الجمعة، 06 ربيع الأول 1447| 2025/08/29
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

قرآن کریم میں تمکین (اقتدار اور استحکام)  کا تصور

 

(ترجمہ)

 

مجلة الوعی شمارہ 468

 

انتیسواں سال، محرم 1447ھ بمطابق جولائی 2025ء

 

استاد  احمد القصص - لبنان

 

 

اللہ تعالی کا فرمان ہے:  

 

﴿وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ ءَامَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ

"اللہ نے تم میں سے ان لوگوں سے وعدہ کیا ہے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کیے کہ وہ انہیں زمین میں ضرور خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اس نے ان سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا، اور ان کے لیے ان کے دین کو ضرور  مستحکم کرے گا جسے اس نے ان کے لیے پسند کیا ہے، اور ان کے خوف کو امن سے بدل دے گا۔ وہ میری ہی عبادت کریں گے، میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے، اور جو اس کے بعد کفر کرے گا تو وہی لوگ فاسق ہیں۔"

(سورۃ النور – آیت 55)

 

جب ہم تمکین کی بات کرتے ہیں تو ہم اس معاملے کے بارے میں بات کر رہے ہوتے ہیں جس کے لیے تمام رسولوں اور انبیاء کرام علیہم السلام کو بھیجا گیا۔ تو جس معاملے کی ہم اس مضمون میں بات کر رہے ہیں وہ کسی ایک شخص یا چند افراد کو  اقتدار  میں لانے اور مستحکم  بنانے کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ یہ دین کو اقتدار میں لانے اور مستحکم  بنانے اور اس امت کو اقردار میں لانے  اور مستحکم  بنانے کا معاملہ ہے جو اس دین کو قائم کرتی ہے۔ اور دین کو قائم کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس زمین پر زندگی گزارنے کا وہ طریقہ موجود ہو جسے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے لوگوں کے لیے پسند فرمایا ہے۔ اور جو  قرآنِ کریم میں سب سے آخر میں نازل ہوا اس میں سے ایک یہ ہے:

 

﴿ٱلۡيَوۡمَ أَكۡمَلۡتُ لَكُمۡ دِينَكُمۡ وَأَتۡمَمۡتُ عَلَيۡكُمۡ نِعۡمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ ٱلۡإِسۡلَٰمَ دِينٗاۚ 

"آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو مکمل کر دیا ہے اور تم پر اپنی نعمت تمام کر دی ہے، اور اسلام کو تمہارے لیے  بطورِ دین پسند کیاہے"۔(سورۃ المائدہ – آیت 3)

 

یعنی میں نے تمہارے لیے اسلام کو وفاداری، ایمان، شریعت اور طرزِ زندگی کے طور پر پسند کیا۔پس، "دین" کا لفظ ان تمام معانی کا احاطہ کرتا ہے۔  نبی اکرم ﷺ اس وقت تک رفیقِ اعلیٰ سے نہیں ملے جب تک کہ انہوں نے اپنا فریضۂ رسالت مکمل نہ کر لیا، یعنی پیغام پہنچا دیا۔ آپ ﷺ کا عمل صرف پیغام پہنچانے تک محدود نہیں تھا، بلکہ آپ ﷺ نے اسلام کے لیے ایک سیاسی ڈھانچہ قائم کیا جسے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے زمین میں مستحکم کیا، چنانچہ آپ ﷺ  ایک مکمل اسلامی ریاست، دارالاسلام، چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہوئے جو پورے جزیرہ نما عرب پر محیط تھی، تاکہ آپ ﷺ کے بعد خلفائے راشدین اور ان کے جانشین اس مشن کو  وسعت دے کر اس سفر کو جاری رکھ سکیں۔ اور یہ وہ سفر تھا جو صدیوں تک جاری رہا، یہاں تک کہ ایک ایسا زمانہ آیا جب امت نے اس عظیم فریضے سے روگردانی کی، اور اس کی حکمرانی زمین سے ختم ہو گئی، اور اس کی تمکین کلی طور پر غائب ہو گئی۔ اور اب یہ دوبارہ تمکین (اقتدار اور استحکام)  حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہے اور  اپنی سابقہ حالت پر لوٹنا چاہتی ہے، ایک ایسی امت کی حیثیت سے جو بااختیار ہو، جس کا دین مستحکم ہو، اور جسے زمین میں خلافت عطا کی گئی ہو، تاکہ وہ اس عظیم مشن کو پورا کر سکے جس کے لیے اسے پیدا کیا گیا تھا:

﴿كُنتُمۡ خَيۡرَ أُمَّةٍ أُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ تَأۡمُرُونَ بِٱلۡمَعۡرُوفِ وَتَنۡهَوۡنَ عَنِ ٱلۡمُنكَرِ وَتُؤۡمِنُونَ بِٱللَّهِۗ 

"تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لیے نکالی گئی ہے، تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔" (سورۃ آل عمران – آیت 110)

 

پس جب ہم تمکین (اقتدار اور  استحکام) کی بات کرتے ہیں تو ہم زمین میں دین کے تمکین کی بات کرتے ہیں۔  لغت میں تمکین "مَکَنَ" سے ہے،اور کسی چیز پر تمکین کا مطلب ہے اس پر قدرت عطا کرنا اور اس کے لیے سہولت و مدد فراہم کرنا۔ اور "مَکَّنَ لَهُ فِي الشَّيْءِ" کا مطلب ہے اسے اس چیز پر اختیار اور قدرت دینا۔ اور جو کسی قوم پر تمکین حاصل کر لے تو اس نے ان پر قدرت حاصل کر لی۔ پس، تمکین درحقیقت قدرت و اقتدار کا نام ہے۔ چنانچہ جب کہا جائے کہ فلاں شخص زمین میں صاحبِ تمکین ہو گیا، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے زمین پر فیصلہ سازی اور اقتدار کا اختیار حاصل ہو چکا ہے۔ بلاشبہ، زمین میں اقتدار ہی اصل تمکین ہے، اور یہی شخص حقیقتاً صاحبِ اختیار، صاحبِ اثر، اور صاحبِ اقتدار ہوتا ہے۔ لہٰذا، جب اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو زمین میں تمکین عطا فرماتا ہے، تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ وہ انہیں زمین پر فیصلے نافذ کرنے، احکام جاری کرنے اور اللہ کا کلمہ بلند کرنے کی قدرت و اختیار عطا فرماتا ہے، تاکہ اہلِ کفر کا کلمہ پست ہو جائے۔ یہ تمکین اسی فطری کشمکش کے تناظر میں ہے جو مسلمانوں پر فرض ہے، یعنی حق اور باطل، ایمان اور کفر کے مابین مسلسل تصادم۔ قرآنِ کریم میں تمکین کا یہی مفہوم متعدد مقامات پر بیان کیا گیا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔

 

﴿ٱلَّذِينَ إِن مَّكَّنَّٰهُمۡ فِي ٱلۡأَرۡضِ أَقَامُواْ ٱلصَّلَوٰةَ وَءَاتَوُاْ ٱلزَّكَوٰةَ وَأَمَرُواْ بِٱلۡمَعۡرُوفِ وَنَهَوۡاْ عَنِ ٱلۡمُنكَرِۗ وَلِلَّهِ عَٰقِبَةُ ٱلۡأُمُورِ

"وہ لوگ کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار دیں، تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ ادا کریں گے، نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے روکیں گے۔ اور تمام امور کا انجام اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔"(سورۃ الحج – آیت 41)     

 

اس آیتِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر بیان فرما دیا کہ اپنے نیک بندوں کو زمین میں تمکین دینے کا مقصد صرف ان کی ذاتی تمکین نہیں ہے، بلکہ اس تمکین کا مقصود اللہ کے دین کی بالادستی اور شریعت کی حاکمیت ہے۔

 

﴿ٱلَّذِينَ إِن مَّكَّنَّٰهُمۡ فِي ٱلۡأَرۡضِ أَقَامُواْ ٱلصَّلَوٰةَ وَءَاتَوُاْ ٱلزَّكَوٰةَ وَأَمَرُواْ بِٱلۡمَعۡرُوفِ وَنَهَوۡاْ عَنِ ٱلۡمُنكَرِۗ

"وہ لوگ کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار دیں، تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ ادا کریں گے، نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے روکیں گے۔"(سورۃ الحج – آیت 41)

 

یہاں "نماز قائم کرنے" سے مراد صرف انفرادی عبادت نہیں بلکہ معاشرتی سطح پر نماز کا اجتماعی قیام ہے۔ اور "نیکی کا حکم دینا" اور "برائی سے روکنا" محض زبانی نصیحتوں سے نہیں، بلکہ اقتدار و حکمرانی کے ذریعے، ریاستی سطح پر ان احکام کا نفاذ مراد ہے۔ کیونکہ زبانی امر بالمعروف و نہی عن المنکر تو ہر شخص کے لیے ممکن ہے، خواہ وہ زمین میں صاحبِ تمکین نہ ہو۔ اسی طرح ہم اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں بھی تمکین کا یہی مفہوم پاتے ہیں:

 

﴿وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ ءَامَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ

"اللہ نے تم میں سے ان لوگوں سے وعدہ کیا ہے جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے کہ وہ انہیں زمین میں ضرور خلیفہ بنائے گا، جیسا کہ اس نے ان سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا، اور ان کے لیے ان کے دین کو ضرور   مستحکم کرے گا جسے اس نے ان کے لیے پسند کیا ہے، اور ان کے خوف کو امن سے بدل دے گا۔ وہ میری ہی عبادت کریں گے، میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے، اور جو اس کے بعد کفر کرے گا تو وہی لوگ فاسق ہیں۔"(سورۃ النور – آیت 55)

 

  خلافت اور تمکین اللہ کی طرف سے ان لوگوں کے لیے وعدہ ہے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کی۔ پس تمکین اللہ تعالیٰ پر ایمان اور اس کے شرع پر عمل پر منحصر ہے۔

 

﴿وَعَدَ ٱللَّهُ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ مِنكُمۡ وَعَمِلُواْ ٱلصَّٰلِحَٰتِ لَيَسۡتَخۡلِفَنَّهُمۡ﴾ "اللہ نے تم میں سے ان لوگوں سے وعدہ کیا ہے جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے کہ وہ انہیں زمین میں ضرور خلیفہ بنائے گا"یعنی اللہ تعالیٰ انہیں زمین میں خلافت عطا فرمائے گا، جس طرح اس نے ان سے پہلے اقوام کو خلافت عطا کی تھی۔

 

اللہ تعالی کا یہ فرمان :

 

﴿وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ

"اور ان کے لیے ان کے دین کو ضرور مضبوط و مستحکم کرے گا جسے اس نے ان کے لیے پسند کیا ہے۔"

اس بات کا واضح اظہار ہے کہ اس خلافت کا مقصد محض افراد کو اقتدار دینا نہیں، بلکہ دین کو زمین پر مستحکم کرنا ہے۔ غرض، مقصد ایک ایسی ایمانی جماعت کی تشکیل ہے جو اس طرزِ زندگی کو اپنائے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے پسند فرمایا ہے۔

 

اللہ تعالی کا یہ فرمان:﴿وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّنۢ بَعۡدِ خَوۡفِهِمۡ أَمۡنٗاۚ﴾"اور ان کے خوف کو امن سے بدل دے گا۔"درحقیقت تمکین کے ثمرات میں سے ایک کی وضاحت ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ اپنے نیک بندوں کے خوف کو امن و سکون میں بدل دے گا۔

 

پھر فرمایا: ﴿يَعۡبُدُونَنِي لَا يُشۡرِكُونَ بِي شَيۡ‍ٔٗاۚ ۚ﴾ "وہ میری ہی عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں گے۔" یہ تمکین کے اصل مقصد پر ایک اضافی دلیل ہے: کہ زمین پر ایسی زندگی قائم ہو جس میں اللہ تعالیٰ کی عبادت غالب ہو۔  اسلامی تصور میں "عبادت" محض نماز، روزہ اور دیگر عباداتی شعائر تک محدود نہیں، بلکہ اللہ کی کتاب میں عبادت کا مفہوم اللہ کی کامل اطاعت اور تابع داری  ہے۔ لہٰذا مقصود ایسی زندگی کا قیام ہے جس میں اللہ کی بندگی ہر شعبۂ حیات میں نمایاں ہو ،  ان تعلقات میں بھی جو معاشرے کو تشکیل دیتے ہیں، اور اس طرزِ زندگی میں بھی جو امتِ مسلمہ کو دیگر اقوام سے ممتاز بناتا ہے، یعنی ایک ایسی زندگی جس میں اسلامی طرزِ زندگی نمایاں ہو۔

 

پھر اللہ تعالیٰ آیت کو اس فرمان سے ختم کرتے ہیں: ﴿وَمَن كَفَرَ بَعۡدَ ذَٰلِكَ فَأُوْلَٰٓئِكَ هُمُ ٱلۡفَٰسِقُون﴾ "اور جو اس کے بعد کفر کرے گا تو وہی لوگ فاسق ہیں۔" اس فرمان میں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ زمین میں تمکین کا مقصد دین کو اس طرح ظاہر کرنا  ہے کہ اس کا ظہور، یعنی اس کا غلبہ، لوگوں پر حجت بن جائے، تو اس کے بعد جو بھی اس کا انکار کرے گا وہ فاسقوں میں سے ہوگا جو واضح نشانیوں کے ظاہر ہونے کے باوجود کفر اور فسق میں مبتلا ہوا۔پس، تمکین کا حقیقی مقصد یہ ہے کہ ایک ایسی باایمان مسلم جماعت وجود میں آئے جو اسلامی زندگی بسر کرے — ایک ایسا طرزِ حیات جو آج کی اصطلاح میں "اسلامی معاشرہ" کہلاتا ہے۔ تاہم جب ہم اسلامی معاشرے کی بات کرتے ہیں تو اس سے محض ایسا معاشرہ مراد نہیں ہوتا جس میں افراد مسلمان ہوں، کیونکہ آج دنیا کے تقریباً ہر گوشے میں مسلمان بستے ہیں، اور ان کی تعداد دو ارب سے تجاوز کر چکی ہے، لیکن یہ سب مل کر بھی ایک اسلامی معاشرہ تشکیل نہیں دیتے۔، کیونکہ معاشرہ لوگوں کا ایک ایسا گروہ ہوتا ہے جس کے درمیان دائمی تعلقات قائم ہوں، اور یہ دائمی تعلقات اس معاشرے کو اس کی شناخت اور اس کے طرزِ زندگی دیتے ہیں۔ تو اگر اس کے تعلقات اسلام کے مطابق تشکیل پائے ہوں تو وہ ایک اسلامی معاشرہ ہوگا، اور اگر اس کے تعلقات سرمایہ داریت کے مطابق تشکیل پائے ہوں تو وہ ایک سرمایہ دارانہ معاشرہ ہوگا وغیرہ۔ اور یہ تعلقات اسلامی تب ہی ہوں گے جب معاشرے کی ثقافت اسلام کے افکار ہوں اور اس میں رائج نظام اسلام کا نظام ہو، یعنی  شریعت۔ تو اگر مسلمان اسلام کے خالص تصورات کو اختیار کریں جو کسی بھی بیرونی تصور سے پاک ہوں اور اپنی زندگیوں میں اسلامی نظام کو نافذ کریں تب جا کر وہ ایک اسلامی معاشرہ بن پائیں گے۔ پس اگر اسلام مسلمانوں کے درمیان اپنے تصورات کے ساتھ پھیل جائے اور وہ اسلامی زندگی گزارنے کی خواہش رکھیں اور تمام غیر اسلامی تصورات کو ترک کر دیں لیکن وہ صرف اسلام کی ثقافت حاصل کرنے اور انفرادی طور پر اس پر عمل پیرا ہونے پر اکتفا کریں، تو جب تک ان کی سرزمین میں کوئی ایسا سیاسی نظام قائم نہ ہو جو ان پر اسلام کا نظام نافذ کرے اور ان کے معاملات کو اس کے ذریعے چلائے تو یہ معاشرہ اسلامی نہیں ہو گا، کیونکہ کسی بھی معاشرے کی شناخت اور اس کی تہذیبی ساخت کا سب سے بڑا تعین کنندہ وہ نظام (آئین، قوانین اور قانون سازی کے لحاظ سے) ہوتا ہے جو اس پر عملی طور پر نافذ ہوتا ۔پس، جب تک کسی معاشرے میں نافذ العمل نظام غیر اسلامی ہو، اسے اسلامی معاشرہ کہنا درست نہیں، چاہے وہاں کے باشندے اسلام کو مکمل طور پر خالص اور ہر قسم کی آلودگی سے پاک مانتے ہوں۔ اور اس بنا پر تمکین کا کام دراصل یہ ہے کہ زمین میں ایک ایسی بااختیار امت کی تشکیل کی جائے جس کے پاس اقتدار ہو، اورجس میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے شریعت کی حاکمیت ہو۔

 

سابقہ گفتگو ہمیں ایک نہایت اہم سوال کی طرف لے جاتی ہے:کیا تمکین ( اقتدار اور استحکام) اس دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کے لیے حتمی مقصد ہے؟ یا یہ کسی اعلیٰ مقصد کے حصول کا محض ایک ذریعہ ہے؟

 

یہ سوال ہمارے دور کے مسلمانوں کے درمیان خاصی بحث اور  اختلاف کا باعث بنا ہوا ہے۔ بہت سے مسلمان، خصوصاً وہ جو اخلاص اور دینی حمیت سے سرشار ہیں، یہ گمان رکھتے ہیں کہ اسلامی ریاست کا قیام مسلمانوں کے عروج کی انتہا اوراسلام کے اطلاق، اسلامی زندگی اور اسلامی معاشرے کی تشکیل کا نتیجہ ہے۔ اس تصور کے تحت وہ کہتے ہیں: "ہمیں پہلے اسلامی معاشرہ قائم کرنا چاہیے، پھر ریاست خود بخود قائم ہو جائے گی۔" لیکن یہ سوچ ایک بڑی فکری کمزوری پر مبنی ہے، جو ریاست کے حقیقی مفہوم اور اس کے بنیادی کردار کو نہ سمجھنے کے باعث پیدا ہوتی ہے۔پس، اسلام میں ریاست نہ تو عروج کی انتہا ہے، نہ ترقی کی آخری منزل، اور نہ ہی کوئی حتمی مقصد۔ بلکہ ریاست، اسلام کے قیام، اسلامی زندگی کے وجود، اور اسلامی معاشرے کی تشکیل کا عملی ذریعہ ہے۔ تمام سیاسی فکر رکھنے والے، خواہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم، اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ ریاست کسی بھی امت کے تصورات، اعتقادات اور اقدار کے مجموعے کی تنفیذی شکل ہوتی ہے۔ یعنی ریاست اس طرزِ زندگی کے نفاذ کا ذریعہ ہے جسے ایک قوم اپنانا چاہتی ہے۔ لہٰذا جب تک اسلامی ریاست موجود نہ ہو، نہ اسلامی معاشرہ وجود میں آ سکتا ہے، اور نہ اسلامی طرزِ زندگی ممکن ہے۔ چنانچہ جو لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ اسلامی ریاست یا خلافت کا قیام  امت کی ترقی و عروج کی آخری منزل ہے جب امت پہلے ہی مکمل طور پر اسلام پر عمل پیرا ہو چکی ہو، تو وہ دراصل اسلامی ریاست اور اس کے مقصد کو سمجھے بغیر بات کرتے ہیں۔ کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام اپنی ریاست کے بغیر نافذ نہیں ہو سکتا، اور اس کے احکام زمین پر اس وقت تک عملاً زندہ نہیں ہو سکتے جب تک ان کے نفاذ کے لیے کوئی ریاست موجود نہ ہو۔ اسی لیے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے زمین میں تمکین کو اسلامی طرزِ زندگی کے قیام، شرعی احکام کے نفاذ اور امن کے حصول کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ لہٰذا وہ شخص جو اسلامی دعوت کو صرف وعظ و نصیحت یا عیسائیوں کی تبلیغی سرگرمیوں جیسا محدود فریضہ سمجھتا ہے، اور اس بات پر غور نہیں کرتا کہ اسلامی ریاست کے قیام کے لیے عملی، سنجیدہ جدوجہد کس طرح کی جائے، تو ایسا شخص ، خواہ یہ کام شعوری طور پرکرے یا غیر شعوری طور پر ،وہ  اسلام کو قائم کرنے والا داعی نہیں کہلا سکتا۔ وہ درحقیقت صرف انفرادی اصلاح کی دعوت دے رہا ہوتا ہے، جبکہ اور کوئی فرد اکیلا اسلام کو مکمل طور پر نافذ نہیں کر سکتا، بلکہ تمام افراد بھی ریاست کے بغیر اسلام کو نافذ نہیں کر سکتے، کیونکہ اسلام صرف افراد کے لیے نہیں آیا، بلکہ اسلام ایک نظامِ زندگی کے طور پر آیا ہے، اور اس کے نفاذ کے لیے ایک ریاست کا قیام ناگزیر ہے۔   ریاست کسی بھی تہذیب اور کسی بھی سیاسی ثقافت کی تنفیذی ہستی  ہے۔ یہ اس طرزِ زندگی کی تنفیذی ہستی ہے جسے لوگ اختیار کرنا چاہتے ہیں۔

 

چنانچہ زمین میں تمکین (اقتدار اور استحکام)  کا مسئلہ اس امر کا متقاضی ہے کہ ایک ایسی ریاست قائم کی جائے جو مسلم امت کے اقتدار کی نمائندہ ہو — ایسی ریاست جو تمکین کو عملی صورت دے، اور یہ ریاست کوئی بھی عام ریاست نہیں ہو سکتی، بلکہ امت کی ریاست ہونی چاہیے۔ مثال کے طور پر، اگر ہم تصور کریں کہ مسلمان کسی خطے میں ایک چھوٹی سی ریاست قائم کر لیتے ہیں، مگر وہ اتنی طاقتور نہیں کہ دشمنوں کے مقابلے میں خود کو محفوظ رکھ سکے، تو ایسی ریاست اسلام اور مسلمانوں کو زمین میں حقیقی تمکین (اقتدار اور استحکام) فراہم نہیں کر سکتی۔ اس لیے وہی ریاست اسلام اور مسلمانوں کو تمکین دے سکتی ہے جسے اسلام "دارُالاسلام" کہتا ہے۔ اور دارُالاسلام ہی، اپنی تعریف اور شرعی حیثیت کے اعتبار سے، اسلام اور مسلمانوں کی تمکین (اقتدار اور استحکام)کی عملی شکل ہے۔ دارُالاسلام کی شرعی تعریف یہ ہے کہ: "وہ سرزمین جہاں اسلام نافذ ہو، اور اس کا امن مسلمانوں کے ہاتھ میں ہو۔" یعنی وہاں اسلامی احکام کا مکمل نفاذ ہو، اور داخلی و خارجی امن کی ذمہ داری مسلمانوں کے ہاتھ میں ہو۔ اگر ان دو شرائط میں سے کوئی ایک بھی مفقود ہو جائے ،  چاہے وہ اسلام کا مکمل نفاذ ہو یا ریاست کا امن مسلمانوں کے ہاتھ میں ہونا ،  تو ایسی ریاست کو دارُالاسلام نہیں کہا جا سکتا، اور نہ ہی وہ ریاست اسلام اور مسلمانوں کو حقیقی تمکین (اقتدار اور استحکام) دے سکتی ہے۔ کیونکہ جہاں کافر کا تسلط اور غلبہ ہو، وہاں تمکین ممکن ہی نہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

 

﴿وَلَن يَجۡعَلَ ٱللَّهُ لِلۡكَٰفِرِينَ عَلَى ٱلۡمُؤۡمِنِينَ سَبِيلًا

"اور اللہ ہرگز کافروں کو مومنوں پر کوئی غلبہ نہیں دے گا۔"(سورۃ النساء–آیت 141)

 

اور جب دارُالاسلام قائم ہو جائے تو مسلمانوں کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ صرف اپنی ریاست میں اسلام کے نفاذ پر اکتفا کریں، بلکہ اس ریاست کی ایک جامع خارجی پالیسی ہونی چاہیے، جو اسلام کو پوری دنیا تک بطور پیغام پہنچانے پر مبنی ہو۔ یہی وہ عمل ہے جو اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی عملی تعبیر ہے: 

 

﴿وَكَذَٰلِكَ جَعَلۡنَٰكُمۡ أُمَّةٗ وَسَطٗا لِّتَكُونُواْ شُهَدَآءَ عَلَى ٱلنَّاسِ وَيَكُونَ ٱلرَّسُولُ عَلَيۡكُمۡ شَهِيدٗاۗ 

"اور اسی طرح ہم نے تمہیں ایک درمیانی امت بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو، اور رسول تم پر گواہ ہو۔" (سورۃ البقرہ – آیت 143)

 

ایک اہم مسئلہ جو آج کے دور میں بعض مسلمانوں کے مابین بحث و ابہام کا باعث بنا ہوا ہے، وہ یہ ہے: کیا زمین میں خلافت اور تمکین کا قیام مسلمانوں کی کوششوں پر منحصر ہے؟اور کیا یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں پر عائد کردہ ایک شرعی ذمہ داری ہے؟ یا پھر یہ محض اللہ کا فضل ہے؟ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ تمکین مومنین کے لیے اللہ تعالیٰ کی ذمہ داریوں میں سے نہیں ہے، بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا محض فضل ہے، تو ہمیں عام طور پر ایمان اور نیک اعمال پر عمل کرنا چاہیے بغیر اس کے کہ ہم اقتدار اور حکومت سنبھالنے کی کوشش کریں، اگر ہم میں ایمان اور نیک اعمال نمایاں ہوں گے تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنے فضل سے زمین میں خلافت اور تمکین عطا فرمائے گا۔ لیکن یہ نظریہ کسی بھی شرعی دلیل پر مبنی نہیں ہے، بلکہ شریعت کے صریح دلائل کے خلاف ہے۔کیونکہ اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ مسلمان نصرت اور غلبے کے اسباب اختیار کرنے کے مکلف ہی نہیں، جب کہ اللہ تعالیٰ نے صراحت کے ساتھ حکم دیا ہے: 

 

﴿وَأَعِدُّواْ لَهُم مَّا ٱسۡتَطَعۡتُم مِّن قُوَّةٖ وَمِن رِّبَاطِ ٱلۡخَيۡلِ تُرۡهِبُونَ بِهِۦ عَدُوَّ ٱللَّهِ وَعَدُوَّكُمۡ وَءَاخَرِينَ مِن دُونِهِمۡ لَا تَعۡلَمُونَهُمُ ٱللَّهُ يَعۡلَمُهُمۡۚ

"اور تم ان کے مقابلے کے لیے، جہاں تک ممکن ہو، قوت اور تیار بندھے گھوڑے مہیا رکھو، تاکہ اس کے ذریعے تم اللہ کے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو ڈرا سکو، اور ان کے علاوہ دوسرے لوگوں کو بھی جنہیں تم نہیں جانتے، اللہ انہیں جانتا ہے۔" (سورۃ الأنفال – آیت 60)

 

یہ آیت اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر قتال کی تیاری اور طاقت حاصل کرنے کو واجب قرار دیا ہے۔ اگر مسلمان اس تیاری سے غفلت برتیں تو اللہ تعالیٰ ان کی مدد نہیں فرماتا، بلکہ ان پر تنبیہ کرتا ہے کہ وہ خود کو ہلاکت میں ڈال رہے ہیں، جیسا کہ فرمایا:

 

﴿وَأَنفِقُواْ فِي سَبِيلِ ٱللَّهِ وَلَا تُلۡقُواْ بِأَيۡدِيكُمۡ إِلَى ٱلتَّهۡلُكَةِ

"اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو، اور اپنے ہاتھوں سے خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔"(سورۃ البقرہ – آیت 195)

  اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ قتال کی تیاری نہیں کریں گے تو وہ سبحانہ و تعالیٰ ان کی مدد نہیں کرے گا، بلکہ اس سے بڑھ کر یہ کہ وہ خود اپنے ہاتھوں کو ہلاکت میں ڈال رہے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے نصرت کو اپنی ذات سے منسوب کیا ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ نصرت اپنے مومن بندوں کی کوشش کے بغیر حاصل ہو جائے۔

 

اور اگر ہم رسول اللہ ﷺ کی سیرت پر غور کریں تو واضح طور پر نظر آتا ہے کہ آپ ﷺ نے بعثت کے بعد سے لے کر مدینہ کی ریاست کے قیام تک، خلافت اور تمکین کے لیے محض اللہ تعالیٰ کے فضل کا انتظار نہیں کیا۔ بلکہ آپ ﷺ قبائل کے پاس تشریف لے جاتے، ان سے سوال کرتے: "تمہارے پاس کس درجے کی طاقت اور تحفظ کی صلاحیت ہے؟" آپ ﷺ ان سے یہ مطالبہ کرتے کہ وہ آپ پر ایمان لائیں اور آپ کی مدد کریں۔اس کا مقصد یہ تھا کہ آپ ﷺ کو زمین میں وہ اقتدار حاصل ہو جائے جس کے ذریعے آپ اللہ کا پیغام مکمل طور پر پہنچا سکیں اور اسلام کے لیے ایک ریاست قائم کر سکیں۔ اسی بنا پر، جب اہلِ مدینہ نے آپ ﷺ کو اپنے علاقے میں قیادت سونپی، تو اللہ تعالیٰ نے انہیں "انصار" کا عظیم لقب عطا فرمایا، کیونکہ انہوں نے نہ صرف رسول اللہ ﷺ کی، بلکہ خود اسلام کی نصرت کی۔ چنانچہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی توفیق سے مدینہ کی اسلامی ریاست، نبی اکرم ﷺ اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کی ان عملی کوششوں کے نتیجے میں قائم ہوئی، جو انہوں نے تمکین (اقتدار اور استحکام) کے اسباب کے حصول کے لیے کیں۔

 

یقیناً ایسا ممکن ہے کہ خلافت و تمکین کے لیے سرگرم لوگ تمام تر شرعی اسباب اختیار کریں اور پھر بھی فوری طور پر تمکین حاصل نہ کر سکیں، کیونکہ بعض اوقات ان کے پاس وہ تمام عناصر مکمل طور پر موجود نہیں ہوتے، یا ان میں سے کچھ عوامل ان کے اختیار سے باہر ہوتے ہیں۔ یہی کچھ پچھلے انبیاء علیہم السلام کے ساتھ بھی پیش آیا۔ لیکن اگر کوئی ان اسباب کو سرے سے اختیار ہی نہ کرے، تو یہ بات یقینی ہے کہ نہ خلافت قائم ہو سکتی ہے اور نہ ہی زمین میں تمکین حاصل ہو سکتی ہے۔تو زمین میں کوئی خلافت اور کوئی تمکین اس کے لیے عمل کیے بغیر اور اس کے اسباب اختیار کیے بغیر ممکن نہیں۔ تو اسباب اختیار کرنے کے بعد  مقصد حاصل ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی ہو سکتا، یہ معاملہ علمِ غیب میں ہے۔ لیکن اس امت سے خلافت کا وعدہ اللہ کی کتاب میں نصِ صریح کے ساتھ کیا گیا ہے، جیسا کہ اس کے فرمان میں آیا:

 

﴿وَعَدَ ٱللَّهُ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ مِنكُمۡ وَعَمِلُواْ ٱلصَّٰلِحَٰتِ لَيَسۡتَخۡلِفَنَّهُمۡ فِي ٱلۡأَرۡضِ كَمَا ٱسۡتَخۡلَفَ ٱلَّذِينَ مِن قَبۡلِهِمۡ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمۡ دِينَهُمُ ٱلَّذِي ٱرۡتَضَىٰ لَهُمۡ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّنۢ بَعۡدِ خَوۡفِهِمۡ أَمۡنٗاۚ يَعۡبُدُونَنِي لَا يُشۡرِكُونَ بِي شَيۡ‍ٔٗاۚ وَمَن كَفَرَ بَعۡدَ ذَٰلِكَ فَأُوْلَٰٓئِكَ هُمُ ٱلۡفَٰسِقُونَ

"اللہ نے تم میں سے ان لوگوں سے وعدہ کیا ہے جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے، کہ وہ ضرور انہیں زمین میں خلیفہ بنائے گا، جیسے ان سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا، اور ان کے لیے ان کے دین کو ضرور مضبوطی کے ساتھ قائم کرے گا جسے اس نے ان کے لیے پسند کیا ہے، اور ان کے خوف کو امن سے بدل دے گا۔"(سورۃ النور–آیت 55)

 

ایک اور مقام پر فرمایا:

 

﴿هُوَ ٱلَّذِيٓ أَرۡسَلَ رَسُولَهُۥ بِٱلۡهُدَىٰ وَدِينِ ٱلۡحَقِّ لِيُظۡهِرَهُۥ عَلَى ٱلدِّينِ كُلِّهِۦ وَلَوۡ كَرِهَ ٱلۡمُشۡرِكُونَ

"وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا، تاکہ اسے تمام ادیان پر غالب کر دے، خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناپسند ہو۔"(سورۃ الصف – آیت 9)

 

یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اسلام تمام ادیان پر غالب آئے گا، اور اگرچہ اسلام آج دنیا کے ایک بڑے حصے پر پھیل چکا ہے، مگر وہ مکمل اور فیصلہ کن تمکین، جو وعدہ شدہ ہے، ابھی تک حاصل نہیں ہوئی۔چنانچہ یہ وعدہ اب بھی منتظرِ تکمیل ہے۔ صحیح مسلم کی روایت میں حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

 

(إنّ الله زوى لي الأرض، فرأيت مشارقها ومغاربها، وإنّ أمّتي سيبلغ ملكها ما زوي لي منها)

"بے شک اللہ تعالیٰ نے میرے لیے زمین کو سمیٹ دیا، تو میں نے اس کے مشرق و مغرب کو دیکھا، اور بے شک میری امت کی حکومت وہاں تک پہنچے گی جہاں تک میرے لیے زمین سمیٹی گئی۔"

 

لیکن یہ وعدہ اس وقت تک پورا نہیں ہو سکتا جب تک امت ان اسباب کو اختیار نہ کرے جو خلافت اور تمکین تک پہنچنے کا ذریعہ ہیں۔ اور یہ اسباب، بغیر کوشش، عزم اور منظم جدوجہد کے، کبھی خود بخود مکمل نہیں ہوتے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

 

﴿يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ إِن تَنصُرُواْ ٱللَّهَ يَنصُرۡكُمۡ وَيُثَبِّتۡ أَقۡدَامَكُمۡ

"اے ایمان والو! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدموں کو ثابت قدم رکھے گا۔"(سورۃ محمد – آیت 7)

 

 

Last modified onجمعرات, 28 اگست 2025 20:34

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک