الإثنين، 02 رجب 1447| 2025/12/22
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

 

ظالموں کی طرفداری کرنے کے خطرات !

(ترجمہ)

https://www.hizb-uttahrir.info/en/index.php/literature/magazines/al-waie-magazine/28712.html

الوعي میگزین – شمارہ نمبر 472

انتالیسواں سال، جمادی الاول 1447 ہجری،

بمطابق نومبر 2025 عیسوی

 

اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا،

﴿وَلَا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ أَوْلِيَاءَ ثُمَّ لَا تُنصَرُونَ

 

”اور ظالموں کی طرف ہرگز نہ جھکو، ورنہ تمہیں (جہنم کی)آگ چھو لے گی، اور اللہ کے سوا تمہارے لیے کوئی مددگار نہ ہوگا، پھر تم کوئی مدد بھی نہ پاؤ گے“ [ھود؛ 11:113[

 

یہ آیت ہر صاحبِ عقل انسان کو ٹھہر کر سوچنے اور اس کے حواس کو جھنجھوڑ دینے کے لئے کافی ہے ... اس آیتِ مبارکہ پر غور و فکر کرنے اور اس کے مفہوم میں تدبر سے پہلے ضروری ہے کہ لغوی اعتبار سے ”جھکنے“،”میلان“ اور ”رجحان“ کے معانی کا جائزہ لیا جائے۔

 

اگر ہم عربی لغات سے رجوع کریں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ "رُکون" کا معنی رجحان اور ٹھہراؤ ہے۔ الزمخشريُّؒ کے مطابق یہاں "رُکون" کے معانی «الميلُ اليسيرُ» ”سہل فراہم کرنے کا میلان ہے۔ قرطبیؒ فرماتے ہیں: «الرُّكونُ حقيقتُه الاستنادُ والاعتمادُ، والسكونُ إلى الشيءِ والرِّضى به» رُکون کے لفظی مفہوم جھکاؤ کرنے، اعتماد کرنے، کسی چیز کی طرف مطمئن ہونے اور اس پر راضی ہونے کا نام ہے۔ قتادہؒ نے کہا: «معناه لا تَوَدُّوهم ولا تُطيعوهم» اس کا معنی ہے: نہ تو تم ان سے دوستی کرو اور نہ ہی ان کی اطاعت کرو۔ ابن جریجؒ نے کہا: «لا تَميلوا إليهم» تم ان کی طرف مائل نہ ہو۔ ابو العالیہؒ نے کہا: «لا تَرضَوا أعمالَهم» تم ان کے اعمال سے راضی نہ ہو۔ یہ سب تفسیریں ایک دوسرے کے قریب ہیں۔ جبکہ ابن زیدؒ نے کہا: «الرُّكونُ هنا الإدهانُ» یہاں رُکون سے مراد چاپلوسی یا خوشامد ہے۔

 

ماہرینِ لسانیات نے میلان (inclination)کی تشریح محض کسی کی طرف جھکاؤ رکھنے اور اس کے ساتھ مانوس یا مطمئن ہو جانے کے طور پر کی ہے۔ امام قرطبیؒ نے بیان کیا ہے کہ لغت میں میلان کا حقیقی مفہوم کسی پر انحصار کرنا، اس پر اعتماد کرنا، اس کے ساتھ اطمینان محسوس کرنا اور اس پر راضی ہو جانا ہے۔

ممکن ہے کہ یہ لفظ "رُکن" (کونہ  یاستون) سے ماخوذ ہو، جو ہر عمارت کا سہارا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

 

﴿أَوۡ اٰوِيٓ إِلَىٰ رُكۡنٖ شَدِيدٖ

 

یا کسی مضبوط سہارے کی پناہ لیتا“ [ھود؛ 11:80[،

 

 

قرآنِ کریم نے یہاں "رُکن" کا لفظ استعمال کیا ہے، جو کامل اور مضبوط میلان کو ظاہر کرتا ہے۔ اس سے بدرجۂ اولیٰ یہ بات سمجھی جاتی ہے کہ ظالموں کی مدد اور ان کی تائید سے منع کرنا بدرجۂ اولیٰ مقصود ہے۔ لفظ "میلان" اس ممانعت کے مقصد کے بارے میں کہیں زیادہ گہرا مفہوم رکھتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں ہے،

 

﴿إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ

 

بے شک شراب، جُوا، بت، اور فال کے تیر ناپاک ہیں، شیطانی کاموں میں سے ہیں، پس ان سے پوری طرح بچو[المائدۃ؛ 5:90[۔

 

 

یہاں اجتناب (بچنے) کا لفظ، اس تعبیر سے کہیں زیادہ مؤکد اور سخت ہے کہ صرف یہ کہہ دیا جائے، شراب نہ پیو اور جُوا نہ کھیلو“۔

 

پس میلان (inclination) میں یہ تمام معانی شامل ہیں، «الميلَ والسكونَ والاطمئنانَ والاعتمادَ» یعنی جھکاؤ، ٹھہراؤ، اطمینان، اور انحصار“، کیونکہ کسی چیز کی طرف ٹھہر جانا اور اس پر ثابت قدم ہو جانا قوت اور پختگی کے مفہوم میں داخل ہے۔ عربی زبان انحصار کے تدریجی معانی کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے، جو محض میلان سے شروع ہوتے ہیں، پھر ٹھہراؤ کی طرف بڑھتے ہیں، اس کے بعد اطمینان کی صورت اختیار کرتے ہیں، اور بالآخر انحصار تک پہنچ جاتے ہیں؛ اور ان میں سے بعض معانی دیگر معانی کی طرف لے جاتے ہیں۔ یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں کہ ظلم ایک ہی درجے کا نہیں ہوتا بلکہ اس کی مختلف اقسام اور درجات موجود ہیں۔ لہٰذا جب ظلم کی اقسام اور درجات ہیں تو یہ بات بھی مناسب ہے کہ اس آیت میں ظلم کی طرف میلان کی ممانعت بھی اقسام اور درجات پر مشتمل ہو، اور میلان کا مفہوم اس لفظ میں پوشیدہ تمام معنوی وسعت کے ساتھ ان تمام صورتوں کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہو۔

 

اور امام رازیؒ نے اپنی تفسیر میں "رُکون" کی ضد «النُّفورُ» یعنی ظالمین سے بیزاری و دوری بیان کی ہے۔ پس فعل «تَركَنوا» جھکنا کے تمام معانی دل کے اعمال اور ظاہری اعمال سے متفرق نہیں ہیں۔ دل سے متعلق اعمال میں میلان، جھکاؤ، محبت، اور رضامندی ہونا شامل ہیں، جبکہ ظاہری اعمال میں بے عملی، ظلم کو برپا کرنے میں شرکت، اور ظالموں کی چاپلوسی کرنا شامل ہیں جیسے، ظالموں سے ملاقاتیں کرنا، ان کے ساتھ صحبت رکھنا، ان کے ساتھ بیٹھنا، ان کی تعریف کرنا، اور ان پر انحصار کرنا شامل ہیں۔ ظالم کی طرف جھکاؤ کا کم ترین درجہ یہ ہے کہ اسے دوسروں پر ظلم کرنے سے نہ روکا جائے، جبکہ اس جھکاؤ کا بلند ترین درجہ یہ ہے کہ ظالم کی خاطر اور اس کے حواریوں کی خاطر اس ظلم کو مزید بڑھاوا دیا جائے۔

ہمیں اس آیتِ مبارکہ پر ٹھہر کر غور و فکر کرنا چاہئے :

 

1- اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا یہ ارشاد ،

 

﴿وَلَا تَرۡكَنُوٓاْ إِلَى ٱلَّذِينَ ظَلَمُواْ

 

”اور ظالموں کی طرف ہرگز نہ جھکو“ [ھود؛ 11:113[،

یہ ایک ایسی ممانعت ہے جو قرآنِ کریم میں دوبارہ نہیں آئی، اور سورۃ ہود کی یہ آیت اپنے اندر ایک انفرادیت رکھتی ہے، کیونکہ اس سورۃ میں سات قوموں کے واقعات بیان کیے گئے ہیں جو سب ظلم اور جبر کی خصلت میں مشترک تھیں، اور کتاب اللہ میں مختلف مقامات پر ان کا ذکر آیا ہے۔ ظالموں کی طرف میلان سے منع کرنے کا یہ حکم سورۃ ہود کے آخر میں آیا ہے، جب سورۃ میں ظلم و طغیان کے تمام مناظر اور مثالیں بیان کر دی گئیں، حالانکہ ہر قوم میں طاقت کے ڈھانچے اور استبداد کی شکلیں ایک دوسرے سے مختلف تھیں۔

 

ظلم کی طرف جس میلان سے منع کیا گیا ہے اس میں یہ سب امور شامل ہیں، یعنی ظالموں کے اعمال پر راضی ہونا، ان کے طریقوں کو دوسروں کی نگاہ میں آراستہ کرنا اور خوشنما بنا کر پیش کرنا، اور ظالم کی کسی بھی زیادتی یا حرام کام میں ان کے ساتھ شریک ہونا۔ اس آیتِ مبارکہ کے بارے میں حسن بصریؒ نے فرمایا، «جعلَ اللهُ الدِّينَ بين لاَءَيْن: ﴿وَلَا تَطْغَوْا﴾، ﴿وَلَا تَرْكَنُوا» اللہ تعالیٰ نے دین کو دو ممانعتوں کے درمیان رکھا ہے، اور سرکشی نہ کرو[سورۃ طٰہٰ؛ 20:81[ اور ”اور ظالموں کی طرف ہرگز نہ جھکو“ [ھود؛ 11:113[۔ پس حسن بصریؒ نے پورے دین کو دو نکات میں سمو دیا ہے : یعنی ایک زیادتی اور سرکشی سے ممانعت، اور دوسرا ظالموں کی طرف میلان سے ممانعت۔ یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ظالموں کی طرف میلان سے بچنا کس قدر اہم ہے، کیونکہ یہ میلان دین کو کمزور کر دیتا ہے اور اس کے وقار کو گھٹا دیتا ہے۔

 

2- ظلم اور ظالموں کی طرف میلان کا نقصان افراد سے زیادہ پورے معاشرے اور ریاست کو پہنچتا ہے۔ ظالموں کی طرف میلان کا خطرہ خاص طور پر اس وقت شدید ہو جاتا ہے جب یہ اجتماعی صورت اختیار کر لے، یعنی جب شہری عمومی طور پر ظالم کے سامنے جھک جائیں۔ اس آیت میں ہم یہ بات نوٹ کرتے ہیں کہ ظلم کی ممانعت بھی جمع کے صیغے میں آئی ہے، اور ظالموں کی طرف میلان کی ممانعت بھی جمع کے صیغے میں آئی ہے، نہ کہ واحد کے، اور یہ اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ ظالموں کی طرف میلان ہونا کس قدر خطرناک ہے۔ جہاں کہیں بھی کسی معاشرے میں جبر و استبداد پایا جاتا ہے، وہاں لوگوں کا ایک ایسا گروہ ضرور ہوتا ہے جو ظالموں کی طرف مائل ہوتا ہے، اور اس میلان ہونے کی وجہ سے ان میں حقیقی نیکی اور تقویٰ حاصل نہیں ہو پاتا۔

 

3- میلان اکثر ظلم کے مقابلے میں سب سے آسان منفی ردِعمل ہوتا ہے، چاہے وہ احساس کی سطح پر ہو یا عمل کی سطح پر، یعنی ظالموں کے خلاف بیزاری ظاہر کرنے والا کوئی اقدام نہ کرنا۔ تاہم یہاں قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ محض بے عملی کا اظہار کرنا، یعنی نہ کوئی حمایت اور نہ ہی باقاعدہ جھکاؤ، بلکہ ظالموں کے مقابلے میں صرف بے عملی کو بھی ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ اور جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ آیت میں «الذين ظلموا» وہ لوگ جنہوں نے ظلم کیا کا اسلوب استعمال کیا گیا ہے، نہ کہ «الظالمين» ظالم، تو اس سے یہ معنی مراد ہے کہ آیت کے آغاز میں آنے والی ممانعت دراصل خواہشات کے پست ہو کر ان لوگوں کی طرف مائل ہونے سے متعلق ہے جنہوں نے ظلم کا ارتکاب کیا؛ نیز ان سے وابستگی پیدا کرنا، ان کی صحبت اختیار کرنا، ان کے ساتھ بیٹھنا، ان سے ملاقاتیں کرنا، ان کی خوشامد کرنا، ان کے اعمال پر راضی ہونا، ان کے طورطریقے اور ان کی نقالی کرنا، ان جیسا لباس پہننا، ان کی آرائش کو دلچسپی اور دلکشی سے دیکھنا، اور ان ظالموں کا تذکرہ اس انداز میں کرنا جو ان کی تعظیم اور بڑائی کا باعث بنے، تو یہ سب اعمال اس ممانعت کے دائرے میں شامل ہیں۔

 

الإمامُ الآلوسيُّ ؒ نے اس آیت کے بارے میں فرمایا: «ذهب أكثرُ المفسّرينَ، قالوا: وإذا كان حالُ الميلِ في الجملةِ إلى من وُجدَ منه ظلمٌ ما في الإفضاءِ إلى مَساسِ النّاسِ النّارِ، فما ظنُّك بمن يميلُ إلى الراسخينَ في الظلمِ كلَّ الميلِ؟!» زیادہ تر مفسرین نے کہا ہے: اگر ظلم کرنے والوں کی طرف ذرا سا عمومی میلان ہی لوگوں کو (جہنم کی) آگ کی طرف لے جانے کا باعث بن سکتا ہے، تو پھر ان لوگوں کا کیا حال ہوگا جو ظلم میں راسخ لوگوں کی طرف پورا جھکاؤ رکھتے ہیں؟!“۔ آیت کا اسلوب عمومی ہے اور ہر ظالم کے بارے میں ہے، چاہے وہ مؤمن ہو یا کافر۔ قرطبیؒ نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ یہ آیت عمومی طور پر تمام ظالموں کے حوالے سے ہے۔ اسی سلسلے میں عبداللہ ابن عباسؓ فرماتے ہیں، «إنّه ينطبقُ على العمومِ بلا أيِّ فرقٍ بين مسلمٍ أو غيرِ مسلمٍ، لأنَّ العبرةَ بعمومِ اللفظِ لا بخصوصِ السببِ» یہ عمومی طور پر لاگو ہوتی ہے، چاہے مسلمان ہو یا غیر مسلم، کیونکہ سبق آیت کے الفاظ کے عموم میں ہے، نہ کہ نزول کے سبب کی خصوصیت میں۔ امام الشوکانی رحمہ اللہ نے فرمایا، «الظاهرُ من الآيةِ العمومُ، ولو فُرِضَ أنَّ سببَ النزولِ هم المشركونَ، لكان الاعتبارُ بعمومِ اللفظِ لا بخصوصِ السببِ» آیت کا ظاہری مفہوم عمومی ہے، اور اگر فرض کیا جائے کہ نزول کا سبب مشرکین تھے، تو بھی غور و فکر الفاظ کے عموم میں ہوگا، نہ کہ نزول کے سبب کی خصوصیت میں۔

 

4- اس آیتِ مبارکہ نے ظالموں کی طرف میلان کے دو بھیانک نتائج واضح کیے ہیں: پہلا نتیجہ دنیاوی ہے: یعنی اللہ تعالیٰ کی نصرۃ اور مدد سے محرومی۔ دوسرا نتیجہ آخرت میں ہے: یعنی جہنم کی آگ اور دوزخ کی سزا۔

یہ دونوں نتائج اس آیت سے مستنبط کیے جا سکتے ہیں:

﴿فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ أَوْلِيَاءَ ثُمَّ لَا تُنصَرُونَ

 

”ورنہ تمہیں (جہنم کی)آگ چھو لے گی، اور اللہ کے سوا تمہارے لیے کوئی مددگار نہ ہوگا، پھر تم کوئی مدد بھی نہ پاؤ گے“ [ھود؛ 11:113[

 

گویا اللہ تعالیٰ ہم سے کہہ رہے ہیں، اگر تم ظالموں کے راستے پر راضی ہو جاؤ، ان کے نقشِ قدم پر چلنے لگو، اور ان کے باطل کی حمایت کرو، تو آخرت میں دوزخ کی آگ تمہیں پکڑ لے گی، اور دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ تمہاری مدد نہیں کرے گا۔ بلکہ وہ تمہیں چھوڑ دے گا، تمہارے دشمن کو تم پر غالب کردے گا، اور تمہیں تنہا کر دے گا۔ یہی حالت آج کے مسلمانوں کی جماعت کی بھی ہے۔ جب تم خود کو کسی ظالم کے ساتھ ملا لیتے ہو، تو دراصل تم اللہ تعالیٰ کے راستے کے خلاف ہو جاتے ہو۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ تمہیں چھوڑ دے گا، اور جب اللہ تمہیں چھوڑ دے تو تمہارا کوئی بھی مددگار نہیں ہوگا، کیونکہ اللہ کے سوا کوئی حامی و مددگار نہیں ہے۔

 

ذرا غور کریں کہ ظالموں کی طرف محض میلان کی سزا یہ ہے، 

 

﴿فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ أَوْلِيَاءَ ثُمَّ لَا تُنصَرُونَ

 

”ورنہ تمہیں (جہنم کی)آگ چھو لے گی، اور اللہ کے سوا تمہارے لیے کوئی مددگار نہ ہوگا، پھر تم کوئی مدد بھی نہ پاؤ گے“ [ھود؛ 11:113[،

 

امام الشوکانیؒ نے اس کے بارے میں فرمایا، «قوله، ﴿فَتَمَسَّكُمُ ٱلنَّارُ﴾ بسببِ الرُّكونِ إليهم، وفيه إشارةٌ إلى أنَّ الظلمةَ أهلُ النارِ أو كالنارِ، ومصاحبةُ النارِ توجبُ لا محالةَ مَسَّ النارِ» 'پھر آگ تمہیں چھو لے گی' کا سبب ظالموں کی طرف میلان ہونا ہے، اور اس میں اشارہ ہے کہ ظالم لوگ دوزخ کے اہل ہیں یا آگ کی مانند ہیں، اور آگ کے ساتھ رہنے کا لازمی نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ آگ لگ ہی جائے گی۔

 

ایک اور نکتہ کی بات یہ ہے جس کی طرف الماورديؒ نے اشارہ کیا ہے، «فيتعدّى إليكم ظلمُهم كما تتعدّى النارُ إلى إحراقِ ما جاورَها، ويكونُ ذكرُ النارِ على هذا الوجهِ استعارةً وتشبيهًا» ان کا ظلم تم تک اس طرح آن پہنچتا ہے جیسے آگ اپنے قرب و جوار میں موجود چیزوں کو جلا دیتی ہے، اور یہاں آگ کا ذکر استعارہ اور تشبیہ کے طور پر کیا گیا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد کہ،

 

﴿وَمَا لَكُم مِّن دُونِ ٱللَّهِ مِنۡ أَوۡلِيَآءَ ثُمَّ لَا تُنصَرُونَ

 

اور اللہ کے سوا تمہارے کوئی مددگار نہ ہوں گے، اور نہ تمہاری مدد کی جائے گی [ھود؛ 11:113[،

 

 

 

یہ ظالموں کی طرف جھکاؤ کے گناہِ کبیرہ کی دلیل ہے، کیونکہ جو شخص انہیں اپنا سہارا، پناہ، یا انحصار کا ذریعہ مان لیتا ہے اور ان کے آسرے تلے مطمئن رہتا ہے، وہ نہ تو اس دنیا میں واقعی مددگار ہوں گے اور نہ ہی قیامت میں اللہ تعالیٰ کی حفاظت اور نصرۃ سے مستفید ہو سکیں گے۔ یوں اس جھکاؤ کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کی نصرۃ اور تحفظ سے محرومی اس کے حصے میں آجاتی ہے۔

 

5- ظالموں کی طرف جھکاؤ ہونا ہی دنیا کے لئے بڑی بدبختی ہے، کیونکہ ان کی طرف جھکاؤ ہونے سے ہی انہیں شہہ ملتی ہے کہ وہ اپنے ظلم پر ڈٹے رہیں اور اسے مزید پھیلائیں۔ ظالموں کی طرف جھکاؤ ہونا، خاص طور پر علماء کا جھکاؤ، انتہائی خطرناک ہے اور اس کا شر بہت وسیع اثر رکھتا ہے۔ یہ جھکاؤ ابتدا میں تو صرف ان ظالموں کے قریب جانے سے شروع ہوتا ہے، اور پھر جلد ہی اکثر علماء ان ظالموں کے الفاظ کو جائز سمجھنے لگتے ہیں، ان ظالموں کے اعمال پر ان کے جواز کو درست مان لیتے ہیں، اور حتیٰ کہ ان ظالموں کے فریب میں آ جاتے ہیں۔ پھر بعد میں وہ ان ظالموں کے دئیے گئے تحفے تحائف اور عنایات قبول کرنے میں بھی مطمئن ہو جاتے ہیں، اور یوں ان کی زبانیں گنگ ہو جاتی ہے۔ علماء کی طرف سے ظالموں کے لئے یہ قربت، جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے اور اس کے حکم کے تابع ہونے کے مقصد سے ہونی چاہئے لیکن یہ آہستہ آہستہ خودغرضی، ذاتی خواہشات، دنیاوی آسائش، اور لوگوں پر ظلم میں ظالموں کی طرف میلان کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔

 

اس جھکاؤسے بچاؤ کا کوئی ذریعہ نہیں، سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ کا تقویٰ ہو، اخلاص کے ساتھ اس کے لئے کام کیا جائے، اللہ کی عظمت و بزرگی کا احساس اور دل میں خوف ہو، اور اس کے سامنے عاجزی کے ساتھ کھڑا ہوا جائے۔

 

اور الإمامُ الزُّهريُّ کا ذکر کریں تو علم میں بلند مقام کے باوجود حکمرانوں کے قریب ہو گئے تھے، تو ان کے ایک خیرخواہ بھائی نے اس میل جول میں ان کے دین کے لئے خطرہ محسوس کیا، چنانچہ اس نے انہیں نصیحت اور یاد دہانی کے طور پر خط لکھا، «عافانا اللهُ وإيّاك أبا بكرٍ من الفتنِ، فقد أصبحتَ بحالٍ ينبغي لمن عرفك أن يدعوَ لك اللهَ ويرحمَك، أصبحتَ شيخًا كبيرًا وقد أثقلتك نعمُ اللهِ بما فهّمك اللهُ من كتابِه، وعلّمك من سنّةِ نبيِّه، وليس كذلك أخذَ اللهُ الميثاقَ على العلماءِ، قال اللهُ سبحانه: ﴿لَتُبَيِّنُنَّهُۥ لِلنَّاسِ وَلَا تَكۡتُمُونَهُ﴾ (آلِ عمران؛ 3:187)» اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ کو اے ابو بکر! فتنوں سے محفوظ رکھے۔ آپ ایسی حالت کو پہنچ گئے ہیں کہ جو بھی آپ کو جانتا ہے، اس کے لئے مناسب ہے کہ وہ آپ کے لئے دعا کرے اور اللہ سے آپ پر رحم کی التجا کرے۔ آپ عمر رسیدہ ہو چکے ہیں، اور آپ پر اللہ کی ڈھیر ساری نعمتیں ہیں، اس وجہ سے کہ اللہ نے آپ کو اپنی کتاب کا فہم عطا کیا اور اپنے نبی ﷺ کی سنت کی تعلیم دی۔ لیکن اللہ نے علماء سے جو عہد لیا تھا وہ ایسا نہیں تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا،

 

﴿لَتُبَيِّنُنَّهُۥ لِلنَّاسِ وَلَا تَكۡتُمُونَهُ

 

تم اسے لوگوں کے لئےضرور واضح کرو اور اسے نہ چھپاؤ ۔ [آل عمران؛ 3:187[

 

پھر اس نے کہا، «واعلم أنَّ أيسرَ ما ارتكبتَ، وأخفَّ ما احتملتَ: أنّك آنستَ وحشةَ الظالمِ، وسهّلتَ سبيلَ الغيِّ بدنوِّك ممّن لم يؤدِّ حقًّا، ولم يتركْ باطلًا، حين أدناكَ اتّخذوك قُطبًا، تدورُ عليك رحى باطلِهم، وجسرًا يَعبُرون عليك إلى بلائِهم، وسُلَّمًا يصعدون فيك إلى ضلالِهم، يُدخلون الشكَّ بك على العلماءِ، ويَقتادون بك قلوبَ الجهلاءِ، فما أيسرَ ما عمروا لك في جنبِ ما خرّبوا عليك، وما أكثرَ ما أخذوا منك في جنبِ ما أفسدوا عليك من دينِك، فما يُؤمنُك أن تكونَ ممّن قال اللهُ فيهم: ﴿فَخَلَفَ مِنۢ بَعۡدِهِمۡ خَلۡفٌ أَضَاعُواْ ٱلصَّلَوٰةَ وَٱتَّبَعُواْ ٱلشَّهَوَٰتِۖ فَسَوۡفَ يَلۡقَوۡنَ غَيًّا﴾» جان لو کہ تم سے سرزد ہونے والی سب سے ہلکی لغزش اور تم پر آنے والا سب سے کم بوجھ یہ ہے کہ تم نے ایسوں کے قریب ہو کر جنہوں نے نہ تو حق کا ساتھ دیا اور نہ ہی باطل کو چھوڑا، یوں تم نے ان کے قریب ہو کر ظالم کو آسانی دئیے رکھی اور اس کے گمراہی کے راستے کو آسان بنا دیا۔ جب تم اس کے قریب ہوئے تو انہوں نے تمہیں اپنا محور (قُطب) بنا لیا، یعنی ایسی چکی جس کے گرد ان کا باطل گردش کرتا ہے، اور تمہیں ایک ایسا پل بنا لیا جس پر سے گزر کر وہ اپنی آفتوں تک پہنچتے ہیں، اور ایک ایسی سیڑھی بنا لیا جس کے ذریعے وہ اپنی گمراہی کی بلندیوں تک چڑھتے ہیں۔ وہ ظالم تمہارے ذریعے علما کے دلوں میں شک ڈال دیتے ہیں، اور تمہارے ذریعے جاہلوں کے دلوں کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں۔ انہوں نے تمہارے لئے جو تھوڑا سا فائدہ پیدا کیا، وہ اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں جو انہوں نے تمہارے دین میں برباد کر دیا؛ اور انہوں نے تم سے جو کچھ لیا، وہ اس کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے جو انہوں نے تمہارے دین کو نقصان پہنچا کر تم سے چھین لیا۔ پھر تمہیں کیا چیز اس بات سے محفوظ رکھ سکتی ہے کہ تم بھی انہی لوگوں میں شامل نہ ہو جِن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا، ﴿فَخَلَفَ مِنۢ بَعۡدِهِمۡ خَلۡفٌ أَضَاعُواْ ٱلصَّلَوٰةَ وَٱتَّبَعُواْ ٱلشَّهَوَٰتِۖ فَسَوۡفَ يَلۡقَوۡنَ غَيًّا﴾ پھر ان کے بعد ایسے ناخلف لوگ آئے جنہوں نے نماز کو ضائع کر دیا اور خواہشات کے پیچھے چل پڑے، تو وہ عنقریب گمراہی سے دوچار ہوں گے[سورۃ مریم؛ 19:59[

 

پھر اس نے کہا: «فإنَّك تُعامِلُ من لا يجهلُ، ويَحفظُ عليك من لا يَغفُلُ، فداوِ دينَك، فقد دخله سقمٌ، وهيِّئ زادَك فقد حضرَ السفرُ البعيدُ، وما يخفى على اللهِ من شيءٍ في الأرضِ ولا في السماءِ، والسلام» تم اس ذات کے ساتھ معاملہ کر رہے ہو جو نادان نہیں، اور جو تمہاری نگہبانی کر رہا ہے وہ غافل نہیں۔ لہٰذا اپنے دین کی فکر کرو، کیونکہ اس میں بیماری داخل ہو چکی ہے، اور اپنے سفر کا زادِ راہ تیار کرو، کیونکہ طویل سفر آن پہنچا ہے۔ زمین اور آسمان کی کوئی بھی شے اللہ ﷻ سے مخفی نہیں۔ والسلام“۔

 

روایت ہے کہ ایک شخص امام احمد بن حنبلؒ کے پاس آیا اور کہا، «يا إمامُ أنا أعملُ خيّاطًا عند حكّامٍ ظلمةٍ، فهل ينطبقُ عليَّ قوله تعالى: ﴿وَلَا تَرۡكَنُوٓاْ إِلَى ٱلَّذِينَ ظَلَمُواْ فَتَمَسَّكُمُ ٱلنَّارُ﴾؟» اے امام! میں ظالم حکمرانوں کے لیے درزی کا کام کرتا ہوں، تو کیا مجھ پر اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان صادق آتا ہے: اور ظالموں کی طرف نہ جھکو، ورنہ تمہیں آگ چھو لے گی؟

 

تو امام احمدؒ نے فرمایا، «بل أنت من الذين ظلموا، أمّا الذي يبيعُك الخيطَ فهو من الذين ركنوا إلى الذين ظلموا» بلکہ تم تو خود ظالموں میں سے ہو، اور جو تمہیں دھاگا بیچتا ہے وہ ان لوگوں میں سے ہے جو ظالموں کی طرف جھک گئے ہیں۔

 

اگر ہم امام احمدؒ کے معیار کو ان لوگوں پر لاگو کریں جو ظالموں کا دفاع کرتے ہیں، ان کے ظلم کو چھپاتے ہیں، ان کے اعمال کو جائز ٹھہراتے ہیں، ان پر ترس کھاتے ہیں، یا ان کے بعض مظالم میں ان کی مدد کرتے ہیں، تو وہ خود کس گروہ میں شمار ہوں گے؟ خصوصاً جب ہم آیت کے بقیہ حصے کو بھی سامنے رکھیں، ﴿وَلَا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ أَوْلِيَاءَ ثُمَّ لَا تُنصَرُونَ”اور ظالموں کی طرف ہرگز نہ جھکو، ورنہ تمہیں (جہنم کی)آگ چھو لے گی، اور اللہ کے سوا تمہارے لیے کوئی مددگار نہ ہوگا، پھر تم کوئی مدد بھی نہ پاؤ گے“ [ھود؛ 11:113[۔ پس اے وہ لوگو جو ظالموں کی طرف جھکتے ہو، ان کی مدد کرتے ہو اور ان کے جرائم کو درست ٹھہراتے ہو! کیا تم نہیں جانتے کہ تم ان کے جرم میں ان کے شریک بن جاتے ہو؟ اور تم خود کو اُن لوگوں کے قریب لے جاتے ہو جنہوں نے دوسروں کے دنیوی مفاد کے بدلے اپنا دین بیچ دیا!

 

کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ تم طاغوتوں اور مجرم ظالموں کے بارے میں اپنے مؤقف پر نظرِ ثانی کرو، خصوصاً غزہ اور دیگر مسلم ممالک میں ہونے والی اس تمام خونریزی اور تباہی کے بعد، اور اُن جرائم و فساد کے بعد جو یہ ظالم زمین میں برپا کئے ہوئے ہیں؟!

Last modified onپیر, 22 دسمبر 2025 19:03

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک