الخميس، 20 صَفر 1447| 2025/08/14
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

"کتاب نظامِ اسلام میں سے مقاصد کا حصول"

 

(حلقہ 21)

 

مختلف اسلامی مکاتب فکر میں تقدیر اور پہلے سے طےشدہ کا تصور

 

(القضاء والقدر)

 

(عربی سے ترجمہ)

 

تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو فضل و کرم کا مالک ہے، ایسی پناہ گاہ کا مالک ہے جو کبھی پامال نہیں ہوتی، اور ایسی عزت کا حامل ہے جس تک کوئی رسائی نہیں پا سکتا۔ اور درود و سلام ہو ہمارے آقا محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر، جو بنی نوع انسان میں سے بہترین وافضل ہیں۔ جو خاتم الانبیاء ہیں، اور ان کی آل، صحابہ کرام (رض) اور ان کی اتباع کرنے والوں پر، جنہوں نے اسلام کے نظام کو نافذ کیا اور اس کے احکام پر پوری لگن کے ساتھ عمل کیا۔ اے اللہ ہمیں ان میں شامل کر اور ہمیں ان کی جماعت میں اٹھا اور ہمیں ثابت قدم رکھ، یہاں تک کہ ہم تجھ سے اس دن ملیں جس دن قدم ڈگمگائیں گے اور حشر کا ہجوم برپا کیا جائے گا۔

 

اے ایمان والو!

 

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ۔  ہم آپ کے ساتھ اپنی کتاب "اسلام کے نظام کی کتاب سے اہداف کا حصول" کی اقساط کا سلسلہ جاری رکھیں ہوئے ہیں اور آج کی قسط کا عنوان ہے، "اسلامی مکاتب فکر میں تقدیر اور پہلے سے طے شدہ امور (القضاء والقدر)"۔  اب ہم اس پر غور وفکر کریں گے جو ایک عالم اور سیاسی مفکر شیخ تقی الدین النبہانی کی کتاب "نظام الاسلام" کے صفحہ نمبر چودہ پر موجود ہے۔

 

النبہانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سورۃ آل عمران میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

(وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَنْ تَمُوتَ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ كِتَابًا مُؤَجَّلًا)

"اور کوئی جان اللہ کے حکم کے بغیر نہیں مر سکتی، اس کا وقت لکھا ہوا ہے" (سورۃ آلِ عمران، آیت 145)

 

سورہ اعراف میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

 

(وَلِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ)

"ہر امت کے لیے ایک مدت مقرر ہے۔  پھر جب وہ مدت آ جاتی ہے تو وہ اس میں ایک لمحہ بھی تاخیر نہیں کر سکتے اور نہ (ایک لمحہ) آگے بڑھ سکتے ہیں" (سورۃ الأعراف، آیت 34)

 

سورۃ الحدید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

 

(مَا أَصَابَ مِنْ مُصِيبَةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي أَنْفُسِكُمْ إِلَّا فِي كِتَابٍ مِنْ قَبْلِ أَنْ نَبْرَأَهَا إِنَّ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ)

"کوئی مصیبت ایسی نہیں ہے جو زمین پر یا تم پر آتی ہو اور ہم نے اس کو پیدا کرنے سے پہلے ایک کتاب میں نہ لکھ رکھا ہو، ایسا کرنا اللہ کے لیے بہت آسان ہے" (سورۃ الحديد، آیت 22)

 

سورۃ التوبہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے

(قُلْ لَنْ يُصِيبَنَا إِلَّا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَنَا هُوَ مَوْلَانَا وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ)

"ان سے کہو، ہمیں ہرگز کوئی (برائی یا بھلائی) نہیں پہنچتی مگر وہ جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ دی ہے اللہ ہی ہمارا مولیٰ ہے، اور اہل ایمان کو اسی پر بھروسہ کرنا چاہیے" (سورۃ التوبہ، آیت 51)

 

 

سورۃ سبأ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

 

(لَا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ فِي السَّمَوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ وَلَا أَصْغَرُ مِنْ ذَلِكَ وَلَا أَكْبَرُ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُبِينٍ)

"اس سے ذرہ برابر چیز، نہ آسمانوں میں چھپی رہتی ہے اور نہ زمین میں۔ اور ایک ذرے سے بھی چھوٹی یا بڑی کوئی چیز ایسی نہیں جو واضح کتاب میں درج نہ ہو" (سورۃ سبأ، آیت 3)

 

سورۃ الانعام میں ارشاد فرمایا:

 

(وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بِالنَّهَارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ لِيُقْضَى أَجَلٌ مُسَمًّى ثُمَّ إِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ ثُمَّ يُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ)

"اور وہی ہے جو رات کے وقت (نیند میں) تمہاری روح (ایک حد تک) قبض کر لیتا ہے اور دن بھر میں تم نے جو کچھ کیا ہوتا ہے، اسے خوب جانتا ہے، پھر اس (نئے دن) میں تمہیں زندگی دیتا ہے، تاکہ (تمہاری عمر کی) مقررہ مدت پوری ہوجائے۔ پھر اسی کے پاس تمہیں لوٹ کر جانا ہے۔ پھر اس وقت وہ تمہیں بتائے گا کہ تم کیا کیا کرتے تھے" (سورۃ الأنعام، آیت 60)

 

سورہ النساء میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

 

(وَإِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَقُولُوا هَذِهِ مِنْ عِنْدِكَ قُلْ كُلٌّ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ فَمَالِ هَؤُلَاءِ الْقَوْمِ لَا يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثًا )

"اور اگر انہیں کوئی نقصان پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ تیری طرف سے ہے، کہہ دو کہ سب کچھ اللہ کی طرف سے ہے، ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ کوئی بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی" (سورۃ النساء، آیت 78)

 

قرآن کی یہ آیات اور اس سے ملتی جلتی دیگر آیات کو بہت سے لوگ "القضاء والقدر" کے مسئلہ میں بطور دلیل استعمال کرتے ہیں۔  وہ ان آیات سے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ انسان اعمال کرنے میں مجبور ہے۔ انسان مجبوری میں اپنے اعمال اللہ تعالیٰ کی مرضی اور مشیئت کے ذریعے کرتا ہے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ نے انسان اور اس کے اعمال دونوں کو پیدا کیا ہے۔  وہ اللہ تعالیٰ کے اس قول

 

﴿وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ﴾

"اور اللہ نے تمہیں اور تمہارے اعمال کو پیدا کیا ہے" (سورۃ الصافات، آیت 96)

 

کے ذریعے اپنی رائے کی تائید کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنے اس نکتہ کی تائید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے بھی کی جیسے کہ: «نَفَثَ رُوحُ القُدُسِ في رُوْعِي، لَنْ تموتَ نَفْسٌ حتَّى تَسْتَوْفيَ رِزْقَهَا وَأَجَلَهَا ومَا قُدِّرَ لها» "روح القدس نے میرے دل میں یہ بات ڈالی ہے کہ کوئی جان اس وقت تک نہیں مرے گی جب تک وہ اپنا رزق مکمل نہ کر لے اور اپنے وقت کو پورا نہ کر لے"

 

القضاء والقدر" کا سوال اسلامی مکاتب فکر کے درمیان بہت زیادہ زیرِ بحث رہا ہے۔  اہل سنت نے ایک رائے اختیار کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان اپنے اعمال میں کسبِ اختیاری رکھتا ہے، اس لیے اسکا اس کسبِ اختیاری کے باعث محاسبہ کیا جاتا ہے۔  معتزلہ کا قول یہ تھا کہ انسان اپنے اعمال کو خود تخلیق کرتا ہے، اس لیے اس کا ان پر محاسبہ کیا جاتا ہے، کیونکہ وہی ان کو وجود میں لاتا ہے۔  الجبریہ کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ بندے اور اس کے عمل دونوں کو پیدا کرنے والا ہے اور اس لیے بندہ اپنے عمل میں مجبور ہے اور کوئی اختیار نہیں رکھتا، اس لیے وہ ہوا میں اڑتے پر کی مانند ہے جسے ہوا جہاں چاہے اڑا لے جائے.

 

اسلامی مکاتب فکر میں تقدیر اور پہلے سے طے شدہ کا مسئلہ (القضاء والقدر)

اہل سنت

اہلِ سنت نے ایک رائے اختیار کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان اپنے اعمال میں کسبِ اختیاری رکھتا ہے، اس لیے اس کا اس کسبِ اختیاری کے باعث محاسبہ کیا جاتا ہے۔

المعتزلہ

معتزلہ کا قول یہ تھا کہ انسان اپنے اعمال کو خود تخلیق کرتا ہے، اس لیے اس کا ان پر محاسبہ کیا جاتا ہے، کیونکہ وہی ان کو وجود میں لانے والا ہے

الجبریہ

جبریہ کا قول تھا کہ اللہ تعالیٰ بندے اور اس کے افعال دونوں کو پیدا کرنے والا ہے اور اس لیے بندہ اپنے عمل میں مجبور ہے اور کوئی اختیار نہیں رکھتا، اس لیے وہ ہوا میں اڑتے پر کی مانند ہے، جسے ہوا جہاں چاہے اڑا لے جائے

 

 

  ہم اللہ سے بخشش، رحمت، اس کی خوشنودی اور جنت کی امید اور دعا کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ: درحقیقت قضاء و قدر کا مسئلہ اسلامی مکاتب فکر کے ساتھ ساتھ عام لوگوں کے مابین، عوامی اور نجی اجتماعات میں ہونے والے مباحثوں میں بھی موضوع رہا ہے۔  میں نے شیخ تقی الدین النبھانی کی فکر سے واقف ہونے سے پہلے ان میں سے کچھ مناظروں کا مشاہدہ کیا ہے۔  میں نے لوگوں کو ان کے حالات کے بارے میں اُلجھن میں مبتلا دیکھا ہے۔ انہیں قضاء و قدر پر بحث کرنے والوں کے ساتھ مشغولِ بحث پایا ہے۔  کچھ کا خیال ہے کہ ایک شخص اپنے اعمال میں مجبور ہے اور اس کے پاس کوئی چارہ نہیں ہے، جبکہ دوسرے اس کے برعکس نظریہ رکھتے ہیں، یہ مانتے ہیں کہ ایک شخص اپنے اعمال میں آزاد مرضی رکھتا ہے اور مجبور نہیں ہے۔

 

بعد میں، جب اللہ تعالیٰ نے مجھے حزب التحریر کے ہمراہ دعوت کو لے کر چلنے کی توفیق عطا کی، تو میں نے معزز اساتذہ کی زیر قیادت مرتکز فکری حلقات کے ذریعے اسلامی ثقافت حاصل کی، جن میں سے کچھ فوت ہو چکے ہیں۔ اللہ ان پر رحم کرے۔ جب کہ دیگر ابھی تک منتظر ہیں، اور انہوں نے اپنے عقائد میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔  اللہ تعالٰی ان کی حفاظت اور نگرانی فرمائے، انہیں بہترین انعامات سے نوازے اور ہمیں بھی ان کے ساتھ واضح و روشن حق پر ثابت قدم رکھے۔

 

انہوں نے میرے لیے قضا اور قدر کا مسئلہ بغیر کسی ابہام کے بالکل واضح کر دیا۔  لوگوں کے درمیان میں نے جو بحثیں دیکھی ہیں ان پر غور کرنے کے بعد، میں نے محسوس کیا کہ وہ کبھی کبھار درست نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں، اگرچہ انجانے میں، لیکن اکثر اوقات غلطی کر جاتے ہیں۔ جبکہ وہ یہ سوچتے ہیں کہ وہ صحیح کام کر رہے ہیں۔

 

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اس امانت کو ادا کرنے کی توفیق دے جس کی ذمہ داری  اس نے ہم پر عائد کی ہے، تاکہ ہم موجودہ اور آنے والی نسلوں تک اسے پہنچائیں جو باِذن اللّٰہ عنقریب قائم ہونے والی خلافت  کے نور سے منور ہوں گی۔  یہی ریاست اسلام کے نظریات کو ان تک پہنچانے میں ہماری مدد کرے گی جیسا کہ وہ واضح اور غیرمبہم طور پر ہم تک پہنچے ہیں۔ تاکہ وہ انہیں اسی طرح آگے لے کر جائیں اور آنے والی نسلوں تک ان کو منتقل کریں، یہاں تک کہ اللہ کا دین زمین پر غالب ہو جائے۔  بے شک وہ اس پر قادر ہے اور دعاؤں کو قبول کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔

 

اس نظریے کے حامیوں، کہ انسان پابند ہے اور اسے کوئی اختیار حاصل نہیں بلکہ وہ اپنے اعمال کو انجام دینے پر مجبور ہے، کا عقیدہ ہے کہ یہ اعمال لازماً اللہ کی مرضی اور مشیّت سے انجام پاتے ہیں۔  ان کا دعویٰ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی وہ ہے جس نے انسان کو پیدا کیا اور ان کے اعمال کو تخلیق کیا۔  وہ ثبوت کے طور پر قرآنِ کریم کی ان آیاتِ مبارکہ کا حوالہ دیتے ہیں؛

 

سورۃ آل عمران میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

 

(وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَنْ تَمُوتَ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ كِتَابًا مُؤَجَّلًا)

"اور کوئی جان اللہ کے حکم کے بغیر نہیں مر سکتی، اس کا وقت لکھا ہوا ہے" (سورۃ آلِ عمران، آیت 145)

 

سورہ اعراف میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

 

(وَلِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ)

"ہر امت کے لیے ایک مدت مقرر ہے۔  پھر جب وہ مدت آ جاتی ہے تو وہ اس میں ایک لمحہ بھی تاخیر نہیں کر سکتے اور نہ (ایک لمحہ) آگے بڑھ سکتے ہیں" (سورۃ الأعراف، آیت 34)

 

سورۃ الحدید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

 

(مَا أَصَابَ مِنْ مُصِيبَةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي أَنْفُسِكُمْ إِلَّا فِي كِتَابٍ مِنْ قَبْلِ أَنْ نَبْرَأَهَا إِنَّ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ)

"کوئی مصیبت ایسی نہیں ہے جو زمین پر یا تم پر آتی ہو اور ہم نے اس کو پیدا کرنے سے پہلے ایک کتاب میں نہ لکھ رکھا ہو، ایسا کرنا اللہ کے لیے بہت آسان ہے" (سورۃ الحديد، آیت 22)

 

سورۃ التوبہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے

 

(قُلْ لَنْ يُصِيبَنَا إِلَّا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَنَا هُوَ مَوْلَانَا وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ)

"ان سے کہو، ہمیں ہرگز کوئی (برائی یا بھلائی) نہیں پہنچتی مگر وہ جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ دی ہے اللہ ہی ہمارا مولیٰ ہے، اور اہل ایمان کو اسی پر بھروسہ کرنا چاہیے" (سورۃ التوبہ، آیت 51)

 

سورۃ سبأ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

 

(لَا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ فِي السَّمَوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ وَلَا أَصْغَرُ مِنْ ذَلِكَ وَلَا أَكْبَرُ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُبِينٍ)

"اس سے ذرہ برابر چیز، نہ آسمانوں میں چھپی رہتی ہے اور نہ زمین میں۔ اور ایک ذرے سے بھی چھوٹی یا بڑی کوئی چیز ایسی نہیں جو واضح کتاب میں درج نہ ہو" (سورۃ سبأ، آیت 3)

 

وہ اللہ تعالیٰ کے اس قول

 

﴿وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ﴾

"اور اللہ نے تمہیں اور تمہارے اعمال کو پیدا کیا ہے" (سورۃ الصافات، آیت 96)

 

کے ذریعے اپنی رائے کی تائید کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنے اس نکتہ کی تائید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے بھی کی جیسے کہ: «نَفَثَ رُوحُ القُدُسِ في رُوْعِي، لَنْ تموتَ نَفْسٌ حتَّى تَسْتَوْفيَ رِزْقَهَا وَأَجَلَهَا ومَا قُدِّرَ لها» "روح القدس نے میرے دل میں یہ بات ڈالی ہے کہ کوئی جان اس وقت تک نہیں مرے گی جب تک وہ اپنا رزق مکمل نہ کر لے اور اپنے وقت کو پورا نہ کر لے"

 

  جبکہ جو لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انسان اپنے اعمال کے انتخاب میں آزاد ہے اور مجبور نہیں ہے، اور یہ کہ اس کے اعمال اس کی اپنی مرضی سے انجام پاتے ہیں، اور یہ کہ اللہ تعالیٰ انہیں عمل کرنے پر مجبور نہیں کرتا۔ وہ درج ذیل آیات کا حوالہ دیتے ہیں؛

 

سورۃ کہف میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

 

(وَقُلِ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ فَمَن شَاءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاءَ فَلْيَكْفُرْ)

"اور (اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم) آپ کہہ دیجیے کہ یہ حق تمہارے رب کی طرف سے ہے، تو جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے" (سورۃ الكهف، آیت 29)

 

سورۃ فُصلت میں اللّٰہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا

 

(مَّنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ وَمَنْ أَسَاءَ فَعَلَيْهَا وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيدِ)

"جو کوئی نیک عمل کرے گا تو اپنے ہی لئے کرے گا اور جو برائی کرے گا تو اس کا وبال اسی پر ہو گا اور تمہارا پروردگار اپنے بندوں پر ذرا بھی ظلم کرنے والا نہیں ہے۔" (سورۃ فصّلت، آیت 46)

 

سورۃ الإنسان میں اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا

 

(إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا)

"بے شک ہم نے اسے (حق و باطل کی) راہ دکھا دی ہے (اب) چاہے تو وہ شکر گذار بنے اور چاہے تو ناشکری کرے" (سورۃ الإنسان، آیت 3)

 

سورۃ الاسراء میں ارشادِ ربانی ہے:

 

(مَّنِ اهْتَدَىٰ فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَن ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا)

"جس نے ہدایت قبول کی تو اس کا فائدہ اسی کو ہے اور جو گمراہ ہوا تو اس کا بار بھی اسی پر ہے۔" (سورۃ الإسراء، آیت 15)

 

القضاء والقدر" کا سوال اسلامی مکاتب فکر کے درمیان بہت زیادہ زیرِ بحث رہا ہے۔

 

اہل سنت نے ایک رائے اختیار کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان اپنے اعمال میں کسبِ اختیاری رکھتا ہے، اس لیے اسکا اس کسبِ اختیاری کے باعث محاسبہ کیا جاتا ہے۔

 

معتزلہ کا قول یہ تھا کہ انسان اپنے اعمال کو خود تخلیق کرتا ہے، اس لیے اس کا ان پر محاسبہ کیا جاتا ہے، کیونکہ وہی ان کو وجود میں لاتا ہے۔

 

الجبریہ کا قول تھا کہ اللہ تعالیٰ بندے اور اس کے عمل دونوں کو پیدا کرنے والا ہے اور اس لیے بندہ اپنے عمل میں مجبور ہے اور کوئی اختیار نہیں رکھتا، اس لیے وہ ہوا میں اڑتے پر کی مانند ہے جسےہوا جہاں چاہے اڑا لے جائے۔

 

اے ایمان والو؛

 

ہم اس حلقے کو یہیں ختم کریں گے۔  ہماری اگلی ملاقات اگلے حلقے میں ہو گی، انشاء اللہ۔  تب تک ہم آپ کو اللہ کی عنایت، حفاظت اور امن و سلامتی کے سپرد کرتے ہیں۔  ہم اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ وہ ہمیں اسلام کے ذریعے عزت عطا فرمائے اور ہمارے ذریعے اسلام کو سربلند فرمائے۔  ہمیں اپنی جانب سےفتح و نصرت عطا فرمائے، اور جلد نبوت کے نقشِ قدم پر دوسری خلافتِ راشدہ کے قیام سے ہماری آنکھوں کو ٹھنڈک بخشے۔  وہ ہمیں اس کے سپاہیوں، گواہوں اور شہداء میں شامل کرے۔  بے شک وہ اس پر محیط اور قادر ہے۔  آپ کی توجہ کے لیے ہم آپ کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔  السلام علیکم ورحمة الله.

 

Last modified onبدھ, 13 اگست 2025 22:19

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک