بسم الله الرحمن الرحيم
امریکہ ایک خبیث منصوبے اور جرائم کی کونسل کے ایک فیصلے کے ذریعے سرپرستی حاصل کر کے غزہ پر جنگ کے ثمرات سمیٹ رہا ہے!
(ترجمہ)
غزہ میں دو سال تک جاری نسل کشی اور اُس ہولوکاسٹ کے بعد، جس کی آگ نے زندہ بچوں کے جسموں کو جلا دیا، اور اُس تباہی کے بعد جس نے ملبے تلے سانسیں گھونٹ دیں، اور اُس بھوک کے بعد جس نے جسموں کو نوچ کر خشک کر دیا، سلامتی کونسل نے ایک اجلاس منعقد کیا۔ اس اجلاس میں ایک قرارداد پر رائے شماری (ووٹنگ) کروائی گئی، جو مجرم ٹرمپ کے منصوبے کی حمایت کرتی تھی۔
غزہ میں نسل کشی سلامتی کونسل کی سماعتوں اور نظروں کے سامنے کی گئی۔ یکے بعد دیگرے اجلاس منعقد ہوئے، اور قراردادیں پیش کی گئیں، مگر ان میں سے کوئی بھی جنگ کو روکنے میں کامیاب نہ ہو سکی، کیونکہ امریکہ، جو دہشت گردی کا مرکز ہے، مجرم یہودی وجود کا حامی ہے، اور جرم کا سرپرست ہے، اُس نے اِسے روکنے کا فیصلہ نہیں کیا تھا۔ اور آج وہ ایک قرارداد جاری کر رہا ہے جس کے ذریعے وہ اپنی اس خبیث جنگ کا اختتام اپنے خبیث منصوبے کے ذریعے کرنا چاہتا ہے، تاکہ وہ اُس چیز کو مکمل کر سکے جو نیتن یاہو اور اُس کی مجرم اور بزدل فوج بھی حاصل کرنے میں ناکام رہی۔
سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 2803 کے اہم نکات میں ایک امن کونسل کا قیام شامل ہے۔ ( یہ ایک عبوری انتظامیہ ہو گی اور بین الاقوامی قانونی حیثیت رکھے گی۔ یہ کونسل غزہ کی دوبارہ ترقی کے لیے ایک جامع منصوبہ تیار کرے گی اور متعلقہ بین الاقوامی قوانین کے تحت فنڈز کی فراہمی اور انتظام کرے گی۔ یہ کونسل اُس وقت تک کام کرے گی جب تک فلسطینی اتھارٹی اپنا اصلاحاتی پروگرام کامیابی سے مکمل نہیں کر لیتی۔) قرارداد میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ( فلسطینی اتھارٹی کے اصلاحاتی پروگرام کی کامیاب تکمیل اور غزہ کی دوبارہ ترقی میں پیش رفت کے بعد، آخرکار فلسطینی خود ارادیت اور ریاست کے قیام کی جانب ایک قابل اعتماد راستہ بنانے کرنے کے لیے حالات سازگار ہو سکتے ہیں۔)
اس قرارداد میں ایک "عارضی بین الاقوامی استحکام فورس (ISF)" کے قیام کا بھی ذکر ہے جو غزہ میں "امن کونسل کے لیے قابل قبول ایک متحدہ قیادت کے تحت تعینات کی جائے گی"۔ اس کے فرائض میں سرحدی علاقوں کو محفوظ بنانے میں مدد کرنا اور اُس اسلحے کو چھیننا شامل ہے جسے دہشت گرد قرار دیا گیا ہے، اور یہ فورس (اسرائیل) اور مصر، اور "ایک نئی تربیت یافتہ اور جانچے ہوئے افراد پر مشتمل فلسطینی پولیس فورس" کے ساتھ ہم آہنگی سے کام کرے گی۔
اور یوں، مجرم امریکہ نے سلامتی کونسل سے ایسی قرارداد منظور کروا لی ہے جو اسے غزہ کی براہِ راست نگرانی اور اس کے مستقبل پر سرپرستی کا اختیار دیتی ہے، تاکہ یہ فیصلہ غزہ کے عوام اور اس کے مجاہدین پر زبردستی نافذ کر دیا جائے۔ اور اس قرارداد میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ غدار یہودی وجود کی جانب سے اپنی ذمہ داریوں سے روگردانی کرنے کی صورت میں، ساتویں باب (Chapter Seven) کے تحت کارروائی کا ذکر شامل نہیں ہے، گویا یہ قرارداد اس طرح سے بنائی کی گئی ہے کہ اہلِ غزہ کے لیے تو اس کی پابندی لازم ہو مگر مجرم یہودی وجوس کے لیے اس کی پابندی لازم نہ ہو!
جہاں تک فلسطینی ریاست کا تعلق ہے، یہ وہ زہریلا وعدہ اور وہ لعنتی پھل ہے جس کی امید شیطان اپنے پیروکاروں کو دلاتا ہے۔ قرارداد میں اس کا ذکر تو کیا گیا ہے، مگر اس پر عملدرآمد کے لیے کوئی بھی لازمی شرط نہیں ڈالی گئی۔ اس نے صرف ایک "قابلِ اعتماد راستے" کی شرائط اور اشارے دیے ہیں، جو ایک بھول بھلیوں کی طرح ہو سکتا ہے، جس کا اختتام نظر نہیں آتا۔ اور یہ سب فلسطینی اتھارٹی کی کامیاب اصلاحات پر منحصر ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ فلسطینی اتھارٹی سے مطلوب اصلاحات کیا ہیں؟! یہ وہ اتھارٹی ہے جس نے فلسطین کے بیشتر حصے سے دستبرداری اختیار کی، نصاب بدل ڈالے، اپنی قوم کو قتل کیا، اور اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ وہ ہر قیمت پر ہر مطلوبہ چیز نافذ کرنے کے لیے تیار ہے!
اس سب کے باوجود، نیتن یاہو نے 16/11/2025 بروز اتوار اپنی کابینہ کے اجلاس میں فلسطینی ریاست کے قیام کو مسترد کرنے کی تصدیق کر کے سلامتی کونسل کے فیصلے سے پہلے ہی اس موقف کا اظہار کر دیا تھا، جہاں اُس نے کہا: ("دریائے اُردن کے مغرب میں کسی بھی زمین پر فلسطینی ریاست کے قیام کے خلاف ہماری مخالفت بدستور قائم و دائم ہے اور اس میں مطلقاً کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے") (RT)۔ امریکہ یا اُس کے کسی بھی ایجنٹ نے اس بیان کی تردید نہیں کی۔ اور یہ اِس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی سے مطلوب کردار یہ ہے کہ وہ قابض یہودی وجود کا ایک ماتحت سیکیورٹی ادارہ بن جائے اور اُس کی پالیسیوں کو عملی طور پر نافذ کرے۔
طاغوتوں کے اس اجلاس سے نکالی جانے والی یہ قرارداد فلسطین اور اُس کے لوگوں کے حق میں ایک مجرمانہ فیصلہ ہے۔ اس بات کی گواہی کے لیے یہی کافی ہے کہ اس نے مجرم یہودی وجود کے تمام قتل عام کے باوجود اُس کے جرائم پر چشم پوشی کی اور اُس کی سلامتی کو اولین ترجیح بنا دیا، جبکہ غزہ اور اُس کے اسلحے کو دہشت گردی قرار دے دیا، جسے سلامتی کونسل ختم کرنے کے لیے بے چین ہے۔ اس قرارداد کا مقصد غزہ کو امریکی سرپرستی کے تحت لانا، اسے باقی فلسطین سے الگ کرنا، غزہ کے صابر عوام کی تقدیر کو قابو کرنا، اس کے جہاد کو ختم کرنا، مجاہدین کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنا، اور اس کے اسلحے کو چھیننا ہے۔
یہ ایک ایسا فیصلہ ہے جس کا مقصد مسلمانوں میں اُن کے دین کی غیرت کو بیدار کرنے والے ہر اثر کو مٹانا ہے، اور آزادی، اقصیٰ اور مقدسات (مقدس مقامات) کے بارے میں سوچنے کو دہشت گردی قرار دینا ہے، اور اللہ کی راہ میں مسلمانوں کے جہاد کو ایک ایسا جرم بنا کر پیش کرنا ہے جس کا مقابلہ اقوامِ متحدہ کی افواج کریں گی۔
اے مسلمانو! اے مسلم ممالک کی افواج!
افسوسناک اور رلا دینے والی بات یہ ہے کہ امریکہ ہمارے ہی سپاہیوں کے ذریعے ہمارے ممالک پر قابض ہو جائے، اس کے منصوبے کا نفاذ کرنے والی قوت مسلمانوں کی افواج ہوں، وہ ہمارے ہی اسلحے کے ذریعے سے ہمارا اسلحہ چھین لے، اور خود ایک بھی گولی چلائے بغیر مجاہدین کو ان کے بھائیوں کے ہاتھوں قتل کروا دے!
جہاں تک ذلیل ایجنٹ حکمرانوں کا تعلق ہے، تو انہوں نے متفقہ طور پر اُس کے منحوس فیصلے کے حق میں ووٹ دیا ہے، اور تمہیں شرمندگی کا لباس پہنایا ہے۔ انہوں نے تمہارے بیٹوں کو تمہارے دشمن کے ترکش کا تیر بنا دیا ہے۔ یہ حکمران وہ لوگ ہیں جن کو نہ تو بچوں کے جسموں کے ٹکڑے، نہ عورتوں کی آہیں، اور نہ ہی اللہ کے احکامات حرکت میں لا سکے۔ یہ صرف امریکہ کے حکم پر حرکت کرتے ہیں اور صرف اُس کی جنگیں لڑتے ہیں۔ تو کب تک تم ان کے سامنے خاموش رہو گے؟ کیا یہ وقت نہیں آیا کہ ان حکمرانوں کو ہٹایا جائے اور ان کے تختوں کو اُن کے سر پر الٹ دیا جائے؟
مسجد اقصیٰ اور مبارک سرزمین مسلمانوں کی افواج کی منتظر ہیں کہ وہ فاتح بن کر اسے آزاد کروانے کے لیے آئیں، نہ کہ امریکہ کی پالیسیوں کے تحت یہودی وجود کی حفاظت، اہلِ فلسطین کو کچلنے، اور اُن کے مجاہدین کا اسلحہ چھیننے کے لیے آئیں۔ پس امریکہ تمہیں ذلت و رسوائی اور بھڑکتی ہوئی آگ کی طرف بلا رہا ہے، اور تمہارا رب تمہیں دنیا و آخرت کی عزت کی طرف بلا رہا ہے۔ لہٰذا، اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی پکار پر لبیک کہو، اور اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر غور کرو:
﴿أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَى قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا (24) إِنَّ الَّذِينَ ارْتَدُّوا عَلَى أَدْبَارِهِمْ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْهُدَى الشَّيْطَانُ سَوَّلَ لَهُمْ وَأَمْلَى لَهُمْ (25) ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا لِلَّذِينَ كَرِهُوا مَا نَزَّلَ اللَّهُ سَنُطِيعُكُمْ فِي بَعْضِ الْأَمْرِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِسْرَارَهُمْ (26) فَكَيْفَ إِذَا تَوَفَّتْهُمُ الْمَلَائِكَةُ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبَارَهُمْ (27) ذَلِكَ بِأَنَّهُمُ اتَّبَعُوا مَا أَسْخَطَ اللَّهَ وَكَرِهُوا رِضْوَانَهُ فَأَحْبَطَ أَعْمَالَهُمْ﴾
"اور کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالے لگ چکے ہیں (24) بے شک وہ لوگ جو ہدایت واضح ہو جانے کے بعد پیٹھ پھیر گئے، شیطان نے انہیں بہلایا اور لمبی امیدیں دلائیں (25) یہ اس لیے ہے کہ انہوں نے اُن لوگوں سے جنہوں نے اللہ کے نازل کردہ (دین) کو ناپسند کیا ،یہ کہا کہ ہم بعض کاموں میں تمہاری اطاعت کریں گے، اور اللہ ان کے پوشیدہ رازوں کو خوب جانتا ہے (26) پھر کیا حال ہو گا جب فرشتے ان کی روحیں قبض کریں گے، ان کے چہروں اور ان کی پیٹھوں پر ضربیں لگائیں گے (27) یہ اس لیے کہ انہوں نے اُس چیز کی پیروی کی جو اللہ کو ناراض کرتی ہے اور اس کی خوشنودی کو ناپسند کیا، تو اللہ نے ان کے اعمال ضائع کر دیے" (سورۃ محمد: آیت 28-24)
اور جہاں تک تمہارا تعلق ہے اے اہل فلسطین اور اے اہل غزہ :
تو اللہ پر یقین رکھو کہ اللہ تمہارے صبر اور تمہارے جہاد کو نہ دنیا میں اور نہ ہی آخرت میں ضائع کرے گا، اور تمہارا پاکیزہ خون ہر سازش کرنے والے اور ہر غفلت برتنے والے کے لیے ایک لعنت بن جائے گا اور اپنی آگ اسے جلا ڈالے گا اور یقیناً تمہارا معاملہ اتنا بڑا ہے کہ مجرم اس سے کھلواڑ نہیں کر سکتے، ﴿وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ﴾ "اور تمام معاملات کا انجام اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے" (سورۃ الحج: آیت 41) نہ کہ امریکہ کے ہاتھ میں،
﴿وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ﴾
"اور اچھا انجام پرہیزگاروں کے لیے ہے" (سورۃ القصص: آیت 83)
27 جمادی الاولی 1447 ہجری حزب التحریر
بمطابق 18/11/2025 عیسوی بابرکت سرزمین فلسطین
ہجری تاریخ :27 من جمادى الأولى 1447هـ
عیسوی تاریخ : منگل, 18 نومبر 2025م
حزب التحرير
فلسطين