش
ڈائریکٹرمرکزی میڈیاآفس
حزب التحریر
پریس ریلیز
امریکی سیکریٹری خارجہ جان کیری نے جمعہ کے دن 14 فروری 2014 کو یہ کہا کہ "صدرباراک اوبامہ نے ایک دفعہ پھرشام کے حوالے سے امریکی پالیسی پر مختلف آپشنز کو پیش کرنے کا مطالبہ کیاہے ، لیکن اب تک کسی آپشن کو ان کے سامنے پیش نہیں کیا گیا۔ "کیری نے صحافیوں سے گفتگوکرتے ہوئے کہا "اوبامہ شام میں بگڑتی انسانی صورتحال پر تشویش زدہ ہیں ، اور اس لئے بھی کہ وہ دیکھتے ہیں کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان امن مذاکرات، منصوبے کے مطابق عبوری حکومت کی تشکیل پر غور و فکر کے حوالے سے اب تک کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے"۔ کیری نے مزید کہا کہ "اس لئے اوبامہ نے ہم سب سے مطالبہ کیا ہے کہ ہم متعدد آپشنز پر غور کریں ، جو موجود ہوں یا نہ ہوں "۔
لگتا ایسا ہے کہ کیری اور اس کا صدر دونوں ہی شامی انقلاب کو سرنگوں کرنے کے لئے میسر آپشنز کے حوالے سے شش و پنج کی کیفیت میں مبتلاء ہیں ۔ سیاسی حل پر کام جنیوا میں ہوا ، جہاں امریکہ اور اس کے چیلوں مجرم بشار حکومت اور الجربا کی قیادت میں قومی اتحاد کی نمائندگی کرنے والے نام نہاد سیاسی مخالفین کے درمیان مذاکرات ہوئے۔ ہرشخص یقینی طور پر یہ جانتا ہے کہ بشارامریکہ کے کسی بھی حکم سے روگردانی نہیں کرتا، خواہ وہ کیمیائی اسلحے کی سپرد گی ہو، یا شام کی مشتعل اورنالاں قوم کاقتل عام ہو۔ اسی طرح سب یہ جانتے ہیں کہ اس اتحاد کا کرتادھرتا روبرٹ فورڈ ہی ہےجسےاس نے اپنے ہاتھوں سے تشکیل دیاہے ۔ سواس اتحادکے پاس اگرکوئی اختیارہے تو صرف اتناکہ ہائی کمشنرصاحب کی خواہشات کی اطاعت بجالانے میں لگارہے کیونکہ اسد کے جانے کے بعد اس نے یہ امیدیں لگائی ہیں کہ وہ ان کوبھی کسی حقیرسی خدمت کاشرف بخش دے گا، جیساکہ برطانیہ نے شریف حسین اوراس کے بیٹے فیصل کے ساتھ کیاتھا، جب خلافت کے انہدام کے بعد غنائم کی تقسیم پربحث کی جارہی تھی۔
جہاں تک حقیقی مذاکرات کاتعلق ہے تویہ شام کے میدانوں میں ہورہے ہیں ، جہاں اوبامہ شام کے اس سرپھرے اورناقابل تسخیر انقلاب پراپنے حل کومسلط کرنے کیلئے موجود آپشنز کوکام میں لانے کے حوالے سے تذبذب کاشکارہے، کہ کیاسکڈ میزائل چلانے کا سلسلہ پھر شروع کیا جائے ؟ یا بارود سے بھرے ڈرم گرانے کا سلسہ جاری رکھےیاپھر کیمیائی اسلحہ ایک بار پھر استعمال کیا جائے؟ کیاایران اور اس کے پیرو کار ، جوظلم اورظالموں کے خلاف کربلاء انقلاب کے نعرے لگاتے نہیں تھکتے تھے، اس قابل ہیں کہ شامی انقلابیوں کوانکل سام کے آگے جھکادیں گے ( انکل سام جس نے ایرانی حکومت کے ساتھ ایٹمی معاملہ طے کرکے اس کی زندگی کوطول دی اورایرانی خزانے میں کئی ملین ڈالرکی ترسیل کی تاکہ شام میں اپنی جنگ کی مالی ضرورتوں کوپوراکرسکے) اوراس مقصد کے حصول کیلئے وہ تکفیری دہشت گردی کامقابلہ کرنے کے نعروں کواستعمال کرتے ہیں۔
مگراس کاجواب شام کے علاقے درعا سے آیاکہ مذکورہ بالاآپشنز کے ساتھ امریکہ نے نمازِجمعہ کی ادائیگی کرکے مسجد سے نکلنے والوں کے ہجوم میں بارود سے بھری گاڑیوں کے دھماکے کروائے۔جیساکہ کل درعاکے شہر الیادودۃ میں ہوا، جہاں حکومت کے ایجنٹوں نے بارودسے بھری گاڑی گھسادی جو جمعہ کی نماز کےبعدپھٹ گئی ،جس کے نتیجے میں 32 نمازی جاں بحق اوردسیوں لوگ زخمی ہوئے جن کی حالت نازک بتائی جاتی ہے۔
ہمارے نزدیک یہ بعید نہیں کہ ان آپشنز کے ساتھ ساتھ بعض "مشائخ" کی طرف سے فتوی ٰ صادرکیاجائے کہ ولی الامرکے خلاف خروج حرام ہے۔ جب واشنگٹن کے پاس سیاسی حل تیار ہوجائے گا تو پھر جس چیز کی ضرورت ہو گی وہ صرف سعودی انٹیلی جنس کی سرپرستی میں نکلنے والے فتوئے کی ضرورت ہو گی جس کےلئے بس ولی الامر کی طرف سے ادنی ٰاشارے کی دیرہے۔ جہاں تک ایک ایسےخلیفہ کی بیعت کی طرف دعوت کی بات ہے جواللہ کی شریعت کے مطابق فیصلے کرے اورشام کی مبارک سرزمین میں خونریزی کی روک تھام کرے ، توعرض ہے کہ سلطان کے مشائخ اس سے پہلوتہی کرتے ہیں ،کیونکہ ایساکرکے وہ ولی الامر کی ناراضگی مول لیں گے ،جبکہ اگر کائنات کے مالک کی معصیت ہوجاتی ہے تواس میں ان کااپناایک نقطہ نظرہے، یہ لوگ زندگی سے پیارکرتے ہیں، چاہے اس کے لئےکتنی ہی ذلت و رسوائی اورجبارذات کی طرف سے غصے کے حقدارٹھہرتےہوں۔
اس میں خیرہی خیرہے ، کیونکہ شام کے انقلاب نے مسلمانوں کے ساتھ امریکی دشمنی کی حقیقت کھول کررکھ دی ،اتحاد کے اندراس کے بنائے ہوئےآدمیوں کی حقیقت کوبے نقاب کیااورشیطان ِاکبرکانعرہ لگانے والی ایرانی حکومت کی منافقت کا پردہ چاک کیا۔ اسی طرح مینڈکوں کی طرح ٹرٹر کرنے والےان خلیجی مشائخ کے دجل کوبے نقاب کیاجواپنے "ولی امر " کی مرضی کے فتوے صادرکرتے ہیں ۔ ان کایہ عمل ان کودنیاوآخرت میں ہلاکت کی طرف لے جائے گا۔
جہاں تک امت کےواحد آپشن کا تعلق ہے تووہ یہ ہے کہ تمام اسباب کے پیدا کرنے والے سے نصرت کے اسباب مانگے اوررب العالمین کے سامنے مخلص بن کر اپنی بندگی پیش کرکے گڑگڑائے، پھرمنہج نبوی کے مطابق خلافت راشدہ ثانیہ کے لئے مخلصین کے ساتھ سنجیدہ اوران تھک عمل کرے ۔ اللہ رب العزت کاارشاد ہے۔
﴿وَمَا النَّصْرُ إِلاَّ مِنْ عِندِ اللّهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ﴾
"اورفتح توکسی اورکی طرف سے نہیں ، صرف اللہ کے پاس سے آتی ہے جومکمل اقتدارکابھی مالک ہے،تمام تر حکمت کابھی مالک " (آل عمران: 126)۔
اوراللہ کاوعدہ حق ہے،
﴿وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ﴾
"اورہم نے زبورمیں نصیحت کے بعد یہ لکھ دیاتھاکہ زمین کے وارث میرے نیک بندے ہوں گے" (الانبياء: 105)۔
عثمان بخاش
ڈائریکٹرمرکزی میڈیاآفس
حزب التحریر
تحریر: مصعب عمیر ، پاکستان
بے شک موت اس قابل ہے کہ اس کو یاد کیا جائے۔ معیارِ زندگی، مال اور صحت کے برعکس موت ایک یقینی امر ہے۔یہ اس دنیا کی عارضی زندگی سے ہمیشہ کی آخرت کی زندگی کے طرف سفر کا آغاز ہے۔اللہ سبحان وتعالٰی نے فرمایا، كُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَةُ الْمَوْتِ وَإِنَّمَا تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ يَوْمَ الْقِيَـمَةِ فَمَن زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ وَما الْحَيَوةُ الدُّنْيَا إِلاَّ مَتَـعُ الْغُرُورِ ''ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے اور قیامت کے دن تم اپنے بدلے پورے پورے دیے جاؤ گے۔پس جو شخص آگ سے ہٹا دیا جائے اور جنت میں داخل کر دیا جائے بے شک وہ کامیاب ہو گیا اور دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کی جنس ہے'' (آلِ عمران: 185)۔ اس کے علاوہ موت کو دھوکہ دینا،اس کو ٹال دینا یا بچ نکلنا ناممکن ہے۔ہر ذی روح اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ وقت پر مر جائے گی۔اللہ سبحان وتعالیٰ نے فرمایا، "جب ان کا وہ معین وقت آ پہنچتا ہے تو ایک گھڑی نہ پیچھے ہٹ سکتے ہیں اور نہ آگے سرک سکتے ہیں" (یونس: 10)۔ اور اللہ سبحان وتعالیٰ نے فرمایا، إِذَا جَآءَ أَجَلُهُمْ فَلاَ يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلاَ يَسْتَقْدِمُونَ "جب ان کا معین وقت آپہنچتا ہے تو ایک گھڑی نہ پیچھے ہٹ سکتے ہیں اور نہ آگے سرک سکتے ہیں" (یونس: 49)۔ اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا، وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَنْ تَمُوتَ إِلاَّ بِإِذْنِ الله كِتَـباً مُّؤَجَّلاً "بغیر اللہ تعالیٰ کے حکم کے کوئی جاندار نہیں مر سکتا، مقرر شدہ وقت لکھا ہوا ہے'' (آلِ عمران: 145)۔
یہ موت ہے۔یہ اٹل ہے اوراس زندگی کو ختم کرنے والی ہے۔یہ ایسے وقت پر واقع ہوتی ہے جو صرف اللہ سبحان وتعالیٰ کو معلوم ہے۔ لہٰذامستقبل میں واقع ہونے والے ایک غیر اعلانیہ امر سے متعلق ایک شخص کو کیا کرنا چاہئے؟ ایک ایسا امر جو ہمیں ہماری زندگی کے ہر لمحے سے دور کر دے گا! عقل مند وہ ہے جواس کے لئے ہمیشہ تیار ہے،اچھے اعمال کر کے اور برے اعمال سے بچ کے اور ہلاکت ہے اس کمزور انسان کے لئے جو اس سے افسوس کے ساتھ ملاقات کرے گا۔رسول اللہﷺ نے فرمایا، الْكَيِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَهُ وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْتِ وَالْعَاجِزُ مَنْ أَتْبَعَ نَفْسَهُ هَوَاهَا وَتَمَنَّى عَلَى اللَّهِ "عقل مند وہ ہے جس نے اپنے نفس کو درست کیا اور موت کے بعد کی تیاری کی اور کمزور وہ ہے جس نے اپنی خواہشات کی پیروی کی اور پھر اللہ سے بے سود دعائیں کیں" (الترمذی:2383)۔ ہلاکت ہے ان کمزوروں کے لئے جو موت کو دیکھنے کے بعد توبہ کی طرف لپکیں گے۔اللہ سبحان وتعالٰی نے فرمایا، وَلَيْسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئَـتِ حَتَّى إِذَا حَضَرَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ إِنِّى تُبْتُ الاٌّنَ وَلاَ الَّذِينَ يَمُوتُونَ وَهُمْ كُفَّارٌ أُوْلَـئِكَ أَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَاباً أَلِيماً "ان کی توبہ (قبول) نہیں جو برائیاں کرتے چلے جائیں یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے پاس موت آ جائے تو کہہ دے کہ میں نے ا ب توبہ کی، اور ان کی توبہ بھی قبول نہیں جو کفر پر ہی مر جائیں،یہی لوگ ہیں جن کے لئے ہم نے المناک عذاب تیار کر رکھا ہے'' (النساء: 18)۔ اور اللہ سبحان وتعالٰی نے فرمایا، حَتَّى إِذَا جَآءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ - لَعَلِّى أَعْمَلُ صَـلِحاً فِيمَا تَرَكْتُ كَلاَّ إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَآئِلُهَا وَمِن وَرَآئِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ ''یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آنے لگتی ہے تو کہتا ہے اے میرے پروردگار!مجھے واپس لوٹا دے۔کہ اپنی چھوڑی ہوئی دنیا میں جا کرنیک اعمال کر لوں، ہرگز ایسا نہیں ہو گا، یہ تو صرف ایک قول ہے جس کا یہ قائل ہے، ان کے پس پشت تو ایک حجاب ہے، ان کے دوبارہ جی اٹھنے کے دن تک'' (المؤمنون: 99-100)۔ ہلاکت ہے اس کمزور کے لئے جس کے لیے لفظ كَلاَّ استعمال کیا گیا جس کا معنی ہے: "نہیں، جو یہ کہتا ہے ہم اس کا جواب نہیں دیں گے اور اس کو قبول نہیں کریں گے"۔ لہٰذا ہم ربیع بن خثام کے متعلق سنتے ہیں جنہوں نے اپنے گھر میں ایک قبر کھود رکھی تھی کہ اگر وہ اپنے دل میں سختی پاتے تو وہ اس میں داخل ہو جاتے اور اس وقت تک لیٹے رہتے جب تک اللہ چاہتا اور بار بار یہ آیات تلاوت کرتے، رَبِّ ارْجِعُونِ - لَعَلِّى أَعْمَلُ صَـلِحاً فِيمَا تَرَكْتُ ''اے میرے رب! مجھے واپس بھیج دے کہ شاید میں اعمال ِ صالح کر سکوں جو میں نے چھوڑ دیے''۔ پھر اپنے آپ کو جواب دیتے، ''اے ربیع! تجھے واپس بھیج دیا گیا ہے لہٰذا عمل کر''۔
برزخ میں ہمارا وقت اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ہمیں روزِ قیامت حساب کتاب کے لیے نہیں بلایا جاتا۔ لہٰذا برزخ میں داخل ہونے کے بعد زندگی کی طرف واپسی نہیں، صرف احتساب کی طرف راستہ ہے۔ مجاہد کہتے ہیں، ''البرزخ اس دنیا اور آخرت کے درمیان ایک حجاب ہے''۔ محمد بن کعب کہتے ہیں، ''البرزخ اس دنیا اور آخرت کے درمیان ہے۔ وہ نہ تو اس دنیا کی طرح کھاتے پیتے لوگ ہیں نہ ہی آخرت کے لوگوں کی طرح سزا یافتہ یا جزاء یافتہ لوگ''۔ لہٰذا یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں ، سزا اور جزاء کے فیصلے سے بچنا توایک طرف، کوئی عمل بھی نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا جب ایک شخص یہ سوال کرتا ہے کہ روزِ حساب کب آئے گا تو ذاتی طور پر اس شخص کے لیے اس کے مرنے کے ساتھ ہی اس کے حساب کتاب کا وقت شروع ہو جاتا ہے۔
لہٰذا عقل مند وہ ہے جو اس حقیقت پر یقین رکھتا ہے اور زندگی کے ہر لمحے میں اس کے لیے کام کرتا ہے۔ اور اللہ اس شخص سے واقف ہے جو ہم میں سب سے زیادہ عقل مند اور بہترین ہے یعنی رسول اللہﷺ کیونکہ وہ ہمیشہ موت کے لیے تیار رہتے تھے۔ ابو بکررضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ آپﷺ سے عرض کیا، ''یا رسول اللہﷺ! آپ کے بال سلیٹی رنگت کے ہو گئے ہیں''۔ آپﷺنے فرمایا، شَيَّبَتْنِي هُودٌ وَالْوَاقِعَةُ وَالْمُرْسَلَاتُ وَعَمَّ يَتَسَاءَلُونَ وَإِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَت ''میرے بالوں کی سلیٹی رنگت کی وجہ (سورۃ) ہوداور واقعہ اور مرسلات اور عم یتسا ء لون اور اذا الشمس کورت ہیں'' (الترمذی: 3219)۔ ابن عمر کے ابن نجار سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ایک شخص کو یہ تلاوت کرتے سنا، إِنَّ لَدَيْنَآ أَنكَالاً وَجَحِيماً ''یقیناََ ہمارے ہاںسخت بیڑیاں ہیں اور سلگتی ہوئی جہنم ہے'' (المزمل: 12) اور آپﷺ یہ سن کر بے ہوش ہو گئے۔ تو صحابہ موت کو اس طرح یاد کرتے تھے۔نبیﷺ نہ صرف خود موت کو یاد کرتے تھے اور اس کے لئے تیار تھے بلکہ انہوں نے ہمیں بھی اس کو یاد کرنے اور اس کی تیاری کرنے کی تلقین کی۔اسی لئے آپﷺ نے قبروں پر جانے اور مُردوں کے لئے دعا کرنے پر زور دیا کیونکہ یہ بہترین یاد دہانی اور بہترین سرزنش ہے۔ابو زر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا، زُورُوا الْقُبُورَ فَإِنَّهَا تُذَكِّرُكُمْ الْآخِرَةَ ''قبروں پر جایا کرو کیونکہ یہ آخرت کی یاد دہانی ہے'' (ابن ماجہ: 1558)۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا، أَكْثِرُوا ذِكْرَ هَاذِمِ اللَّذَّاتِ يَعْنِي الْمَوْتَ ''اس چیز کو کثرت سے یاد کرو جو تمام لذتوں کو ختم کرنے والی ہے'' (الترمذی: 2229)۔
لہٰذا آج ہم سب کو سوچنا اور غور کرنا چاہیے، زندگی کے آرام و سکون کا خاتمہ کرنے والی کے بارے میں اور تیاری کرنی چاہیے۔ ہم محنت کریں اوراللہ سبحان وتعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ایک لمحہ بھی نہ ضائع کریں۔ہم اپنی تمام ذمہ داریوں کو جاننے اور پورا کرنے کے لئے کوشش کریں۔ ہم تمام محرّمات کو جاننے اور ان سے بچنے کی کوشش کریں۔ ہم اپنی ذاتی زندگیوں اور اس امت کی اجتماعی زندگی میں اسلام کو خلافت کے طور پر استوار کرنے کی کوشش کریں جو اسلام کو نافذ کرے گی، اس کی حفاظت کرے گی اور تمام انسانیت کو اس کے نور سے منوّ کردے گی۔
سوال: اللہ آپ کے ہاتھوں مسلمانوں کو فتح یاب کرے اور آپ کے علم سے ہمیں استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
مشہور صحیح احادیث میں سے ایک حدیث وہ ہے جسے جلیل القدر صحابی ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اللہﷺ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ((إِنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَى رَأْسِ كُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يُجَدِّدُ لَهَا دِينَهَا)) "بے شک اللہ ہر سو سالوں میں اس امت میں ایسا شخص بھیجتا ہے جو اس دین کو امت کے لیے زندہ کرتا ہے" (ابوداود 4291 نےروایت کی اور اسخَوی نے المقاصد الحسنة 149 میں اور اللبانی نے السلسلة الصحيحة 599 میں اسے صحیح قرار دیا ہے)۔ سوال یہ ہے کہ حدیث میں مجدد کا جو ذکر ہے یہ ایک فرد کے لیے ہے یا جماعت کے لیے؟ اور کیا یہ ممکن ہے کہ آپ ماضی میں گزرے ہوئے مجددین کی فہرست بیان کردیں؟ (ازطرف ابو مومن حماد)
جواب: وعليكم السلام ورحمۃ الله وبركاتہ
جی ہاں یہ حدیث صحیح ہے اور اس سے منسلک پانچ معاملات ہیں:
1۔ سو سال کا آغاز کس تاریخ سے ہوتا ہے؟ کیا یہ اللہ کے نبیﷺ کی پیدائش سے شروع ہوتا ہے؟ یا نبیﷺ کی بعثت سے ؟ یا ہجرت کے وقت سے یا پھر ان کی وفات سے؟
2۔ کیا ہر سو سال کے آغاز کا مطلب ہر سو سال کا آغازہے یا سو سالوں کے دوران یا سو سالوں کے آخر میں؟
3۔ کیا لفظ 'مَن' کا مطلب ایک فرد کا ہے یا لوگوں میں سے ایک گروہ جو لوگوں کے لیے دین کو زندہ کرے۔
4۔ کیا کسی صحیح ذریعے سے ایسی کوئی خبر ملتی ہے جو پچھلے کئی سو سالوں میں مجددین کی تعداد بتاتی ہو؟
5۔ کیا یہ جاننا ممکن ہے کہ چودھویں صدی ہجری میں جو 30 ذی الحجہ 1399 کو ختم ہوئی کون مجدد تھا جس نے لوگوں کے لیے دین کو زندہ کیا۔
میں مقدور بھر کوشش کرو ں گا کہ ان ممکنات کے متعلق جو مضبوط ترین رائے (راجع قول) ہے بغیر کسی اختلافی نکات میں پڑے بیان کردوں۔ اور میں کہتا ہوں کہ توفیق اللہ کے پاس ہے اور وہی سیدھے راستے کی طرف ہدایت دینے والا ہے ۔
1۔ کس تاریخ سے سو سالوں کا آغاز ہوتا ہے؟
المناوی نے فتح القدیر میں کہا ہے کہ "اور انھوں نے سال کے آغاز کے معاملے میں اختلاف کیا ہے۔کیا یہ آغاز پیدائش نبوی سے ہے یا بعثت سے یا ہجرت سے یا پھر آپ ﷺ کی وفات سے؟ اور میری رائے میں راجع قول یعنی قوی بات یہ ہے کہ اس کو ہجرت سے لینا چاہیے کیونکہ یہ وہ دن ہے جس دن مسلمانوں اور اسلام کو ریاست کے قیام سے عزت اور طاقت عطا کی گئی۔ اور یہی وجہ ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے صحابہ کو سال کےآغاز کے بارے میں جاننے کے لیے اکٹھا کیا تو انھوں نے ہجرت پر ہی انحصار کیا"۔ الطبری نے اپنی طریق میں کہا ہے کہ "عبد الرحمن ابن عبد اللہ بن عبدل الحکم نے مجھ سے کہا ، نعیم بن حماد نے ہم سے کہا کہ الدراوردی نے ہمیں عثمان بن عبید اللہ بن ابی رافع سے بتایا، جس نے کہا کہ میں نے سعید ابن مصعب کو کہتے سنا کہ ، 'عمر بن خطاب نے لوگوں کو اکٹھا کیا اور ان سے پوچھا ، کس دن سے ہم تاریخ لکھیں تو علی رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ اس دن سے جس دن اللہ کے نبی ﷺ نے ہجرت کی اور شرک کی زمین کو چھوڑا"۔ اور ابو جعفر نے کہا "ہجرت کے پہلے سال کا تعین اس سال کے محرم سے ہونا چاہیے جس سال محمد ﷺ نے ہجرت کی یعنی نبی ﷺ کی مدینہ آمد سے دو ماہ اور چند دن قبل سے کیونکہ محمدﷺ 12 ربیع الاول کو مدینہ پہنچے تھے"۔ اس بنیاد پر یہ زیادہ بہتر ہے کہ سو سال کی گنتی ہجرت کی تاریخ سے کی جائے جس کی تبنی صحابہ کرام نے کی۔
2۔ جہاں تک صدی کی شروعات کا تعلق ہے تو راجع قول اختتام ِصدی کا ہے یعنی کہ مجدد ایک ایسا متقی و مشہور عالم ہے جوسو سال کے آخر میں ہو گا اور اس کا انتقال بھی سو سال کے آخر میں ہو گا نہ کہ صدی کے شروع یا وسط میں۔ جہاں تک میرا اس رائےپر بھروسہ کرنے کا تعلق ہے تو اس کی وجہ یہ ہے:
ا) صحیح روایت سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ "عمر بن عبدلعزیز (راس) پہلے سو سالوں کے آغاز میں آئے اور 101 ہجری میں ان کا انتقال ہوا جب ان کی عمر 40 سال تھی۔ جبکہ امام شافعی دوسری صدی ہجری کے آغاز میں آئے اور ان کا انتقال 204 ہجری میں 54 سال کی عمر میں ہوا۔
اب اگر ہم دوسری رائے کو سو سالوں کے آغاز کے بارے میں دیکھیں جو صدی کے آغاز کو ان سو سالوں کے لیے بنیاد بناتی ہے تو پھر عمر بن عبدالعزیز پہلی صدی کے مجدد نہیں ہوں گے کیونکہ آپ کی پیدائش 61 ہجری میں ہوئی۔ اور امام شافعی بھی دوسری صدی ہجری کے مجدد نہیں ہوں گے کیونکہ ان کی پیدائش 150 ہجری میں ہوئی۔ اس کا مطلب ہوا حدیث میں ہر سو سال پر مجدد کی آمد سو سال کے آخر کے بارے میں ہے نہ کہ آغاز کے بارے میں یعنی مجدد صدی کے وسط میں پیدا ہو ، پھر صدی کے آخر کی طرف وہ مشہور عالم ہو اور صدی کے اختتام پر اس کا انتقال ہو۔
ب) جہاں تک اس دلیل کا تعلق ہے جو یہ بتاتی ہے کہ عمر بن عبد العزیز پہلی صدی کے مجدد تھے اور امام شافعی دوسری صدی کے مجدد تھے، جو اس امت کے علما اور اماموں میں مشہور ہے تو ازہری اور امام احمد بن حنبل اورشروع اور بعد کے علما اس بات پر متفق ہیں کہ پہلی صدی ہجری کے مجدد عمر بن عبدالعزیز اور دوسری صدی ہجری کے مجدد امام شافعی ہیں۔ عمر بن عبد العزیز کا انتقال 101 ہجری میں ہوا جب ان کی عمر 40 برس تھی اور ان کی خلافت کی مدت ڈھائی سال تھی جبکہ امام شافعی کا انتقال 204 ہجری میں ہوا جب ان کی عمر 54 برس تھی۔ حافظ ابن حجر نے 'توالی التاسیس' میں بیان کیا ہے کہ "ابو بکر البزار نے کہا کہ میں نے عبد المالک بن عبد الحمید المامونی کو کہتے سنا کہ میں امام احمد بن حنبل کے ساتھ تھا جب امام شافعی کا ذکر ہوا تو میں نے دیکھا کہ امام احمد نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور رسول اللہ سے منقول کیا کہ اللہ تعالی ہر سو سال کے شروع میں ایک ایسے شخص کو چنتا ہے جو ان کو دین سِکھاتا ہے ۔اور انھوں نے کہا کہ عمر بن عبد العزیز پہلی صدی ہجری کے آخر میں تھے اور میں یہ امید کرتا ہو ں کہ دوسری صدی ہجری کے آخر میں وہ امام شافعی تھے"۔
