الإثنين، 25 جمادى الثانية 1447| 2025/12/15
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

پریس ریلیز حزب التحریر کا با ضابطہ (آفیشل)رسالہ "الرایہ" کی دوبارہ  اشاعت

حزب التحریر کا مر کزی میڈیا   آفس مسرت کے ساتھ    الرایہ رسالے  کی دوبارہ اشاعت  کا اعلان کر تا  ہے ۔  یہ ایک سیاسی رسالہ ہے  جس کو حزب التحریر ہر ہفتے شائع کر تی ہے۔  اس میں امت مسلمہ کے مسائل اور ان کے حل پیش کیے جاتے ہیں۔  اس رسالے کا پہلا شمارہ ذی القعدۃ 1373 ہجری بمطابق جولائی 1954 عیسوی میں شائع ہوا تھا۔ یہ رسالہ ہفتہ وار بدھ کی صبح  شائع ہو تا رہا  ۔ اس کے چودہ (14) شمارے ہی شائع ہو ئے تھے  جن میں  حق و سچائی کی آواز بلند ،سیاسی موضوعات پر بحث  اور اسلامی نقطہ نظر سے ان کا حل دیا اور حق بات ہی اس کا ہتھیار تھی مگر پھر بھی  ظالم اس کے وار برداشت نہ کر سکے  اور یہ اُن کے لیے راکٹ اور میزائل ثابت ہوا ۔  اردن کی حکومت  کلمہ حق کا   زخم  برداشت نہ کر سکی،خاص کر جب  حزب اور اس کے میگزین نے  اردنی وزیر داخلہ کی  جانب سے اس وقت کے اردنی آرمی چیف گلوب پاشا کے حکم سے  وعظ و ارشاد کے قانون کے اجرا کو چیلنج کیا ۔ اُس قانون کا ہدف  حزب کے شباب اور مخلص لوگوں کو  مساجد میں   درس دینےسے روکناتھا، اس لیے ظالموں نے چودہ شمارے نکلنے کے بعد ہی اس  رسالے کی اشاعت پر  پابندی لگا دی۔

اب الرایہ ایک نئی صبح کے ساتھ  دوبارہ آگیا ہے ۔ اس کا پندہرواں شمارہ بدھ 13 جمادی الاول 1436 ہجری  بمطابق4 مارچ 2015 عیسوی کو  اللہ کے اذن سے کامیابی کے ساتھ نور بن  کر  روشن کرنے لیے اور نار (آگ) بن  کر فساد کو جلا کر راکھ کر نے کے لیے حاضر ہے۔ اللہ  کی مشیت  سے یہ خلافت کے قیام  کے قریب ہونے اور رایۃ العقاب   کے بلند ہو نے کی خوشخبری بھی   لیے طلوع ہو رہا ہے، جو کہ حق اور عدل کا جھنڈا ہے  اور نبوت کے طرز پر ریاست خلافت راشدہ  مسلمانوں پر سایہ فگن ہو نے والا ہے اور ممکن ہے یہ دن قریب ہے۔

جلیل القدر عالم دین اور حزب التحریر کے امیر  عطاء بن خلیل ابو الرشتہ  حفظہ اللہ  نے  اس کی دوبارہ اشاعت کی مناسبت سے  : "الر ایہ   کو خوش آمدید ۔۔۔ یاد دہانی اور بشارت" کے عنوان سے  گفتگو کی  جس میں رسالے  کی پہلی اشاعت  کے واقعات کا ذکر کیا اور اس کے گزشتہ بعض  شماروں  کا حوالہ دیا ۔ آپ نے اللہ سبحانہ  و تعالٰی سے دعا کی  کہ  رسالے کی دوبارہ اشاعت  ایک یاد گار اور پر مسرت لمحہ ہو  اور یہ خلافت کے قیام کے قریب ہونے کی وجہ سے مسحور کن  بشارت  ہو  یقیناً  ایسا لگ رہا ہے کہ خلافت تو عملاً قائم ہو چکی ہے"۔

رسالے نے اپنے اس نئے شمارے میں  حزب کے امیر حفظہ اللہ  کا 3 مارچ کو استنبول  منعقد ہو نے والی  " جمہوری صدارتی ماڈل یا خلافت راشدہ ماڈل" کے موضوع پر کانفرنس سے افتتاحی خطاب  کو بھی من و عن شائع کیا ہے۔

اسی طرح  "عورت اور شریعت  : حق اور باطل کے درمیان"  کے موضوع  پر ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس  کے حوالے سے بیان جس کا انعقاد حزب التحریر کے میڈیا آفس کا شعبہ خواتین 28 مارچ کو   کر رہا ہے ،جس سے  پہلے عورت سے متعلق  حق اور باطل کی تمیز  کے بارے  ایک مہم بھی جاری ہے۔

اس کے علاوہ بھی اہم تر ین خبریں  اور سیاسی موضوعات اس شمارے میں شا مل ہیں، مندرجہ ذیل الیکٹرانک  صفحات کے ذریعے آپ الرایہ کو پڑھ سکتے ہیں:

الرایہ میگزین www.alraiah.net

فیس بک https://www.facebook.com/rayahnewspaper

گوگل پلس http://goo.gl/KaiT8r

ٹویٹر https://twitter.com/ht_alrayah

ای میل This e-mail address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

عثمان بخاش

ڈائریکٹرمرکزی میڈیا آفس حزب التحریر

Read more...

حزب التحریر کے خلاف جبر کا خاتمہ کرو ‫عدلیہ‬ کو جابروں کے ساتھ نہیں بلکہ اسلام اور ‫‏خلافت‬ کے داعیوں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے

‫‏راحیل_نواز‬ حکومت خلافت کے مخلص داعیوں ، حزب التحریر کے شباب کے خلاف مسلسل جبر کررہی ہے اورافسوس کا مقام یہ ہے کہ عدلیہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والی اس مملکت میں سچائی اور انصاف کی سربلندی کےاپنے فرض سے کوتاہی کی مرتکب ہو رہی ہے۔ 5 دسمبر 2014 کو حکومت نے لاہور میں حزب التحریر کے ایک درس پر چھاپہ مارا اور اس میں شریک مسلمانوں کو صرف اس وجہ سے گرفتار کرلیا گیا کہ وہ ملک میں اسلام کے نفاذ اور امریکی راج کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ یہ گرفتارشدگان آج کے دن تک جیل میں قید ہیں جبکہ عدلیہ حکومت کے انتہائی دباؤ پر ان کی ضمانت کو مسترد کررہی ہے یا ایک عدالت سے کسی دوسری عدالت میں ضمانت کے معاملے کو بھجوا دیا جاتا ہے یا ضمانت کی درخواست پر فیصلہ دینے کے بجائے لمبی لمبی تاریخیں دی جاہی ہیں۔ اس کے علاوہ کراچی، لاہور، اسلام آباد اور پشاور میں حزب التحریر کے کئی شباب کے خلاف مقدمات بھی قائم کیے گئے ہیں۔ حکومت کے غنڈے مسلسل انہیں ہراساں کررہے ہیں جنہیں نا تو خواتین کی عزت اور نا ہی گھر کی چار دیواری کے تقدس کا خیال ہے۔ اور ہم یہ بھی بتانا چاہتے ہیں کہ ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ترجمان ، نوید بٹ ، کو 11 مئی 2012 کے دن حکومتی غنڈوں نے اغوا کیا تھا اور آج بھی وہ اُن کی قید میں ہیں۔


یہ تمام جرائم اس وقت کیے جارہے ہیں جب حکومت نے امریکہ کی انٹیلی جنس اور نجی سیکوریٹی کمپنیوں کے ساتھ ساتھ بھارتی جاسوسوں کو مکمل چھوٹ فراہم کررکھی ہے جو افواج پاکستان اور شہریوں کے خلاف خوفناک حملوں کی منصوبہ بندی اور وسائل کی فراہمی کے ساتھ ان حملوں کی نگرانی بھی کرتے ہیں جس میں 16 دسمبر 2014 کو پشاور آرمی پبلک اسکول پر ہونے والا حملہ بھی شامل ہے۔ اور پشاور آرمی پبلک اسکول پر حملہ حزب التحریر کے لاہور میں ہونے والے درس پر چھاپےکے ٹھیک دس دن بعد ہوتا ہے۔ حکومت نے دشمن کو کھلی چھوٹ فراہم کررکھی ہے لیکن اسلام اور خلافت کے داعیوں کے خلاف پوری حکومتی مشینری کو متحرک رکھا ہوا ہےجبکہ ریاست پر یہ فرض ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی دشمن کے شر سے حفاظت کرے۔ یہ وہ فرض ہے جو اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ دشمن امریکہ اور بھارت کی ہماری سرزمین پر حملے کرنے کی استعداد کا خاتمہ کیا جائے اور اس کام کو کرنے کے لئے ضروری ہے کہ دشمن کے سفارت خانوں اور قونصل خانوں کو بند اور ان کے جاسوسوں کو گرفتار کیا جائے۔ لیکن اپنے فرض سے روگردانی کرنے کے باوجود سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غدار عدلیہ سے بے خوف مزید غداریاں کرنے کے لئے کھلے پھر رہے ہیں۔
ہم عدلیہ کو رسول اللہ ﷺ کی یہ ارشاد یاد دلانا چاہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا،


الْقُضَاةُ ثَلَاثَةٌ: وَاحِدٌ فِي الْجَنَّةِ، وَاثْنَانِ فِي النَّارِ، فَأَمَّا الَّذِي فِي الْجَنَّةِ فَرَجُلٌ عَرَفَ الْحَقَّ فَقَضَى بِهِ، وَرَجُلٌ عَرَفَ الْحَقَّ فَجَارَ فِي الْحُكْمِ، فَهُوَ فِي النَّارِ، وَرَجُلٌ قَضَى لِلنَّاسِ عَلَى جَهْلٍ فَهُوَ فِي النَّارِ
"تین قسم کے قاضی ہیں : ایک وہ جو جنت میں جائے گا اور دوسرا وہ جو جہنم میں جائے گا۔ جہاں تک اس کا تعلق ہے جو جنت میں جائے گا یہ وہ شخص ہے جو حقکو جانتا ہے اور اس کے مطابق فیصلہ کرتا ہے، اور وہ جو حق کو جانتا ہےلیکن فیصلہ اس کے مطابق نہیں کرتا وہ جہنم میں جائے گا ۔ اور وہ شخص جو لوگوں کے لیےجہالت پر مبنی فیصلہ جاری کرتا ہے وہ بھی جہنم میں ہوگا"(ابو داؤد)۔


اللہ کے سامنے اس بات کی کوئی گنجائش موجود نہیں کہ حکومت کے دباؤ پر سچ کو جاننے کے باوجود اس سے کنارہ کشی اختیار کرلی جائے۔ عدلیہ کو لازمی اسلام کی بنیاد پر ہی فیصلہ دینا ہے اور اسلام خلافت کے قیام کو فرض قرار دیتا ہے اور اسلام کے داعیوں پر ظلم و ستم کو حرام قرار دیتا ہے۔
ہم عدلیہ کو یہ بھی یاد دلانا چاہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو یہ کہہ کر خبردار کیا کہ،


إِنَّمَا أَهْلَكَ الَّذِينَ قَبْلَكُمْ أَنَّهُمْ كَانُوا إِذَا سَرَقَ فِيهِمْ الشَّرِيفُ تَرَكُوهُ وَإِذَا سَرَقَ فِيهِمْ الضَّعِيفُ أَقَامُوا عَلَيْهِ الْحَدَّ وَايْمُ اللَّهِ لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ يَدَهَا "
تم سے پہلے لوگ اس لیے تباہ ہوگئے کہ جب ان میں سےکوئی بڑا آدمی چوری کرتا تو وہ اسے چھوڑ دیتے تھے لیکن اگر کوئی کمزورآدمی چوری کرتا تو وہ اس پر سزا کو نافذ کرتے تھے۔ اللہ کی قسم اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرے تو میں اس کا ہاتھ کٹوا دوں"(بخاری)۔


اور رسول اللہﷺ نے مسلمانوں کے حکمران ہونے کے ناطے انہیں حکمرانوں کا احتساب کرنے کو کہا اور فرمایا،


کہ فمَنْ كنتُ جلدتُ لهُ ظهراً فهذا ظهري فليَسْتَقِدْ منه، ومَنْ كنتُ شتمتُ لهُ عِرضاً فهذا عِرضي فليَسْتَقِدْ منه، ومن كنتُ أخذتُ لهُ مالاً، فهذا مالي فلْيَسْتَقِدْ منه"
اگر میں نے کسی کی پیٹھ پہ کوڑے مارے ہوں تو یہ ہے میری پیٹھ اپنا بدلہ لے لے، اگر میں نے کسی کو گالی دے کر بے عزتی کی ہو تو آئے اور اپنا بدلہ لے، اگر میں نے کسی کا مال لیا ہو تو یہ میرا مال ہے اس میں سے اپنا مال لےلے"۔


عدلیہ طاقتور کی گرفت کر کے اور مظلوم و کمزور کا ہاتھ پکڑ کر معاشرے کو تباہی و بربادی سے بچاتی ہے۔ لیکن بد قسمتی سے جابر حکمرانوں کی حمایت کی جاتی ہے اور جو جابروں کے جبر کے خلاف کلمہ حق بلند کرتے ہیں انہی کو گرفتار کیا جاتا ہے۔ کیا ہمیں برطانوی راج کے زمانے کی طرح زندگی گزارنی پڑے گی؟ کیا یہ برطانوی راج کے خلاف کی جانے والی 190 سال کی جدوجہد سے غداری نہیں اور کیا یہ افسوس کا مقام نہیں؟ تو کیا عدلیہ آج اللہ سبحانہ و تعالٰی کی رضا اور ایمان والوں کی دعاوں کے حصول کے لئے امریکی راج کے خلاف سینہ تان کر کھڑی نہیں ہو گی؟


ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کا میڈیا آفس

Read more...

جمہوریت کا خاتمہ کرو خلافت کو قائم کرو جمہوریت طاقتوروں اور سرمایہ داروں کے گھر کی لونڈی ہے

آج ‫‏پاکستان‬ میں ہونے والے سینیٹ کے انتخابات نے اس حقیقت کو ایک بار پھر بے نقاب کیا ہے کہ جمہوریت طاقتوروں اور سرمایہ داروں کے گھر کی لونڈی ہے۔ اس نظام میں شریک تمام ہی جماعتوں نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ محض ایک سینٹ کی نشست حاصل کرنے کے لئے امیدوار کروڑوں روپے خرچ کررہے ہیں۔ یہاں تک کہ تبدیلی کے گھوڑے پر سوار سیاسی جماعت کے سربراہ نے تو یہاں تک کہاں کہ "ایک اچھے آدمی نے انہیں پندرہ کروڑ دینے کی پیشکش کی"۔ سینیٹ کے انتخابات نے جمہوری نظام کی گندگی کو اس حد تک بے نقاب کر دیا ہے کہ اس نظام کے حمایتی بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ اگر ایسے پچاس انتخابات بھی کرادیے جائیں تو اس کے بعد بھی پاکستان میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوگی۔
پاکستان کے عوام ہی نہیں بلکہ اب تو مغربی ممالک کے عوام بھی یہ حقیقت جان گئے ہیں کہ جمہوری نظام عوام کے نام کو استعمال کرکے صرف اور صرف امراء کے طبقے کے مفادات کے حصول کو یقینی بناتا ہے اور ان کا تحفظ کرتا ہے۔ اسی لیے مغرب میں لوگوں نے "میں 99 فیصد ہوں" اور " وال سٹریٹ پر قبضہ کرو" کی تحریکیں چلائیں۔ ایک ایک نشست کے لئے کروڑوں روپے خرچ کرنا اس حقیقت کو بے نقاب کرتا ہے کہ پیسے لگانے والے کو جیتنے اور پھر جمہوری نظام کے ذریعے اس سے کئی گنا زیادہ روپے بنانے کا یقین ِ کامل ہوتا ہے جمہوری سیاست میں پیسے کی طاقت اور اثرورسوخ کا حالیہ مشاہدہ 2014 میں ہونے والے امریکی سینیٹ اور کانگریس کے انتخابات میں کرنے کو ملا جہاں امیدواروں نے ریکارڈ پانچ ارب ڈالر انتخابی مہم پر خرچ کیے۔ یہی حقیقت حال ہی میں برطانیہ میں سامنے آنے والے "کیش فار ایکسز" یعنی رسائی کے بدلے میں پیسے کے نام سے سامنے آنے والے سکینڈل نے بے نقاب کی۔ برطانیہ کے سابق وزیر خارجہ و داخلہ اور لیبر پارٹی کے رکن جیک سٹرا نے بھیس بدل کر آنے والے صحافیوں کے سامنے اعتراف کیا کہ انہوں نے ایک کمپنی کو فائدہ پہنچانے کے لئے یورپی قوانین میں تبدیلی کےلئے اپنا اثرورسوخ استعمال کیا اور اس کے بدلے انہوں نے ساٹھ ہزار پونڈ لیے۔ اسی سیکنڈل میں ملوث کنزرویٹو پارٹی کے رکن اسمبلی سر میلکم ریفکینڈ نے کہا کہ "میں اپنا روزگار خود پیدا کرتا ہوں لہٰذا کوئی مجھے تنخواہ نہیں دیتا"۔
جمہوریت ایک بدبودار نظام ہے جس پر جتنی بھی خوشبو چھڑک دی جائے پھر بھی اس کی بدبو کا خاتمہ نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا بائیسویں آئینی ترمیم کردی جائے یا اس جیسی سینکڑوں ترامیم آجائیں یہ نظام ہمیشہ طاقتوروں کے مفادات کی ہی نگہبانی کرے گا۔ اگر مغرب میں تقریباً دوسو سال کی نام نہاد عوامی جمہوریت کے بعد بھی طاقتور ہی اصل حکمران ہیں اور جمہوریت انہیں اپنی طاقت میں مزید اضافہ کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے تو پاکستان اور مسلم دنیا میں جمہوریت کس طرح حقیقی تبدیلی کا باعث بن سکتی ہے؟ لہٰذا پاکستان کے مسلمانوں کو بھی جمہوریت سے ہر قسم کی امید توڑ کر خلافت کے قیام کی جدوجہد کرنی چاہیے۔ نظام خلافت اللہ سبحانہ و تعالٰی کی جانب سے ہے اور یہ قانون سازی کے اُس اختیار کا ہی خاتمہ کردیتا ہے جس کی وجہ سے طاقتور طبقہ ایسے قوانین بناتا ہے جس سے صرف انہی کے مفادات کی نگہبانی ہوتی ہے۔


إِنِ ٱلْحُكْمُ إِلاَّ لِلَّهِ
"حکم تو صرف اللہ ہی کا ہے" (یوسف:67)


شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

Read more...

خلافت کا قیام امریکی راج کا اختتام راحیل-نواز حکومت امریکی خواہش پر جہاد کو دہشت گردی قرار دے رہی ہے

راحیل-نواز حکومت امریکی خواہش پر افغانستان میں جاری امریکی صلیبی افواج کے خلاف جہاد کو دہشت گردی قرار دے رہی ہے۔ اس حکومت کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نےلندن میں ایک بیان میں امریکی صدر اوبامہ کی واشنگٹن کانفرنس  کی تقریر کو بہادرانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ "ہمیں دہشتگردی کے خلاف بین الاقوامی اتحاد کے لئے صدر اوبامہ کے پیغام کے پیچھے اکٹھے ہونا چاہیے" اور اگلے ہی سانس میں یہ بھی کہہ دیا کہ "11/9 سے قبل دہشت گردی اور خودکش حملے نہیں ہوتے تھے"۔

درحقیقت 11/9 کے واقع کو بہانہ بنا کرامریکہ نے دنیا بھر میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کھلی جنگ برپا کردی  کیونکہ کمیونزم کے خاتمے کے بعد اسلام ہی وہ واحد نظریہ حیات ہے جو سرمایہ داریت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ سابق امریکی صدر بش جونئیر کا اس جنگ کو صلیبی جنگ قرار دینا ہی اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ امریکہ کا اصل ہدف اسلام اور مسلمان ہیں اسی لئے اس جنگ کا شکار صرف مسلم ممالک ہی ہورہے ہیں۔ لیکن صلیبی جنگ کی اصطلاح کے خلاف ہونے والے شدید ردعمل نے امریکہ کو دہشت گردی کی اصطلاح کے استعمال پر مجبور کردیا۔

امریکہ یہ جانتا ہے کہ اس جنگ کولڑنے کے لئے اس کے پاس کوئی جواز نہیں اسی لئے اُس کے حملوں کے خلاف مسلمانوں کی مزاحمت کو دہشت گردی کا نام دے کر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جنگ کررہا ہے۔ مسلمانوں کا امریکی صلیبی افواج سے لڑنا اسلام کی رو سے  جہاد ہے ۔  اس حقیقت کو جانتے ہوئے امریکہ نے مسلمانوں کی مزاحمت کو دہشت گردی قرار دینے اور انہیں اسلام اور جہاد سے دستبردار کرانے کے لئے سیاسی محاذ پر عالمی کانفرنسوں کا سلسلہ شروع کردیا ہے جس کی ابتداء 19فروری کو واشنگٹن میں ہونے والی کانفرنس سے کیا جس میں ساٹھ ممالک نے شرکت کی۔ اپنے اس مقصد میں کامیابی کے لئے غدار مسلم حکمرانوں کو بھی اس نے ایسی کانفرسوں کو منعقد کرنے کا حکم دے دیا ہے اور اس سلسلے کی پہلی کانفرنس 22 فروری کو مکہ میں"اسلام اور دہشت گردی کو روکنا "کے نام سے منعقد کی جاچکی ہے۔

راحیل-نواز حکومت بھی اپنے آقا امریکہ کے حکم پر جہاد کو دہشت گردی قرار دے رہے ہیں۔  اسی لئے حکمرانوں کی جانب سے یہ کہا جاتا ہے کہ اب اچھے اور برے طالبان کی کوئی تخصیص نہیں کی جائے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ نیشنل ایکشن پلان ،جو یقیناً امریکی ایکشن پلان ہے ،  کے تحت ملک بھر سے صرف پچھلے دو مہینوں میں تقریباً بیس ہزار افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جبکہ  خود حکومت نے مطلوب دہشت گردوں کی جو فہرست جارہی کی ہے وہ صرف تقریبا چھ سو افراد پر مبنی ہے۔

حزب التحریران غدار حکمرانوں کی یہ بتا دینا چاہتی ہے کہ امت جہاد کرنے والوں اور  معصوم لوگوں کو قتل کرنے والے مجرموں میں فرق کو بہت اچھے طریقے سے جانتی ہے  اور جہاد کو دہشت گردی قرار دینے کی اُن کی کوئی بھی کوشش ان کے لئے اس دنیا  اور آخرت میں ذلت و رسوائی کا باعث بنےگی۔ انشاءاللہ  کفر کی طاقتوں کےخلاف جہاد قیامت تک جاری رہے گا اور یہ امت اسلام اور اس کی عظمت جہاد سے کبھی دستبراد نہیں ہوگی۔

وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّىٰ لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ ٱلدِّينُ للَّهِ

"اور اُن سے لڑو جب تک فتنہ نہ مٹ جائے اور اللہ کا دین غالب نہ آجائے" (البقرۃ:193)

شہزاد شیخ

ولایہ پاکستان میں حزب التحریرکے ڈپٹی ترجمان

Read more...

سوال کا جواب نائیجیریا میں انتخابات  موخر  کرنے کے حوالے سے

سوال :

نائیجیریا میں الیکشن کمیشن  نے 8 فروری 2015 کو  صدارتی اور قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کو اندرونی امن و امان  کی صورت حال کی خرابی کے بہانے  28 مارچ تک موخر کر دیا گیا  جو 14 فروری کو ہونے والے تھے۔ کیا بات ایسی ہی ہے ؟ یا اس تاخیر کے بین الاقوامی اسباب ہیں ؟ اگر یہ بات ہے تو  اس تاخیر پر اثر انداز ہونے  والے ممالک کون ہیں؟ ان انتخابات کے بارے میں اب کیا توقع ہے ؟

میرا یہ مشاہدہ ہے کہ  حزب  کے مطبوعات  تقریباً  نئیجیریا  کے مسائل سے خالی ہیں حالانکہ  یہ آبادی کے لحاظ سے افریقہ میں سب سے بڑا اسلامی ملک ہے ، جو سمندر  تک پھیلا ہوا ہے،یہ تیل سے بھی مالا مال ہے، اس کو اہمیت کیوں نہیں دی جاتی ہے ؟ میں معذرت چاہتا ہوں کہ  سوال کرنا اگرچہ میرا حق ہے مگر شاید  نوٹ لکھنے کا حق نہیں تھا  ۔۔۔اللہ آپ کو بہترین جزاء دے۔

 

جواب :

پہلے : میں ملاحظہ سے شروع کر تا ہوں اور  یہ کہتا ہوں :

اللہ آپ کے اس ادب میں اضافہ فرمائے ، آپ  ایک ایسے امر پر بھی معذرت کر رہے ہو جو تمہارا حق ہے  اور یہی ادب کا حسن ہے۔۔۔

رہی بات نئیجیریا کو اہمیت دینے کی  تو یہ اللہ کے اذن  ہونے والا ہے اطمینان رکھئیے ، آپ نے جو کچھ کہا ہمیں اس کا ادراک ہے ،اس کے علاوہ بھی ہمیں  کئی امور کا  ادراک ہے اور ہم اس پر احسن انداز سے گامزن ہیں، اللہ سبحانہ وتعالٰی ہی توفیق دینے والا ہے۔۔۔

 

جہاں تک مطبوعات کا تعلق ہے  تو اس میں ہم بعض پہلوں اور ترجیحات  کی رعایت رکھتے ہیں۔۔۔اس کے باوجود ہم نے ایک سے زیادہ بار  نئیجیریا کے بارے میں مواد شائع کیا ہے،مثال کے طور :

۔پر13 مارچ 2009 ہم نے ایک سوال کا جواب شائع کیا جو یہ تھا   کہ" کیا نئیجیریا میں اسلام کے آنے کے بارے میں  کچھ تاریخی معلومات ہیں   اور اس کے بعد  وہاں کیسے حکمرانی کی گئی ؟ پھر یہ بھی کہ نئیجیریا میں سیاسی صورت حال کیسی ہے ؟"۔

۔20 جنوری 2012 کو ہم نے  شباب کے لیے معلومات  "بوکو حرام" گروپ اور نئیجیریا میں اسلام کے خلاف  وحشیانہ جنگ " شائع کیا ۔

۔21 اگست 2012 کو  ہم نے ایک سوال کا جواب شائع کیا "  گزشتہ دنوں  میں نئیجیریا اور کینیا   کی صورت حال،کچھ واقعات اور کشمکش نے ان کے متعلق مشاہدہ کرنے والوں کو چونکا دیا ۔۔۔کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ امریکہ یا برطانیہ یا کوئی اور طاقت  افریقہ کے طول و عرض میں  خانہ جنگی کو ہوا دینے  کی نئی پالیسی پر گامزن ہے  خصوصاً نئیجیریا میں  اور 2007 کے  عام انتخابات کے بعدکینیا میں  یا یہ  کہ ان واقعات  کا تعلق اندرونی عوامل سے ہیں؟"۔

۔یہ ایک تفصیلی جواب تھا جس میں ہم نے جو ناتھن اور ان کو 2011 صدر منتخب کرنے کا ذکر ہے ،اس جواب میں تھا کہ ، "اوبا سانجو ملک میں سب سے بڑا امریکی ایجنٹ ہے۔یہ نئیجیریا میں امریکی بالادستی   کے تسلسل کی ضمانت دینے اور برطانوی اثر ورسوخ کو  زائل کرنے کے بارے میں ذمہ دار ہے۔  اوباسانجو  ہی نے  جو ناتھن کو  2007 کے صدارتی انتخابات میں  صدر عمر کے نائب کے طور پر منتخب کیا۔  گڈلک جوناتھن  کے شخصی فائل میں  ہے جس کا ذکر بی بی سی ریڈیو نے کیا  کہ "جناب جو ناتھن  گورنر بن گئے اور اس کے دو سال بعد  ہی او سیجو اوبا سانجو ان کو  2007 کے صدارتی انتخابات  میں نئیجیریا   کا  نائب صدر نامزد کیا " ( گڈلک  جو ناتھن کا شخصی فائل : بی بی سی نیوز آن لائن  18 اپریل 2011)۔اس کے کچھ عرصہ بعد  اوبا سانجو نے  نے جو ناتھن کو صدر کے منصب  تک پہنچانے کا بندو بست کیا جیسا کہ الطلیعہ (ڈان) اخبار نے کہا  ہے کہ  جو ناتھن کو صدارتی منصب تک پہنچانے میں اوباسانجو  کا بنیادی کردار ہے ،اخبار نے کہا کہ  "جب  یارادوا     صدارتی مدت  میں جو کہ چار سال ہے کے  تقریبا دوسال میں ہی  بیمار  ہو گیا  اور اپنی صحتیابی سے نا امید ہو گیا  تو اوباسانجو نے  پہلی بار سعودی ہسپتال میں ان کی عیادت کے لیے گیا اور واپس آتے ہی گڈ لک جو ناتھن کے نائب صدر کے طور پر حلف برداری  کی مہم میں منہمک ہو گیا  تاکہ وہ نائب صدر کے طور پر صدر کا قائم مقام بن جائے  کیونکہ صدر یارادوا نے ملک سے باہر جاتے وقت  کسی کو اپنا نائب  مقرر نہیں کیا تھا  (کلیفور : اوباسانجو کا استعفی  : جوناتھن کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے بعد کیا ہو گا ؟" اخبار الطلیعہ آن لائن 4 اپریل 2012 )۔

 

اس طرح  امریکہ  2011 کے صدرتی انتخابات میں  جو ناتھن  کے لیے وسیع مینڈیٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا ، کیونکہ جوناتھن  نئیجیریا کی عوام تک پہنچنے  کے لیے سوشل میڈیا کے ذرائع کو استعمال کیا  اور77.7فیصد ووٹ حاصل  کرنے میں کامیاب ہو گیا ۔  یہ نتائج عمر یارادوا  کے ووٹ کے مقابلے  میں زیادہ تھے ۔۔۔") ختم شد

 

یوں ہم نے نئیجیریا کے بارے  مختلف مواقع پر مطبوعات شائع کیں ۔۔۔اگر چہ یہ اشاعت دوسرے بعض علاقوں کے بارے میں کی جانے والی  اشاعت سے کم ہیں  لیکن جیسا کہ پہلے میں نے کہا کہ  ہم "بعض  پہلووں اور ترجیحات  کی رعایت کر تے ہیں۔۔۔" ۔

بہر حال اللہ آپ کے اہتمام اور جستجو پر آپ کو بہترین جزا دے آپ کو توفیق دے اور مدد کرے ۔

 

دوسرا : انتخابات کی تاخیر کے بارے میں آپ کے سوال کا جواب :

جواب کی وضاحت کے لیے میں مندجہ ذیل امور کا ذکر کروں گا :

1 ۔ حال ہی میں امریکہ نے نئیجیریا میں  اپنی بالادستی  کو مضبوط کرنے کے منصوبے کا اعلان کر دیا ؛ جیسا کہ  نیو یارک ٹائمز نے 7 جون 2014 کو خبر دی کہ "امریکہ  نے  نئیجیریا کے شمال میں ایک ٹی وی چینل کھولنے کا فیصلہ کر لیا ہے جس کو امریکہ براہ راست فنڈز دے گا اور یہ چینل 24 گھنٹے  نشریات نشر کرے گا ،اس کا مقصد  بوکو حرام  اور دوسری سخت گیر اسلامی  جماعتوں  کا مقابلہ کر نا ہے"۔ اسی اخبار نے ایک امریکی عہدیدار  کا یہ بیان بھی نشر کیا کہ "یہ منصوبہ 2012 میں بوکو حرام کے خلاف تعاون کے لیے  نئیجیریا  کے ساتھ مذاکرات کا نتیجہ ہے ،اس چینل کو نئیجیریا کے لوگ  چلائیں گے"۔ اخبار نے کہا کہ  "امریکی وزارت خارجہ میں اینٹی ٹیررازم آفس  اس چینل کے لیے فنڈز فراہم کرے گا  جو 6 ملین ڈالرز ہوں گے"۔

 

2 ۔ برطانیہ نے 1960 تک نئیجیریا کو  کالونی بنا کر رکھا اور  تب تک اسی کی وہاں  مکمل بالادستی تھی۔  اب بھی  اس کا کچھ نہ کچھ اثر ورسوخ وہاں باقی ہے  اگر چہ اب پہلے کے مقابلے میں بہت کم ہے کیونکہ امریکہ نے بالادستی حاصل کرنے میں اس کے ساتھ مقابلہ کیا اور اس لیے انہی دونوں کا وہاں اثرو رسوخ ہے  اور انہی کے مابین مقابلہ ہے۔ برطانیہ اور اس کے ساتھ فرانس بھی حرکت میں آگیا  کیونکہ اس کو نئیجیریا کے  پڑوس  میں اپنی بالادستی  کی فکر دامنگیر تھی، چنانچہ  کیمرون کی سرحدھحدکے ساتھ موجود  چاڈ کے فوجی دستے  منگل3 فروری 2015 کو نئیجیریا میں داخل ہوئے۔  یہ فوج بوکو حرام کے اسلام پسندوں کے  ساتھ زبردست لڑائی کے بعد  نئیجیریا  کے شہر غامبور میں داخل ہوئی "(اے ایف پی 3/2/2015 )۔

یہ کہا گیا ہے  کہ اس جماعت نے ایک مہینہ قبل اس شہر پر قبضہ کیا تھا۔ چاڈ کی فوج   گزشتہ مہینے جنوری میں کیمرون میں داخل ہوئی تھی ۔ رائٹرز نیوز ایجنسی نے3 فروری 2015 کو خبردی کہ "فرانس کی فضائیہ بوکو حرام کے انتہا پسندوں کے خلاف  نئیجیریا  کی سرحد کے ساتھ واقع ممالک  کی مدد کے لیے  جاسوسی  کی ذمہ داری ادا کر رہی ہے ۔۔۔ جبکہ برطانیہ کی موجودہ پالیسی یہ ہے  وہ امریکہ کی اعلانیہ مخالفت نہیں کر تی  بلکہ  وہ یہ ظاہر کرتی ہے کہ وہ بین الاقوامی مسائل میں اس کی شریک کار ہے  اور یوں وہ اپنے آپ کو امریکہ کے شر سے محفوظ رکھتی ہے۔  برطانیہ کھل کر امریکہ کی مخالفت نہیں کر تا کیونکہ  وہ اپنے مفادات کو نقصان پہنچنے سے ڈرتا ہے  اور اس بات سے ڈرتا ہے کہ کہیں  اپنی پرانی کالونیوں  میں رہے سہے اثرو رسوخ  سے بھی ہاتھ دھونا نہ پڑے،مگر ساتھ ساتھ اب بھی  فرانس کو اسی طرح حرکت میں لاتا رہتا ہے جیسا کہ زمانہ قدیم سے  اپنے مقاصد کے حصول کے لیے فرانس کے ساتھ کرتا آرہا ہے۔ فرانس کھل کر  سامنے آنے کو پسند کر تا ہے  کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ وہ ہمیشہ بڑا اورنمایاں نظر آئے،اسی لیے برطانیہ  اس کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے جبکہ فرانس سیاسی داؤ پیچ میں اتنا ماہر نہیں۔۔۔لے دے کر عملی رسہ کشی امریکہ اور برطانیہ کے درمیان ہی ہے۔

 

3 ۔ رہی بات نئیجیریا کے اندر کی تو   نئیجیریا کی حکومت  مسلمانوں کے گرد گھیرا تنگ کر رہی ہے  جبکہ مسلمان اکثریت ہیں،   چنانچہ فروری 2014   سرکاری سکولوں میں  حجاب پر پابندی لگا دی گئی ۔ حکومت  ،جس کی قیادت نصاری ٰکے ہاتھ میں ہے،  نے جانبداری کا مظاہر کیا  اور اس حکومت کو مغرب  اور اس کے سر غنہ امریکہ کی آشیر باد حاصل ہے۔حکومت واضح طور پر نصاریٰ کی  طرفدار ہے ، مسلمانوں پر مغربی طرز تعلیم کو مسلط کر رکھا ہے اور  ریاست  مسلمانوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک کر رہی ہے۔۔۔جب نئیجیریا کی فوج کے سپاہیوں نے  ان وحشیانہ کاموں سے انکار کیا جن کا ارتکاب  حکومت  مسلمان  شہریوں کے خلاف  کر تی ہے تو ان سپاہیوں کو سزائے موت دی گئی۔  سکائی نیوز نے 18 دسمبر 2014 کو خبر دی کہ " نئیجیریا کی ملٹری کورٹس نے   18 دسمبر 2014 کو اسپشل فورس کےان  54 عناصر کو سزائے موت دے دی جنہوں نے  بوکو حرام گرپ کے خلاف لڑنے سے انکار کر دیا تھا۔  گزشتہ  ستمبر  میں 12 نئیجیرن فوجیوں کو ایک افسر پر فائرنگ کر کے الزام میں ملک کے مشرقی علاقے مایدوغوری میں  سزائے موت دی گئی ۔۔۔یہ سب عوام اور فوج کی جو ناتھن حکومت  سے  ناراضگی کو ظاہر کرتے ہیں اور اگر  انتخابات  اپنے مقررہ وقت پر ہوں تو یہ صورتحال ووٹ پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔

 

4 ۔ یہ تو ایک پہلو سے تھا جبکہ دوسرا پہلو یہ ہے کہ انتخابات میں  جو ناتھن  کا موجودہ مد مقابل  سابق صدر محمد بخاری ہے  جن کا تعلق  ھوسا قبیلے سے ہے  جو کہ سب سے بڑا قبیلہ ہے  اور ملک کی آبادی کا ایک چوتھائی ہے ،اس قبیلے  کے لوگوں کی بھاری اکثریت  مسلمان ہے اور شمالی نئیجیریا میں ان کو مقبولیت بھی حاصل ہے ۔  2011 کے انتخابات میں بھی اس نے  جوناتھن سے مقابلہ کیا تھا ۔ یہ اعلان بھی کیا گیا تھا کہ محمد بخاری 32 فیصد سے جیت چکے ہیں ، انہوں نے انتخابات کی شفافیت پر شک کیا اور کہا کہ " نئیجیرین الیکشن کمیشن کے کمپیوٹر پروگرام  کے ذریعے  انتخابی نتائج سے کھیلا گیا  اور ان کو نقصان پہنچایا گیا "۔  یہ کہہ کر انہوں نے بلواسطہ طور پر امریکہ پر الزام عائد کیا  کیونکہ امریکہ نے ہی  اس الیکشن کمیشن  کو تکنیکی مہارت اور سرمایہ فراہم کیا   تھا اور وہی اس کی نگرانی  کر رہا تھا۔  امریکی وزیر خارجہ کے معاون جونی کارسون نے اس وقت اس الیکشن کمیشن کی تعریف کی تھی اور نئیجیرین عہدیداروں نے 9 دسمبر 2010 میں  واشنگٹن میں امریکی عہدیداروں کے ساتھ  اپریل 2011 میں ہونے والے انتخابات  ،اس کے لیے درکار تیکنیکی معاونت ، سرمایہ اور نگرانی کے حوالے سے  اعلیٰ سطحی بات چیت کی تھی۔

 

محمد بخاری برطانوی  ایجنٹوں میں سے ہے اور یہ سابق عسکری حکمران ہے ۔  انہوں نے 1983  میں شیخو شارجاری  کا تختہ الٹ دیا تھا جو 1979 سے سول حکمران تھا ۔۔۔محمد بخاری نے 1999 اور2003  کے انتخابات میں  ریٹائرڈ جنرل اولو سیگن اوبا سانجو  کے ساتھ مقابلہ کیا  جبکہ 2007 کے انتخابات میں اوباسانجو نے  اپنی پارٹی کی طرف سے عمر یارادوا کو امیدوار نامزد کیا  جو کہ ایک مسلمان قبیلے سے تعلق رکھتا ہے  اور اس کا مقصد  محمد بخاری سے مقابلہ کرنا تھا اور یہی ہوا آخر الذکر وہ انتخابات ہار گیااور اسی وجہ سے  اس حکومت پر دھاندلی کا الزام لگا یا جس کی قیادت اوباسانجو کے پاس ہے۔  جیسا کہ ہم نے اوپر کہا کہ محمد بخاری کو کسی حد تک مقبولیت حاصل ہے خاص کر  شمالی نئیجیریا میں ، اس لیے وہ اور اس کی جماعت پروگریسیو کانگریس پارٹی  کے پاس جو ناتھن اور اس کی پارٹی عوامی جمہوری پار ٹی کو  اقتدار سے  ہٹانے کا  اچھا خاص موقع ہے۔

 

5 ۔یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے بھانپ لیا کہ انتخابات اس کے مفاد میں نہیں  اس لیے امریکی سیکریٹری خارجہ کیری نے موخر کرنے کے لیے معاملات کو ترتیب دینا شروع کیا :

۔ اس نے برطانوی وزیر خارجہ فلپ ہامونڈ سے 23 جنوری 2015 کو ملاقات کی  جیسا کہ فرانس پریس نیوز ایجنسی نے ذکر کیا ہے ، یہ ملاقات انتخابات کو موخر کرنے سے تقریباً دو ہفتے پہلے ہوئی تھی۔  اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کے درمیان سب سے بڑا موضوع انتخابات ہی تھے۔ امریکہ کو اس بات کا ادراک ہے کہ نئیجیریا میں  برطانیہ کے  کارندے موجود ہیں۔۔۔

۔ اس کے بعد کیری نے  حزب اختلاف کی پروگریسیو کانگریس پارٹی کی قیادت اور ان کے نامزد امید وار محمد بخاری سے ملاقات کی۔  ملاقات کے بعد کیری نے کہا  کہ "صدر باراک اوباما  نے مجھ سے کہا  ہے کہ میں نئیجیریا  کی سیاسی شخصیات  کو یہ بتادوں کہ امریکہ  شریک ہونے اور نئیجیریا کی مدد کرنے کے لیے تیار ہے ، لیکن جمہوری عمل تسلی بخش ہو نا چاہیے " (اے ایف پی 25 جنوری2015 )۔

۔ اس کے بعد کیری نے نئیجیریا کے صدر جو ناتھن  سےملاقات کی جس نے "آزادانہ ،شفاف اور تسلی بخش انتخابات کے اجراء کی حامی بھری" (اے ایف پی25 جنوری2015)۔

یوں یہ تمام ملاقاتیں  صدارتی انتخابات  کے حوالے سے تھیں ۔  فرانس پریس نے کیری کے نئیجیریا کے دورے کی خبر دیتے ہوئے 25 جنوری2015 کو کہا  کہ  " کیری  صدارتی اور قانون ساز اسمبلی  کے لیے  14 فروری کو ہو نے والے انتخابات  کے بارے میں بات چیت کرے گا" ۔

 

6۔ ایسا لگ رہا ہے کہ  کیری ان اعلانیہ اور غیر اعلانیہ ملاقاتوں کے ذریعے  انتخابات کو کچھ عرصے کے لیے موخر کرنے  کے مسئلے کو حل کرنے  پر اتفاق کے لیے طرفین کو منانے کی کوشش کر رہا تھا، لیکن  وہ اس حل تک نہ پہنچ سکے  اسی لیے جو ناتھن  نے طرفین  کی رضامندی کا انتظار کیے بغیر ہی   انتخابات کو ڈیڑھ مہینے کے لیے موخر کرنے کے احکامات جاری کر دئیے اور یو ں  نئیجیرین الیکشن کمیشن نے8 فروری2015 کو  14 فروری کو ہونے والے صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کو 28 مارچ تک امن و آمان کی صورت حال کا بہانہ بنا کر موخر کر دیا۔ امریکہ نے حسب عادت اپنے آپ کو اس سے لاتعلق ظاہر کیا،گویا کہ یہ خود جوناتھن حکومت کا فیصلہ تھا،جس پر کیری نے یہ بیان جاری کیا کہ  " نئیجیریا کی جانب سے انتخابات کو موخر کرنے کے فیصلے پر واشنگٹن  کو مایوسی ہوئی" (رائٹر 8/2/2015 )۔  کیری نے تو یہ کہا مگر معاملہ ہر اس شخص کے سامنے واضح ہے جس کے پاس دو آنکھیں ہیں۔  اس کی ملاقاتوں میں بھی توجہ انتخابات کے موضوع پر مرکوز تھی جیسا کہ فرانس پریس  نیوز ایجنسی نے کہا ہے ۔ لازمی بات ہے کہ انتخابات میں تاخیر کا فیصلہ امریکہ کا ہے کیونکہ اس بات کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ جو ناتھن امریکہ کی مخالفت کر ے  وہی امریکہ کا تابع فرمان  اور امریکی حمایت پر بھروسہ کرنے والا ہے۔ رائٹرز نیوز ایجنسی نے 8 فروری2015 کو خبر دی کہ  نئیجیرین الیکشن کمشن نے " حکمران  پیپلز پارٹی  کے دباؤ کے سامنے گھٹنے ٹیک دئیے" ۔

 

7 ۔  حکومت نے انتخابات کو موخر کرنے  کا سبب امن وآمان کو قرار دیا  لیکن یہ عذر لنگ ہے ۔ جا ناتھن حکومت  کی جانب سے انتخابات کو موخر کرنے  کے بہانے  میں تضاد اور تردد نمایا ں ہے۔  چنانچہ    آزاد قومی الیکشن کمیشن کے سربراہ  اتا ھیرو جیجا نے وضا حتی بیان میں کہا  کہ "ملک کے سیکیورٹی قیادت کے مشوروں کو اتنے آسانی سے  نظر انداز کر نا ممکن نہیں ، ایسے حالات میں  نوجوانوں اور خواتین کو اپنا جمہوری حق  ادا کرنے کے لیے گھروں سے باہر نکالنا ممکن نہیں  جہاں امن آمان کی کوئی ضمانت نہ ہو اور یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے، اس کے نتیجے میں کمیشن نے انتخابات کے لیے نئی تاریخ مقرر کردی ہے ، عام انتخابات ،صدارتی انتخابات اور قومی اسمبلی کے انتخابات 28 مارچ 2015 کو ہوں گے جبکہ گورنروں اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات   11 اپریل کو ہوں گے"۔ جیجا نے کہا  کہ "قومی سلامتی کے مشیر نے  پچھلے ہفتے  الیکشن کمیشن کو ایک خط بھیجا جس میں  وضاحت کی کہ  انتخابات کا  مقررہ  اصل تاریخ   پر منعقد ہو نے کی صورت میں امن و  آمان کی ضمانت دینا ممکن نہیں ۔۔۔" انہوں نے مزید کہا  کہ "اس فیصلے پر ہمیں کسی نے مجبور نہیں کیا"۔  انہوں نے یہ ایسے انداز سے کہا  جیسا کہ ایک "مشکوک شخص کہے کہ مجھے پکڑو" ۔  انہوں نے مجبوری  کو چھپاتے چھپاتے مجبوری کو ثابت کیا  !صرف یہی نہیں بلکہ  اس سے قبل  گزشتہ مہینے قومی سلامتی کے مشیر  سامبو داسو کی نے کہا کہ  "انتخابات میں تاخیر کا سبب شناختی کارڈز بروقت فراہم نہ ہو نا ہے جو کہ ووٹنگ کے لیے لازمی ہے " ( رائٹرز 8/2/2015 )۔۔۔ یوں ایک مہینے پہلے قومی سلامتی کا مشیر  انتخابات میں تاخیر کا سبب  شناختی کارڈز کی عدم فراہمی کو قرار دے رہا ہے  جبکہ الیکشن کمیشن اس کا سبب امن آمان کے مسئلے کو گردانتا ہے ؟! دونوں بیانات میں واضح تضاد ہے !

یہی وجہ ہے کہ انتخابات میں تاخیر ان اسباب کے بنا پر نہیں کی گئی جو جوناتھن حکومت نے بتا ئی ہے بلکہ یہ امریکی فیصلے کی بنا پر ہے کیونکہ  اس کے ایجنٹ  موجودہ صدر جوناتھن  کی پوزیشن خراب  اور اس کے ناکام ہونے کا خوف ہے۔ جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا کہ  تجزیہ نگار اور مشاہدہ کرنے والے  اس بات کا اشارہ دے رہے ہیں کہ  محمد بخاری  اور اس کی پارٹی پروگریسیو کانگریس  کے پاس جو ناتھن اور ان کی پارٹی پیپلز  ڈیموکریٹک پارٹی کو  اقتدار سے ہٹا  نے  کا حقیقی موقع ہے۔

 

8 ۔  اب مندرجہ ذیل تین احتمالات کا امکان ہے:

ا ۔ جو ناتھن انتخابات کو موخر کرنے کی مدت کے دوران  امریکہ کی مدد سے کچھ کامیابیاں حاصل کر لے  اور امن و آمان کو بحال کرنے کچھ اقدامات کریں ،جس سے  پرتشدد کاروائیوں میں کمی آئے، اگر وہ  یر غمال بنائے گئے  سکول کی بچیوں  کے مسئلے کو امریکہ کی پشت پناہی   اوربین الاقوامی  تدابیر سے حل کرنے میں کامیاب ہو گیا تو یہ اس کی بڑی کامیابی ہو گی۔۔۔

ب ۔ یا امریکہ  برطانیہ کے ساتھ کسی مصالحت تک پہنچے گا اور جوناتھن اور محمد بخاری کے درمیان شراکت ہو گی، ایک صدر بن جائے دوسر ا اس کا نائب مقرر ہو ، یعنی وہی فارمولہ آزمایا جائے  جس کو جو ناتھن نے ختم کر دیا تھا، جو یہ تھا کہ ایک نصرانی ہو اور دوسرا مسلمان۔  اس صورت حال کا دارومدار  نئیجیریا میں  رسہ کشی کرنے والے فریقین کی قوت پر ہو گا یعنی امریکہ اور برطانیہ ۔

ج ۔ انتخابات  کو موخر کرنے کو دہرایا جائے ، یا  نئے مقرر ہ وقت پر انتخابات کا انعقاد ہو  مگر گزشتہ انتخابات کی طرح کمپیوٹر پروگرام کے ساتھ کھیل کر امریکی  امید وار کا پلڑا بھاری کیا جائے گا، دونوں صورتوں میں  پرتشدد کاروائیوں میں اضافہ ہو گا اور لوگ خاص کر مسلمان اس آگ  میں جلیں گے ۔۔۔

د ۔ یا پھر اللہ  اس امت پر اپنا فضل کر ے گا اور کسی مضبوط  اسلامی ملک میں  خلافت راشدہ قائم ہو جائے گی  ، جس سے استعماری کفار کے دلوں میں  رعب داخل ہو گا  اور وہ اسلام اور اہل اسلام کے خلاف سازشوں کی جرات نہیں کریں گے، بلکہ نئیجیریا اور دوسرے علاقوں میں  مسلمان غالب آئیں گے:

﴿وَلَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ﴾

"جو اللہ کی مدد کرتے ہیں اللہ ضرور ان کی مدد کرتا ہے  بے شک اللہ ہی  قوی اور غالب ہے"(الحج:40)۔

 

Read more...

خلافت کا قیام امریکی راج کا اختتام راحیل-نواز حکومت افغانستان میں امریکی قبضے کو مستحکم کرنے کے لئے مجاہدین پر بھرپور دباؤڈال رہی ہے

راحیل-نواز حکومت افغانستان میں امریکی قبضے اور خطے میں امریکی راج کو مستحکم کرنے کے لئے امریکہ کے خلاف لڑنے والے مجاہدین پر بھر پور دباؤ ڈال رہی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب امریکہ عالمی اقتصادی بحران اور عراق و افغانستان کی دو انتہائی طویل جنگوں کی وجہ سے شدید مشکلات کا شکار ہے  اور یہ صاف نظر آرہا ہے کہ افغان حکومت  کسی صورت  امریکی مفادات کا تحفظ نہیں کرسکتی، تو  راحیل-نواز حکومت نے خطے میں امریکی راج کو گرنے سے بچانے کے لئے اپنی خدمات پیش کردیں ہیں۔ اسی مقصد کے حصول کے لئے پہلے شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن شروع کیا گیا کیونکہ  حقانی نیٹ ورک سمیت امریکہ کے خلاف لڑنے والے مجاہدین کے اہم ٹھکانے اسی علاقے میں موجود تھے اور پھر پشاور اسکول حملے کو جواز بنا کر نیشنل ایکشن پلان کے نام پر اس کا دائرہ کار پورے ملک تک پھیلا دیا گیا۔حکومت  فوجی آپریشن کے ساتھ ساتھ افغانستان میں امریکی مفادات کو یقینی بنانے کے لئے مجاہدین کے بعض گروہوں  پر امریکہ کے ساتھ مذاکرات کرنے کے لئے شدید دباؤ ڈال رہی ہے  اور پچھلے چند مہینوں میں راحیل-نواز حکومت کے سیاسی و فوجی اہلکاروں کی تواتر سے کابل یاترا اسی مقصد کے تحت ہے۔

راحیل-نواز حکومت کا یہ عمل پاکستان اور  افغانستان  کے مسلمانوں کی پیٹھ میں خنجر گھوپنے کے مترادف ہے۔ اس وقت جب خطے کے مسلمان اپنی عظیم ترین قربانیوں کی بدولت اس علاقے میں امریکی عزائم کو ناکام کرنے کے قریب پہنچ رہے ہیں تو ایک بار پھر پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں نے  مسلمانوں کے ساتھ کھڑا ہونے کے بجائےکافر صلیبیوں  کے ساتھ کھڑا ہونے کو ترجیح دی ہے۔ امریکہ کی افغانستان میں صورتحال کمزور ہے  جس کی وجہ سے افغان حکام اور امریکی قانون ساز امریکی صدر سے محدودانخلاء کی تاریخوں میں ردوبدل کا مطالبہ کررہے ہیں۔ لہٰذا نئے امریکی سیکریٹری دفاع ایشٹن کارٹر نے  اپنے حالیہ  کابل کے دورے کے دوران یہ کہا ہے کہ امریکہ اس بات کے لئے تیار ہے کہ کچھ اڈوں کو بند کرنے میں تاخیر کردی جائے اور مزید فوج کو افغانستان میں  تعینات رکھا جائے۔

حالیہ دونوں میں امریکی سیکریٹری خارجہ جان کیری اور افغان صدر غنی کے جانب سے افغانستان میں نام نہاد امن کے قیام کے لئے راحیل -نواز حکومت کی کوششوں کی انتہائی تعریف و توصیف کرنااس بات کی واضح دلیل ہے کہ پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں نے پاکستان کے سیاسی و فوجی وسائل مخلص مجاہدین کو امریکہ کے ساتھ مذاکرات کرنے اور امریکی شرائط کو قبول کرنے  پر مجبور کرنے کے لئے لگا دیے ہیں۔ حزب التحریر پاکستان ا ور افغانستان کے عوام اور افواج میں موجود مخلص افسران کو یہ بتا دینا چاہتی ہے کہ یہ سوچ انتہائی خطرناک ہے کہ اگر امریکہ کا مجاہدین کے ساتھ کوئی معاہدہ ہوجائے تو اس کے نتیجے میں پاکستان اور افغانستان میں امن قائم ہوجائے گا، ایسی سوچ رکھنے والوں کو عراق کی صورتحال کو سامنے رکھنا چاہیے جہاں آج کے دن تک مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہہ رہا ہے۔ خطے میں امن امریکہ کی موجودگی کو ختم کرنے سے ہی قائم ہو گا اور ایسا صرف خلافت کے قیام کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

 

شہزاد شیخ

ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

Read more...

خبر اور تبصرہ راحیل-نواز حکومت نیشنل ایکشن پلان (امریکی ایکشن پلان) کو نافذ کرنے کے لئے پاگل ہوگئی ہے

خبر: 6 فروری 2015 کو وزیر اعظم کے دفتر نے اعداد و شمار پر مشتمل ایک دستاویز جاری کی جس میں نیشنل ایکشن پلان کے تحت دس ہزار سے زائد مبینہ "دہشت گردوں" کی گرفتاری کا دعویٰ کیا گیا تھا لیکن اس دستاویز میں پکڑے جانے والے لوگوں کے پس منظر اور اُن کی کِن جماعتوں سے وابستگی ہے کے حوالے سے کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئی۔ پریس کو جاری کی جانے والی اس دستاویز میں یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ حکومت کب اور کیسے ان دس ہزار سے زائد لوگوں پر مقدمات چلائے گی جنہیں ملک بھر سے چودہ ہزار سے زائد چھاپوں کے دوران گرفتار کیا گیا ہے۔ یہ سب کاروائیاں دسمبر 2015 میں پشاور آرمی پبلک اسکول پر حملہ ہونے کے بعد کی گئی ہیں جس میں 140 سے زائد افراد جاں بحق ہوگئے تھے جن میں اکثریت بچوں کی تھی۔


تبصرہ: پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے خوفناک حملے اور پھر نیشنل ایکشن پلان کے اعلان کے بعد راحیل-نواز حکومت نے ملک بھر میں چھاپوں کا سلسلہ شروع کردیا جس میں اُن لوگوں کو نشانہ بنایا گیا جو افغانستان میں امریکی افواج کے خلاف لڑتے ہیں یا پھر اُن کو جو پاکستان میں اسلام کے نفاذ کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اس حکومت نے امام مساجد کو بھی نہیں بخشا اور ہزاروں کو لاوڈ سپیکر ایکٹ کے تحت گرفتار کر لیا ہے۔ حکومت کی ایجنسیاں مدارس کے طلبہ کا پیچھا کررہی ہیں اور انہیں اغوا کررہی ہیں۔ لیکن اِن کا پاگل پن اُس وقت انتہاء کو پہنچ گیا جب انہوں نے لاہور، گلبرگ میں ایک انتہائی معزز اور مشہور جگرانوی خاندان کے گھر پر چھاپہ مارا۔
حکومت کے غنڈے جگرانوی خاندان کے ایک فرد کو گرفتار کرنے آئے تھے جسے پچھلے کئی سالوں سے بد نام زمانہ فورتھ شیڈول میں ڈال رکھا گیا ہے۔ لیکن جب وہ اسے گرفتار نہ کرسکے تو 11 فروری کو اُس کے بھائیوں اور اُن کی بیویوں کے نام چارج شیٹ لکھ ڈالی۔ لیکن حکومت کی جانب سے یہی کافی نہ تھا کہ 13فروری کو نماز جمعہ سے قبل حکومت کے غنڈے واپس آئے اور جگرانوی خاندان کے گھر کی چار دیواری کے تقدس کو پامال کیا اور بغیر اجازت گھر میں داخل ہوگئے اور ایک غنڈے نے اِس خاندان کی ایک عورت کو پکڑ لیا جب اس کی گود میں اس کا جسمانی طور پر معزور بچہ بھی موجود تھا اور اُسے گرفتار کر کے لے گئے۔ اب وہ خاتون اپنے چھوٹے بچے کے ساتھ لاہور کی کوٹھ لکھپت جیل میں قید ہیں اور عدلیہ کی جانب سے اپنی ضمانت کی درخواست سننے کی منتظر ہیں۔
یہ کوئی پہلا موقع نہیں کہ جگرانوی خاندان نے حکومت کے غضب اور جبر کا سامنا کیا ہے۔ ان کا واحد جرم یہ ہے کہ اُن کے کچھ مرد حضرات حزب التحریر کے ساتھ خلافت کے قیام کے لئے کام کرتے ہیں جبکہ پورا خاندان اس مقصد کی حمایت کرتا ہے۔ ماضی میں بھی کئی بار جگرانوی خاندان کے مرد حضرات کو گرفتار کیا گیا اور وہ اس اعلٰی مقصد کے لئے کام کرنے کے جرم میں جیل بھی گئے۔ لیکن حکومت کا جبر اور ظلم اِس خاندان کو اسلام سے محبت اور اس کے نفاذ کی جدوجہد سے دستبردار نہیں کراسکا۔ اب اُن کے استقامت کو متزلزل کرنے کے لئے حکومت نے اُن کی پاک دامن عورت پر اپنا گندا ہاتھ ڈالا ہے۔ یہ عمل پاکستان کے معاشرے میں ایک سرخ لکیر ہے کیونکہ پاکستان کا معاشرہ اسلام سے شدید محبت رکھتا ہےاور اس حد کو کسی صورت عبور کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی ۔ یہ غلیظ عمل کر کے اِس حکومت نے پورے معاشرے کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ اپنے کافر آقاؤں کی خوشنودی کے لئے کسی بھی حد تک گرسکتی ہے۔
الحمد اللہ حکومت کے خلاف غصہ اس کی جانب سے مسلط کیے گئے خوف پر غالب آرہا ہے۔ حکومت کی اس ظلم وجبر کی مہم نے بہت سو ں کو غصے میں مبتلا کردیا ہے۔ حکومت کے غنڈے گھر کی چار دیواری کا تقدس بغیر پوچھے داخل ہو کر پامال کررہی ہے یہاں تک کہ خواتین اور چھوٹے بچوں کو دہشت زدہ کررہی ہے۔ حکومت نیشنل ایکشن پلان جو درحقیقت امریکی ایکشن پلان ہے، کے خلاف کسی قسم کی مخالفت کو برداشت نہیں کررہی تا کہ پاکستان میں امریکی راج کو مستحکم کیا جائے۔ اِس حکومت نے اسلام اور اس کی امت کو چھوڑ دیا ہے اور یہ واشنگٹن میں بیٹھے اپنے کافر آقاؤں کی خدمت کرنے پر فخر کرتی ہے اوراس حکومت کے افراد کفار سے میڈلز اور گارڈ آف آنرز وصول کرنے میں انتہائی خوشی محسوس کرتے ہیں ۔ اس حکومت کی انہی خصوصیات کی بنا پر اس نے اپنے آپ پر اللہ سبحانہ و تعالٰی کا غضب لازم کرلیا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالٰی فرماتے ہیں،

 

وَمَن يُشَاقِقِ ٱلرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ ٱلْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ ٱلْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَآءَتْ مَصِيراً
"اور جو شخص رسول اللہ ﷺ کی مخالفت پر کمر بستہ ہو اور راہ راست کے واضح ہو جانے کے بعد بھی اہل ایمان کے سوا کسی اور کی روش پر چلے، تو اُسے ہم اُسی طرف چلتا کردیں گے جدھر وہ خود پھر گیا۔ اور ہم اُسے جہنم میں جھونک دیں گے جو بدترین جائے قرار ہے"(النساء:115)



حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے لکھا گیا

شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

 

Read more...

حزب التحریر ولایہ پاکستان پولیس سول لائینز لاہور پر حملے کی شدید مذمت کرتی ہے پاکستان سے امریکی و بھارتی موجودگی کا خاتمہ کرو جو قتل و غارت گری کی وجہ ہے

آج 17 فروری 2015 کو لاہورپولیس کے ہیڈکواٹر ، پولیس سول لائینز قلع گجر سنگھ کے مرکزی دروازے کے پاس بم دھماکہ کیا گیا۔کم ازکم آٹھ افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ درجنوں زخمی ہیں۔ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی غیر واضح لوگوں نے قبائلی مسلمانوں کی نمائندی کا دعویٰ کرتے ہوئے مسلمانوں کو قتل کرنے کی ذمہ داری قبول کرلی۔ حزب التحریر اس گھناؤنے جرم کی مذمت کرتی ہے اور یہ بتانا چاہتی ہے کہ یہ بم دھماکہ اس دن ہوا ہے جب آج اوبامہ انتظامیہ کی جانب سے ایک بین الاقوامی سیکورٹی کانفرنس منعقد کی جارہی ہے جس میں پاکستان کے وزیر داخلہ بھی شریک ہیں۔ یقیناً اس بم دھماکے کا آج ہی ہونا محض اتفاق نہیں ہے بلکہ یہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے تاکہ پاکستان میں امریکہ کے خونی عزائم کو پورا کیا جاسکے۔

اوبامہ انتظامیہ کبھی بھی پاکستان میں امن و سلامتی کو قائم نہیں ہونے دے گی اور حکومت کی جانب امریکہ کی اندھی تقلید پاکستان اور اس کے عوام کے لئے مزید دکھ اور مصائب کا ذریعہ ہی بنے گی۔ حزب التحریر مسلمانوں کو یاد دہانی کراتی ہے کہ اس قسم کے شیطانی حملے اور قتل و غارت گری امریکی و بھارتی انٹیلی جنس کرواتے ہیں تا کہ خطے میں اپنے مفادات کو آگے بڑھا سکے۔ وہ لوگ جو معاملات سے باخبر ہیں اس بات کو جانتے ہیں کہ کئی سال قبل امریکی و بھارتی انٹیلی جنس کمزورقبائلی نیٹ ورکس میں داخل ہو گئی تھی اور ان میں موجود نا سمجھ اور ناآشنا لوگوں کو بھڑکاتے ہیں کہ وہ اپنی بندوقوں کا رخ افغانستان میں قابض صلیبیوں سے موڑ کر اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے خلاف کرلیں۔ اس کے علاوہ حزب التحریر حکومت کی پر زور مذمت کرتی ہے کہ جس نے غیر ملکیوں کو ہماری سرزمین پر اپنے پنجے جمانے اور اس قسم کے حملے کروانے کی آزادی فراہم کررکھی ہے۔ ایک طرف تو حکومت اس بات کا دعویٰ کرتی ہے کہ وہ امریکی و بھارتی ایجنٹوں سے لڑ رہی ہے جبکہ دوسری جانب حکومت نے امریکہ و بھارت کو اپنے مزموم عزائم کی تکمیل کے لئے پاکستان میں اپنی موجودگی کو برقرار رکھنے کی مکمل آزادی فراہم کررکھی ہے۔

حزب التحریر ان قبائلی مسلمانوں سے مطالبہ کرتی ہےجو افغانستان میں قابض امریکی افواج کے خلاف لڑ رہے ہیں کہ وہ اس قسم کے وحشیانہ حملوں کی بھر پور مذمت کریں۔ انہیں کسی صورت اس بات کی اجازت نہیں دینی چاہیے کہ ان کے وکیل بن کر وہ لوگ بات کریں جو اسلام کے متعلق کچھ نہیں جانتے بلکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی کرتے ہوئے امریکی و بھارتی منصوبے کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔ اور حزب التحریر افواج پاکستان میں موجود مخلص افراد کو پکارتی ہے کہ آپ ہی ہیں جو اس بات کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ معاملات کو اللہ سبحانہ و تعالٰی کے احکام کے مطابق صحیح کردیں۔ سانپ کے سر کو کچل دیں اور پاکستان کو امریکی و بھارتی وجود سے پاک کردیں۔ اور آپ جانتے ہیں کہ عملی طور پر یہ اسی وقت ہو سکے گا جب آپ پاکستان میں خلافت کے قیام کے لئے حزب التحریر کو نصرہ فراہم کریں گے۔

پاکستان میں حزب التحریر کا میڈیا آفس

 

Read more...

امریکی راج کا خاتمہ کرو، خلافت کو قائم کرو معزز خواتین کی گرفتاری خلافت کے قیام کو روک تو نہیں سکتی لیکن ان حکمرانوں پر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے غضب کو دعوت ضرور دیگی

ایک ایسے وقت پر جب امریکہ کی ریپبلکن جماعت کے قائدین ، صدر اوبامہ سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو اسلام کے خلاف جنگ قرار دینے کا مطالبہ کررہی ہے، راحیل-نواز حکومت واشنگٹن کی چاکری میں نئی پستیوں میں گرگئی ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت، جس کا مقصد افغانستان میں امریکہ کے خلاف جہاد کو ختم کرنا اور پاکستان میں خلافت کے قیام کو روکنا ہے، 11 فروری کوحکومت نے جگرانوی خاندان کے مردوں کے ساتھ ساتھ ان کی خواتین کے خلاف گرفتاری کی چارج شیٹ جاری کردی۔ پھر 13 فروری کو نماز جمعہ سے قبل حکومت کے غنڈوں نے مظلوموں کی بد دعائیں لیں جن کی دعائیں اللہ سبحانہ و تعالٰی لازمی قبول فرماتے ہیں جب وہ جگرانوی خاندان کے گھر کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے دیواریں پھلانگ کر گھر میں داخل ہوئے اور ان کی ایک رشتہ دارخاتون کو اس وقت گرفتار کیا جب خاندان کے دیگر افراد و خواتین ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست جمع کروارہے تھے۔ یہ ماں اپنے چھوٹے سے معصوم بچے کے ساتھ اب جابروں کی کال کوٹھری میں ہے اورظلم کی انتہا یہ ہے کہ یہ بچہ معذور بھی ہے۔ حزب التحریر اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ یہ انتہائی گھٹیہ قدم وزیر داخلہ کے دورہ امریکہ کے اعلان کے فوراً بعداٹھایا گیا ہے تا کہ دنیا کی صفِ اول کی صلیبی قوم کی خدمت میں نذرانہ پیش کیا جا سکے۔ اس کے علاوہ حزب التحریر اس بات کی بھی نشان دہی کرتی ہے کہ جس وقت گلبرگ میں جگرانوی خاندان کے گھر کے تقدس کو پامال کیا جارہا تھا ، گلبرگ میں ہی موجود امریکی پرائیوٹ تنظیم ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک کے اڈوں کو ہاتھ تک نہیں لگایا گیا۔


اے پاکستان کے مسلمانو! اے امت مسلمہ کے بھائیو، بہنو، بیٹو اور بیٹیو! جگرانوی خاندان ایک معزز مسلم خاندان ہے۔ نسل در نسل یہ خاندان حکمت کے پیشے سے وابستہ ہے اور بیماروں اور غریبوں کوعلاج کی فکر سے نجات دلاتا آرہا ہے۔ ان کے بڑے گھر میں کئی خاندان رہتے ہیں جو اسلام پر سختی سے عمل اور خواتین کی عزت و عفت کی حفاظت کرتے ہیں۔ پاکستان میں رہنے والے کسی بھی خاندان میں مردوں کا اسلام کے لئے جدوجہد کرنا کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ اسی طرح اس خاندان میں بھی کچھ حزب التحریر کے اراکین ہیں جو افواج سے خلافت کے قیام کے لئے نصرۃاور غیر ملکی قابضین کے خلاف حرکت میں آنے کا مطالبہ کرتے ہیں جبکہ کچھ افراد دیگر دینی سرگرمیوں سے وابستہ ہیں ۔
لیکن حکومت کی نگاہ میں اللہ سبحانہ و تعالٰی اور اس کے رسولﷺ کی جانب سے عائد کیے گئے فرائض کی ادائیگی جرم ہے۔ تواتر سے حزب التحریر کے اراکین کو گرفتار کیا جاتا ہے یہاں تک کے انہیں تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے اور ان میں جگرانوی خاندان کا متقی بیٹا سعد جگرانوی بھی شامل ہے جو پاکستان میں حزب التحریر کی مرکزی رابطہ کمیٹی کے چیرمین ہیں۔ ماضی میں بھی کئی بار حکومت کے غنڈے ان کےگھر کے باہر گھومتے پھرتے اور داخل ہونے کی کوشش کرتے رہے ہیں لیکن گھر کے لوگوں نے ان کی اس کوشش کو ناکام بنایا جن میں ان کی بہادر اور صابر خواتین اور معزز ہمسائے بھی شامل ہیں۔ لہٰذا انتقام کے طور پر حکومت نے مسلم خاندان کی روایات کو پامال کیا اور خواتین کی توہین کی اور ایمان والوں کی بد دعائیں لیں۔


اے پاکستان کے مسلمانو! اے محمد بن قاسم، ٹیپو سلطان اور غازی علم الدین کی قوم! حکومت نے امریکہ کی اطاعت میں اس چیز سے اپنی نگاہ پھیر لی ہے جسے ہم اللہ کی اطاعت اور رضامندی کے حصول کے لئے انتہائی اہم تصور کرتے ہیں۔ اب وہ اچھے مسلمان خاندانوں کو خوفزدہ کرنا چاہتی ہے تا کہ وہ اسلام کے نفاذکی جدوجہد سے دستبردار ہو جائیں۔ یہ حکومت برطانوی راج کی پیروی کررہی ہے جس نے مسلمانوں کو اپنے سامنے جھکانے کے لئے بھر پور طاقت کا استعمال کیا لیکن مسلمانوں نے اپنے ایمان کی طاقت سے اسے اس خطے سے نکال باہر کیا۔ یہ حکومت امریکی راج کی پیروی کرتی ہے جبکہ جانتی ہے کہ امریکہ اسلام سے نفرت کرتا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالٰی فرماتے ہیں،

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا بِطَانَةً مِنْ دُونِكُمْ لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا وَدُّوا مَا عَنِتُّمْ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاءُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ وَمَا تُخْفِي صُدُورُهُمْ أَكْبَرُ ۚ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآيَاتِ ۖ إِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُونَ

"اے ایمان والو! ایمان والوں کے سوا کسی اور کو اپنا دوست مت بناؤ، دوسرے لوگ تمہاری تباہی میں کوئی کمی نہیں چھوڑتے، وہ چاہتے ہیں کہ تم مشکلات میں مبتلا ہو۔ نفرت ان کے چہروں سے واضح ہے اور جو کچھ ان کے سینوں میں پوشیدہ ہے وہ اس سے بھی زیادہ شدید ہے۔ ہم نے عقل والوں کے لئے اپنی آیات بیان کردیں"(آل عمران:118)۔

حکومت کفار کی خوشنودی کے حصول کی کوشش کررہی ہے جبکہ وہ کبھی بھی خوش نہیں ہوں گے جب تک مسلمان اسلام سے دستبردار نہ ہو جائیں۔ اللہ سبحانہ و تعالٰی فرماتے ہیں،

وَلَنْ تَرْضَىٰ عَنْكَ الْيَهُودُ وَلَا النَّصَارَىٰ حَتَّىٰ تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ

"یہود و نصاریٰ آپ سے کبھی راضی نہ ہوں گے جب تک کہ آپ ان کے دین کی پیروی نہ کریں" (البقرۃ:120)۔


اے افواج پاکستان کے مخلص افسران!
ہم آپ کو اسلام کے حوالے سے آپ کی ذمہ داری کی یاد دہانی کروانا چاہتےہیں۔ یہ وہ ذمہ داری ہے جو اللہ سبحانہ و تعالٰی اور رسول اللہ ﷺ کی دعوت کے لئے حرکت میں آنا ہے۔ یہ ذمہ داری وہ ہے جس کے تحت مسلم خواتین کی عزت و عصمت کا تحفظ کیا جاتا ہے اور ایمان والوں کی دعائیں لی جاتی ہیں۔حزب التحریر آپ سے مطالبہ کرتی ہے کہ خلافت کے قیام اور اس امریکی غلام حکومت کے خاتمے کے لئے نصرۃ فراہم کریں تا کہ آپ کو امریکہ و بھارت جیسے کھلے دشمنوں کے خلاف حرکت میں لایا جائے اور آپ اللہ کی خوشنودی کے لئے جہاد کریں اور شہید یا غازی کا رتبہ حاصل کریں۔

 

پاکستان میں حزب التحریر کا میڈیا آفس

 

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک