سوال وجواب: شخصیہ کے عربی شمارے، جلد نمبر3صفحہ 129 پر موجود ایک اصطلاح 'کلی مُشکِّک' کی وضاحت
- Published in امیر حزب التحریر
- سب سے پہلے تبصرہ کرنے والے بنیں
- الموافق
کچھ عرصے سے امریکہ افغانستان سے اپنی افواج کی واپسی کی بات کررہا ہے۔ یکم دسمبر 2009ء کو امریکی صدر اوبامہ نے ویسٹ پوائنٹ ملٹری اکیڈمی سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ "ہماری افواج گھر واپس آنا شروع ہو جائیں گی"۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکہ نے بارہ سال تک یہ جنگ اس لیے نہیں لڑی کہ وہ خطے میں اپنے اثر و رسوخ کو مستحکم کیے بغیر افغانستان سے نکل جائے جبکہ اس جنگ کے نتیجے میں اس کی افواج کا شیطانی روپ بھی دنیا کے سامنے بے نقاب ہو گیا اور اس کی معیشت اس حد تک خراب ہوگئی کہ ایک وقت پرایسا لگنے لگا کہ اس کی معیشت بالکل ہی ڈوب جائے گی۔ اس وقت امریکہ خطے میں اپنے اثرو رسوخ کو برقرار رکھنے کے لیے پاکستان کی مدد پر انحصار کررہا ہےبالکل ویسے ہی کہ جس طرح امریکہ پاکستان کی مدد سے ہی افغانستان میں فوجیں داخل کرنے میں کامیاب ہوا تھا۔ لیکن امریکہ کوئی ٹھوس وجہ بیان کر کے اس جنگ کے لیے پاکستان کے مسلمانوں کی حمایت اور تائید حاصل کرنے سے قاصرہے، بلکہ کوئی ٹھوس اور سچی وجہ تو کیا وہ کوئی جھوٹا جواز پیش کرکے ہمیں قائل کرنے سے بھی قاصر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُس نے پاکستان میں بم دھماکوں اور قتل وغارت گری برپا کرنے کا حربہ استعمال کیاکہ کسی طرح پاکستان کے مسلمان اس جنگ کو اپنی جنگ مان لیں، ایسے دھماکے اورقتل و غارت گری کہ جس سے نہ توہمارے فوجی محفوظ ہیں اور نہ ہی عام شہری، ہمارے بازار ہوں یا عبادت گاہیں ، یہاں تک کہ عورتیں ، بچے، بوڑھے، مسلمان ، غیر مسلم، کوئی بھی ان حملوں سے محفوظ نہیں ہے۔ پس جب یہ بم دھماکے اور قتل و غارت گری ہوتی ہے تو امریکہ کے ایجنٹ فوراًیہ پکارنے لگتے ہیں "دیکھو، یہ ہماری ہی جنگ ہے"۔ یہ ہے وہ شیطانی دھوکہ اور سازش کہ جس کی عمارت لوگوں کی لاشوں پر کھڑی کی گئی ہے اورمسلمانوں کے خون سے اس عمارت کی بنیادوں کو پختہ کیا گیا ہے!
یہ بات عقل و بصیرت رکھنے والے لوگوں کے مشاہدے میں ہے کہ امریکہ ہمیشہ ان بم دھماکوں اور قتل و غارت گری کے واقعات کو نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے پاکستان کی عوام کی حمایت حاصل کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ یکم دسمبر 2009 کو اوبامہ نے کہا کہ "ماضی میں پاکستان میں ایسے لوگ رہے ہیں جو یہ کہتے تھے کہ انتہاپسندوں کے خلاف جدوجہد اُن کی جنگ نہیں...لیکن پچھلے چند سالوں میں جب کراچی سے اسلام آباد تک معصوم لوگ قتل ہوئے...تو یہ بات واضح ہو گئی کہ پاکستان کے لوگوں کو انتہاء پسندی سے سب سے زیادہ خطرہ لاحق ہے"۔ اور پھر ان بم دھماکوں اور قتل و غارت گری کی شروعات کےتین سال بعد 12 اکتوبر 2012ء کو امریکی دفتر خارجہ کی ترجمان ویکٹوریہ نولینڈ نے کہا کہ "لہٰذا ظاہر ہے کہ پاکستان کے لوگ جتنا زیادہ اِن کے خلاف ہونگے اتنا ہی اُن کی حکومت کو اِن کے خلاف کام کرنے میں مدد ملے گی۔ یہ شاید اس بھیانک المیے کا ایک مثبت پہلو ہے"۔
عقل و بصیرت رکھنے والے لوگوں کے مشاہدے میں یہ بات بھی ہےکہ ان حملوں میں ہمارے بازاروں، گھروں،افواج اور لوگوں کو تونشانہ بنایا جاتا ہے لیکن اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ ملک میں موجود سی.آئی.اے اور ایف.بی.آئی کے دفاتر، امریکی فوجی اڈے، بلیک واٹر کی رہائش گاہیں اورامریکی قونصل خانےحملے اور تباہی سےمحفوظ رہیں ۔ حقیقت پر غور کرنے والےاس بات سے بھی آگاہ ہیں کہ ملک میں امریکہ کے داخل ہونے سے قبل ہم کبھی بھی اس قدر تباہی و بربادی کا شکار نہیں ہوئے تھے۔ اور یہ بات بھی واضح ہے کہ کوئی بھی مخلص اور سمجھ بوجھ رکھنے والا مسلمان اس قسم کی دہشت گرد کاروائیوں کی منصوبہ بندی نہیں کرسکتا جو کہ واضح اسلامی احکامات کے خلاف ہے۔ جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ارشاد فرمایاہے : ((وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِناً مُّتَعَمِّداً فَجَزَآؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِداً فِيهَا وَغَضِبَ ٱللهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَاباً عَظِيماً))"اور جو کوئی کسی ایمان والے کو جانتے بوجھتے قتل کرڈالے ، اس کا ٹھکانہ جہنم ہے ، جہاں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس پر اللہ کا غضب ہےاوراس پر اللہ کی لعنت ہے اور اللہ نے اس کے لیے بہت بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے"(النساء:93)۔ اور رسول اللہ ﷺ نے ان غیر مسلم ذمیوں کی حفاظت کرنے کا حکم دیا ہے کہ جو مسلمانوں کے تحفظ کے تحت ہوں ، اور فرمایا ہے کہ ((أَلا مَنْ قَتَلَ نَفْسًا مُعَاهِدًا لَهُ ذِمَّةُ ٱللهِ وَذِمَّةُ رَسُولِهِ فَقَدْ أَخْفَرَ بِذِمَّةِ اللهِ، فَلا يُرَحْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ، وَإِنَّ رِيحَهَا لَيُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ سَبْعِينَ خَرِيفًا)) "جس کسی نے ایسے شخص (اہلِ معاہد) کو قتل کر ڈالا کہ جس کے پاس اللہ اوراس کے رسول ﷺ کی جانب سے تحفظ کا وعدہ موجود ہو تو اُس نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا کیا ہوا وعدہ توڑڈالا ۔ پس ایسا شخص جنت کی خوشبو کو بھی نہ پاسکے گا جبکہ اس کی خوشبو ستر سالوں کے سفر کی دُوری سے بھی محسوس کی جاسکتی ہے"۔(ترمذی)
درحقیقت، پاکستان میں امریکی موجودگی کا ایک اہم مقصد پاکستان بھر میں بم دھماکے اور قتل کروانا ہے۔ پاکستان کی فوجی و سیاسی قیادت میں موجود مشرف اور کیانی، اورزرداری و نواز شریف جیسے چند مُٹھی بھر غداروں کی مدد سے امریکہ نے پہلے پاکستان کےدروازےاپنے لیے کھلوائے اور پھر انھیں مسلسل کھلا رکھاگیا تا کہ امریکی فوجی، بلیک واٹر جیسی نجی سیکورٹی کمپنیوں کے کارندے اور انٹیلی جنس کا ایک بہت بڑا نیٹ ورک پاکستان میں داخل ہوسکے اور اپنے قدم جما سکے۔ اس قسم کے امریکی نیٹ ورک لاطینی امریکہ سے لے کر مشرق بعید تک افراتفری پھیلانے کے حوالے سے پوری دنیا میں بدنام ہیں۔ بم دھماکے اور شخصیات کوقتل کروانا اُن کی روز مرہ کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ اس کے علاوہ یہ ایجنٹوں کو تیار کر کے مقامی گروہوں میں داخل کرتے ہیں تا کہ آپ کی نگاہوں میں اُس مزاحمت کی قدرو قیمت کو ختم کردیا جائے جو افغانستان میں امریکہ کے قبضے کے خلاف جاری ہے۔ یہ دھوکہ دہی امریکی جنگ کا طرہ امتیاز ہے اور ایسے حملے False flag attacks کے نام سے جانے جاتے ہیں، یعنی خود کاروائی کر کے اس کا الزام دشمن پر ڈال دینا تاکہ اپنی جنگ کےحق میں عوامی حمایت حاصل کی جائے۔
اورامریکہ کا کوئی ارادہ نہیں کہ وہ اس قسم کی گٹھیا اور شیطانی دہشت گردی کی کاروائیاں روک دے ۔ امریکہ 2014 ءکے بعد بھی پاکستان اور افغانستان میں اپنی افواج، انٹیلی جنس اور کرائے کے فوجیوں کی ایک بڑی تعداد برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ بلکہ امریکہ اپنی موجودگی کو مزید بڑھا رہا ہے اور اسی لیے وہ اسلام آباد میں ایک قلعہ نما سفارت خانہ تعمیر کررہا ہے، جو دنیا میں امریکہ کا دوسرا بڑاسفارت خانہ ہے۔ دوسری طرف وہ اٖفغانستان میں اپنے لیے 9 اڈے برقرار رکھنا چاہتا ہے اور پاکستان اور افغانستان میں ایک لاکھ بیس ہزار نجی سیکورٹی اہلکاروں کی تعینا تی اس کے علاوہ ہے۔ لہٰذا امریکہ پاکستان کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھے گا کیونکہ اس امرکے باوجود کہ ہماری قیادت میں اس کے لیے کام کرنے والے غدار موجود ہیں،پھر بھی وہ ہم پر اور ہماری افواج اور انٹیلی جنس اداروں پربھروسہ نہیں کرتاہے۔ امریکہ اس بات سے پوری طرح باخبر ہے کہ ہم سب میں اسلامی جذبات مضبوطی سے پیوست ہیں اور ہمارے اندرامریکہ کےظلم وجبرکے خلاف شدید غم وغصہ پایا جاتاہے۔ اس کے علاوہ کافر استعماری طاقتیں یہ دیکھ رہی ہیں کہ پوری امت خلافت کے قیام کے لیے کھڑی ہونا شروع ہو گئی ہے۔ شام ، پاکستان اور دیگر اسلامی علاقوں کی یہ صورتِ حال کفار کی نیندیں حرام کیے ہوئے ہے۔ لہٰذا یہ بم دھماکے دوہرا کام کرتے ہیں ،ایک تو امریکہ ان بم دھماکوں کے ذریعے اسلام کے خلاف اپنی جنگ کے لیے ہماری حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور دوسرا یہ کہ وہ ان بم دھماکوں کو ایک دباؤ کے طور پر استعمال کرتا ہے تا کہ ہم اس کے سامنے سرنگوں ہو جائیں اور وہ امن مذاکرات کے ذریعے مسلم دنیا کی سب سے طاقتور ریاست پاکستان، کی دہلیز پر اپنی موجودگی میں اضافہ کر سکے۔
اے پاکستان کے مسلمانو! ہم اس وقت تک امن کا منہ نہیں دیکھ سکیں گے جب تک امریکہ ہمارے درمیان موجود ہے۔ ہماری قیادت میں موجود غداراپنے آقاؤں کی ہدایت پر ہمیں دھوکہ دینے کے لیے اس صورتحال کی ذمہ داری دوسروں پر ڈالتے ہیں لیکن وہ کبھی بھی اس کی بنیاد ی وجہ کی طرف انگلی نہیں اٹھاتے، اور یہ بنیادی وجہ ہمارے درمیان امریکہ کی موجودگی ہے۔ آپ جان لیں کہ امریکہ کبھی بھی خود بخودہمارے خطے سے نہیں نکلے گا کیونکہ وہ ہماری سرزمین اور ہمارے وسائل کو اپنا سمجھتا ہے کہ انہیں جیسے چاہے لوُ ٹتا رہے۔ امریکہ کولازماً قوت و طاقت کے ذریعے ہی نکالنا ہو گا۔ جب تک امریکہ کو ہم پر دسترس حاصل رہے گی خواہ وہ ایک فوجی اڈےیاقونصل خانےیاانٹیلی جنس دفتر کی صورت میں ہی ہو، وہ ہمارے درمیان شر اور فساد پھیلاتا رہے گا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ((يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لاَ تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ...إِنْ يَثْقَفُوكُمْ يَكُونُوا لَكُمْ أَعْدَاءً وَيَبْسُطُوا إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ وَأَلْسِنَتَهُمْ بِالسُّوءِ وَوَدُّوا لَوْ تَكْفُرُونَ)) "اے لوگو جو ایمان لائے ہو! میرے اور خود اپنے دشمنوں کو اپنا دوست نہ بناؤ، تم تو دوستی سے ان کی طرف پیغام بھیجتے ہو...اگر وہ کہیں تم پر قابو پالیں تو وہ تمھارے (کھلے)دشمن ہو جائیں اور برائی کے ساتھ تم پر دست درازی اور زبان درازی کرنے لگیں اور خواہش کرنے لگیں کہ تم بھی کفر کرنے لگ جاؤ" (الممتحنہ:1-2)۔
اے افواجِ پاکستان کے افسران! آپ نے اس اسلامی سرزمین اور اس میں رہنے والوں کی حفاظت کی قسم کھائی ہے ۔ جو صورتحال اب تک بن چکی ہے اور بنتی نظرآرہی ہے وہ اب آپ کی گردن پرہے۔ اب بھی پانی سر سے اونچا نہیں ہوا اور بچاؤ عین ممکن ہے۔ پس امریکہ کی جنگ کو اس کے منہ پر دے مارو، اس کے دھوکے اور سازشوں کو ناکام بنا دو، اورپاکستان کی سرزمین کو امریکہ کی نجاست سے پاک کردو۔ یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ حزب التحریر کو خلافت کے قیام کے لیے نصرت دیں،جو ایک قابل فقیہ اورمدبر سیاست دان عطا بن خلیل ابورَشتہ کی قیادت میں سرگرمِ عمل ہے ۔ اُسی صورت میں آپ کا حرکت میں آنا آپ کے دین کی خواہش کے مطابق ہو گا،اور آپ پاکستان اور اس خطے سے صلیبیوں کی موجودگی کے خاتمے کے لیےحرکت میں آسکیں گےاور ان کے فوجی اڈوں ، انٹیلی جنس دفاتر، قونصل خانوں اور سفارت خانوں کا خاتمہ ہو سکےگا۔ تب ہم سے نفرت کرنے والے یہ دشمن یہ جان لیں گے کہ وہ اس امت کی حقیقت کے متعلق اپنے آپ کو ہی دھوکے میں ڈالے ہوئے تھے ۔ حزب التحریر نے خلافت کے قیام کا عَلم بلند کررکھا ہے اور اس کی یہ دعوت آپ کے ہر گوشے میں پہنچ چکی ہے ۔ تو کیا آپ جواب دیں گے؟! ((إِنَّ فِي ذَلِكَ لَذِكْرَى لِمَنْ كَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ))"اس میں ہر اس شخص کے لیے عبرت ہے جو سمجھنے والاقلب رکھتا ہو اور وہ متوجہ ہو کر کان لگائے" (ق:37)
نواز شریف کا دورہ امریکہ ڈرون حملوں اور ملک بھر میں ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک کی نگرانی میں ہونے والےبم دھماکوں میں شہید ہونے والے ہزاروںشہریوں اور فوجیوں کے خون سے غداری ہے۔ امریکہ پچھلے نو سالوں سے ڈرون حملوں کی صورت میں پاکستان کی خودمختاری کی دھجیاں اڑا رہا ہے جس میں ہزاروں شہری اذیت ناک موت کا شکار ہو چکے ہیں لیکن اس کے باوجود ایک ایٹمی قوت کے سربراہ نے کسی غیرت کا مظاہرہ نہیں کیا اورپاکستان میں امریکی راج کو مزید مضبوط کرنے کے لیے امریکہ چلا گیا ۔ اگر وینزویلا جیسا کمزور، امریکہ کا پڑوسی ملک، محض اپنے ملک کے اندورنی معاملات میں مداخلت کے الزام پر ایک سے زائد بار امریکی سفارت کاروں کو ملک بدر کرچکا ہے اور امریکہ اس کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکا تو پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت، جن کی نمائندگی نواز شریف اور کیانی کررہے ہیں کیوں امریکہ سے تعلقات منقطع نہیں کرسکتے؟
کیانواز شریف کادورہ امریکہ ایک بار پھر اقتدار کی کرسی پر بیٹھانے کے لیے اوبامہ کا شکریہ ادا کرنے کے علاوہ کچھ اور مقصد رکھتا تھا؟ چودہ سال قبل جب امریکیوں نے یہ دیکھا کہ نواز شریف اب ان کے کام کا نہیں رہا تو اسےتنہا چھوڑ دیا تھا۔ اور بھر جب پاکستان میں امریکی راج کو برقرار رکھنے کے لیے امریکہ کے پاس اعلیٰ درجے کے غداروں کی قلت ہو گئی تو نواز شریف کو تاریخ کے کوڑے دان سے نکال کر ایک بار پھر واپس لے آیا! لیکن غیرت سے نہ آشنا نواز شریف خطے میں جاری نام نہاد دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں اپنی اب تک کی کارگزاری سے اوبامہ کو آگاہ کرنے اور 2014 تک محدود انخلاء کے ڈرامے کے ذریعے خطے میں امریکہ کی مستقل موجودگی کے منصوبے کو عملی جامعہ پہنانے کے لیے مزید ہدایات وصول کرنے، واشنگٹن، اپنے آقا کے قدموں میں پہنچ گیا ۔ اس بات کا ثبوت کہ یہ دورہ خطے میں جاری امریکی جنگ میں پاکستان کے کردارکو جاری و ساری رکھنے کے لیے تھا، خود اوبامہ نے نواز شریف سے ملاقات کے بعد جاری ہونے والے بیان میں یہ کہہ کر دیا کہ "میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان سلامتی کے امور پر ہونے والے تعاون کے نتیجے میں پیدا ہونے والی کشیدگی کا خاتمہ چاہتا ہوں "۔
پاکستان کے عوام اور افواج میں موجود مخلص افسران کو جان لینا چاہیے کہ پاکستان کی تاریخ یہ ثابت کرتی ہے کہ آمریت اور جمہوریت دونوں ہی امریکی گھوڑے ہیں۔ ہر آنے والا آمر و جمہوری حکمران ہمیں سیاسی و معاشی لحاظ سے مزید امریکی غلامی میں مبتلا کردیتا ہے اور پھرامریکہ کے ہاتھوں سانحہ ایبٹ آباد اور سلالہ جیسے ذلت آمیز واقعات کا سامنا کرنے کے باوجود قوم سے یہ کہتا ہے کہ امریکہ سے تعلقات ناگزیر ہیں۔صرف خلافت ہی پاکستان کو امریکہ کی سیاسی و معاشی غلامی سے اسلام کے مکمل نفاذ کے ذریعے نکالے گی، امریکی سفارت کاروں، فوجیوں اور نجی سیکورٹی اہلکاروں کو ملک بدر، امریکہ سفارت خانے اور قونصل خانے بنداور ملک سے امریکی راج کا خاتمہ کرے گی۔ لہٰذا افواج میں موجود مخلص افسران آگے بڑھیں اور دنیا و آخرت میں اللہ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کے لیے پاکستان میں خلافت کے قیام کو عمل میں لائیں اورحزب التحریر کو نصرۃ فراہم کریں۔
شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان
امریکی دفتر خارجہ کی ترجمان ساکی( Psaki) نے 10اکتوبر 2013ءکو کہا کہ اگر مصر نے جمہوری منتخب حکومت کے قیام کی طرف قابل ذکر پیش رفت نہ کی تو واشنگٹن مصر کی فوجی اور اقتصادی امداد منجمد کردے گا۔ 10 اکتوبر 2013ءکی پریس کانفرنس کے دوران امریکی عہدیداروں نے بھی اس موضوع کے حوالے سے کچھ کہا، جسے اخبارلاس اینجلس ٹائمز( Los Angeles Times) نے یوں بیان کیا کہ "خطے میں امریکی سیکوریٹی مفادات کالب لباب یہ ہے ،جس میں مصر اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدہ بھی شامل ہے، کہ امدادکی معطلی یا کمی کے باوجود اس کے مفادات کو کوئی خطرہ درپیش نہیں ہونا چاہیے"۔
تاہم ان امریکی بیانات کا قطعاً یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ بالآخر مصر کو دی جانے والی اپنی زہریلی امداد کا خاتمہ کررہا ہے۔ بلکہ ان بیانات کا مقصد نئی حکومت کو دھمکانہ ہے کہ وہ امریکی مطالبات کے مطابق عمل کرے تا کہ کوئی بھی عمل امریکہ کی مرضی کے خلاف نہ ہونے پائے۔ جب سے امریکہ مشرق وسطیٰ میں ایک نئی استعماری طاقت کے روپ میں داخل ہوا ہےوہ اقوام کو اپنے استعماری چنگل میں دبوچنے ، ان کو اپنے کنٹرول میں لانے اور اپنے اثرو رسوخ کو بڑھانے کے لیےامداد کو ایک ذریعے کے طور پر استعمال کررہا ہے ۔ 2اکتوبر1950ءکو استنبول میں عرب ممالک میں موجود امریکی سفارت کاروں کا ایک اجلاس ہوا تھا،جس کی سربراہی امریکی دفتر خارجہ کا نمائندہ جارج میگی کر رہا تھا،اس اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ "ملک کے عوام کی مدد کو خطے میں داخل ہونے کے لیے ایک اسلوب کے طور پر اختیار کیا جائے"۔ یہ استعماری کفار کا پرانا طریقہ کار ہے کہ وہ اپنے زہر کو ایسے خوبصورت نام دیتےہیں کہ خطے کے عوام اس کو میٹھا شربت سمجھ کر پی لیں۔
یہ زہریلی امداد جسےوہ "باہمی تعاون" کہتے ہیں ،امریکی پالیسی کا اہم ستون ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ امریکہ مختلف علاقوں میں مکمل طور پر داخل ہوسکے اور اپنے ایجنٹ پیدا کرسکے اور اس کے ساتھ ساتھ اس خطے کی دولت کو لوٹ سکے اوروہاں بسنے والے لوگوںکا خون چوس سکے۔ امریکہ نے امداد کے اس طریقہ کار کو انڈونیشیا کو اپنے استعماری چنگل میں دبوچنے کے لیے بھی استعمال کیا۔ جب سوکارنو نے 1950 کی دہائی میں امریکی امداد لینے سے انکار کیا تو امریکہ مختلف حیلے بہانوں سے اسے اُس وقت تک ڈراتا دھمکاتا رہا جب تک اُس نے اِس امریکی امداد کو قبول نہیں کرلیا۔ اور اس کے بعد امریکی اثرورسوخ انڈونیشیا میں سرایت کر گیا اور آج تک انڈونیشیا امریکی شکنجے سے نکل نہیں سکا۔
لہٰذا ، جسے امریکہ انسانیت کے لیے امداد کہتا ہے وہ اس کی معاشی لغت کے مطابق ایک استعماری منصوبہ ہے جسے وہ اپنے دوستوں کے خلاف بھی استعمال کرتا ہے۔ جنگِ عظیم دوئم کے بعد یورپ کی بحالی کے لیے شروع کیے جانے والے" مارشل منصوبے" کے ذریعے امریکی کمپنیاں کئی یورپی معیشتوں میں گھس گئیں۔ اوردس سال بعد صورتِ حال یہ ہوگئی کہ یورپی معیشت کسی حد تک امریکی کمپنیوں کی ہی ملکیت بن کر رہ گئی۔ اگرچہ گزشتہ سالوں کے دوران اس حقیقت میں کسی قدر کمی آئی ہے لیکن یورپی معیشت پر امریکی کمپنیوں کا اثرو رسوخ آج بھی باقی ہے۔
ایسی کسی بھی قسم کی امداد شیطانی ہے کیونکہ حقیقت یہ بتاتی ہے کہ کافر استعماری ریاستیں خصوصاً امریکہ صرف اور صرف اپنی بالادستی اور اثرو رسوخ کو بڑھانے کے لیے امداد فراہم کرتی ہیں،جس کے ذریعے وہ اپنے مفادات اور یہودی ریاست کے مفادات کے حصول کو یقینی بناتی ہیں۔ چنانچہ وہ مجرمامہ کیمپ ڈیوڈ معاہدہ کہ جو امریکہ کی سرپرستی میں یہودی ریاست کے ساتھ کیا گیا تھا ، اسی میں مصر کے لیے یہ امداد بھی طے کی گئی تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ یہودی ریاست کے عہدیدار بھی مصر کو فراہم کی جانے والی امریکی امداد میں کٹوتی کے اعلان پر فکر مند ہو گئے ہیں کیونکہ یہودی ریاست"مصر کے لیے امریکی امداد کو کیمپ ڈیوڈ معاہدے کا ایک اہم ستون سمجھتی ہے"۔ یہ امریکی امداد سرا سر نقصان دہ ہے، اور رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا ہے ((لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ)) "نہ نقصان اٹھانا ہےاور نہ نقصان پہنچانا ہے"( الحاکم نے اپنی مستدرک میں اس حدیث کوروایت کیاہے اور کہا ہے کہ اس حدیث کے راوی امام مسلم کی شرائط پر پورا اترتے ہیں،اگرچہ مسلم اس کو روایت نہیں کر سکے۔
ایسی امداد کو قبول کرنا اسلام کی رُو سے ایک عظیم جرم ہے کیونکہ اس کے ذریعے کافر استعماری طاقتوں کو یہ موقع فراہم ہوتا ہے کہ وہ معیشت اور سیاست پر اثر انداز ہو کر مسلم علاقوں میں داخل ہوسکیں۔ جبکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ارشادفرمایاہے : وَلَنْ يَجْعَلَ اللَّهُ لِلْكَافِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلًا"اللہ نے کفار کو ایمان والوں پر کوئی راہ(اختیار) نہیں دیا"(النساء:141)۔
یہ تو اس امداد کاایک پہلو تھا۔ جبکہ دوسری طرف یہ بھی ایک واضح حقیقت ہے کہ مصر کی سالانہ پیداوار(جی۔ڈی۔پی) کے مقابلے میں اس امداد کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے۔ امریکہ کی سالانہ 1.5ارب ڈالر کی امداد مصر کی کُل سالانہ قومی پیداوار کے0.3فیصد سے زیادہ نہیں ہے، اور یہ بتانے کی تو کوئی ضرورت ہی نہیں کہ اس امداد کی اُس دولت کے سامنے کوئی حیثیت نہیں جو مصر اپنے تیل ، گیس اورمعدنیات کے ذخائراور نہر سوئز میں سے گزرنے والی ٹریفک سے حاصل کر سکتا ہے۔ نہر سوئز سے گزرنے والے بحری جہازوں پر عائد ٹیکس میں معمولی سا اضافہ ہی اس امداد کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ رقم مہیا کر سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہودی ریاست کو فراہم کی جانے والی گیس کی فراہمی کو بند کر کے آمدنی میں اضافہ کیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ گیس یہودی ریاست کو انتہائی معمولی قیمت پر فراہم کی جارہی ہے۔ اس گیس کو عالمی مارکیٹ کی قیمت کے مطابق فروخت کرنے پر اس امداد سے کئی گنا زیادہ رقم حاصل ہوجائے گی۔ اور مسلمان ویسے بھی یہودی ریاست کے ساتھ حالتِ جنگ میں ہیں، جس نے اسراء ومعراج کی سرزمین پر غاصبانہ قبضہ کیا ہوا ہے۔ چنانچہ شرعاًیہ بات ہرگز جائز نہیں کہ یہودی وجود کے ساتھ کسی بھی حوالے سے پر امن تعلقات کو قائم کیا جائے ،خواہ یہ سیاسی تعلقات ہوں یا معاشی۔
جہاں تک ان باتوں کا تعلق ہے جنھیں خوب پھیلایا گیا ہے کہ اگر مصر اس امداد سے محروم ہو گیا تو وہ معاشی بحران اور غربت کا شکار ہو جائے گا، تو یہ ایک کمزور اور بودی بات ہے۔ مسلم ممالک کی غربت ایک مصنوعی غربت ہے جس کی وجہ وہ لوگ ہیں جو اس وقت اقتدار کی کرسیوں پر براجمان ہیں اورامت کے امور کے متعلق فیصلے کر رہے ہیں۔ یہ لوگ امت کی دولت اور اثاثوں کو بدعنوانی کی نظر کردیتے ہیں، جو ملک اور اس کے عوام کے لیے شدید معاشی نقصان کا باعث بنتا ہے۔ بجائے یہ کہ عوامی اثاثوں کو امت پر خرچ کیا جائے ، جو کہ امت کا حق ہے، ان اثاثوں سے حاصل ہونے والی دولت بڑے بڑے مگرمچھوں کے بینک اکاؤنٹوں میں خاموشی سے اور کھلے عام منتقل ہو جاتی ہے،خواہ یہ اکاونٹ اندرونِ ملک ہوں یا بیرونِ ملک۔ پھر امریکی زہریلی امداد کے ذریعے ملک کو عالمی بینک اور آئی.ایم.ایف کے شکنجوں میں جکڑ دیا جاتا ہے۔ یہ ہے مسلم ممالک میں غربت کی اصل وجہ جبکہ اللہ نےااس امت کو اتنے وسائل عطا کر رکھے ہیں کہ جو اس کی ضرورت سے بھی زیادہ ہیں، بشرطیکہ ان وسائل کو ویسے ہی استعمال کیا جائے جیسا کہ اللہ نے حکم دیا ہے۔
اے مصر کے مسلمانو! آپ پر لازم ہے کہ آپ اس امداد کو مسترد کردیں بجائےیہ کہ امریکہ اس کی معطلی کی دھمکی آپ کو دے۔ بنیادی اصول یہ ہے کہ اس زہریلی امداد کو ملک میں داخل ہونے سے روکا جائے۔ امداد کو مسترد کردینا امریکہ اور یہودی ریاست کے لیے ایک تباہ کن جواب ہوگا ۔ یہ وہ کام ہے جس میں ہمیں آگے بڑھنا ہے اور اس کے لیے ہمیں انتہائی شدید جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارا جواب یہ ہونا چاہیے کہ اُن کے زہر کو اُن کے ہی منہ پر دے مارو ، نہ کہ ہمارا موقف وہ ہوکہ جو مصر کی وزارت خارجہ کے ترجمان بدر عبدالعاطي نے کہا کہ "(امریکہ کا) یہ فیصلہ اپنے وقت اور مواد کے حوالے سے نامناسب ہے"۔ اوراس نے مزید کہا کہ "مصر امریکہ کے ساتھ اچھے تعلقات کو جاری رکھنا چاہتا ہے"۔
یہ "جنرل سیسی بغاوت" کی ذمہ داری تھی کہ وہ اس امداد کو اپنے آقاؤں کے منہ پر دے مارے اور امریکی زہر کو خود اس کے گلے میں انڈھیل دے تا کہ وہ یہ جان لیں کہ مصر کی سرزمین کے لوگ طاقت اور عزت کے لیے صرف اپنے رب کی طرف ہی رجوع کرتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے یہ بغاوت ایسا کرنے سے کوسوں دور ہے بلکہ یہ تو اپنے ہی لوگوں کو قتل کرنے میں لگے ہوئے ہیں، تا کہ لوگ صرف وہی دیکھیں اور سنیں جو یہ دکھانا اور سنانا چاہتے ہیں، جیسا کہ اس سے قبل فرعون نے کہا تھا : قَالَ فِرْعَوْنُ مَا أُرِيكُمْ إِلَّا مَا أَرَى" فرعون نے کہا میں تو تمھیں وہی بتارہا ہوں جو میں خود دیکھ رہا ہوں "(غافر:29)۔ ایک ایسی جان کا قتل جس کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے ، قاتل کو اس دنیا اور آخرت دونوں جہانوں میں برباد کردے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے عرفہ(حج) کے دن لوگوں سے کہا تھاکہ ((إِنَّ دِمَاءَكُمْ، وَأَمْوَالَكُمْ، وَأَعْرَاضَكُمْ، بَيْنَكُمْ حَرَامٌ، كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا، فِي شَهْرِكُمْ هَذَا، فِي بَلَدِكُمْ هَذَا))" تمھارا خون، تمھاری دولت، تمھاری عزت ایک دوسرے کے لیے ویسے ہی حرمت والی ہے جیسا کہ آج کا دن، یہ مہینہ اور یہ شہر"(بخاری)۔ جس کسی نے بھی کسی جان کو ناحق قتل کیا ، اُس نے اِس دین اور امت کے خلاف جرم کیا اور اس کے متعلق اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ارشاد فرمایاہے : سَيُصِيبُ الَّذِينَ أَجْرَمُوا صَغَارٌ عِنْدَ اللَّهِ وَعَذَابٌ شَدِيدٌ بِمَا كَانُوا يَمْكُرُونَ "وہ وقت قریب ہے جب یہ مجرم اپنی مکاریو ں کی پاداش میں الله کے ہاں ذلت اور سخت عذاب میں مبتلا ہوں گے" (الانعام :124)۔ یہ تو وہ کچھ ہے جو پہلے گزرے ہوئے ظالموں کے ساتھ ہو گا،اور عقل مند وہ ہے جو دوسروں کے ساتھ پیش آئے حالات سے سبق لے۔
إِنَّ فِي ذَلِكَ لَذِكْرَى لِمَنْ كَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْأَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَشَهِيدٌ
"اس میں ہر اس کے لیے عبرت ہے جس کے پاس سمجھنے والا قلب ہواوروہ متوجہ ہو کر کان لگائے"(ق:37)
حزب التحریر ولایہ پاکستان نے عالمی سطح پر پاکستان میں خلافت کی سب سے مضبوط اور ممتاز آواز نوید بٹ کی رہائی کے لیے حزب التحریر کے امیر شیخ عطا بن خلیل ابو رشتہ کی قیادت میں چلائی جانے والی مہم کو ایک کتابی صورت میں جاری کر دیا ہے۔ نوید بٹ 11 مئی 2012 سے جنرل کیانی کے غنڈوں کی قید میں ہیں۔ دنیا بھر کے مسلمانوں نے اپنے وفود اور مظاہروں کے ذریعے یہ ثابت کر دیا ہے کہ پاکستان میں حزب التحریر کے ترجمان نوید بٹ لاپتہ ضرور ہیں لیکن انھیں کبھی بھی بھلایا نہیں گیا ہے۔
حزب التحریر ولایہ پاکستان امت کو اس با ت کی یقین دہانی کراتی ہے کہ اس عالمی مہم نے سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کو اپنے ہی غصے کی آگ میں جلنے پر مجبورکر دیا ہے۔ انھوں نے اپنی گھٹیا ذہنیت کا مظاہرہ کیا اور اپنے ایجنٹوں کو متحرک کر کے میڈیا کے ذریعے دھمکی آمیز رپورٹز جاری کرائیں جس میں نوید بٹ کی زندگی کو درپیش خطرے کا ذکر کیا گیا۔ حزب التحریر ولایہ پاکستان غداروں اور ان کے آقاوں کو قرآن کے الفاظ میں یہ کہہ دینا چاہتی ہے کہ: قُلْ مُوتُواْ بِغَیْْظِکُمْ "کہہ دو کہ اپنے غصہ ہی میں مر جاؤ" (آل عمران:119)
حزب التحریر انھیں یقین دلاتی ہے کہ ان کا جبر صرف اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ وہ سچ کی قوت سے محروم ہیں، ان کا ظلم مظلوموں کی دعا کی طاقت میں اضافہ کرتا ہے، خلافت کے قیام کے عمل کو تیز تر کرتا ہے کہ مسلمان کبھی بھی ظالم کے جبر سے ڈر کر بھاگتے نہیں بلکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکام کی خلاف ورزی ان کو غضب ناک کر دیتی ہے۔ حزب التحریر جنرل کیانی اور دیگر عہد شکنوں کو نوید بٹ پر اب تک کیے جانے والے مظالم کا ذمہ دار قرار دیتی ہے۔ اس کے علاوہ وہ انھیں سختی سے خبردار کرتی ہے کہ اگر نوید بٹ کو مزید کوئی نقصان پہنچایا گیا چاہے اس کے سر کا ایک بال توڑنا ہی کیوں نہ ہو، تو ان کا یہ عمل خلیفہ راشد کے ہاتھوں ان کی سزا کو شدید تر کر دے گا۔ اور آخرت کی سزا تو اس سے بھی زیادہ شدید تر ہو گی۔ تو کیا وہ کوئی سبق لیں گے!
اس کے علاوہ جیسا کہ حکومت امت کی انصاف کی پکار کے سامنے گرتی جا رہی ہے، حزب التحریر ولایہ پاکستان امت کے عظیم بیٹے نوید بٹ کی رہائی کے لیے جاری سیاسی مہم میں مزید تیزی لائے گی۔ لہذا حزب امت کو پکارتی ہے خصوصاً ان بیٹوں اور بیٹیوں کو جو میڈیا، قانون کے شعبے اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے منسلک ہیں کہ وہ اس جدوجہد کو جاری رکھیں جب تک نوید بٹ کو رہا نہیں کر دیا جاتا۔
کتاب "نوید بٹ کو رہا کرو" اس ویب لنک سے حاصل کی جاسکتی ہے:
http://pk.tl/1coW
نوٹ: اس مہم سے متعلق دیگر کتابچے مندرجہ ذیل ویب لنکس سے حاصل کیے جاسکتے ہیں:
نوید بٹ کی امریکی راج کے خلاف جدوجہد "کلمہ حق":
http://pk.tl/1bnL
نوید بٹ کی کتاب "جمہوریت مسائل کی جڑ ہے":
http://pk.tl/1coX