اور ابو سعید الفربابی نے کہا کہ امام احمد نے کہا "بے شک اللہ لوگوں کے لیے ہر سو سال میں ایسے شخص کو چنتا ہے جو ان کو سنت سِکھاتا ہے اور نبیﷺ کی سنت سے جڑے ہوئے جھوٹ کو رد کرتا ہے، تو ہم نے اس کو سمجھا اور جانا کہ پہلی صدی ہجری کے مجدد عمر بن عبدالعزیز تھے جبکہ دوسری صدی ہجری میں امام شافعی تھے۔اور خاتم نے اپنی مستدرک میں ابو الوحید سے روایت کیا کہ "میں ابو العباس بن شریح کی مجلس میں تھا جب ایک شیخ ان کے پاس آئے اور ان کی تعریف کی۔ پھر میں نے ان کو کہتے سنا کہ ابو طاہر الخولانی نے ہم سے کہا اور دوسرا عبد اللہ بن وحب کہ سعید ابن ایوب نے مجھے شوراحیل بن یزید سے بتایا، انھوں نے ابو القامہ سے اور انھوں نے ابو ہریرہ سے بتایا کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ ((إِنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَى رَأْسِ كُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يُجَدِّدُ لَهَا دِينَهَا)) " بے شک اللہ اس امت میں ہر سو سال کے آخر میں ایک ایسا بندہ( مجدد) بھیجتا ہے جو ان کے لیے دین کو زندہ کرتا ہے"۔ تو اے قاضی خوشخبری ہو کہ بے شک اللہ تعالی نے پہلی صدی ہجری کے آخر میں عمر بن عبد العزیز کو بھیجا اور دوسری صدی ہجری کے آخر میں اللہ نے محمد ابن ادریس الشافعی کو بھیجا۔حافظ ابن حجر نے کہا کہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ حدیث اس دور میں مشہور تھی۔
د) یہ کہا جاسکتا ہے کہ کسی چیز کے آغاز کا مطلب لغوی طور پر اس کی ابتدا ہوتی ہے تو پھر ہم یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ قوی رائے میں ہر سو سال کے آغاز سے مطلب سو سال کے آخر ہوتے ہیں، ابتدا نہیں ہوتا؟
اس کا جواب یہ ہے کہ جس طرح 'راس' کا مطلب عربی میں کسی چیز کی ابتدا ہوتی ہے اسی طرح 'راس' کے معنی آخر کے بھی ہیں۔ تاج العروس لغت میں کہا گیا ہے کہ کسی چیز کے راس کا مطلب ہے راس کی انتہا یعنی اس کا آخری حصہ۔ اور لسان العربی لغت میں کہا گیا ہے چھپکلی اپنے راس کے ساتھ بل سے باہر آئی جس کا مطلب یہ ہے کہ سر پہلے باہر آیا یا دُم، یعنی آخری حصےکا پہلا حصہ۔ اس لیے کسی چیز کے راس کا مطلب عربی زبان میں ابتدا ہوسکتا ہے اور اس کا مطلب انتہا بھی ہوسکتاہے چاہے وہ آغاز ہو یا آخر ۔ لہذا ہمیں قرینہ کی ضرورت ہے جو ظاہر کرے کہ یہاں کون سے معنی مطلوب ہیں۔ کیا "سو سال کے راس" کا مطلب آغاز ہے یا آخر؟ اور یہ قرینہ پچھلی روایت میں موجود تھا جس کے مطابق عمر بن عبد العزیز پہلی صدی کے مجدد تھے اور ان کا انتقال 101 ہجری میں ہوا اور امام شافعی دوسری صدی ہجری کے مجدد تھے اور ان کا انتقال 204 ہجری میں ہوا۔ یہ تمام دلائل واضع کرتے ہیں کہ قوی معنی حدیث میں راس کے سو سال کے آخر میں مجدد کے ہیں نہ کہ شروع میں۔لہذا ان دلائل کی بنیاد پر میرے نزدیک مضبوط رائے یہ ہے کہ 'راس' کے معنی ہیں"ہر سو سال میں راس" کا مطلب صدی کے آخری حصے کے ہیں۔
3۔ جہاں تک لفظ 'مَن' کا تعلق ہے کہ یہ ایک فرد کے لیے ہے یا ایک گروہ کے لیے تو حدیث کہتی ہے ((يبعث لهذه الأمة... من يجدد لها دينها)) "اللہ امت میں ایسا شخص بھیجتا ہے جو اس امت کے لیے دین کو زندہ کرتا ہے"۔ اب اگر 'مَن' سے مرادگروہ ہوتا تو فعل جمع کی شکل میں ہوتا جیسے 'یجدونا'، لیکن یہاں فعل واحد کی شکل میں ہے۔ قطع نظر اس کے کہ 'مَن' جمع کے معنی بھی ظاہر کرتا ہے چاہے فعل واحد کی شکل میں ہی کیوں نہ ہو۔ میرے نزدیک یہاں قوی رائے فرد کے معنی ظاہر کرتی ہے کیونکہ قرینہ 'یجدو' واحد کی شکل میں موجود ہے۔ اور میں قوی رائے بیان کر رہا ہوں کیونکہ جو لفظ یہاں استعمال ہوا ہے اس کے معنی قطعی طور پر فرد کے نہیں ہیں چہ جائکہ فعل واحد کی شکل میں ہی کیوں نہ ہو۔ اس وجہ سے کچھ فقہا نے یہاں 'مَن' کے معنی سے گروہ مراد لی ہے اور انھوں نے وہ قول لیے ہیں جو ہر صدی میں علما کے گروہوں کے بارے میں ہے ۔ لیکن یہ رائے پہلی بیان کردہ رائے سے کمزور ہوجاتی ہے جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے۔
آخر میں قوی رائے یہ ہے کہ 'مَن' سے مراد فرد کے ہیں یعنی مجدد، جس کا حدیث میں ذکر ہے یعنی ایک فرد جو متقی اور مشہور عالم ہیں۔
4۔ جہاں تک گزری ہوئی صدیوں میں مجددین کے ناموں کی فہرست کا تعلق ہے تو روایات بتاتی ہیں کہ سب سے مشہور فہرست منظم انداز میں السیوطی کی ہے جو نویں صدی ہجری تک بیان کرتی ہے اور وہ اللہ سے دعاگو ہیں کہ وہ خود نویں صدی ہجری کے مجدد ہوں۔ اب میں ان کا کچھ حصہ بیان کرتا ہوں۔
۔ پہلی صدی ہجری میں عمر تھے، عادل خلیفہ جس پر سب متفق ہیں۔
۔ اور امام شافعی دوسری صدی میں اپنے اونچے علم کی بنیاد پر۔
۔ پانچویں امام غزالی اپنے بحث اور دلائل کی بنیاد پر ۔
۔ ساتویں جو اونچائی تک اونچے ہوئے ابن دقیق العید جس پر سب متفق ہیں۔
۔ اور یہ نویں صدی ہے اور جو ہدایت دیتا ہے وہ وعدہ خلافی نہیں کرتا اور میں امید کرتا ہوں کہ نویں صدی کا مجدد میں ہوں کیونکہ اللہ کا کرم کبھی ختم نہیں ہوتا۔
5۔ اور کیا ہم یہ جان سکتے ہیں کہ کون تھا چودھویں صدی ہجری کا مجدد جو 30 ذی الحجہ 1399 کو اختتام پذیر ہوئی جس نے لوگوں کے لیے دین کو زندہ کیا۔
یہ بات میری توجہ میں آئی جو مشہور اور قابل احترام علما ء کے درمیان موجود ہے جس کے مطابق 'راس' صدی کے آخر میں ہے۔ عمر بن عبدالعزیز 61 ہجری میں پیدا ہوئے اور پہلی صدی ہجری کے آخر میں 101 ہجری میں ان کا انتقال ہوا اور امام شافعی سن 150 ہجری میں پیدا ہوئے اور صدی کے آخر میں 204 ہجری میں ان کا انتقال ہوا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان میں ہر مجدد صدی کے وسط میں پیدا ہوا اور صدی کے آخری دور میں مشہور ہوا۔ اور جیسا کہ میں نے کہا کہ میرے نزدیک مضبوط ترین رائے جو قابل احترام علما ءکے نزدیک مشہور ہے کہ عمر بن عبد العزیز پہلی صدی کے مجدد تھے اور امام شافعی دوسری صدی ہجری کے۔ تو اس بنیاد پر میرے نزدیک قوی رائے یہ ہے کہ عظیم عالم ِدین تقی الدین النبہانی چودھویں صدی کے مجدد تھے۔ ان کی پیدائش 1332 ہجری میں ہوئی اور وہ صدی کے آخر میں مشہور ہوئے خاص کر جب انھوں نے جمادی الثانی 1372 ہجری میں حزب التحریر کی بنیاد رکھی اور ان کا انتقال 1398 ہجری میں ہوا۔ ان کی دعوت مسلمانوں کے اہم ترین مسئلے یعنی خلافت کے قیام کی طرف تھی، اسلامی زندگی کے ازسرنو آغاز کی طرف اور اس دعوت نے مسلمانوں کی زندگیوں پر گہرا اثر ڈالا ۔ اور ان کی دعوت اور اجتہاد کےذریعےخلافت آج مسلمانوں کی آواز بن چکی ہے۔ تو اللہ کا رحم اور مہربانی ہو ابو ابراہیم پر اور اللہ کی مہربانی ہو ان کے بھائی ابو یوسف پر جو ان کے بعد آئے اور اللہ ان کو جنت میں انبیاء، صدیقین، شہدا ءاور صالحین میں اکٹھا کرے اور یہ کیا ہی عظیم صحبت ہے۔
میرے بھائی ابو مومن! یہ وہ ہے جو میں سب سے قوی سمجھتا ہوں اور اللہ سب سے زیادہ با خبر ہے کہ کیا صحیح ہے اور اسی کا ہے جو سب سے بہتر ٹھکانہ ہے۔
آپ کا بھائی،
عطا بن خلیل ابو الرشتہ
حزب التحریر ولایہ پاکستان نےخلافت کے شہریوں کی صحت کو یقینی بنانے کے حوالے سے پالیسی دستاویزجاری کی ہے۔یہ پالیسی اس بات کو یقینی بنائے گی کہ صحت کی سہولیات کی دستیابی معاشرے کی ایک بنیادی ضرورت اورحق ہے اور آنے والی خلافت میں بلا امتیازِ رنگ، نسل، جنس اور مذہب ،یہ حق تمام شہریوں کو حاصل ہوگا۔
پاکستان کی صحت عامہ کی صورتحال انتہائی پریشان کن ہے ۔ قابل علاج مگر خطرناک بیماریاں عام ہیں، مریضوں کی صحت کے حوالے سے تعلیم کی کمی، ناقص طریقہ علاج جو صحت کے اصولوں سے متصادم ہے، صحت عامہ کا کوئی جامع نظام نہ ہونا، ناقص بنیادی کلینیکل تربیت اور بنیادی طبی تحقیق کی غیر موجودگی جو مقامی بیماریوں اور صحت کی ضروریات کی بنیاد پر کی جارہی ہو۔ اس وقت نجی شعبہ 80فیصد بیرونی مریضوں(outpatient) کی دیکھ بحال کرتا ہے۔ صحتِ عامہ کی سہولیات کی فراہمی میں نجی شعبہ کے غلبے نے اِن سہولیات کی فراہمی کوخدمت کی جگہ کاروبار اور بنیادی حق کی بجائے آسائش بنا دیا ہے۔ مسلسل بڑھتی ہوئی نجی ڈاکٹر وںکی فیس، ادوایات اور میڈیکل ٹیسٹ کی قیمتوں نے پاکستان کے عوام کی اکثریت کے لیے ایک آسان اور سستا علاج انتہائی مشکل بنا دیا ہے۔
یہ افسوسناک صورتحال جمہوریت کے سب سے بڑے دعویدار ، اور ہمارے حکمرانوں کے آئیڈل ماڈل ، امریکہ کے نطام سے منسوب ہے۔ امریکہ میں جمہوریت نے مریضوں کو گاہک اور صحت کی سہولت کو ایک آسائش بنا دیا ہے۔ جمہوریت نے صحت عامہ کے شعبے اور ادویات میں تحقیق کو ایک چھوٹے سے اشرافیہ کے طبقے کو فائدہ پہنچانے کے لیے نجی شعبے کے حوالے کردیا ہےاور یوں یہ اقلیتی طبقہ کروڑوں لوگوں کی پریشانیوں سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ نجکاری کی بدولت طبی ادویات اور صحت کی سہولیات نہ صرف دنیا کے بیشتر لوگوں کے لئے بلکہ مغربی دنیاکے کئی لوگوں کے لیے بھی ایک ناقابل حصول شے بن چکی ہیں۔
یہ تکلیف دہ صورتحال خلافت کے دور سے کوسوں دور ہے۔ خلافت میں ریاست رسول اللہ ﷺ کے احکامات کی بنیاد پر ایک مضبوط صحت عامہ کے شعبے کو چلاتی تھی۔ رنگ ،نسل، جنس یا مذہب سے قطع نظر ریاست کے تمام شہریوں کو صحت کی سہولیات کی فراہمی ریاست خلافت پر فرض ہے۔ رعایاکے لیے صحت اور علاج معالجے کی ضروریات کو فراہم کرنا بھی ریاست کے فرائض میں شامل ہے۔ ڈسپنسریاںاورہسپتال وہ سہولیات ہیں جن سے مسلمان ادویات اور علاج معالجے کے سلسلے میں فائدہ اُٹھاتے ہیں ۔
ریاست اپنے عام شہریوں کو ہر قسم کی طبی سہولتیں مفت فراہم کرے گی۔ تاہم ڈاکٹروں کو فیس پر بلوانے یا ادویات کی خرید و فروخت پر پابندی نہیں لگائے گی۔
صحت عامہ کی اس قدر عظیم ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے درکار مالیاتی وسائل کو حاصل کرنے کے لیے ریاست خلافت محاصل کے نظام میں شریعت کے مطابق تبدیلیاں لائے گی اور تعلیمی ترقی کی رفتار کو بھی بڑھائے گی۔ خلافت عوامی اثاثوں جیسے توانائی کے وسائل اور ریاستی اداروں جیسا کہ تعمیراتی کمپنیوں اور بھاری صنعتوں سے وسیع مالیاتی وسائل حاصل کرے گی۔ خلافت صنعتوں پر زکوٰۃ اور زراعت پر خراج نافذ کرے گی اور ظالمانہ انکم ٹیکس اور جنرل سیلز ٹیکس کا خاتمہ کرے گی جنھوں نے معاشی سرگرمیوں کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔
نوٹ :اس پالیسی اوراس سے متعلق ریاست خلافت کے دستور کی دفعات کے تفصیلی دلائل جاننے کے لیے اس ویب سائٹ لنک کو دیکھیے۔
http://htmediapak.page.tl/policy-matters.htm
خبر: پاکستان پیپلز پارٹی کے پیٹرن انچیف بلاول بھٹو زرداری نے 15 فروری 2014، بروز ہفتہ ، طالبان کو بھر پور تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ وہ ملک کو"پتھر کے دور" میں لے جانا چاہتے ہیں۔ اس نے کہا کہ "طالبان ملک میں دہشت گردی کا قانون رائج کرنا چاہتے ہیں لیکن میں انھیں بتادینا چاہتا ہوں کہ اگر تم نے پاکستان میں رہنا ہے تو اس کے آئین کی پیروی کرنا ہوگی"۔
تبصرہ: جب سے راحیل-نواز حکومت اور تحریک طالبان پاکستان کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہوا ہے میڈیا میں ایک زبردست بحث شروع ہو گئی ہے کہ آیا پاکستان کا آئین اسلامی ہے یا غیر اسلامی۔ حکومت نے بڑے بڑے علماء سے رابطے کئے اور ان سے فتوے حاصل کئے کہ 1973 کا آئین ایک اسلامی آئین ہے۔ اسی طرح تقریباً ہر اس سیاسی جماعت ، جو اسلام کی دعوت کی علمبرادر ہے، نے بھی اس آئین کو اسلامی آئین قرار دیا بلکہ وہ اس سے ایک قدم آگے بڑھ گئے اور یہ کہا کہ پاکستان میں شریعت نافذ ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کا موجودہ آئین 1935 کے ایکٹ آف انڈیا اور 1947 کے آزادی ایکٹ کا ہی تسلسل ہے۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی اس وقت کی آئین ساز اسمبلی میں یہ بحث شروع ہوگئی تھی کہ کس طرح اس آئین کو اسلامی آئین بنایا جائے۔ اس بحث کے نتیجے میں "قرارداد مقاصد" تشکیل پائی جس کو آئین کا مستقل حصہ بنا دیا گیا۔ اس قرارداد میں یہ کہا گیا کہ اقتدار اعلٰی صرف اللہ ہی کے لیے ہے لیکن اگلے ہی جملے میں قانون سازی کا اختیار پارلیمنٹ کو دے دیا گیا۔ لہٰذا یہ آئین انسانوں کو اپنی خواہشات کے مطابق قانون سازی کا اختیار دیتا ہے نہ کہ یہ آئین اللہ سبحانہ و تعالٰی کے اوامر و نواہی کو قوانین کا ماخذ قرار دیتا ہے۔ موجودہ آئین جمہوری آئین ہے یہ اسلام اور اس کی ریاست خلافت کا آئین نہیں ہے۔
اس بات کو جانتے ہوئے کہ پاکستان کے مسلمان اپنے آباؤ اجداد کے خواب کی تکمیل یعنی اسلام کا نفاذ چاہتے ہیں، ہر حکومت نے اس حوالے سے محض زبانی جمع خرچ ہی کیا ۔ 1973 کے آئین میں (1)227 شق ڈالی گئی کہ کوئی بھی قانون شریعت کے منافی نہیں بنایا جائے گا جبکہ کہا یہ جانا چاہیے تھا کہ قرآن و سنت کے سوا کہیں سے بھی کوئی قانون نہیں لیا جائے گا۔ آئین کی شق228 کے تحت اسلامی نظریاتی کونسل قائم کی گئی جس کا کام قوانین کو اسلامی بنانے کے لئے پارلیمنٹ کو تجاویز دینا ہے۔ اس کونسل کی تجاویز پر عمل کرنا پارلیمنٹ کے لئے لازمی نہیں ہے ، یہی وجہ ہے کہ اپنے قیام سے لے کر یہ کونسل اب تک چھ ہزار سے زائد تجاویز دے چکی ہے لیکن کسی ایک کو بھی پارلیمنٹ نے منظور نہیں کیا۔ اسی طرح آئین کی شق (1)D203 کے تحت وفاقی شرعی عدالت قائم کی گئی لیکن یہ عدالت آئینی مقدمات کو سن ہی نہیں سکتی اور اس کے فیصلوں کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔ وفاقی شرعی عدالت کا قیام ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ باقی عدالتیں غیر شرعی ہیں۔
پاکستان کے عوام اب یہ جانتے ہیں کہ موجودہ آئین اور اس کے تحت قائم یہ پورا نظام غیر اسلامی ہے۔ وہ یہ اس لئے جانتے ہیں ہیں کیونکہ اس آئینی جمہوریت کے تحت سود حلال ہے، دولت کے ارتکاز میں اضافہ ہورہا ہے، عریانی و فحاشی کو فروغ دیا جارہا ہے، عدالتوں میں سالوں بلکہ دہائیوں تک مقدمات چلتے رہتے ہیں اور پھر بھی انصاف نہیں ملتا، غریبوں پر ٹیکسوں کی بھرمار کر کے ان کی کمر توڑ دی گئی ہے ، امت کے اثاثوں کو نجی ملکیت میں دیا جارہا ہے، جان اور مال کا کوئی تحفظ نہیں اور کافر حربی ممالک کو اس بات کی اجازت ہے کہ وہ فوجی اڈے، سفارت خانے، انٹیلی جنس دفاتر قائم کریں اور اپنی سازشوں کو عملی جامع پہنائیں۔
اس صورتحال میں امت صرف اور صرف اسلام کو ہی اپنا نجات دہندہ سمجھتی ہے اور اسلام کے قیام کی خواہش دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے۔ یہ کفار اور ان کے ایجنٹوں کا دھوکہ ہے کہ اگر آپ کے پاس پارلیمنٹ میں اکثریت ہے تو سینکڑوں آئینی دفعات اور ہزاروں قوانین کو ایک ایک کر کے اسلامی بنالیں۔ وقت کی ضرورت ایک انقلابی تبدیلی ہے ۔ لہٰذا جمہوریت اور اس کے آئین کی منسوخی اور اسلام کا مکمل اور فوری نفاذ انتہائی ضروری ہے۔ اور ایسا صرف ریاست خلافت کے قیام کے ذریعے سے ہی ہوگا۔
حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے لکھا گیا
شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان
تحریر: مصعب عمیر، پاکستان
یقیناً دنیا مؤمن کے لئے قید خانہ ہے کیونکہ جب وہ جنت کو اس کی تمام تر آسائشوں کے ساتھ دیکھتا ہے تو وہ محسوس کرتا ہے کہ یہ دنیا اپنی تمام تر محدود آرائشوں اور ختم ہو جانے والی لذتوں کے ساتھ ایک قید خانے کی طرح حقیر ہے۔ اور یقیناً جب کافر جہنم کا سامنا ایک ہمیشہ کی قیام گاہ، ناقابل تسخیر اسیری، شدید سزا اور ایسی تکلیف جس سے کبھی نجات نہیں ملے گی تو وہ سوچے گا کہ اس کی دنیاوی زندگی اپنی تمام مشکلات، آزمائشوں اور امتحانات کے باوجود بھی جنت تھی۔ لہٰذا وہ دن جب ہمیں اٹھایا جائے گا اور فیصلے کے لئے پیش کیا جائے گا، یہ سب وہ معاملات ہیں جن پر اگر ایسے غور کیا جائے جیسے ان کا حق ہے تو یہ روح کو لرزا دیتے ہیں اور آنسو جاری ہو جاتے ہیں۔رسول اللہﷺ نے کہا: لَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ لَضَحِكْتُمْ قَلِيلًا وَلبَكَيْتُمْ كَثِيرًا "اگر تمہیں وہ پتہ چل جائے جومجھے معلوم ہے تو تم ہنستے کم اور روتے زیادہ" (بخاری: 986)۔
کیا سخت امتحان ہوگا۔ فیصلوں کے فیصلے کے وقت صور کی دوسری پھونک ہم سب کو اپنی قبروں سے جگا دے گی۔ اس روز تمام جاندار انسان، جن اور جانور جمع کیے جائیں گے اور وہ پسینے میں شرابور ہوں گے جب چھپنے کے لئے کوئی ٹھکانا نہ ہوگا۔ سزا کی شدت اور اس کے خوف سے لوگ پسینے میں بھیگے ہوئے ہونگے جس کی وضاحت رسول اللہﷺ نے اس طرح سے کی: يَعْرَقُ النَّاسُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَتَّى يَذْهَبَ عَرَقُهُمْ فِي الْأَرْضِ سَبْعِينَ ذِرَاعًا وَيُلْجِمُهُمْ حَتَّى يَبْلُغَ آذَانَهُمْ "قیامت کے روز لوگوں کا پسینہ اس طرح چھوٹے گا کہ وہ زمین میں ستر ہاتھوں کی گہرائی تک چلا جائے گا۔ یہاں تک کہ وہ ان کے کانوں تک پہنچ جائے گا" (بخاری: 6051)۔
یہ دن 50 ہزار سالوں کا ہوگا جس میں ہر شخص سے سوالات کئے جائیں گے۔ وہ دن جسے اللہ سے بے خوف لوگ خود سے بہت دور دیکھتے ہیں لیکن اللہ اسے قریب دیکھتا ہے۔ اللہ تعالی اپنی کتاب، جو کہ معمولی غلطی سے بھی پاک ہے، میں فرماتے ہیں: تَعْرُجُ الْمَلَـئِكَةُ وَالرُّوحُ إِلَيْهِ فِى يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ - فَاصْبِرْ صَبْراً جَمِيلاً - إِنَّهُمْ يَرَوْنَهُ بَعِيداً - وَنَرَاهُ قَرِيباً "جس کی طرف فرشتے اور روح چڑھتے ہیں ایک دن میں، جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہے۔ پس تو اچھی طرح صبر کر۔ بیشک یہ اس (عذاب) کو دور سمجھ رہے ہیں۔ اور ہم اسے قریب دیکھتے ہیں" (سورة المعارج: 4-7)۔
کوئی بہانہ نہیں چلے گا اور ہر چیز کی جانچ کی جائے گی چاہے چھوٹی ہو یا بڑی۔ پھر میزان لگایا جائے گا جس میں ہر شخص کے اچھے اور برے اعمال کا وزن ہوگا۔ اور جب جہنم ہمارے سامنے ہوگی تو ہم سب تمنا کریں گے کہ کاش ہم اس سے زیادہ جدوجہد کرتے جتنی ہم نے کی تاکہ سزا سے محفوظ رہتے۔رسول اللہﷺنے فرمایا: مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا سَيُكَلِّمُهُ اللَّهُ لَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ تُرْجُمَانٌ فَيَنْظُرُ أَيْمَنَ مِنْهُ فَلَا يَرَى إِلَّا مَا قَدَّمَ وَيَنْظُرُ أَشْأَمَ مِنْهُ فَلَا يَرَى إِلَّا مَا قَدَّمَ وَيَنْظُرُ بَيْنَ يَدَيْهِ فَلَا يَرَى إِلَّا النَّارَ تِلْقَاءَ وَجْهِهِ فَاتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ "قیامت کے دن تم میں سے کسی کے پاس بھی اپنے اور اللہ کے بیچ کوئی ترجمان نہ ہوگا، وہ اپنے دائیں دیکھے گا تو کچھ نہیں پائے گا لیکن وہ جو اس نے کمایا، اور اگر وہ اپنے بائیں دیکھے گا تو وہ کچھ نہیں دیکھے گا سوائے اس کے جو اس نے کمایا۔ پھر اپنے آگے دیکھے گا وہ آگ کے سوا کچھ نہیں پائے گا۔ تو تم میں سے ہر کوئی اپنے آپ کو آگ سے بچائے خواہ یہ آدھی کھجور کے صدقے سے ہی کیوں نہ ہو " (صحیح مسلم: 1688)۔
جہنم سرکشوں کے لئے گھات لگائے بیٹھی ہے۔ ایسی ہے جہنم جس کے بارے میں ہمیں ڈرنا چاہئے۔ اس دن جب کسی ملامت کرنے والے کی آہ وزاری نہیں سنی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: وَأَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ إِذْ قُضِىَ الاٌّمْرُ وَهُمْ فِى غَفْلَةٍ وَهُمْ لاَ يُؤْمِنُونَ "اور ان کو حسرت و افسوس کے دن سے ڈراؤ، جب فیصلہ ہو چکا ہوگا اور (ابھی) وہ غفلت میں پڑے ہوتے ہیں اور ایمان نہیں لاتے" (سورة مریم: 39)۔
آخر میں ایک راستے سے گزرنا ہے جسے پل صراط بھی کہتے ہیں۔ یہ آگ کے اوپر ایک پل ہے جس سے ہر شخص کو گزرنا ہے۔ گناہ گاروں کے لئے یہ پل بال کی طرح باریک اور تیز ترین تلوار کی طرح ہے۔ گناہ گار آگ میں گر جائیں گے اور اپنی آخری قیام گاہ 'جہنم ' پہنچ جائیں گے۔ اور جو اس میں گر جائیں گے وہ آگ میں جلیں گے اور جہنم کی سب سے نرم سزا بھی اس دنیا کی شدید سے شدید مصیبت سے بڑھ کر ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: إِنَّ أَهْوَنَ أَهْلِ النَّارِ عَذَابًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ رَجُلٌ عَلَى أَخْمَصِ قَدَمَيْهِ جَمْرَتَانِ يَغْلِي مِنْهُمَا دِمَاغُهُ "قیامت کے دن جہنم کے لوگوں میں سے جس شخص کو سب سے معمولی آگ کا عذاب ہوگا وہ وہ شخص ہوگا جس کے پاؤں کے نیچے دو دہکتے ہوئے انگارے رکھے جائیں گے جس سے اس کا دماغ اُبل رہا ہوگا " (بخاری: 1699)۔
اے اللہ! رحمان اور رحیم! ہمیں آخرت کے عذاب سے بچا جو تو نے نا فرمان اور کفر کرنے والوں کے لئے تیار کر رکھا ہے۔ جب ہم آپ کی یاد دہانیاں پڑھتے ہیں تو ہماری آنکھیں خوف سے پھٹ جاتی اور آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں !
كَلاَّ بَلْ رَانَ عَلَى قُلُوبِهِمْ مَّا كَانُواْ يَكْسِبُونَ ـــ كَلاَّ إِنَّهُمْ عَن رَّبِّهِمْ يَوْمَئِذٍ لَّمَحْجُوبُونَ ـــ ثُمَّ إِنَّهُمْ لَصَالُواْ الْجَحِيمِ ـــ ثُمَّ يُقَالُ هَـذَا الَّذِى كُنتُمْ بِهِ تُكَذِّبُونَ
"کوئی نہیں! بلکہ ان کے دلوں پر زنگ بیٹھ گیا ہے ان کے اعمال کا - بیشک یہ لوگ اس روز اپنے رب کے دیدار سے محروم رہیں گے - پھر یہ لوگ دوزخ میں چلے جائیں گے - پھر ان سے کہا جائے گا یہ وہی ہے جس کو تم جھٹلاتے تھے" (سورۃ المتففین: 14-17) ۔
إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ بِـَايَـتِنَا سَوْفَ نُصْلِيهِمْ نَاراً كُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُودُهُمْ بَدَّلْنَـهُمْ جُلُوداً غَيْرَهَا لِيَذُوقُواْ الْعَذَابَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَزِيزاً حَكِيماً
"جن لوگوں نے ہماری آیات کا انکار کیا ہم یقینا انہیں دوزخ میں جھونک دیں گے۔ جب بھی ان کے جسموں کی کھال گل جائے گی تو ہم دوسری کھال بدل دیں گے تاکہ عذاب کا مزا چکھتے رہیں۔ بے شک اللہ تعالیٰ زبردست اور حکمت والا ہے'' (سورة النساء: 56)۔
ھٰذٰنِ خَصْمٰنِ اخْتَصَمُوْا فِيْ رَبِّهِمْ فَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا قُطِّعَتْ لَهُمْ ثِيَابٌ مِّنْ نَّارٍ يُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُءُوْسِهِمُ الْحَمِيْمُ ـــ يُصْهَرُ بِهٖ مَا فِيْ بُطُوْنِهِمْ وَالْجُلُوْدُ
"یہ دو فریق ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار کے بارے میں جھگڑا کیا ان میں سے جنہوں نے کفر کیا ان کے لئے آگ کے کپڑے کاٹے جائیں گے اور ان کے سروں پر اوپر سے کھولتا پانی ڈالا جائے گا۔جس سے ان کی کھالیں گل جائیں گی اور وہ کچھ بھی جو ان کے بطنوں میں ہے'' (سورةالحج: 19-20) ۔
وَتَرَى الْمُجْرِمِيْنَ يَوْمَىِٕذٍ مُّقَرَّنِيْنَ فِي الْاَصْفَادِ ــ سَرَابِيْلُهُمْ مِّنْ قَطِرَانٍ وَّتَغْشٰى وُجُوْهَهُمُ النَّارُ
''اور تم دیکھو گے اس دن گناہ گار لوگ زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہوں گے۔ ان کے کُرتے گندھک کے ہونگے اور ان کے چہروں کو آگ لپیٹ رہی ہوگی'' (سورة ابراہیم: 49-50)۔
وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِيْنُهٗ فَاُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَهُمْ فِيْ جَهَنَّمَ خٰلِدُوْنَ ـــ تَلْفَحُ وُجُوْهَهُمُ النَّارُ وَهُمْ فِيْهَا كٰلِحُوْنَ
''اور جس کا نیکی کا پلّہ ہلکا ہوگا تو یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنا نقصان کیا، وہ ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے۔ آگ ان کے منہ کو جھلسا دے گی اور ان کے منہ بگڑے ہوں گے'' (سورة المؤمنون: 103-104) ۔
يَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوْهُهُمْ فِي النَّارِ يَقُوْلُوْنَ يٰلَيْتَنَآ اَطَعْنَا اللّٰهَ وَاَطَعْنَا الرَّسُوْلَا ـــ وَقَالُوْا رَبَّنَآ اِنَّآ اَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاۗءَنَا فَاَضَلُّوْنَا السَّبِيْلَا ـــ رَبَّنَآ اٰتِهِمْ ضِعْفَيْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَالْعَنْهُمْ لَعْنًا كَبِيْرًا
''جس روز ان کے چہرے آگ میں الٹ پلٹ کئے جائیں گے وہ کہیں گے کاش ہم اللہ کے فرمانبرداری کرتے اور رسول کی اطاعت کرتے۔ اور وہ یہ بھی کہیں گے کہ ہم نے اپنے سرداروں اور بڑے لوگوں کا کہا مانا تو انہوں نے ہم کو سیدھے راستے سے گمراہ کر دیا۔ اے ہمارے رب! تو انہیں دگنا عذاب دے اور ان پر بڑی لعنت کر'' (سورة الاحزاب: 66-68) ۔
اے اللہ ، الجبار، العزیز! تو ہمیں اپنی اطاعت میں جدوجہد کرنے والا بنا، کہ ہم تیرے اوامر کو مضبوطی سے تھامنے والے ہوں اور ان چیزوں سے سختی سے اجتناب کریں جن کو تو نے منع فرمایا۔ ہم کبھی بھی اس دنیا میں تیرے دین کے قیام کی فرضیت سے دست بردار ہونے والے نہ ہوں بلکہ اس کے لئے ایسی جدوجہد کریں کہ جیسا کہ اس کا حق ہےاور ہم اس دین کو ریاست خلافت کی شکل میں سرداری و سربلندی کے مقام پر پہنچا دیں۔
سوال: ترک وزیر اعظم اردگان نے 25 دسمبر 2013 کو نئی حکومت کی تشکیل کااعلان کردیا، جس میں دس وزراء کوتبدیل کیا ہے، جبکہ تین وزراء نے استعفے دیدئے ہیں، ان میں وزیر ماحولیات بھی شامل ہیں جنھوں نے اردگان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔ یہ سب کچھ ترک حکومت کی مالی اور سیاسی کرپشن کے سکینڈل کے پس منظر میں پیش آیا جس نے پچھلے دس دنوں سے حکومت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس سے پہلے 20 دسمبر 2013 کو ان 49 لوگوں میں سے 24 کو گرفتار کر لیا گیا تھا، جو حکومت اور اس کی پارٹی کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے، جن کو 17 دسمبر 2013 کو کرپشن کے الزام میں تفتیشی اداروں نے طلب کیا تھا.....اس کے بعد وزیراعظم نے ان لوگوں کے خلاف سخت ایکشن لیا جو ان کی گرفتاری اور ان کی کرپشن کو بے نقاب کرنے کا باعث بنے تھے۔ وزیراعظم نے دسیوں سکیورٹی افسران کو بھی معطل کیا جن پر فتح اللہ گولن تحریک میں سے ہونے کاشبہ تھا اوراس پارٹی پر خوب غصہ نکالا گیا اور اس کے ساتھ ساتھ ترک وزیراعظم نے ترکی میں امریکی سفیر کوبھی تنقید کانشانہ بنایا۔ سوال یہ ہے کہ کن حالات کی بنا پر اردگان اور فتح اللہ پارٹی کے درمیان تعاون اور حمایت کے تعلقات باہمی مخاصمت میں تبدیل ہوئے؟ امید ہے کہ حتی الامکان اس کی تفصیل سے آگاہ کردیں گے، کیونکہ مذکورہ پارٹی کے ساتھ اردگان کے حالیہ برتاؤ کے بعد اس حوالے سے ہمارے اندر اُلجھن پیداہوئی ہے۔ نیز یہ کہ امریکی سفیر کے بارے میں اردگان کے بیان کا کیا مطلب ہے؟ باوجودیکہ امریکہ کے ساتھ اردگان کے اس حد تک مضبوط تعلقات رہے ہیں کہ اسے ترکی میں امریکہ کا آدمی کہا جاتا ہے۔
جواب : موجودہ صورتحال کی تمہید بننے والے عوامل اور اس پرمرتب ہونے والے نتائج کو سامنے لایا جائے تو مذکورہ بالا سوال کا جواب واضح ہو جاتا ہے۔
1۔ تفتیش کے اعلان اورگرفتاریوں نے حکومت، اس کی پارٹی اورپارٹی صدر اردگان کو اس لئےاشتعال دلایا کہ یہ صرف حکومتی ارکان اوراس کی برسر اقتدار پارٹی کے خلاف تھا۔ ان میں حکومتی وزیروں کے چار بیٹے، استنبول کے علاقے الفاتح کا میئر اور سٹیٹ بینک کا CEO بھی شامل تھے۔ اسی طرح ان میں حکومت کے قریبی بزنس مین بھی شامل تھے۔ دوسری طرف ترکی میں تین مہینے بعد 30 مارچ 2014 کو انتخابات بھی ہونے والے ہیں، جس میں اردگان دوبارہ صدر بننے کے لئے اپنی عوامی مقبولیت میں اضافے کا خواہشمند ہے۔ صدارتی انتخابات مقامی انتخابات کے چند مہینوں بعد 26 اگست 2014 کو منعقد ہونے والے ہیں۔ صدارتی انتخابات میں عوام بلاواسطہ ووٹ استعمال کریں گے جبکہ اس سے پہلے ایسا نہیں ہوتا تھا کیونکہ صدر کا انتخاب پارلیمنٹ کیا کرتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اردگان نے نہایت سخت رد عمل دکھایا چنانچہ اس نے فتح اللہ گولن تحریک کے پیروکار سکیورٹی افسران کو تبدیل کیا اور انھیں عدلیہ کی مدد سے سبق سکھانے کی دھمکی دی جیسا کہ اخبار ملیات میں 18 دسمبر 2013 کو یہ رپورٹ شائع کی گئی کہ ".....لیکن عدلیہ کے میدان میں کام کرنے والوں کو حقوق اور قانون کا احترام کرنا ضروری ہے، انھیں کسی مخصوص گروہ کی ہدایت کے مطابق کام نہیں کرنا چاہیے کیونکہ عدلیہ میں کام کرنے والے کسی شخص کو یہ حق نہیں کہ وہ انتظامیہ پر دباؤ ڈالے یا ایسی ہدایات و احکامات دے جو وہ نہیں دے سکتا۔ اگر تم عدلیہ کو لوگوں پر دباؤ ڈالنے کیلئے استعمال کرو گے تو ہم بھی اپنی ذمہ داری پورا کر کے رہیں گے اورہم نے کر کے دکھایا"، اس کااشارہ سکیورٹی افسران کی معطلی کی طرف تھا۔ گولن تحریک کے مقابلے میں اپنے مؤقف کے حق میں ہمدردی حاصل کرنے کے پیش نظر اس نے کھل کر بیرونی مداخلت کا اشارہ دیا، اس نے کہا "آخری دنوں میں جو کچھ ہوا وہ ایک بین الاقوامی مداخلت ہے اور یہ بیرونی احکامات پر اندرونی کارندوں کی ایک کاروائی تھی " جیسا کہ اسی اخبار میں آیا.....پھر اس کے بعد ہی 20 دسمبر 2013 کو جب کہ وہ اپنے حق میں رائے عامہ کے حصول کے سلسلے میں اپنے دورے پر تھا اور سامسون میں قیام کر رہا تھا تو اس نے کہا کہ "سفیربعض سازشی سرگرمیوں میں ملوث ہے، میں اس سے کہتا ہوں کہ اپنا کام کرو، اگر تم اپنے دائرے سے باہر قدم رکھو گے تو ہماری حکومت اس حد تک جائے گی جتنی کہ اس کے پاس صلاحیت ہوگی".....(ملیات 17 دسمبر 2013)، اس کا اشارہ امریکی سفیر ریچارڈونی کی طرف تھا۔ اردگان بعض ترک اخبارات The Star, The New Twilight ,The Evening میں شائع ہونے والی خبر پرتبصرہ کر رہا تھا جبکہ انقرہ میں امریکی سفیر نے 17 دسمبر 2013 کو بعض یورپی نمائندوں کے ساتھ ملاقات بھی کی.....اور یہ رپورٹ اس بات کا اشارہ دے رہی تھی کہ ان واقعات میں امریکی سفیر ملوث ہے، اس لئے اردگان گولن پارٹی کے بارے میں غیظ و غضب سے بھر پور بیانات دیتا رہا اور امریکی سفیر کو نہایت محتاط رہنے کے لئے متنبہ کرتا رہا۔
2۔ جہاں تک گولن تحریک کاتعلق ہے تو مشہور یہ ہے کہ جب سے اردگان اور اس کی پارٹی نے 2002 سے اقتدار سنبھالا ہے، گولن نے ان کی پشت پناہی کی۔ حکومت نے کئی اداروں میں اس کو سرائیت کرنے کی اجازت دی، اس پر مستزاد یہ کہ یہ پارٹی بڑی تعدادمیں پرائیویٹ ٹیوشن مراکز کی دیکھ بھال کرتی تھی جن کے ذریعے طالب علموں کی ٹیوشن سے پارٹی کیلئے فنڈ اکٹھے کئے جاتے تھے، ساتھ ہی پارٹی کے ساتھ کام کرنے کیلئے انہی طالبعلموں کو تیار کیا جاتا تھا اور یہ سب کچھ اعلانیہ ہوا کرتا تھا اور اردگان کو ان سے کسی قسم کا خطرہ نہیں تھا، بالخصوص جبکہ یہ پارٹی اپنی سرشت میں پیری ومریدی کی ایک شکل ہے۔ بالفاظ دیگر یہ کوئی سیاسی تنظیم نہیں جس کا کوئی سیاسی ایجنڈا ہو جس کو نافذ کرنے کیلئے وہ حکومت کے ساتھ مزاحمت کرے۔ اس لئے اردگان ان کو کوئی خاص توجہ نہیں دیتا تھا اور خاص کر یہ پارٹی اردگان کے مثل امریکہ کا دست و بازو ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ان دونوں کے کردار اور اسالیب مختلف ہیں.....ان دونوں نے اداروں پر تسلط اور برطانیہ کے وفادار قومی ڈھانچے کو توڑنے میں کردار ادا کیا۔ اسی تحریک کے ذریعے امریکہ کو اداروں پر اثر انداز ہونے کا موقع ملا۔ اسی طرح امریکہ کو اردگان اور اس کی پارٹی کے واسطے فوج اور سیاست کے مراکز میں سرائیت کا موقع ملا، یوں یہ دونوں گروپ اور پارٹی ترکی میں امریکہ کے دو بازو ہیں اور ان کی آپس میں دوستی اور تعاون اور ایک ہی مرکز کے ساتھ وفاشعاری کا تعلق رہاہے۔ یہاں یہ بات بھی مد نظر رہے، کہ امریکہ اردگان حکومت کے اوائل میں ترکی میں اپنے آدمیوں کی ایک متحد اور مضبوط پارٹی بنانے کا خواہش مندتھا کیونکہ ان دنوں برطانوی قوتوں کی عدلیہ اور فوج کے اندر مؤثر قوت موجود تھی جو امریکہ کے لئے تشویش کا باعث تھی.....ان عوامل کی بنا پر امریکہ کو یہ خواہش ہوئی کہ اردگان اور اس کی پارٹی اور فتح اللہ گولن تحریک کے درمیان بغیر کسی کشیدگی کے صاف ستھرے تعلقات قائم ہوں۔ یہ حالات 2010 کے اوائل تک برابر جاری رہے۔ اس سال کچھ ایسے حوادث پیش آئے جس میں اردگان اور فتح اللہ گولن کے درمیان اختلافات کے بیج بوئے گئے۔ سب سے پہلے فتح اللہ گولن نے مرمرہ کشتی (Marmara Flotilla) کے بارے میں خط بھیجا، جس پر یہودیوں نے 31 مئی 2010 کو جارحیت کی تھی، گولن نے اپنے خط میں واضح کیا: "کشتی کو اسرائیلی پانیوں میں روانہ کرنا زبردست غلطی تھی، سب سے پہلے تل ابیب سے اس کی اجازت حاصل کرنا ضروری تھا"۔ اس خط میں اس نے کشتی بھیجنے کے فیصلے کو غلط قرار دیا اور یہودی وجود کے عمل اور ان کی جانب سے کشتی میں سوار ترکوں کو قتل کرنے میں اسرائیل کو حق بجانب قرار دیا، جبکہ اردگان کشتی اور اس میں سفر کرنے والوں کے ساتھ کھڑا تھا لہٰذا اردگان نے فتح اللہ کے خط کو شخصی تنقید سمجھا۔ اس سب کے باوجود دونوں نے معاملے کو رفع دفع کر دیا اور ان کے درمیان تعلقات دوستانہ نہج پر آگئے۔ 12 ستمبر 2010 کو اردگان نے دستوری ترامیم پر ریفرنڈم کی دعوت دی جس کی فتح اللہ نے حمایت کی۔ اس ریفرنڈم (استصواب رائے) میں "ہاں" کے پلڑے میں وزن ڈالنے میں فتح اللہ کا اثر تھا۔ گولن نے ریفرنڈم سے چند ہفتے قبل امریکہ میں اپنے ہیڈ کوارٹر سے ترک قوم کو دستوری ترامیم پر اتفاق رائے کی دعوت دیتے ہوئے کھل کر کہا: "یہ ترامیم اگرچہ محدود ہیں مگر ان پر بعد میں اثرات مرتب ہوں گے اوریہ مزید آزادیوں اور جمہوری مشق کیلئے ایک تحریک ہوں گی"۔ اردگان اس ریفرنڈم میں کامیاب ہوا، جہاں ان ترامیم پر 58٪کی نسبت سےاتفاق رائے حاصل ہوا اور برسر اقتدار پارٹی نے اپنے ہیڈ کوارٹر کے سامنے ایک بڑے جلسے کاانتظام کیا۔
اس اتفاق رائے پر اداروں میں بڑی تبدیلی مرتب ہوئی، جس کی وجہ سے ان آسامیوں پر بحالی عمل میں لائی گئی جن کو قوم پرستوں سے خالی کر کے پارٹی کے لوگوں کو ان پر مقرر کیا گیا۔ اس طرح عدلیہ کی سپریم کونسل اور پبلک پراسیکیوٹرز میں بھی تبدیلیاں ہوئیں اور روزگار کے نئے مواقع پیداکئے گئے۔ یہ سب کچھ گولن تحریک کے مفاد میں کیا گیا جس کی وجہ سے اس کو ان با اثر اداروں میں اثر و رسوخ حاصل ہوا، یوں تحریک نے سپریم جوڈیشل کونسل اور پبلک پراسیکیوٹر کے ماتحت اہم اور سپیشل عدالتوں پر تسلط حاصل کرلیا۔
3۔ اس کے بعد 2011 کے شروع ہوتے ہی ان کے درمیان دوبارہ بحران پیدا ہوا، جب اردگان نے دیکھا کہ سکیورٹی اور عدلیہ کے اندر تحریک کااثر و نفوذ اس کیلئے پریشانی اور تکلیف کاباعث ہو رہا ہے، اور تحریک غلبہ و تسلط حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے.....اب پہلے کی طرح تحریک کا رویہ تعاون کا نہیں رہا تھا اور اردگان اور گولن تحریک کے درمیان اب عمل اور رد عمل کا تبادلہ ہونے لگا۔
ا۔ 2011 کے آغاز سے اردگان نے اس تحریک کا اثر ختم کرنے پر کام شروع کیا، چنانچہ 2011 کے الیکشن میں پارلیمنٹ کی ممبرشپ کیلئے امیدواروں کی فہرست سے اس تحریک سے وابستہ لوگوں کی چھانٹی کی، پھر سکیورٹی اور بعض عدالتوں سے اس تحریک سے وابستہ اشخاص کو معزول کردیا۔
ب۔ اس عمل کے ردعمل میں اس تحریک کے ذرائع ابلاغ نے اردگان پر یورش کر دی۔ نہ صرف یہ بلکہ تحریک نے نیشنل انٹیلی جنس اداروں کے سربراہ خاقان فیدان کی گفتگو کا پروپیگنڈا شروع کیا جو اس نے کردستان کی لیبرپارٹی Öcalan's PKK کی قیادتوں کے ساتھ 2009-2010 میں اوسلو میں کی تھی اور جس کی کیسٹ ستمبر 2011 میں نشر کی گئی تھی۔ گفتگو کا موضوع کرد مسئلے کا تصفیہ تھا۔ اس زمانے میں اس بات چیت کو خفیہ رکھا گیا تاکہ اس کا اعلان ہونے سے پہلے فضا کو ساز گار بنایا جا سکے .....اس تحریک کی طرف اعتراض کی انگلیاں اٹھائی جانے لگیں کہ اس کیسٹ کو نشر کرنے میں اسی کا ہاتھ ہے۔ 7 فروری 2012 کو تحریک کے وفادار چیف پراسیکیوٹر کو انٹیلی جنس سربراہ کے ساتھ تفتیش کیلئے طلب کیاگیا۔
ج۔ اردگان نے اس کو اپنے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ سمجھا کیونکہ یہ وزیراعظم پر اثر انداز ہو کر رہے گا اور ان رازوں سے پردہ اٹھائے گا جو کرد لیبر پارٹی کے ساتھ ریاست کے اپنی انٹیلی جنس کے ذریعے رابطوں سے متعلق ہیں۔ اس لئے اردگان اپنے انٹیلی جنس سربراہ کو کسی بھی قسم کی قانونی گرفت سے بچانے کیلئے سرگرم ِ عمل ہوا اور اس کیلئے اس نے پارلیمنٹ سے ایک قانون پاس کروایا کہ: "انٹیلی جنس اسٹیبلشمنٹ کے ملازمین اور وہ لوگ جن کو وزیراعظم کی طرف سے خصوصی کام سپرد کئے گئے ہوں، سے تفتیش نہیں کی جائے گی، سوائے اس کہ وزیراعظم اس کی اجازت دیدیں"۔ اس کے بعد اردگان نے انقرہ، استنبول اور ازمیر میں انٹیلی جنس حلقوں کی صفائی کیلئے آپریشن کیا۔ ایساہی اس نے تعلیمی نیٹ ورک اورعدلیہ میں سے ان اشخاص کی صفائی پر کام کیا جو گولن تحریک سے وابستہ تھے۔
د۔ پھروہ مرحلہ آیا جو اس تحریک پر زور دار طریقے سے اثر انداز ہوا۔ اس سے مراد اردگان کاوہ منصوبہ ہے جو کہ وہ پرائیویٹ ٹیوشن مراکز کے خاتمے اور ان کو حکومتی نصاب کی تعلیم دینے والے پبلک سکولوں یا سیکنڈری سکولوں میں تبدیل کرنے کیلئے عمل میں لایا۔ لگ بھگ ایک ہزار مراکز تحریک سے وابستہ تھے۔ یہ مراکز طالبعلموں کے سرپرستوں سے مہنگی فیسوں کا مطالبہ کرتے تھے۔ طالب علم حکومتی سکولوں میں اپنی کمزور تعلیمی سطح کو مضبوط کرنے کیلئے ان مراکز کی طرف رجوع کرتے تھے تاکہ وہ ملک کی بڑی یونیورسٹیوں میں داخلہ لینے کے قابل بن سکیں۔ تحریک اس کے درپردہ دو بنیادی اہداف کیلئے کوشاں تھی: مال کمانا اور تحریک کیلئے طالبعلموں کو حاصل کرنا۔ اس لئے اردگان حکومت نے تعلیمی نظام میں یہ تبدیلیاں کرنی چاہیں اور ان مراکز کو ایسے پبلک سکولوں میں تبدیل کیا جو حکومتی نصاب کی تعلیم دیتے اور ان کو حکومت کی نگرانی میں لایا گیا۔ اس نے یونیورسٹیوں میں داخلہ لینے کا نظام تبدیل کیا۔ پرانے نظام میں داخلے کیلئے سیکنڈری کی تعلیم کے بعد داخلے کیلئے تیاری کا سال نصاب سے خارج کیا گیا تھا، جس کی وجہ سے سرپرستوں کی بڑی تعداد اپنے بچوں کوان مراکز میں بھیجنے پرمجبور ہوتی تھی تاکہ وہ یونیورسٹیوں میں داخلہ لینے کے قابل بنیں، اوراپنے پسندیدہ شعبہ میں داخلے کیلئے اعلیٰ نمبرحاصل کرسکیں۔ ان مراکز کو ختم کرنے یا بند کرنے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تحریک، مال کمانے اور افراد سازی، دونوں میدانوں میں نقصان اٹھائے گی۔ اس لئے جب اردگان نے ان مراکز کو معطل کرنے اور ان کو حکومتی تحویل میں دینے کا اعلان کیا تو تحریک غصے سے بپھر گئی.....تحریک نے اردگان کی اس کاروائی پر رد عمل کے بارے سوچنا شروع کیا، تاکہ تین مہینوں بعد 30 مارچ 2014 کو منعقد ہونے والے انتخابات میں اس کی کامیابی پر اثر انداز ہوا جاسکے۔
ھ۔ اس کے بعد کرپشن کا سکینڈل سامنے آیا جس میں اردگان کی حکومت اور اس کی پارٹی کے لوگوں اور اس کے مقربین کو گرفتار کیا گیا.....اس کا الزام فتح اللہ گولن تحریک پر لگایا گیا کیونکہ تحریک ان پر الزام لگاتی رہی اور اس نے ان گرفتاریوں اور تحقیقات پر خوشی کا اظہار کیا تھا اور اس کو اپنے ذرائع ابلاغ میں اچھالا۔ مگر اردگان کی طرف سے تبادلوں کی جو تیز تر کاروائیاں کی گئیں، یعنی کئی سکیورٹی آفیسرز کو معزول کیا جن کے تحریک کے ساتھ روابط تھے۔ ان تبدیلیوں نے تحریک کی خوشیوں پر پانی پھیر دیا اور ان کو خاصی پریشانی ہوئی۔ اب تحریک نے ان تبدیلیوں کیلئے رکاوٹیں پیدا کرنے یا خلل ڈالنے کی کوششیں شروع کر دیں کہ یہ تبدیلیاں غیر قانونی یا غیر لازم ہیں۔ اس کے ہمنوا میڈیا نے یہ خبر شائع کی کہ جولائی 2013 سے اب تک حکومت کی طرف سے سکیورٹی افسران کی تبدیلیوں کو صدر نے مسترد کیا ہے اور وہ اس سے متفق نہیں ہیں.....پھر صدارتی دفتر نے 20 دسمبر 2013 کو فی الفور صدر عبداللہ گل کا بیان شائع کیا اور گولن تحریک کی طرف سے شائع کی گئی خبر کو جھٹلایا .....اس طرح پارٹی کی طرف سے یہ تاثردینےکی کوشش ناکام ہوگئی کہ اردگان اور عبداللہ گل کے درمیان اختلافات ہیں۔ اس کے بعد تحریک یہ محسوس کرتے ہوئے اردگان پر برسنے لگی کہ ان تبدیلیوں نے ان کے دلوں پر گھاؤ لگایا ہے، چنانچہ تحریک کے صدر فتح اللہ گولن نے پنسلوانیا، امریکہ میں اپنے ہیڈ کوارٹر سے غصے سے بھرا ایک ریکارڈ شدہ آڈیو بیان نشر کیا جسے 21 دسمبر 2013 کو اس کے ذرائع ابلاغ نے شائع کیا۔ اس میں دعا کی گئی اور دعا کچھ یوں تھی "اے اللہ جنہوں نے چوروں کو چھوٹ دی اور چوروں کا پیچھا کرنے والوں کا پیچھا کیا، تو ان کو زمین میں دھنسا دے، اے اللہ جن لوگوں نے مجرموں سے چشم پوشی کی اور مجرموں کا پیچھا کرنے والوں کو بد نام کیا اے اللہ تو ان کو زمین میں دھنسا دے، اے اللہ ان کے گھروں کو جلا دے ان کے مکانوں کو مسمار کر دے ان کا شیرازہ بکھیر دے ان کی نسل کاٹ دے، ان میں پھوٹ ڈال دے، ہمیں ان پرفتح دلا دے"۔ معلوم ہوتا ہے کہ تحریک پر کیا گیا حملہ زور دار تھا، تاہم وہ ٹوٹنے اور ختم ہونے سے بچ گئی۔
4۔ یوں 2010 سے اردگان اور فتح اللہ گولن کے درمیان حالات نے پلٹا کھایا اور اس کے بعد مسلسل تین سالوں تک حالات میں مزید گرمی آتی رہی جو آج تک جاری ہے۔ تحریک اور پنسلوانیا میں مقیم اس کے صدر نے امریکہ کی خدمت گزاری میں جو کچھ پیش کیا گیا ان میں، اللہ کے دین کے خلاف جسارت، نظام خلافت کے ساتھ دشمنی اور پارٹی کی طرف سے آخری سانس تک امریکی مفادات کی حمایت کرنا شامل ہے۔ ان تمام کی بنا پر گولن نے یہ گمان کیا کہ اردگان کے ساتھ روز افزوں مقابلہ اور مزاحمت کرکے امریکی خوشنودی سمیٹ لے گا۔ یوں امریکہ اس کو اردگان کا متبادل ٹھہرا دے گا اور اردگان کے ساتھ مقابلے میں اس کی حمایت کر دے گا.....چنانچہ، جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا، وہ اردگان کیلئے پریشانیاں پیدا کرنے پر اتر آیا۔ جہاں تک امریکہ کیلئے پارٹی کی خدمات کا تعلق ہے جن بنیادوں پر گولن کا خیال تھا کہ امریکہ اس کی حمایت کرکے اسے اردگان کامتبادل ٹھہرا دے گا، تو ان میں سے کچھ یہ ہیں:
ا۔ معتدل اسلام کی طرف اس کی دعوت یا بالفاظ دیگر سیکولر جمہوری افکار سے آلودہ ترمیم شدہ اسلام کی دعوت، وہ ان افکار کا شدت کے ساتھ دفاع بھی کرتا تھا اور اسی طرف لوگوں کی رہنمائی کرتا تھا، اس کیلئے وہ اپنی تحریک کے ذرائع کو کام میں لاتا تھا۔
ب۔ بین المذاہب، بالخصوص یہود ونصاریٰ کے ساتھ، مکالمہ میں اس کی پارٹی کی متحرک سرگرمیاں، تاکہ ان سب کو مسلمان سمجھ کر ان کو مسلمانوں کے برابر کیا جائے، یہ پارٹی دعوت دیتی تھی کہ ان کیلئے مساجد کے ساتھ عبادت خانے تعمیر کئے جائیں۔ نیز علوی نصیریوں کیلئے بھی عبادت خانوں کی تعمیر کی بات کی۔
ج۔ اسلامی ریاست ِخلافت کے قیام کی دعوت دینے والی تمام تحریکوں پر حملے، پارٹی نے ان سب پر علیحدگی پسندی اوردہشت گردی کا الزام لگایا۔ اپنے اس میڈیا جو اس کی ملکیت ہے، کے ذریعے ان کے خلاف منفی پروپیگنڈا کیا اور سکیورٹی اور عدالتی اداروں کو ان کے بارے میں معلومات فراہم کیں۔
د۔ اس کے صدر نے امریکہ کو 1990 سے اپنا ہیڈکوارٹر بنایا ہوا ہے۔ امریکی حکام اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ساتھ اس کی ملاقاتوں کا دائرہ وسیع ہوا۔ پھر اس نے امریکہ میں ایسے لیکچر دیے جو امریکی مفادات کے معاون افکار و نظریات پر مشتمل تھے۔ اس نے پہلے بھی امریکہ کی عراق و افغانستان جنگ کو برا نہیں سمجھا اور آج بھی اس کے متعدد ذرائع ابلاغ شام کی اسلامی انقلابی تحریکوں پرتنقید کرتے ہیں اور ان کو دہشت گرد تصور کرتے ہیں، ان کو بدنام کرنے میں لگے ہیں اور اس کے خلاف امریکی موقف کی تائید کرتے ہیں۔
ھ۔ یہودی وجود کی حمایت کرنا۔ اس نے مئی 2010 کے اواخر میں اہل غزہ کی مدد کیلئے روانہ کی جانے والی مرمرہ کشتی بھیجنے پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور یہود کو اس پر حملہ کرنے کا حق دیا۔ اس نے ترک لوگوں کی قربانیوں پر کوئی تعزیت کی نہ ہی ان کو شہداء کہا۔ اس سے پہلے اس نے 1991 میں یہود پر صدام حسین کے حملہ کو بھی ناپسند کیا تھا اور اس حملے کی زد میں آنے والے یہودیوں کے قتل پر افسوس کا اعلان کیا تھا۔ انٹرنیٹ پر اس کی ویب سائٹ نے فتح اللہ گولن کی ایک تصویر شائع کی جس میں وہ مشرقی یہودیوں کے ایک ربی (پادری) الیاہودورون کے ساتھ 1998 میں ملاقات کرتے ہوئے دکھایا گیا ۔
مذکورہ خدمات محض چند مثالیں ہیں.....پارٹی نے یہ گمان کیا کہ اس طرح وہ امریکی حمایت حاصل کرلے گی اوراس کو اردگان پر برتری دلا دے گی۔ غالب خیال یہی ہے کہ اس کا یہ گمان اس کے لئے تباہ کن ثابت ہوگا کیونکہ امریکہ اردگان کو، جو ایک سیاسی تحریک کا لیڈر ہے ، اپنے مفادات کے حصول میں گولن اور اس کے مریدوں کی تحریک سے بڑھ کر باصلاحیت سمجھتا ہے۔ امریکہ نے ترکی کے اندر اگر کچھ حاصل کیا ہے اور اپنا اثر و نفوذ وہاں مستحکم کیا ہے تو یہ صرف اس سیاسی پارٹی کے بل بوتے پر جس کی قیادت اردگان کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اپنے سیاسی منصوبوں بالخصوص کرد مسئلے سے متعلق امریکی پلان کے نفاذ، یا اندرون اور بیرون ملک اس کے دوسرے منصوبوں بشمول شام کے مسئلے میں کامیابی کیلئے امریکہ اس کے ساتھ تعاون کرتا ہے۔ اگر اردگان پر دباؤ بڑھ جائے اور وہ استعفی ٰ دیدے تو غالب گمان یہ ہے کہ امریکہ جسٹس پارٹی میں سے کسی دوسرے مضبوط شخص کو ڈھونڈے گا، نہ کہ فتح اللہ گولن کو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فتح اللہ گولن کی تحریک حقیقت میں ایک غیرسیاسی تحریک ہے جو "جیتنے والے کے ساتھ ہے " کی مصداق ہمیشہ سے سیاسی پارٹیوں کے سائے تلے رہی ہے۔ یہ گزشتہ صدی کی آٹھویں دہائی میں تورگت اوزال کی ANAP کے ساتھ رہی، اس کے بعد رفاہ پارٹی کی حمایت کی، پھر نجم الدین اربکان کی زیرقیادت رفاہ پارٹی کے زوال کے بعد 1998 میں اجاوید کی قیادت تلے سوشلسٹ جمہوری پارٹی کی حمایت کی۔ جب جسٹس اینڈ ڈویلپنمٹ پارٹی کی بنیاد رکھی گئی تو اس کے سائے تلے آئی، اس لئے اس کوایک موقع پرست تحریک کی نظرسے دیکھا جاتا ہے جو اقتدار حاصل کر لینے والی ہر سیاسی پارٹی کی حمایت کرتی ہے تاکہ ذاتی مفادات کے حصول کو ممکن بنائے۔ اس بنا پر متوقع یہ ہے کہ وہ اردگان کے ساتھ صلح کرنے کیلئے کام کرے گی کیونکہ ایسا کئے بغیر وہ نقصان اٹھائے گی .....اور اس کی شروعات اس تحریک اور اس کے پیروکاروں کی کار گزاری سے ظاہر ہو رہی ہے۔ چنانچہ گولن نے اردگان پر درپردہ وار کرنے سے کنارہ کشی اختیار کی، جبکہ مہینہ پہلے اس کو فرعون اور نمرود تک کہا تھا۔ اس نے اپنی آواز میں اپنی تحریک کے لوگوں کو ایک آڈیو پیغام دیا تھا کہ "جب فرعون اور نمرود تمہارے مقابل ہوں تو تم حق پر ہو گے"۔ پھر مزید سکڑتا گیا یہاں تک کہ حال ہی میں یہ تجویز دی کہ اس کے پرائیویٹ ٹیوشن مراکز کو باقی رکھا جائے بھلے ان کو حکومت کی نگرانی میں ہی دے دیا جائے۔ مگر اردگان اپنے فیصلے پرمصر رہا.....حتی کہ عدلیہ اور سکیورٹی اداروں میں بھی فتح اللہ کے آدمیوں میں اب مزید بوجھ اٹھانے کی سکت نہیں رہی۔ چنانچہ کئی لوگوں کو گرفتار کیا گیا اور جو اپنے اداروں میں کام کرتے رہے وہ اپنے فیصلوں میں گومگو کی کیفیت سے دو چار ہیں۔ چنانچہ بعض عدالتوں نے اردگان کے فیصلے سے اتفاق کیا کہ وہ سکیورٹی منتظمین کی طرف سے افسران بالا کی موافقت کے بغیر براہ راست فیصلے قبول نہیں کریں گی، جبکہ قلیل تعداد ایسے لوگوں کی ہے جنہوں نے اس فیصلے سے جی چھڑانے کی کوشش کی۔ 27 دسمبر 2013 کو پرائیویٹ این ٹی وی نیوز نے کہا "ایک ترک عدالتِ عالیہ نے حکومت کے اس فیصلے کو کالعدم قرار دیا کہ تحقیقات کرنے والے پولیس افسر، افسران بالا کو مطلع کر دیا کریں"، لیکن اس کے ساتھ عربی سکائی نیوز نے 26 دسمبر 2013 کو بتایا کہ ترک حکومت کے وزراء پر لگائے گئے کرپشن الزامات کی تحقیقات کی قیادت کرنے والے اٹارنی جنرل معمر اکاش نے کہا "اسے اس مسئلے میں مشکلات کاسامناہے" وہ اس طرف اشارہ کر رہا تھا کہ "تحقیقات میں رکاوٹ آ چکی ہے".....
اردگان سکیورٹی اور عدلیہ میں موجود اس تحریک کے معاونین کو برابر دھمکا رہا تھا۔ اس نے صوبہ اوردو میں فاتصا کی عدلیہ کے دورے کے دوران کہا "میں عدلیہ سے یہ کہتا ہوں! تم انتظامیہ سے کہتے ہو کہ وہ اپنے اندر موجود میل کچیل کو صاف کریں مگر تم خود مکمل طور پر صاف نہیں ہو، اورہم اپنے اختیارات کوجانتے ہیں" (حریت 21 دسمبر 2013)۔ اس طرح مستقبل کی توقعات کے حوالے سے اردگان کا موقف فتح اللہ کے موقف سے زیادہ قوی ہے، خاص کر جب کہ اردگان کا فوج کے اندر اثر و رسوخ مؤثر ہوا ہے، چنانچہ ترک ذرائع نے بتایا کہ ترک مسلح افواج نے ایک بیان صادر کیا جس میں کہا گیا ہے کہ "وہ کسی بھی قسم کی سیاسی آراء اور سیاسی تانے بانوں سے اپنے آپ کو دور رکھتی ہے وہ ترک قوم کی وفادار ہے" یہ بیان 27 دسمبر 2013 کو یونائیٹڈ پریس انٹرنیشنل اور الحیات ویب سائٹ پرجاری کیا گیا۔
5۔ جہاں تک اردگان کے اپنے بیان میں امریکی سفیر کی طرف اشارے کی بات کا تعلق ہے جسے اخبار ملیات نے 21 دسمبر 2013 کو شائع کیا تو معاملہ یہ ہے کہ:
ا۔ مذکورہ کرپشن کے فیصلوں میں گرفتاری مہم کے دوران تین اخبارات "The Star, The New Twilight, The Evening" نے ایک خبرشائع کی، خبر میں بتایا گیا کہ 17 دسمبر 2013کو امریکی سفیر ریچرڈونی نے انقرہ میں یورپی یونین کے بعض نمائندوں سے ملاقات کی۔ رپورٹ اس بات کا اشارہ دے رہی تھی کہ ان واقعات میں امریکی سفیر ملوث ہے۔ ان اخبارات نے دعوی ٰکیا کہ وزیرخارجہ داؤد اوگلو جلد ہی امریکی وزیرخارجہ جان کیری کے ساتھ رابطہ کرکے اسے سفیر کے طور طریقوں سے متعلق وزارت خارجہ اور سفارتی عملے کی بے چینی کے بارے میں آگاہ کرے گا.....
اس کے باوجود امریکی سفیر رچرڈونی نے اس خبر کوجھٹلایاہے اورکرپشن کیس سے متعلق گرفتاریوں کے ساتھ امریکہ کے کسی بھی قسم کے تعلق کی نفی کی ہے اور یہ اس کے ٹویٹر پیغام کے ذریعے معلوم ہوا ہے، اس نے کہا "امریکہ کا، رشوت ستانی یا غیر قانونی اسالیب کے کرپشن کیسوں کے حوالے سے ، گرفتاریوں کوئی تعلق نہیں۔ یہ خبریں محض جھوٹ اور بہتان ہیں۔ کوئی بھی شخص ترکی امریکہ تعلقات کو ان جیسے بے بنیاد دعوؤں کے ذریعے خطرات سے دوچار نہیں کر سکتا اور دونوں ممالک کے درمیان دوستی و تعاون کا رشتہ دونوں ممالک کیلئے ناگزیر اہمیت کا حامل ہے" (اخبار ملیات 21 دسمبر 2013)۔ مگر اردگان نے اس سے فائدہ اٹھایا، ایسا محسوس ہوتا ہے گویا اس کو اس خبر کی اشاعت کے وقت کا علم تھا، جس کی وجہ سے بعض تجزیہ نگاروں کو یہ کہنا پڑا کہ یہ خبر اردگان کیلئے تیار کی گئی تھی تاکہ موجودہ واقعات کا استحصال کرتے ہوئے وہ کہہ سکے کہ یہ واقعات بین الاقوامی دراندازی کی وجہ سے ہیں، تاکہ اس کو بیرونی سازش باور کرا کر لوگوں کے جذبات اپنے ساتھ ملاسکے! اور جب وہ اپنے حق میں رائے عامہ کے حصول کے سلسلے میں دورے پرتھا، اس نے 20 دسمبر 2013 سامسون میں قیام کے دوران کہاکہ "سفیربعض سازشی سرگرمیوں میں ملوث ہے، میں اس سے کہتا ہوں کہ اپنا کام کرو، اگر تم اپنے دائرے سے باہر قدم رکھو گے تو ہماری حکومت اس حد تک جائے گی جتنی کہ اس کے پاس صلاحیت ہوگی".....(ملیات 17 دسمبر 2013)۔ مگر بعد میں جو کچھ ہوا وہ یہ کہ نہ تو داؤد اوگلو کیری سے ملا، اور نہ ہی اردگان کا یہ بیان زیادہ دیر منظر نامے پر رہا، بلکہ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے جنرل نائب صدر حسین چلیک نے یہ بیان دیا "یقیناً امریکی سفیر فرنک ریچرڈونی نے اپنے ٹویٹر کے ذریعے اس کے بیان سے متعلق خبروں کی تردید کی ہے، جو ہمارے ہاں کےبعض معتبر اخبارات میں شائع ہوئیں" (حریت21 دسمبر 2013)۔
ب۔ باوجود یکہ ایک ملک جب بیرونی مداخلت پر احتجاج کرتا ہے تو مروجہ طریقے کے مطابق اپنا احتجاج ریکارڈ کروانے کے لئے اس کی طرف اپنا وزیر خارجہ بھیجتاہے یا سفیر کو طلب کرتا ہے.....اسی طرح اگر کسی ملک کے اندر تعینات سفیر کسی خبر کی تردید کرتا ہے جو اس ملک کی طرف سے اس کے بارے میں شائع کی گئی ہو، تو معمول کے مطابق وہ اس ملک کی وزارت خارجہ کو پیغام دیتا ہے جس میں وہ اس خبر کی تردید کرے.....لیکن یہاں صرف اتنا ہوا کہ صدر نے زبانی بیان دیا اور سفیر نے ٹویٹر پر اس کی تردید کی، یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اردگان اور سفیر کے درمیان الفاظ کا یہ تبادلہ ایک ڈرامے کے سوا کچھ نہیں جس میں ناکام قسم کے کردار اداکاری کر رہے ہیں۔ یہ بات کہ امریکی سفیر کے بارے میں اردگان کا بیان باتیں ہی باتیں ہیں اس کی دلیل یہ ہے کہ جس تاریخ کو ملیات اخبار نے اردگان کا بیان شائع کیا اسی دن یعنی 21 دسمبر 2013 کو اخبار نے ایک خبر شائع کی جو کچھ اس طرح تھی"یہ بات قابل توجہ ہے کہ جب بین الاقوامی دراندازی سے کی جانے والی کرپشن کی تحقیقات کی پیروی کی جار ہی تھی، اسی دوران امریکی مشیر ڈیوڈ کوہن استنبول پہنچ جاتا ہے جو دہشت گردی اور مالیات سے متعلق امریکی وزارت خزانہ کے ماتحت کام کرنے والے انٹیلی جنس محکمہ کا انچارج ہے اوراسرائیل کے ساتھ قریبی تعلقات کی وجہ سےمشہور ہے۔ پھر وہ ترکی میں بینکوں کے منیجرز سے ملتا ہے اور ان کے ساتھ مالی امور اور ایران پر پابندیوں کے بارے میں بات چیت کرتاہے.....مشیر حکومتی اتھارٹی میں سے کسی کے ساتھ نہیں ملا"۔ یہ خبر اس بات کی طرف اشارہ کررہی ہے کہ اردگان کے الفاظ خالی بندوق کی طرح ہے جوپٹاخے تو مارتی ہے لیکن نقصان نہیں پہنچاتی۔ تو امریکی ذمہ داران آجاتے ہیں اورجس سے چاہیں ملاقات کرتے ہیں، جبکہ حکومتی ذمہ داروں کے ساتھ ملاقات کئے بغیر چلے جاتے ہیں۔
ج۔ اردگان کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ اس کے امریکہ کے ساتھ روابط ہیں۔ وہ ترکی کے اندر اور باہر اس کے منصوبوں کو نافذ کرتا ہے۔ یہ منصوبے بالخصوص اندرونی منصوبے تکمیل کے متقاضی ہیں۔ اگر اردگان چلا جائے تو یہ سارے منصوبے معطل ہوجائیں گے.....امریکہ اردگان کواپنے طاقتور آدمیوں میں سے گردانتا ہے جنہوں نے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ترکی کے اندر اس کے اثر و رسوخ کو قائم کرنے کے مواقع فراہم کئے ہیں۔ اس سے قبل کی دہائیوں میں مصطفیٰ کمال کے عہد سے ترکی پر فوج کے ذریعے برطانوی اثر و رسوخ کا تسلط تھا جس نے اسلام اور مسلمانوں کے سخت ترین دشمن برطانیہ کے مطالبے کو پورا کرتے ہوئے لوزان کانفرنس میں خلافت کے خاتمے کا اعلان کردیا جس کے بدلے برطانیہ اس کو جمہوریہ ترکی کا صدر بنائے گا۔ اسی زمانے سے ترکی کی حکومتوں پر برطانوی اثر و نفوذ مسلط رہا ہے، جسے ختم کرنا امریکہ کیلئے ممکن نہیں تھا، بالخصوص فوج میں۔ مگرجب اردگان نے اقتدار سنبھالا برطانوی اثر و نفوذ کمزور پڑ گیا اور سیاسی منظر سے اوجھل ہو گیا اور برطانیہ نواز سیاسی پارٹیاں جن میں نمایاں پیپلز پارٹی ہے نہایت کمزورہوگئیں.....اس طرح اروگان کی حکومت میں اب امریکی اثر و نفوذ کا تسلط ہے جس کی نمائندگی صدر اور وزیراعظم کرتے ہیں۔ اس لئے اردگان کی طرف سے سفیر کے بارے میں یہ ایک لفظی بیان جس کی کوئی عملی حقیقت نہیں۔ ایسے بیانات کو امریکہ جانتا ہے اور اس بیان دینے والے کو بھی جانتا ہے کہ اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا.....
6۔ خلاصہ یہ ہے کہ :
ا۔ ترکی کے موجودہ بحران کے قطبین امریکی ایجنٹ اردوگان اورفتح اللہ گولن ہیں۔
ب۔ برطانیہ جب تک ترکی پر اپنا اثر و رسوخ رکھتا تھا اس وقت تک امریکہ اردگان اور فتح اللہ کو ایک قوت اور باہم شیر و شکر دیکھنا چاہتا تھا، جب برطانیہ کا اثر کم ہوا تو امریکہ نے جسٹس پارٹی اور فتح اللہ کے تنازع پر خاموشی اختیار کی اور ان کو کھلا چھوڑ دیا تاکہ وہ اس کی وفاداری اور اس کے مفادات کی خدمت گزاری میں ایک دوسرے کے سے مقابلہ کریں۔
ج۔ غالب گمان یہ ہے کہ ممکنہ پیش بینی سے کم از کم اردگان کی حکومت رہے گی، وہ اپنی مقبولیت کو برابر اپنے قبضے میں رکھے ہوئے ہے، حتی کہ اگر اس پر دباؤ بڑھ جائے تو امریکہ گولن کی بجائے جسٹس پارٹی میں سے کسی دوسرے شخص کو ترجیح دے گا کیونکہ امریکہ کو یہ پتہ ہے کہ فتح اللہ کی تحریک شیخ اور مریدوں کی تحریک جیسی ہے، جسے اپنا وجود باقی رکھنے کیلئے کسی بااقتدار پارٹی کے سائے تلے رہنا پڑتا ہے، اسے حکومت نہیں مل سکتی۔
د۔ یہ امریکہ اور اس کے ایجنٹوں کے اندازے ہیں، امت جس چیز کیلئے عمل کر رہی ہے وہ یہ ہے کہ برطانوی اور امریکی اثر و نفوذ اور اس کے ایجنٹوں اور پیروکاروں کو اکھاڑ پھینکیں، ان شاء اللہ، اور خلافت کو دوبارہ قائم کریں جیسا کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا ((ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ)) "پھرنبوت کے نقش قدم پر خلافت ہوگی" (احمد اور داؤد اطیالسی نے روایت کی)۔ اورجس نے بھی خلافت اور اس کیلئے کام کرنے والوں کے ساتھ مقابلہ کیا اور استعماری کفار کا ساتھ دیا چاہے برطانوی ہوں یا امریکی، روسی اور فرانسیسی وغیرہ، ایسے لوگ دنیا و آخرت میں مسلمانوں کے ہاتھوں ذلت و رسوائی اٹھائیں گے۔
﴿وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ * بِنَصْرِ اللَّهِ يَنْصُرُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ﴾.
"اوراس روز مؤمن خوش ہوجائیں گے - اللہ کی مدد سے، وہ جسے چاہتا ہے مدد دیتا ہے اور وہ غالب اور مہربان ہے" (الروم : 4-5)
10 فروری 2014 بروز پیر، پاکستان کے مختلف ٹی وی چینلز پر یہ خبر نشر ہوتی رہی کہ وزارت داخلہ نے کراچی پولیس اور رینجرز کو ایک رپورٹ بھیجی ہے کہ کراچی یونیورسٹی میں القائدہ کی ذیلی تنظیم حزب التحریر قائم ہوچکی ہے جس نے وہاں پر لیفلٹ بھی تقسیم کیے ہیں۔ امریکی ایجنٹ حکمرانوں کی جانب سے اس قدر مزحکہ خیز جھوٹ واشنگٹن کے فکری دیوالیہ پن اور پاگل پن کا واضح ثبوت ہے۔ حزب التحریر ایک اسلامی سیاسی جماعت ہے جو خلافت کے قیام کے لیے رسول اللہﷺ کے منہج پر چلتے ہوئے صرف اور صرف فکری و سیاسی جدوجہد کرتی ہے۔ حزب خلافت کے قیام کے لئے عسکری جدوجہد کی راہ کو اسلام کی رو سے حرام تصور کرتی ہے۔ یہ بات ہر باخبر انسان جانتا ہے کہ 1952 میں حزب التحریر بیت المقدس میں قائم ہوئی تھی اور اپنے قیام کے وقت سے ، طریقہ کار کے اختلاف کے باوجود وہ تمام اسلامی جماعتوں کو دینی بھائی سمجھتی ہے۔ حزب نے کبھی بھی کسی جماعت کے پروگرام میں شرکت نہیں کی سوائے اس صورت کے کہ وہ سیاسی و فکری پروگرام ہو۔
ایجنٹ حکمرانوں کی جانب سے حزب التحریر کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈے میں آنے والی تیزی کی وجہ یہ ہے کہ ان کے پاس حزب کی سیاسی و فکری جدوجہد کے خلاف سچ اور حقیقت پر مبنی بات کرنے کے لئے کوئی مواد سرے سے ہے ہی نہیں۔ وہ اور ان کے کافر استعماری آقا عوام اور افواج میں اسلام ، خلافت اور حزب التحریر کی بڑھتی ہوئی محبت سے ششدر ہوگئے ہیں۔ حزب التحریر سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کو یہ بتا دینا چاہتی ہے کہ وہ حزب التحریر کے خلاف جتنا بھی جھوٹا پروپیگنڈہ کر لیں ، اللہ سبحانہ و تعالٰی کے حکم سے اسلام ایک ریاست کی صورت میں قائم ہو کر ہی رہے گا۔ وہ اپنی اس کوشش میں ویسے ہی بُری طرح سے ناکام و نامرادہوں گے جیسا کہ اس سے پہلے قریش کے کفار ناکام اور ذلیل ہوگئے تھے جب انھوں نے رسول اللہﷺ کو جادوگر، شاعر اور کاہن قرار دینے کے لئے زبردست مہم چلائی تھی۔
حزب التحریر پاکستان میں موجود میڈیا کے تمام اداروں کو بھی یاد دہانی کراتی ہے کہ جھوٹی خبر کو شائع کرنا بھی گناہ ہے۔ پاکستان کا میڈیا اس بات سے پوری طرح باخبر ہے کہ حزب التحریر ایک سیاسی جماعت ہے دنیا بھر میں اپنے شباب کی گرفتاریوں، ان پر تشدد یہاں تک کہ ان کی شہادتوں کے باوجود اپنے قیام کے دن سے لے کر آج تک، اس نے کبھی عسکری جدوجہد کہ راہ کو اختیار نہیں کیا کیونکہ وہ اس طریقہ کا ر کو حرام تصور کرتی ہے۔ لہٰذا ہم پاکستان کے میڈیا کو یہ نصیحت کرتے ہیں کہ حزب التحریر میں موجود اپنے بھائیوں اور بیٹوں کے خلاف حکومتی سازشوں اور جھوٹ کا حصہ نہ بنیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا ، ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليقل خيراً أو ليصمت "وہ جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے۔۔۔اسے سچ بولنا چاہیے یا پھر وہ خاموش رہے" (بخاری و مسلم)۔
شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان