الجمعة، 12 ذو القعدة 1446| 2025/05/09
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم


سوال و جواب
ترکی، یہودی وجود، اور شام میں اڈے

)ترجمہ)
 

 

سوال:

 

          ترک پریس نے اپنی ویب سائٹ پر 14/4/2025 کو شام کے اندر "T4" ہوائی اڈے پر ترکی کے ہوائی اڈے کے قیام پر یہودی وجود کے اعتراض کی وجوہات شائع کیں، اور ان میں سے ایک یہ وجہ ذکر کی کہ ( اعتراض کی عسکری وجہ یہ ہے کہ ترکی کی موجودگی، شام کے اوپر اسرائیلی فضائیہ کی نقل و حرکت کی آزادی کو محدود کرے گی، اور ایک ایسی سکیورٹی کوآرڈینیشن مسلط کرے گی جس کے لیے تل ابیب اس وقت مائل نہیں ہے...)، اور وال سٹریٹ جرنل نے اپنی ویب سائٹ پر 12/4/2025 کو شائع کیا کہ ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے نیتن یاہو سے اپنی ملاقات کے دوران مصالحت کے لیے اپنی آمادگی کا اظہار کیا (یہ یقین دہانی کراتے ہوئے کہ انہیں اختلافات حل کرنے کی اپنی صلاحیت پر اعتماد ہے بشرطیکہ دونوں فریق عقلمندی کا مظاہرہ کریں)، تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ یہودی وجود، ترکی کو شامی - ترکی معاہدے کے باوجود، شام میں عسکری موجودگی سے روک سکتا ہے؟ اور کیا امریکہ کا اس معاملے میں کوئی کردار ہے جو ٹرمپ کی مصالحت کی تیاری کی وضاحت کرتا ہے؟


جواب:

 

          جواب واضح کرنے کے لیے ہم تھوڑا پیچھے جاتے ہیں اور درج ذیل امور کا جائزہ لیتے ہیں:

 

 

          پہلا: ہنگری کے دورے کے دوران ٹرمپ نے نیتن یاہو کو امریکہ آنے کی دعوت دی، اور یہ ایک قابل توجہ بات تھی:

 

          1- نیتن یاہو ہنگری کے چار روزہ دورے پر تھا جو 2/4/2025 کو شروع ہوا تھا، اور بین الاقوامی فوجداری عدالت کی جانب سے گزشتہ سال اس کی گرفتاری کے وارنٹ جاری ہونے کے بعد کسی یورپی ملک کا یہ کا پہلا دورہ تھا۔

 

          2- ایک غیر معمولی انداز میں امریکی صدر ٹرمپ نے نیتن یاہو اور اوربان (وزیر اعظم ہنگری) سے ان کی بوڈاپیسٹ میں ملاقات کے دوران ٹیلی فون پر رابطہ کیا اور نیتن یاہو کو وائٹ ہاؤس کے دورے کی دعوت دی: (ٹرامپ نے ایئر فورس ون پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ انہوں نے کل جمعرات کو نیتن یاہو سے ٹیلی فون پر بات کی، اور انہوں نے بین الاقوامی سیاسی امور پر تبادلہ خیال کیا، اور یہ اشارہ دیا کہ اسرائیلی وزیر اعظم جلد ہی امریکہ کا دورہ کر سکتے ہیں۔ "ایکسیوس" ویب سائٹ کے ایک اسرائیلی اہلکار نے تصدیق کی کہ ٹرمپ نے نیتن یاہو کو وائٹ ہاؤس کے دورے کی باضابطہ دعوت دی ہے، لیکن ملاقات کی تاریخ ابھی طے نہیں کی گئی ہے، جبکہ ایک امریکی اہلکار نے بتایا کہ یہ دورہ اگلے چند ہفتوں میں ہو سکتا ہے۔ القاهرة الإخبارية، 4/4/2025)

 

          3- یہودی وجود اس فوری دعوت پر حیران تھا، خاص طور پر جبکہ یہودی تہواروں کے بعد ملاقات کی پیشکش کو وائٹ ہاؤس نے مسترد کر دیا تھا: (اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کے دفتر میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور نیتن یاہو کے درمیان کل، پیر، کو ملاقات کرنے پر وائٹ ہاؤس کی طرف سے زور دینے کے حوالے سے تشویش پائی جاتی ہے، بجائے اس کے کہ یہ ملاقات دو ہفتے بعد، عیدِ فسح، کے بعد ہوتی، جیسا کہ نیتن یاہو کے دفتر نے چاہا تھا۔ نیتن یاہو کے دفتر سے جاری ایک بیان میں کل کہا گیا کہ وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دعوت پر واشنگٹن جائیں گے۔ وہ درج ذیل موضوعات پر بات کریں گے: کسٹم ٹیکس... ہمارے مغویوں کی واپسی کی کوششیں... اسرائیل-ترکی تعلقات... ایرانی خطرہ، اور بین الاقوامی فوجداری عدالت کے خلاف جدوجہد۔ نیتن یاہو کے دفتر میں، کل کے روز، ملاقات پر وائٹ ہاؤس کے اصرار کی وجہ سے تشویش بڑھ رہی ہے، اس امکان پر کہ ٹرمپ نیتن یاہو کو کسی ایسے موضوع یا موضوعات کو چھیڑ کر حیران نہ کر دے جس کی "اسرائیل" توقع نہیں کر رہا۔ جیسا کہ آج اتوار کو چینل 12 نے بتایا۔ عرب 48، 6/4/2025)

 

          4- نیتن یاہو ہنگری سے روانہ ہوا اور یہودی وجود کی طرف واپس لوٹے بغیر براہ راست واشنگٹن کا چلا گیا جو کہ عجلت کا ایک اور اشارہ تھا!

 

 

دوسرا: یہ تمام فوری انتظامات کسی فوری معاملے کی نشاندہی کرتے ہیں، اور ان کی ملاقات کے لیے اعلان کردہ بات چیت کے موضوعات کا بغور جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ کم از کم ایک چیز اس فوری دعوت کا بنیادی محرک تھی، اور وہ غالباً شام کی صورتحال تھی، جس کی وجوہات درج ذیل ہیں:

 

          1- وائٹ ہاؤس کی جانب سے نیتن یاہو کے ساتھ ملاقات کے بعد ہونے والی پریس کانفرنس کی منسوخی کے بعد، 7/4/2025 کو نیتن یاہو سے ملاقات کے دوران امریکی صدر ٹرمپ کے چند صحافیوں کے سامنے دیے گئے بیانات کا بغور جائزہ لینے سے ہم دیکھتے ہیں کہ شام کے میدان اور ترکی کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے ان کے بیانات ترکی کے صدر اردگان کے ساتھ اپنے تعلقات اور ان کے درمیان رابطے کے حوالے سے بہت مثبت تھے، اور انہوں نے کہا: ("میں نے ترک صدر رجب طیب اردگان کو مبارکباد دی... آپ نے وہ کیا جو دو ہزار سالوں میں کوئی اور نہیں کر سکا... آپ نے اپنے نمائندوں کے ذریعے شام کو اپنے قبضے میں لے لیا، اس کے تاریخی نام چاہے جو بھی ہوں۔" ٹرمپ نے مزید کہا: "اردگان نے کہا نہیں نہیں نہیں... میں نے شام پر قبضہ نہیں کیا، تو میں نے ان سے کہا... یہ آپ ہی تھے لیکن ٹھیک ہے آپ کو اعتراف کرنے کی ضرورت نہیں ہے، تو انہوں نے کہا ٹھیک ہے شاید میں نے ہی کیا ہے۔" ٹرمپ نے مزید کہا: "اردگان ایک مشکل اور انتہائی ذہین شخص ہیں اور انہوں نے وہ کام کر دکھایا جو پہلے کسی نے نہیں کیا... آپ کو ان کی فتح کو تسلیم کرنا ہوگا۔" ٹرمپ نے اپنے مہمان بنیامین نیتن یاہو سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا: "ترکی کے ساتھ آپ کا کوئی بھی مسئلہ ہو، میرا خیال ہے کہ میں اسے حل کر سکتا ہوں جب تک آپ اپنے مطالبات میں منطقی رہیں۔ آپ کو سمجھداری سے کام لینا ہوگا... ہم سب کو سمجھداری سے کام لینا ہونا ہوگا۔" ترک برس، 8/4/2025)، اور ٹرمپ نے یہودی وجود سے شام میں ترکی کے حوالے سے معاملات میں عقلمندی کا مظاہرہ کرنے کامطالبہ کیا

 

          2- یہودی وجود کے پاس اس امریکی مطالبے کو تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا: (اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے زور دے کر کہا کہ تل ابیب، شام کو اس کے خلاف حملے کرنے کے لیے ایک اڈے کے طور پر استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گا، اور اشارے میں کہا کہ ترکی کے ساتھ تعلقات دوستانہ تھے لیکن حال ہی میں "خراب" ہو گئے ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے بعد اس نے کہا: "ہم نے شام کی صورتحال پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ ترکی کے ساتھ ہمارے دوستانہ تعلقات تھے جو خراب ہو گئے ہیں۔" اس نے مزید کہا: "ہم ایسی کوئی صورتحال نہیں دیکھنا چاہتے جہاں دوسرے، بشمول ترکی، اسرائیل پر حملہ کرنے کے لیے شام کو ایک اڈے کے طور پر استعمال کریں۔" اس نے مزید کہا: "ہم نے اس بارے میں بات کی کہ ہم اس تنازع سے کیسے بچ سکتے ہیں اور میرا خیال ہے کہ اس مقصد کے لیے امریکی صدر سے بہتر کوئی ذریعہ نہیں ہے۔" القدس العربي، 8/4/2025)۔

 

          3- یہودی وجود نے شامی ہوائی اڈوں پر شدید فضائی حملے کیے تھے، اور آر ٹی نے 2/4/2025 کو شام کی وزارت خارجہ کے ایک بیان کے حوالے سے کہا: ("اسرائیلی افواج نے 30 منٹ کے اندر ملک کے پانچ مختلف علاقوں پر فضائی حملے کیے، جس کے نتیجے میں حماہ کا فوجی ہوائی اڈہ تقریباً مکمل طور پر تباہ ہو گیا اور درجنوں شہری اور فوجی زخمی ہو گئے۔" شام کی وزارت خارجہ نے اس بات پر زور دیا کہ "یہ بلا جواز جارحیت، شام کو غیر مستحکم کرنے اور اس کے عوام کی مشکلات کو طول دینے کی ایک دانستہ کوشش ہے۔")، اور یہ وسطی شام میں واقع ہوائی اڈے وہی ہیں جہاں ترکی، شامی حکومت کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت اپنے اڈے قائم کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے: (اسرائیلی وزیر خارجہ نے ترکی پر شام میں "منفی کردار" ادا کرنے کا الزام لگایا، اور اسرائیلی وزیر نے شام کی عبوری حکومت کے سربراہ احمد الشرع کو خبردار کیا کہ اگر انہوں نے "دشمن قوتوں" کو اپنے ملک میں داخل ہونے کی اجازت دی تو وہ " بہت بھاری قیمت" ادا کریں گے... انقرہ اس وقت الشرع کی نئی حکومت کے ساتھ ایک مشترکہ دفاعی معاہدے پر مذاکرات کر رہا ہے، اور ایسی اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ ترکی شام کے دو ہوائی اڈوں T4 اور حلب میں طیارے اور فضائی دفاعی نظام تعینات کرنے والا ہے۔ بعض تجزیہ کاروں نے اس ہفتے حماہ ہوائی اڈے پر اسرائیل کی جانب سے کیے گئے شدید فضائی حملوں اور T4 اڈے کے اطراف میں کیے گئے نسبتاً کم شدید حملوں کا موازنہ کیا ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ترکی نے ممکنہ طور پر پہلے ہی کچھ ساز و سامان وہاں منتقل کر دیا ہے۔ اور یہودی وجود کی بمباری کے نتیجے میں حماہ ہوائی اڈے پر 3 ترک انجینئرز کے ہلاک ہونے کی خبریں گردش کر رہی تھیں: (شام کے فوجی ذرائع نے انکشاف کیا کہ گزشتہ بدھ کو حماہ کے فوجی ہوائی اڈے پر اسرائیلی بمباری میں 3 ترک انجینئرز ہلاک ہو گئے، جو اس بات کا اشارہ ہے کہ انجینئرز حماہ ہوائی اڈے پر تکنیکی آلات نصب کرنے پر کام کر رہے تھے، جن میں ترکی کی جانب سے ہوائی اڈے پر لائے گئے فضائی دفاعی نظام بھی شامل تھے۔ ارم نیوز، 4/4/2025)۔

 

          4- ظاہر ہے کہ ترکی، شام کے ہوائی اڈوں پر خاص طور پر اپنے حالیہ حملوں کی وجہ سے یہودی وجود سے سخت ناراض تھا، اور اس نے شام میں یہودی ریاست کو روکنے کے لیے فوری طور پر امریکہ سے رابطہ کیا، خاص طور پر اس لیے کہ ترکی، شام میں امریکہ کے ساتھ متفقہ مشن پر عمل پیرا ہے، لہذا یہودی وجود کے وزیر اعظم کو واشنگٹن کا فوری دعوت نامہ بھیجا گیا، اور ٹرمپ نے ان سے ترکی کے ساتھ مسائل کو عقلمندی سے حل کرنے کا مطالبہ کیا۔

 

 

تیسرا: کئی دیگر بیانات اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ یہ موضوع اس ملاقات میں سب سے زیادہ ضروری تھا:

 

          1- ترک وزیر خارجہ نے کہا (کہ امریکہ پر لازم ہے کہ وہ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کو "دوبارہ نظم و ضبط کا پابند بنائے" اور اس کے لیے ایک فریم ورک تیار کرے)۔ (الأناضول، 9/4/2025)

 

          2- یہودی وجود اور ترکی کے درمیان فوری براہ راست بات چیت کا اعلان کیا گیا، چنانچہ ترک وزیر خارجہ کے حوالے سے آر ٹی نے 9/4/2025 کو کہا: (ہاکان فیدان نے اپنے بیانات میں بتایا کہ شام میں "غلط فہمی" سے بچنے کے لیے وہ اسرائیل کے ساتھ "براہ راست رابطے" قائم کر رہے ہیں۔ فیدان نے واضح کیا کہ اسرائیل نے ایک ایسی حکمت عملی طے کی ہے جس میں شام میں نئی انتظامیہ کے لیے "کچھ بھی نہ چھوڑنا" شامل ہے۔ ترک وزیر خارجہ نے شام کی سرزمین پر اسرائیل کے قبضے کے خاتمے اور اس کی جانب سے بنیادی ڈھانچے پر بمباری کو روکنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ ترکی کے ایک پڑوسی ملک میں عدم استحکام اس پر اثر انداز ہوگا اور اسے نقصان پہنچائے گا، اور خبردار کیا کہ انقرہ "اس پر خاموش نہیں رہ سکتا"،... اس خطے کے کسی بھی ملک کے ساتھ کسی جھڑپ یا تصادم میں داخل ہونے کا ہمارا کوئی ارادہ نہیں ہے، جس میں اسرائیل بھی شامل ہے،... ہم شام کی نئی انتظامیہ کے ساتھ سیکورٹی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے شعبے میں تعاون کر رہے ہیں۔)

 

          3- (رائٹرز نیوز ایجنسی نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ اسرائیل کی جانب سے فضائی حملوں کا نشانہ بنائے جانے سے پہلے، ترکی کی فوجی ٹیموں نے شام میں کم از کم تین ہوائی اڈوں کا جائزہ لیا تاکہ ممکنہ مشترکہ دفاعی معاہدے کے تحت وہاں ترک فوجیں تعینات کی جا سکیں۔ فیدان نے بدھ کے روز سی این این ترک چینل کو بتایا: "جب ہم شام میں کچھ کارروائیاں کر رہے ہیں، تو اسرائیل کے ساتھ تصادم سے بچنے کے لیے ایک میکانزم موجود ہونا چاہیے، جس کے طیارے اس علاقے میں اڑتے ہیں، جیسا کہ ہمارے پاس امریکہ اور روس کے ساتھ میکانزم موجود ہے۔" العربیہ، 10/4/2025)

 

          4- (ایک باخبر شامی ذریعے نے "انڈیپنڈنٹ عربیہ" کو ایک بیان میں کہا کہ "فی الواقع ایک معاہدے پر بات ہو رہی ہے، یہ معاہدہ عدم تصادم کا معاہدہ ہے نہ کہ تصادم کے خاتمے کا، کیونکہ اصولی طور پر شام میں ترکی اور اسرائیل کے درمیان کوئی تصادم موجود نہیں ہے، دوسرے لفظوں میں معاہدہ حدود طے کرنے کے لیے ہے تاکہ اگر شامی فضائی حدود میں اسرائیلی طیارے موجود ہوں تو ان کے راستے کی اطلاع دی جائے۔" انڈیپنڈنٹ عربیہ، 9/4/2025) یعنی شام میں ترکی اور روس کے درمیان تصادم کو روکنے کے لیے روس کے ساتھ سابقہ ترک معاہدے کی طرز پر ایک معاہدہ!

 

          5- اور یہ سب ترکی کے حکام کے بیانات سے واضح ہوتا ہے جیسا کہ الشرق الاوسط نے 13/4/2025 کو نقل کیا کہ: [ترکی نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ وہ شام کی سرزمین پر کشیدگی کو کم کرنے، تصادم کے قواعد وضع کرنے اور حادثات یا تصادم سے بچنے کے لیے اسرائیل کے ساتھ اپنے تکنیکی مذاکرات جاری رکھے گا۔ ترک وزیر خارجہ نے کہا کہ ان کا ملک شام میں استحکام لانا چاہتا ہے اور کسی بھی اشتعال انگیزی سے دور رہنا چاہتا ہے، اور شام کے اندر کسی بھی ملک کے ساتھ کسی تنازع میں داخل نہ ہونے پر کام کر رہا ہے۔ گزشتہ بدھ کو آذربائیجان کے دارالحکومت باکو میں دو وفود (ترکی اور اسرائیلی) نے ملاقات کی، جس کا مقصد گزشتہ دو ہفتوں میں کشیدگی بڑھنے کے بعد شام میں حادثات یا تصادم سے بچنا تھا۔ الشرق الأوسط 13/4/2025]

 

          6- الجزیرہ نے اپنی ویب سائٹ پر 14/4/2025 کو اطالوی ویب سائٹ "انسائیڈ اوور" پر شائع ہونے والے مصنف اینڈریا موراتوری کی ایک رپورٹ کے حوالے سے کہا [کہ سابقہ انتظامیہ کے ساتھ برسوں کی کشیدگی کے بعد، ترکی نئی امریکی انتظامیہ کے لیے مشرق وسطی اور دنیا بھر میں بہت سے اہم مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک پل کے طور پر مرکزی کردار ادا کر رہا ہے... مصنف نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ترک صدر رجب طیب اردگان کی شخصیت اور سیاسی بصیرت کی بارہا تعریف کی ہے، اور اپنی دوسری صدارتی مدت کے آغاز سے ہی واضح اشارے بھیجے ہیں جو متعدد معاملات کو نمٹانے میں ان سے مدد لینے کی ان کی خواہش کو ظاہر کرتے ہیں... الجزیرہ 14/4/2025]

 

          اور یہ سب اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ امریکہ یہودی وجود جو کہ دشمن ہے اور ترک حکومت کے ساتھ اپنے دو اتحادیوں کی طرح سلوک کر رہا ہے اور اپنے مفادات کے مطابق ان کے درمیان معاملات چلا رہا ہے!

 

 

         چوتھا: یہ تکلیف دہ بات ہے کہ امریکہ ہمارے ممالک میں اپنی مرضی کے مطابق معاملات چلا رہا ہے، خطے میں مقدس سرزمین، یعنی اسراء و معراج کی سرزمین، فلسطین پر غاصب یہودی وجود کو فوقیت دے رہا ہے، اور مسلمان ممالک کے حکمران امریکہ کے تابع ہیں، یہاں تک کہ آخری خلافت، سلطنت عثمانیہ کی سرزمین، جس میں یہودیوں نے لاکھوں سونے کے سکے ادا کر کے ارضِ مقدس میں قدم جمانا چاہا، تو خلیفہ نے انہیں سخت جواب دیا: (فلسطین میری ذاتی ملکیت نہیں بلکہ امت مسلمہ کی ملکیت ہے اور میری قوم نے اس سرزمین کے لیے جہاد کیا ہے اور اسے اپنے خون سے سیراب کیا ہے، لہذا یہودی اپنی لاکھوں کی رقم اپنے پاس رکھیں اور اگر کبھی خلافت ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے تو وہ اس وقت فلسطین مفت میں لے سکتے ہیں۔) اور ایسا ہی ہوا!

 

          اسی ترکی کو، خلافت عثمانیہ کے زوال کے بعد، یہودی وجود اسے شام میں فوجی اڈہ بنانے سے روک رہی ہے، یہاں تک کہ شامی حکومت کی منظوری کے بعد بھی...! خلافت کے زوال کے بعد یہ مسلمانوں کی حالت ہے... اور یہ ایک سنگین معاملہ ہے!

 

          بے شک مسلمانوں کی قوت اور عزت ان کی خلافت میں ہے، اور حزب التحریر وہ قائد جماعت ہے جو اپنے لوگوں سے جھوٹ نہیں بولتی، اور مسلمان ممالک میں بااثر افراد کو، خلافت کے قیام کے ذریعے، دنیا میں اسلامی زندگی دوبارہ شروع کرنے میں اس کی مدد کرنے کی دعوت دیتی ہے، اور پھر مسلمانوں کی عزت واپس آئے گی

 

﴿وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ * بِنَصْرِ اللهِ يَنْصُرُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ﴾

"اور اس دن مومن خوش ہوں گے * اللہ کی مدد سے، وہ جس کی چاہتا ہے مدد کرتا ہے اور وہ غالب ہے اور رحم کرنے والا ہے" 

]سورۃ الروم: آیت 5-4[

 

 

18 شوال 1446ھ

 

بمطابق 16/04/2025

 

Last modified onبدھ, 07 مئی 2025 22:07

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک