بسم الله الرحمن الرحيم
"اسرائیلی" صف میں دراڑ پر انحصار: غزہ کے لیے ایک نیا دھوکہ "
(ترجمہ)
خبر:
ایک تازہ سروے میں انکشاف ہوا ہے کہ 56 فیصد اسرائیلی بیرون ملک سفر کرنے سے خوفزدہ ہیں، 67 فیصد یہ نہیں سمجھتے کہ حکومت ان کی نمائندہ ہے، اور 62 فیصد جامع جنگ بندی کے معاہدے کے حق میں ہیں جو "اسرائیل" اور اسلامی مزاحمتی تحریک (حماس) کے درمیان ہو، جس میں قیدیوں کی رہائی بھی شامل ہو۔ خبر رساں ویب سائٹ "زمن اسرائیل" نے کل اس سروے کی تفصیلات شائع کیں جن میں ظاہر ہوا کہ عالمی تنقید کے بڑھتے دباؤ کی وجہ سے اکثر اسرائیلی بیرون ملک سفر کرنے سے قاصر ہیں، "اسرائیل" کو بین الاقوامی تنہائی کا سامنا ہے اور غزہ میں جنگ بدستور جاری ہے… (الجزیرہ)
تبصرہ:
ایک ایسے وقت میں کہ جب یہودی وجود فلسطین کی مقدس سرزمین اور غزہ میں نسل کشی، قتل و غارتگری اور جبری ہجرت کرنے کی مہم جیسے جرائم کے طوفان کو شدت سے جاری رکھے ہوئے ہے، عرب اور سرکاری اسلامی دنیا کے میڈیا کی توجہ ایسے سروے پر مرکوز ہے جو اس وجود کی اندرونی کمزوریوں اور انتشار کو بے نقاب کرتا ہے۔
اسی طرح حالیہ لیکس میں "اسرائیلی" وزیرِ تعلیم یوآف کیش کی قیدیوں کے اہل خانہ کے ساتھ ملاقات کا انکشاف ہوا، جس نے قابض وجود میں گہرے سیاسی بحران اور اندرونی انتشار کو کھل کر عیاں کیا؛ وزیر نے کھلے عام اعتراف کیا کہ حکومت عالمی "تنہائی" کا شکار ہے، اور یہ جنگ اس لیے جاری ہے کیونکہ حکومت "ناکام" ہے، جب کہ اہل خانہ نے وزیر کو ناواقفیت، نظر انداز کرنے، اور اپنے بچوں کو ناکام پالیسیوں کے ذریعے موت کے حوالے کرنے کا الزام لگایا۔
یہ اعترافات اسرائیلی چینل 12 نے نشر کیے، جو ایک مفلوج حکومت کی تصویر پیش کرتے ہیں، جس کے فیصلے چند مخصوص حلقوں کے قبضے میں ہیں، اور جو نہ قوم سے جڑی ہے، نہ ہی اپنے بین الاقوامی حلقوں سے۔
ان اندرونی اختلافات اور احتجاجات سے قابض وجود کی ساخت میں حقیقی کمزوری ظاہر ہوتی ہے، اور یہ ایک غیر ہم آہنگ "اسرائیلی" معاشرے کے گھمبیر زوال کی عکاسی کرتا ہے، جو طویل جنگ کے دباؤ میں ہے۔ مگر افسوسناک بات یہ ہے کہ وہ عرب اور غیر عرب میڈیا اور سیاستدان جو غزہ کو مایوس کر چکے ہیں، جنہوں نے نہ تو وہاں کے مظلوموں کی حمایت کی ذمہ داری اٹھائی، نہ مسلمانوں کی افواج کو متحرک کیا کہ مقدس سرزمین فلسطین اور مسجد اقصیٰ کو یہودی قابضین کے ناپاک قبضے سے آزاد کرایا جا سکے۔
بلکہ انہوں نے ان داخلی اختلافات کو ہتھیار بنا کر قتل و غارت کی مشین کے رکنے کی امیدیں لگا لی ہیں۔ وہ نتن یاہو کے زوال، فوج کی الجھن، یا داخلی احتجاجات کو غزہ کے لوگوں کی نجات کی راہ سمجھ بیٹھے ہیں۔
ایسا انحصار محض فرض سے فرار یا ناکامی اور دھوکے کی توجیہ پیش کرنے کے لیے نہیں ہے، بلکہ یہ مسلمانوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے، امتِ مسلمہ کے غمزدہ عوام کو گمراہ کرنے اور مسلمانوں کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے بھی ہے، جو اپنے بھائیوں پر ہونے والے ظلم کے مناظر دیکھ کر غصے سے بھرے ہوئے ہیں، اور اگر عرب و مسلم حکمرانوں کی خیانت اور یہودیوں کی طرف ان کے جھکاؤ نہ ہوتا تو یہ امت اپنے بھائیوں کی مدد کرنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔
امت بخوبی جانتی ہے کہ مقدس سرزمین کا مسئلہ نہ تو "اسرائیلی" سیاسی بحرانوں یا نتن یاہو کے مستقبل تک محدود تھا اور کبھی اس حد تک محدود رہے گا؛ بلکہ یہ مسئلہ دراصل امت اور مغرب کے درمیان ایک بنیادی تصادم ہے، یعنی فلسطین کی مقدس سرزمین پر استعمار کا قبضہ۔
اور غزہ اور فلسطین کے لوگ، اپنی خون آلود قربانیوں اور استقامت کے ذریعے، یہودیوں اور ان کے صلیبی حلیفوں اور اس امت کے مابین درپیش حقیقی جنگ کے صفِ اوّل کے جنگجو ہیں، نہ کہ محض دشمن کی اندرونی لڑائیوں کے تماشائی۔
یہودی صف میں دراڑ پر انحصار درحقیقت غزہ کو ایک اور دھوکہ دینے کے مترادف ہے، کیونکہ یہ مسلمانوں کی افواج کے ذریعے اہلیانِ غزہ کی مدد کرنے کے فرض کو چھوڑ کر دشمن کی داخلی تباہی کے گمان پر انحصار کرنا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ قابض صرف مسلمانوں کی فوجی طاقت کی ضرب سے شکست کھائے گا، نہ کہ محض اندرونی احتجاجات یا سیاسی بحرانوں سے۔
﴿قَاتِلُوهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللَّهُ بِأَيْدِيكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنْصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ وَيُذْهِبْ غَيْظَ قُلُوبِهِمْ وَيَتُوبُ اللَّهُ عَلَى مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ﴾
"تم ان سے لڑو، اللہ تمہارے ہاتھوں سے انہیں عذاب دے گا اور انہیں ذلیل ورسوا کرے گا اور ان کے خلاف تمہاری مدد فرمائے گا اور ایمان والوں کے دلوں کو ٹھنڈا کردے گا، اور ان کے دلوں کی گھٹن دور فرمائے گا اور اللہ جس پر چاہتا ہے اپنی رحمت سے رجوع فرماتا ہے اور اللہ علم والا، حکمت والا ہے۔" (سورۃ التوبة: آیت 15-14)
*حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے تحریر کردہ*
*بلال المہاجر – ولایہ پاکستان*
Latest from
- امریکی حکمتِ عملی اور دو ریاستی حل
- سیلاب کا مسئلہ ہو یا کشمیر کا، معیشت کا معاملہ ہو یا ہمارے دریاؤں پر ہندو ریاست کا قبضہ، آخر کب تک ہم 'بین الاقوامی برادری' کی آس پر مسائل کے حل کا انتظار کریں گے؟
- "اور جسے اللہ رسوا کر دے، اُسے کوئی عزت بخشنے والا نہیں۔"
- کتاب کا تعارف: "المقاصد عند الإمام الشاطبيّ"
- افغانستان — پاکستانی سیاست کی چکی اور علاقائی ایجنڈے کے سندان کے بیچ