بسم الله الرحمن الرحيم
سیاسی فہم اور پالیسی سازی کے لئے درکار مطلوبہ شرائط (حصہ-5)
عالمی قانون کا ماخذ
https://www.al-waie.org/archives/article/19977
لقمان حرزالله- فلسطين
دنیا میں مختلف ریاستوں اور سیاسی اکائیوں کا وجود اور ان کا ایک دوسرے کے ساتھ میل جول وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انہیں اس بات پر آمادہ کرتا گیا کہ وہ کچھ ایسے رسم و رواج طے کریں جن کی خلاف ورزی کرنے والے کو سزا دی جائے۔ حکمرانوں اور ریاستی اکائیوں پر رائے عامہ کے اثر و رسوخ کی وجہ سے، یہ ریاستیں اور اکائیاں ان روایات کی پابندی رضاکارانہ طور پر کیا کرتی تھیں۔ یوں بین الاقوامی رسم و رواج دراصل وہ بنیادی نکتہ تھا جس سے بعد ازاں بین الاقوامی قانون کی تشکیل ہوئی۔
بین الاقوامی رسم و رواج عمومی بھی ہو سکتے ہیں یا مخصوص بھی ہو سکتے ہیں۔ عمومی بین الاقوامی رسوم و رواج وہ رواج ہوتے ہیں جن پر دنیا کے تمام ممالک عمل کرتے ہیں، جنہیں رائے عامہ بھی قبول کرتی ہے، اور جنہیں عارضی نہیں بلکہ مستقل طور پر ایک رواج سمجھا جاتا ہے۔ مخصوص عالمی رواج وہ ہوتے ہیں جو دنیا کے کسی خاص خطے سے متعلق ہوں۔ اسی لئے ”مروجہ بین الاقوامی قانون‘‘ اور ”علاقائی بین الاقوامی رواج‘‘ جیسی اصطلاحات اُن ممالک کے دائرہ کار کے لحاظ سے استعمال کی جاتی ہیں جو کسی مخصوص رواج پر عمل پیرا ہوں۔ اس کی ایک مثال وہ مخصوص بین الاقوامی رواج ہے جو برطانیہ اور آئس لینڈ کے درمیان سرد جنگوں کے بعد اُبھر کر سامنے آیا، جوکہ بین الاقوامی پانیوں میں ماہی گیری کے حقوق سے متعلق تھا۔ آئس لینڈ نے برطانیہ سے یہ رعایت حاصل کی کہ وہ آئس لینڈکے پانیوں سے 200 بحری میل کے اندر تک ماہی گیری کر سکتا ہے۔ یہ حل بعد میں ایک رواج بن گیا اور پھر بین الاقوامی قانون کی شکل اختیار کر گیا، جس کی بنیاد پر سمندروں میں نام نہاد ”خصوصی اقتصادی زونز‘‘ کی حد بندی کی گئی۔ علاقائی مخصوص رواج کی ایک اور مثال وہ رواج ہے جو رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے قبل عربوں میں رائج تھا، جس کے تحت حرمت والے مہینوں میں لڑائی جھگڑا ممنوع ہوتا تھا۔ جبکہ عمومی بین الاقوامی رواج کی ایک اور مثال سفیروں اور ایلچیوں کو استثناء حاصل ہونا ہے۔
سترہویں صدی کے وسط میں یورپی ممالک نے اپنے باہمی تعلقات کو منظم کرنے کے لئے تیزی سے اقدامات کئے۔ 1648ء کے معاہدۂ ویسٹ فیلیا نے ان کے باہمی تعلقات کو منظم کرنے کے لئے ایک قانون کی بنیاد رکھی۔ یہ معاہدہ بعد میں ایسے بین الاقوامی قانون کی تشکیل کے لئے عملی بنیاد ثابت ہوا جو صرف یورپ ہی نہیں بلکہ پوری دنیا پر لاگو ہوا۔ بین الاقوامی تعلقات کو منظم کرنے والی نمایاں کانفرنسوں میں سے ایک ویانا کانگریس تھی، جو 1815ء میں منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس کا مقصد فرانسیسی انقلابی جنگوں سے پیدا ہونے والے کئی مسائل کو حل کرنا تھا، اور اسی کے نتیجے میں یورپی براعظم کی سرحدوں کا تعین کیا گیا۔ اسی کانفرنس کے سلسلے کی ایک اور کڑی 1919ء میں منعقد ہونے والی پیرس کانفرنس تھی، جس کے نتیجے میں خلافتِ عثمانیہ کی تقسیم عمل میں آئی اور لیگ آف نیشنز کا قیام عمل میں لایا گیا۔
بین الاقوامی عوامی قانون دراصل وہ قانون ہوتا ہے جو ریاستوں کے مابین حالتِ امن اور حالت جنگ، دونوں صورتحال میں باہمی تعلقات کو منظم کرتا ہے، اور اس کے تحت بین الاقوامی اداروں کو ریاستوں پر ایک مخصوص اختیار اور اثر حاصل ہوتا ہے۔ اس اختیار کو عملی طور پر عالمی انتظامی ادارے استعمال کرتے ہیں، جیسے کہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل وغیرہ، جو یا تو دنیا کی کسی بڑی ریاست کے زیرِ اثر ہوتے ہیں یا پھر بڑی عالمی طاقتوں کے مابین اثر و رسوخ کی کشمکش کامقابلہ ہوتا ہے، جس سے عالمی صورتِ حال پر اثر پڑتا ہے۔
بین الاقوامی عوامی قانون کی مثالوں میں وہ قوانین شامل ہیں جو بین الاقوامی معاہدوں کے نتیجے میں طے پاتے ہیں، مثلاً جنیوا کنونشن۔ اسی طرح، بین الاقوامی عوامی قانون میں وہ قوانین بھی شامل ہیں جو چند ریاستوں کے مابین طے پاتے ہیں اور جن کی پابندیاں ریاستی سطح پر لاگو ہوتی ہیں، نہ کہ انفرادی سطح پر، جیسے کہ جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کی روک تھام کا معاہدہ (Treaty on the Non-Proliferation of Nuclear Weapons)۔
بہرحال یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ بین الاقوامی قانون عموماً اُن بڑی طاقتوں کے ذریعے تشکیل پاتا ہے جو کسی جنگ یا تنازعات میں فتح حاصل کرتی ہیں، یا پھر اُن طاقتوں کے ذریعے جن کی طاقت و قوت مساوی ہو اور جو اس نتیجے پر پہنچیں کہ کسی تنازعہ کی صورت میں کسی ایک فریق کی واضح فتح ممکن نہیں ہے۔ ایسی صورت میں وہ باہمی تعلقات کو منظم کرنے کے لئےکسی ایک معاہدے کی طرف مائل ہوتے ہیں، جسے تمام دستخط کنندگان متفقہ طور پر تسلیم کرتے ہیں، اور یوں وہ معاہدہ بین الاقوامی قانون کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ یہ مقصد بین الاقوامی معاہدوں اور سمجھوتوں کے ذریعے، یا عمومی قانونی اصولوں کے ذریعے یا بین الاقوامی رسم و رواج سے ماخوذ بنیادوں کے ذریعے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ویسٹ فیلیا معاہدے کے بعد ہی یورپی ممالک کے باہمی سمجھوتے نے انہیں اس قابل بنایا کہ وہ خلافتِ عثمانیہ کا مقابلہ کر سکیں، وہ خلافت کہ جس نے بڑے بڑے یورپی ممالک کی فصیلیں توڑ ڈالی تھیں اور دیگر ممالک کو بھی دہلا کر رکھ دیا تھا۔ اسی وجہ سے یہ صاف واضح ہوتا ہے کہ عالمی قانون دراصل یورپ کی طرف اسلام کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے تشکیل دیا گیا تھا۔
مغربی طاقتوں نے ایسی تنظیمیں اور ادارے قائم کرنے پر کام کیا جنہوں نے عالمی قوانین اور اقوامِ متحدہ کی قراردادیں وضع کیں اور انہی کی بنیاد پر افراد اور ریاستوں کا محاسبہ کیا۔ یہ سب اس مقصد کے لئے کیا گیا تاکہ قانونی طور پر دنیا پر ان اداروں کی بالادستی قائم کی جا سکے اور ان اداروں و تنظیموں کو برتر و اعلیٰ حیثیت دی جا سکے۔ اسی تناظر میں لیگ آف نیشنز، اس کے بعد اقوامِ متحدہ، اور عالمی فوجداری عدالت قائم کی گئیں۔ یہ ادارے درحقیقت عالمی سطح پر دنیا کی سرکردہ ریاست کے نظریاتی رجحان سے منسلک ہوتے ہیں، اور اپنے قوانین کے نفاذ کے حوالے سے سلامتی کونسل سے منسلک ہوتے ہیں جیسا کہ اقوامِ متحدہ کے معاملے میں سلامتی کونسل کا کردار ہے۔
لہٰذا، یہ ادارے اور تنظیمیں دراصل دنیا کی بڑی طاقت کے ہاتھوں میں ایک آلہ ہوتے ہیں، تاکہ وہ پوری دنیا میں اپنی پالیسیوں کو نافذ کرے۔ البتہ، چونکہ دیگر ریاستیں بھی ان تنظیموں میں شریک ہوتی ہیں، اس لئے اس سرکردہ ریاست کو دوسرے ممالک کے ردِعمل اور مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔
عالمی قانون کی پابندی نہ کرنا ریاستوں کے لئے شرمندگی کا باعث بنتا ہے، چاہے وہ دنیا کی بڑی طاقت ہی کیوں نہ ہو۔ اگرچہ وہ بڑی طاقت کسی بھی وقت اپنے کسی ایسے اہم مفاد کے حصول کی خاطر، جوکہ عالمی قانون کی خلاف ورزی کا تقاضا کرتا ہو اور اس خلاف ورزی سے انہیں ممکنہ عالمی شرمندگی کا سامنا بھی کر پڑ سکتا ہو، پھر بھی وہ اپنی ساکھ بہتر بنانے اور قانون شکنی کے الزام سے بچنے کے لئے مختلف چالوں کا سہارا لیتی ہے۔ مثال کے طور پر، 2022ء میں یوکرین پر جنگ کے دوران روسی صدر پیوٹن نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ وہ عالمی الاقوامی قانون کی خلاف ورزی نہیں کر رہے۔ اس نے اس وقت تک یوکرین میں اپنے بَری دستوں کو داخل کرنے میں تاخیر کی جب تک کہ علیحدگی پسند دھڑوں نے انہیں اپنے دفاع کے لئے نہ بلا لیا۔ اسی طرح، 2003ء میں امریکہ عراق میں اس وقت تک داخل نہ ہوا تھا، جب تک اس نے رائے عامہ کو یہ باور نہ کرا دیا کہ عراق کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار موجود ہیں۔ اگرچہ بعد میں یہ جھوٹ بے نقاب ہونے پر امریکہ کو عالمی سطح پر خجالت کا سامنا کرنا پڑا، لیکن اُس وقت تک وہ اپنا اسٹریٹجک ہدف حاصل کر چکا تھا۔ بعد ازاں امریکہ نے عالمی رائے عامہ پر اس جھوٹ کے منفی اثرات کو کم کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ بلاشبہ، ممالک عالمی رائے عامہ کو اہمیت دیتے ہیں اور یہ عالمی رائے عامہ اکثر اس ملک کی داخلی عوامی رائے میں بھی جھلکتی ہے جوکہ اس حکومت کے لئے شرمندگی کا باعث بن سکتی ہے۔ امریکہ داخلی طور پر رائے عامہ کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتا ہے، کیونکہ بہرطور یہ رائے عامہ کسی نہ کسی طرح انتخابات اور ایوانِ نمائندگان و سینیٹ کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔
عالمی اصولوں اور عالمی قانون کا مطالعہ کرنا سیاسی فہم اور پالیسی سازی کے لئے نہایت اہم ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ بڑی طاقتوں کی عالمی قانون سے وابستگی اور ان طاقتوں کے عالمی قانون پر پابند رہنے کی حقیقی حیثیت کو سمجھا جائے۔ یہ تصور کر لینا درست نہیں کہ یہ ممالک عالمی قانون کی خلاف ورزی کر ہی نہیں سکتے، اور نہ ہی یہ سمجھ لینا صحیح ہے کہ یہ ممالک عالمی قانون کو کسی خاطر میں نہیں لاتے۔ درحقیقت، عالمی رسم و رواج یا عالمی قانون کو سمجھنا ایسی پالیسی بنانے میں مدد دیتا ہے جو مطلوبہ مقصد کے حصول کی راہ ہموار کرے۔ جیسا کہ، واقعۂ حدیبیہ میں جب رسول اللہ ﷺ عمرۂ کے لئے روانہ ہوئے تھے تو آپ ﷺ نے کھلم کھلا اعلان کیا اور عربوں کو بتا دیا کہ آپ ﷺ عمرہ ادا کرنے جا رہے ہیں اور آپ ﷺ کے پاس صرف معمولی ہتھیار ہے جو کہ ایک سوار کے پاس ہوا کرتا ہے، اور وہ جنگی اسلحہ نہیں ہوتا۔ آپ ﷺ نے اس طرح کا ماحول تیار کیا کہ اگر قریش آپ ﷺ کو مکہ میں داخل ہونے سے روکتے ہیں تو انہیں شدید شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا، اور اگر وہ مکہ کے دروازے آپ ﷺ کے لئے کھول دیتے ہیں تو بھی اُن کے لئے یہ صورت حال ندامت کا باعث بنتی۔ آپ ﷺ دراصل ایک امن معاہدہ کے متمنی تھے، اور اسی لئے آپ ﷺ نے اس دور کے ایک علاقائی رواج کو استعمال کرتے ہوئے قریش کو اسی جانب دھکیلا، جس کے مطابق قریش حرمِ مکہ کی خدمت انجام دیا کرتے تھے اور ان کے لئے یہ مناسب نہ تھا کہ وہ کسی کو عبادت کے لئے مکہ جانے سے روکیں۔
عالمی مؤقف (الموقف الدولي)
بین الاقوامی مؤقف سے مراد کسی ملک کی عالمی سطح پر حیثیت اور دنیا کی دیگر مؤثر ریاستوں کے ساتھ اس کے تعلقات ہیں۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ بین الاقوامی موقف دراصل دنیا کی بڑی اور مؤثر ریاستوں کے درمیان تعلقات کی نوعیت کو ظاہر کرتا ہے۔ لہٰذا، بین الاقوامی موقف کو کسی انفرادی ملک کی پالیسی کی طرح نہیں دیکھنا چاہیے، کیونکہ ہر ملک کی پالیسی اس کے نظریۂ حیات کے نکتۂ نظرسے جڑی ہوتی ہے۔ کسی ملک کی پالیسی کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ اس ملک کی فکر اور طریقہ کو سمجھا جائے، جس کی بنیاد پر وہ اپنی پالیسی تشکیل دیتا ہے۔ البتہ، بین الاقوامی مؤقف اس سے مختلف ہوتا ہے، جو کہ دنیا کی مؤثر ریاستوں کے درمیان تعلقات پر مشتمل ہوتا ہے، نہ کہ کسی ایک ملک کے نظریاتی نکتہ نظر پر۔ یہ ضروری نہیں کہ ان ریاستوں کا نظریۂ حیات یا طرزِ فکر ایک جیسا ہو۔ بلکہ عمومی طور پر ایسا ہی ہوتا ہے کہ ان ممالک کے نظریات ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ آپس میں تعلقات قائم کرتے ہیں، چاہے امن کے زمانے میں ہوں یا جنگ کے حالات میں۔
عالمی موقف دنیا کی بااثر ریاستوں کے مابین بین الاقوامی سیاست میں ان کے مقام کے فرق کے باعث تشکیل پاتا ہے۔ یہ عالمی موقف مختلف عناصر کی بنیاد پر بنتا ہے، جن میں کسی ملک کی فوجی طاقت، اقتصادی طاقت، سفارتی قوت، صنعتی و تکنیکی ترقی، اور افرادی قوت شامل ہیں۔ نتیجتاً ان عناصر میں فرق کے باعث ممالک کے درمیان عدم مساوات پیدا ہوتی ہے، جو بالآخر بین الاقوامی تعلقات پر ان کے اثر و رسوخ میں فرق پیدا کرتی ہے، اور اسی سے عالمی موقف میں فرق واضح ہوتا ہے۔ اسی بنیاد پر درج ذیل اصطلاحات سامنے آئیں: ”دنیا کی صفِ اول کی ریاست‘‘ (World’s Leading State)، ”آزاد ریاست‘‘ (Independent State)، ”کسی مدار میں گھومتی ریاست‘‘ (Satellite State)، اور ”ماتحت ریاست‘‘ (Subordinate State)۔ لہٰذا، یہ سمجھنا نہایت ضروری ہے کہ دنیا کی صفِ اول کی ریاست کا عالمی مؤقف کیا ہے اور اس حوالے سے دیگر ریاستوں کا کیا نکتۂ نظر ہے۔
دنیا کی سرکردہ ریاست (World’s Leading State) وہ ریاست ہوتی ہے جو عالمی منظرنامے یا سیاسی فضا (الجوّ السیاسی) کو تشکیل دینے میں قیادت کا کردار ادا کرتی ہے۔ یہ قیادت اُن تعلقات کے ذریعے انجام پاتی ہے جو دیگر ریاستوں کو اس سرکردہ ریاست سے جوڑتے ہیں۔ دیگر ریاستیں اپنے مفادات کے حصول کے لئے دو طریقوں سے عمل کرتی ہیں: یا تو وہ سرکردہ ریاست کے مفادات کو پورا کرنے میں تعاون کرتی ہیں اور اس کے ساتھ اپنے مفادات کو ہم آہنگ کر لیتی ہیں؛ یا پھر وہ اس سرکردہ ریاست کے ساتھ مقابلے یا اختلاف کا راستہ اختیار کرتی ہیں تاکہ اپنے مفادات کا تحفظ کر سکیں۔ جو ریاست سرکردہ ریاست سے اختلاف یا مقابلہ کرتی ہے، وہ عموماً عالمی منظرنامے پر، اس اختلاف کی نوعیت اور اُس میں اپنی کامیابی کی حد تک، اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
دنیا کی سرکردہ ریاست عالمی سیاسی منظرنامے یا عالمی سیاسی فضا کو اپنی فکر اور سیاسی طرزِ عمل کے مطابق ڈھالتی ہے، اور دیگر ریاستوں کو اپنی نظریاتی اور سیاسی سمت کی طرف مائل کرتی ہے۔ جو کوئی ریاست دنیا کی سرکردہ ریاست کا مقام حاصل کرنا چاہتی ہے، اُسے لازمی طور پر سیاسی منظرنامے کو اپنے حق میں موڑنے کے لئے کام کرنا پڑتا ہے۔ دنیا کی سرکردہ طاقت بننے کا راستہ درج ذیل مراحل سے گزرتا ہے کہ موجودہ سرکردہ طاقت سے مقابلہ اور برابری کرنا، سیاسی منظرنامے کا رُخ اپنے حق میں موڑ دینا، خود کو موجودہ سرکردہ طاقت کے اثر و رسوخ سے الگ کرنا، موجودہ سرکردہ طاقت کے ظلم اور دنیا پر اس کی قیادت کے نقصانات کو بے نقاب کرنا، اور دیگر ضروری اقدامات کرنا جن کے ذریعے دیگر ریاستوں کو اس سرکردہ طاقت سے دور کیا جا سکے اور عالمی رائے عامہ کو اس سرکردہ ریاست کی پالیسیوں کے خلاف ہموار کیا جا سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ وہ ریاست جو عالمی قیادت بننے کا ارادہ رکھتی ہے، وہ ایسے عملی طرزِ عمل اپنائے جن سے یہ ظاہر ہو کہ وہ عالمی ذمہ داری سنبھالنے کے لئے سب سے زیادہ اہل ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جو کسی ریاست کو عالمی منظرنامے میں قیادت کے درجے تک لے جا سکتا ہے۔
عالمی موقف (International Standing) ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا، بلکہ یہ تغیر پذیر ہوتا ہے اور اپنی حالت بدلتا رہتا ہے۔ اسی لئے، جو شخص درست سیاسی فہم حاصل کرنا چاہتا ہو اور اپنے ملک و قوم کے مفاد میں مؤثر پالیسی تشکیل دینا چاہتا ہو، اسے لازمی طور پر بین الاقوامی تعلقات کا مسلسل جائزہ لینا چاہیے، تاکہ وہ یہ سمجھ سکے کہ موجودہ بین الاقوامی منظرنامہ مستحکم ہے یا کسی غیر استحکام اور تبدیلی کے دور سے گزر رہا ہے۔ تاریخ میں طاقت کا مرکز بارہا منتقل ہوا: کبھی رومیوں سے مسلمانوں کی طرف، تو کبھی فرانس سے انگلستان کی طرف، اور کبھی انگلستان سے جرمنی کی طرف۔ پھر سوویت یونین اور امریکہ دنیا پر اثر و رسوخ کے لئے مقابلہ کی دوڑ میں لگے رہے، اور بعد ازاں ایک معاہدے پر پہنچے۔ اور پھر امریکہ اجارہ داری کرتے ہوئے بین الاقوامی موقف تشکیل دینے میں مرکزی کردار ادا کرنے لگا۔ یوں عالمی طاقتوں کا توازن وقت کے ساتھ ساتھ بدلتا رہا۔
یہی امریکہ ہی دنیا کی سرکردہ ریاست (World’s Leading State) ہے، جبکہ دیگر ریاستیں یا تو آزاد ریاستیں ہیں، یا امریکہ کے مدار میں گھومتی ہیں (Satellite)، یا (امریکہ کی) ماتحت ریاستیں ہیں۔ ماتحت ریاست وہ ہوتی ہے جس کی پالیسی کسی دوسری طاقتور ریاست کے زیرِ اثر اور اس کی حدود میں مقید ہو۔ مثال کے طور پر مصر کا ذکر کریں تو، جمال عبد الناصر کے دور سے ہی مصر نے عملاً امریکہ کے تابع ہونا شروع کیا۔ وہ خطے میں امریکی منصوبوں کا حصہ بنا رہا اور امریکی پالیسیوں پر عمل کرتا رہا، حالانکہ بعض مواقع پر ان پالیسیوں نے خود مصر اور اس کی معیشت کو نقصان بھی پہنچایا۔ جہاں تک سعودی عرب کی بات ہے تو طویل عرصے تک سعودی عرب اپنی وفاداری برطانیہ اور امریکہ کے درمیان بدلتا رہا۔ لیکن جب سلمان اور اُس کا بیٹا محمد بن سلمان اقتدار میں آیا تو انہوں نے واضح طور پر امریکی پالیسیوں کو نافذ کرنا شروع کیا، چاہے ان پالیسیوں میں سعودی عرب کا براہِ راست کوئی مفاد نہ بھی ہو۔ اسی تناظر میں، 2015ء میں سعودی عرب نے یمن کے خلاف ”آپریشن فیصلہ کن طوفان“ (Operation Decisive Storm) کا آغاز کیا۔ یہ جنگ سعودی وسائل کا ایک بڑا حصہ کھا گئی، لیکن سعودی عرب کو اس سے کوئی حقیقی سیاسی فائدہ بھی حاصل نہ ہو سکا۔ البتہ، امریکہ کو اس جنگ سے صرف یہ فائدہ حاصل ہوا کہ اس نے حوثیوں کو مذاکرات کی میز پر لا کر انہیں یمن کی سیاست میں ایک اہم سیاسی قوت کے طور پر مستحکم کیا، تاکہ وہ برطانوی ایجنٹوں سے مقابلے کے بعد مستقبل میں یمن کی حکومت میں شریک ہوں یا اُس پر مکمل غلبہ حاصل کر لیں۔
مدار میں گھومتی سیٹلائٹ ریاست وہ ہوتی ہے جس کا تعلق اپنی خارجہ پالیسی میں کسی دوسری ریاست کے ساتھ تعلق مفادات کی بنیاد پر مبنی ہوتا ہے، نہ کہ اس کے تابع انحصار ہونے پر۔ اس کی ایک مثال جاپان کی ریاست ہے، دوسری عالمی جنگ کے اختتام کے بعد شکست کھانے اور اپنی فوجی نوعیت پر پابندیاں عائد ہونے کے بعد، جاپان نے صنعتی و معاشی میدان میں عالمی سطح پر ایک باوقار مقام حاصل کرنے کی کوشش کی، اور اس میں وہ کامیاب بھی رہا۔ تاہم، خارجہ پالیسی کے میدان میں جاپان نے اپنے مفادات کے حصول کے لئے امریکہ کے مفادات کو پورا کرنے کا راستہ اختیار کیا۔ اسی سلسلے میں، 2007ء میں جاپان نے کواڈ Quadrilateral Dialogue (Quad) میں امریکہ، آسٹریلیا، اور بھارت کے ساتھ شمولیت اختیار کی، تاکہ چین کے اثر و رسوخ کو محدود کیا جا سکے۔ اسی طرح مدار میں گھومتی ریاست کی دوسری مثال ترکی کی ہے، برطانوی اثر ورسوخ کے خلاف فوجی بغاوت کے بعد ترکی نے بھی اپنی خارجہ پالیسی میں امریکہ کے مفادات کو پورا کرکے اپنے مفادات حاصل کرنے کی کوشش کی۔ 2020ء میں ترکی نے لیبیا میں اپنی حامی افواج بھیجیں تاکہ لیبیا میں امریکی مرکز ایک مضبوط قدم جما سکے۔ اسی طرح، ترکی نے شامی انقلاب کو روکنے میں اہم کردار ادا کیا تاکہ امریکہ کی آشیرباد سے چلتی شامی حکومت کے زوال کو روکا جا سکے۔ ترکی نے شامی فوج سے منحرف ہونے والے افسران کے ایک گروہ اور اُس وقت بننے والے دھڑوں کو اپنے قابو میں رکھا، یہاں تک کہ وہ شامی انقلاب میں مداخلت کرنے، فیصلہ کن محاذ کھلنے سے روکنے، اور محاذ کو باہمی دھڑوں کی لڑائی میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہو گیا، اور ترکی کی جانب سے مداخلت کا یہ سلسلہ 2011ء میں شامی انقلاب کے آغاز سے لے کر آج تک جاری ہے۔پھر 2024ء میں، جب ترکی نے شامی حکومت کو تعلقات معمول پر لانے پر مجبور کرنے کی کوشش کی اور شامی حکومت نے انکار کیا، تو ترکی نے انہی منحرف شدہ افواج کے دھڑوں کو متحرک کیا، جس کے نتیجے میں شامی حکومت کا تختہ الٹ گیا اور ترکی نے امریکہ کے حق میں شام کے سیاسی منظرنامے پر اثر و رسوخ قائم کر لیا۔ تاہم، اس تمام عرصے میں ترکی اپنے داخلی مفادات اور پالیسیوں کو اپنی ترجیحات کے مطابق ترتیب دیتا رہا۔ لہٰذا، ترکی اور امریکہ کا تعلق خارجہ پالیسی میں امریکہ کے تابع ہونے کا نہیں ہے بلکہ مفادات کا تعلق تھا، جس کی بنیاد باہمی فائدے پر تھی، نہ کہ امریکہ کے ماتحت ریاست ہونے کی۔
آزاد ریاست (Independent State) وہ ہوتی ہے جو اپنی داخلی اور خارجی پالیسی خود طے کرتی ہے اور اپنے مفادات کے مطابق آزادانہ طور پر عمل کرتی ہے۔ مثال کے طور پر چین اپنی پالیسیوں اور اقدامات میں مکمل طور پر اپنے مفادات اور وژن کو بنیاد بناتا ہے، یعنی وہ کیا بننا چاہتا ہے اور اس مقصد کو کس طرح حاصل کرنا چاہتا ہے۔ چین کا مقصد ایک مضبوط اقتصادی قوت بننا اور ایسی تجارتی طاقت بننا ہے کہ جس کا کوئی مقابل نہ ہو۔ اسی مقصد کے تحت چین نے افریقہ میں وسائل کی تلاش کی، پھر لاطینی امریکہ کا رخ کیا، اور پیرو (Peru) میں ایک بندرگاہ قائم کی، جس میں اس کا 60٪ حصہ ہے اور 30 سال تک اس بندرگاہ کو چلانے کا حق چین کو حاصل ہے۔
چین نے امریکہ کی جانب سے حائل رکاوٹوں کے باوجود اپنے اہداف کے حصول میں مستقل پیش قدمی جاری رکھی ہے۔ چین تائیوان کو اپنا حصہ سمجھتا ہے اور اس حوالے سے وہ اپنی مرضی کی پالیسی اپناتا ہے، حالانکہ امریکہ نے تائیوان کو چین کے لئے ایک مستقل مسئلہ بنا رکھا ہے۔ اسی طرح، روس بھی اپنی داخلی اور خارجی پالیسیوں میں آزادانہ طور پر عمل کرتا ہے۔
مشاہدہ کرنے والے کو یہ گمان نہیں کرنا چاہیے کہ روس اور امریکہ کے درمیان کوئی انحصاریت کا تعلق ہے، وہ بھی صرف اس بنیاد پر کہ روس بعض معاملات میں امریکہ کے مفادات کے حصول میں مصروف رہتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک آزاد ریاست دنیا کی سرکردہ طاقت کے مفادات کو پورا کر کے اپنے مفادات حاصل کر سکتی ہے، اور اس سے وہ نہ تو تابع ریاست بن جاتی ہے اور نہ ہی مدار میں گھومتی سیٹلائٹ ریاست۔ ایسا اس لئے ہے کیونکہ ایک آزاد ریاست اپنی پالیسی سرکردہ طاقت کے فیصلوں سے آزاد ہو کر خود بناتی ہے، جبکہ سیٹلائٹ ریاست کے مفادات دنیا کی سرکردہ طاقت کے ساتھ اپنی خارجہ پالیسی کے مفادات سے گہرے طور پر جڑے ہوتے ہیں۔
بین الاقوامی تعلقات کی باریکیوں کا بغور مشاہدہ کرنا اور عالمی سرکردہ طاقت اور دیگر طاقتوں کے مقام کو سمجھنا نہایت اہم کا حامل ہے۔ اسی فہم کے ذریعے ایک سیاست دان اور مبصر دنیا میں ہونے والے واقعات اور بین الاقوامی منظر نامے میں سرکردہ طاقت کے درمیان ربط کو سمجھ سکتا ہے۔ یہ فہم حاصل ہو جانے سے کوئی بھی ذی شعور یہ بات سمجھ سکتا ہے کہ سرکردہ ریاست دنیا کے اہم واقعات پر کس طرح سیاسی طور پر اثرانداز ہو رہی ہوتی ہے، چاہے وہ کسی واقعے کا وقوع پذیر ہونا ہو، کسی وقوعہ کو ختم کرنا ہو، اس کا رخ موڑنا ہو یا اسے قابو میں رکھنا ہو۔ امریکا نے ہی یوکرین کو نیٹو کی طرف دھکیلا، جس کے نتیجے میں 2022ء میں یوکرین اور روس کے درمیان جنگ بھڑک اٹھی، اور اس سے روس اور چین کے درمیان بننے والے اتحاد پر اثر پڑا۔ امریکہ نے یوکرین کی مدد کی، روس پر دباؤ ڈالا، اور روس کو SWIFT مالیاتی نظام سے فائدہ اٹھانے سے روکا، امریکہ نے روس پر پابندیوں کا ایک سلسلہ نافذ کیا، اور یورپ کو بھی روس کے خلاف پابندیوں میں شامل ہونے پر مجبور کرتا رہا۔ حالانکہ اس جنگ سے خود یورپ کو بھی شدید نقصان پہنچا تھا، پھر بھی امریکا نے یورپ کو اپنے جھنڈے تلے متحد کیا اور نیٹو کو مضبوط کیا۔ یہ ایک ایسا سیاسی امر واقع تھا جسے دنیا کی سرکردہ ریاست نے اس لئے مرتب کیا تاکہ دوسرے امر واقع کو وجود میں آنے سے روکا جائے جس کے لئے روس اور چین مل کر کام کر رہے تھے، یعنی جو کہ ان دونوں کے درمیان اتحاد تشکیل پانے کا منصوبہ تھا۔ اس کے برعکس، عرب ممالک میں جب انقلابات رونما ہوئے تھے تو وہ عوام کی تحریکوں کے نتیجے میں طبعی طور پر پھوٹے، اور اس نہج تک آن پہنچے کہ ان تحریکوں نے مصر میں حکومت کا تختہ الٹ دیا، اور شام میں نئے نظام کے قیام کی طرف بڑھنے لگے۔ امریکا نے ان واقعات سے فائدہ اٹھایا، یمن میں اپنی پسند کے لوگوں کو اقتدار میں لانے کے لئے قدم بڑھایا، تاکہ ان ظالموں کو اقتدار میں لائے جو پہلے ہی ظلم کرتے رہے اور تاکہ انقلاب پر قابو پایا جا سکے، اور اس طرح امریکہ نے انقلابی سیاسی محاذوں کے نام پر عوام کو دھوکہ دینے والوں کو فعال کیا۔ حتیٰ کہ امریکہ نے دیگر ممالک کو بھی فوجی امداد دینے پر آمادہ کیا، روس اور ایران کو مجبور کیا کہ وہ شام میں حکومت کا ساتھ دیں جبکہ ترکی و سعودی عرب کو باغیوں کی حمایت پر آمادہ کیا۔ اس طرح امریکہ ان واقعات میں سب سے نمایاں اثر رکھنے والی قوت تھی۔
لہٰذا، مبصر اور پالیسی ساز پر لازم ہے کہ وہ بین الاقوامی منظرنامے کو درست طور پر سمجھیں، ورنہ وہ غلط تجزیہ کر بیٹھیں گے، یوں کبھی کسی ماتحت ریاست کو آزاد ریاست سمجھ لیں گے، اور کبھی کسی مدار میں گھومتی سیٹلائٹ ریاست کو سرکردہ عالمی طاقت کا حریف قرار دے دیں گے! یہ بھی اس دور کی تعجب خیز باتوں میں سے ایک ہے کہ کچھ لوگ سعودی عرب کے ولی عہد، محمد بن سلمان کو ایک آزاد حکمران تصور کرتے ہیں۔ اس کی توجیہہ یہ پیش کی جاتی ہے کہ محمد بن سلمان نے 2021ء میں امریکی صدر جو بائیڈن انتظامیہ کے پہلے دور کے دوران امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان (Jake Sullivan) سے سخت مؤقف اختیار کیا تھا اور تیل کی پیداوار کی پالیسی میں تبدیلی کے مطالبے کو مسترد کر دیا تھا۔ اسی طرح یہ بھی حیرت انگیز ہے کہ کچھ لوگ ایران کو امریکہ کا حریف سمجھتے ہیں، کیونکہ ایران نے عراق، شام اور یمن میں اپنے گروہوں کو تعینات کیا جن سے امریکی مفادات کو خطرہ پہنچا، حتیٰ کہ امریکی اڈوں پر میزائل حملے بھی ہوئے۔ لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ محمد بن سلمان کو بائیڈن کے مقابل مضبوط کرنے والا دراصل امریکہ کے اندر بائیڈن کا سیاسی حریف، ڈونلڈ ٹرمپ ہی تھا۔ اسی طرح یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ خود امریکہ نے ایرانی جماعتوں اور ان کے ایجنٹوں کے ذریعے عراق کے سیاسی ماحول کو کنٹرول کیا، شام کی صورتحال پر گرفت حاصل کی، اور یمن کی حکومت پر بھی تقریباً مکمل کنٹرول حاصل کر چکا ہے۔
(جاری ہے ...)
Latest from
- حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس سے DVD CD
- نوجوان نسل ( Gen Z ) مراکش کے تخت پر لرزہ طاری کئے ہوئے ہے
- جلیل القدر عالم دین اور فقیہ شیخ عطاء بن خلیل ابوالرشتہ کی کتاب ”التیسیر فی اصول التفسیر“ سے اقتباس
- پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر خون ریز جھڑپیں اور دونوں طرف سے اللہ تعالی کے احکامات کی کھلی خلاف ورزی
- پاکستان اور افغانستان کے درمیان لڑائی ایک المیہ ہے جس کا حل صرف اسلام میں مضمر ہے