Logo
Print this page

بسم الله الرحمن الرحيم

 

اسلامی اقتصادی نظام اور سرمایہ دارانہ معیشت کے ساتھ اس کے انضمام کا خطرہ

 

 

(ترجمہ)

 

الوعی میگزین کا شمارہ نمبر ۔ 470 -انتیسویں سال ، ربیع الاووال 1447 ھ ستمبر 2025 عیسوی کے مطابق

از: مصطفی عتیق

 

اسلام نے ایک نفیس ، مکمل اور جامع معاشی نظام پیش کیا جس میں یہ طے کیا گیا کہ دولت کا انتظام کیسے کیا جاتا ہے ، اس کی ملکیت کیسے  حاصل کی جاتی ہے اور اسے کس طرح استعمال کیا جاتا ہے ۔  اسلام نے ملکیت کی اقسام کو واضح کیا: نجی ملکیت ، ریاستی ملکیت ، اور عوامی ملکیت ، اور ہر فریق کی ملکیت کو کسی دوسرے فریق کی خلاف ورزی سے محفوظ رکھا ، دوسروں کے اثاثوں پر تجاوزات سے متعلق احکامات واضح کیے ۔

شریعت کے متن کا مطالعہ کرنے سے ، ہمیں  افراد اور ریاست کی ملکیت کی حدود معلوم ہوتی ہیں ، اور وہ جو عوامی اثاثوں(عوامی ملکیت) کے تحت آتا ہے ۔

 

اسلام میں ملکیت کی اقسام  اور  اس کی وضاحت  :

 

پہلا: عوامی ملکیت

اس کی تعریف اس طرح کی گئی ہے: )إذن الشارع للجماعة بالاشتراك في الانتفاع بالعين(" :             شارع کی طرف سے معاشرے کو مشترکہ طور پر اثاثے سے فائدہ اٹھانے کی اجازت" ، اور اس کی درجہ بندی اس طرح کی گئی ہے:

 

1-معاشرے  کے استعمالکے لئے

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  , «النَّاسُ شُرَكَاءُ فِي ثَلَاثٍ، فِي الْمَاءِ وَالْكَلَأِ وَالنَّارِ» "انسان تین چیزوں میں شریک ہیں: پانی ، چراگاہ اور آگ "۔

 

جیسے پانی کے چشمے ، چراگاہ کی زمینیں ، اور توانائی کے ذرائع ، جو ایسی افادیت  رکھتے ہیں جن کو معاشرہ  اجتماعی طور پر تلاش کرتا ہے ۔

 

2-        زیر زمین دولت ، معدنیات

 

أبيض بن حمالسے روایت ہے  ، جنہوں نے کہا ، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ آپ مجھے نمک کی کان  عطا فرما دیں، آپ نے مجھے عطا کر دیا، جب میں واپس چلا گیا تو ایک آدمی نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ نے اسے کیا دیا ہے؟ آپ ﷺ نے اسے وہ عطا کیا جو نہ ختم ہونے والے  پانی کی طرح ہے (الماء العِدّ) تو  آپ ﷺ نے اسے واپس لے لیا"۔

لہذا ،بہت بڑے حجم میں موجود  تمام زیر زمین دولت  عوامی ملکیت  ہے ، جیسے پیٹرولیم ، گیس ، فاسفیٹ ، سونا ، لوہا ، اور باقی زیر زمین وسائل ۔  ریاست امت کی جانب سے اور امت کے فائدے کے لیے ان معدنیات کو نکالنے کا کام کرتی ہے ، جس سے ان کا فائدہ امت کو دستیاب ہوتا ہے ۔

 

3- ایسے اثاثے جو فطرت کے لحاظ سے عوامی ہوں ۔

 

ان کی نوعیت انہیں انفرادی طور پر ملکیت ہونے سے روکتی ہے ، جیسے سڑکیں ، عوامی چوکیاں ، دریا ، ساحل اور خلیج ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  «لَا حِمَى إِلَّا للهِ وَرَسُولِهِ»"اللہ اور اس کے رسول کے سوا کوئی   (حمی)تحفظ نہیں " ۔

 

امت کے ہر فرد کو عوامی ملکیت کو استعمال کرنے کا حق حاصل ہے ۔ ریاست کو کسی فرد کو یہ اجازت دینے کا اختیار  نہیں ہے ، کہ  وہ  فرد یا گروہ        ،    باقی لوگوں کو چھوڑ کر ، عوامی اثاثوں کا مالک بن جائے  یا ان کا استحصال اس انداز میں کرے کے    معاشرے کے دوسرے لوگوں اُن اثاثوں سے روک دے ۔

 

دوسرا: ریاستی ملکیت

 

اس میں وہ ہر اثاثہ شامل ہے جس کے اخراجات کا انحصار خلیفہ  کی رائے اور شرعی  استدلال (اجتہاد) پر ہے ۔جیسے فئی (لڑائی کے بغیر حاصل کیا گیا مالِ غنیمت )، خراج ، جزیہ ، دیگر ٹیکس ، خمس الرکاز (دفن خزانوں کا پانچواں حصہ) ریاست کے غیر شہریوں پر عائد کسٹم ڈیوٹی ، مرتد افراد کی دولت ، ان لوگوں کی دولت جن کے وارث نہ ہوں ، اور ریاست کی ملکیت والی کمپنیوں کی آمدنی ۔

 

ریاست اس چیز کی حقدار ہے جس کے افراد حقدار ہیں ، جیسے ورکشاپس ، فیکٹریوں اور زمینوں کا مالک ہونا ، اور ادارے اور کمپنیاں قائم کرنا تاکہ بیت المال (ریاستی خزانے) کی مدد کے لیے منافع اور محصول پیدا کیا جا سکے ۔

 

تیسرا: نجی ملکیت

یہ  شارع  کی اجازت ہے کہ  ایک فرد کسی اثاثے کوخود استعمال کرے یا اس کے   فائدے کو استعمالکرے یا اس کا تبادلہ کر لے ۔ اللہ نے زمین پر انسان کو اپنا نائب بنا یا ہے  اور  زمین کے خزانے اس کے سپرد کر دیے ہیں ، اور انسان کو اس کی ملکیت کا حق ہے۔ اللہ فرماتا ہے  

 

(وَسَخَّرَ لَكُم مَّا فِي ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَمَا فِي ٱلۡأَرۡضِ جَمِيعٗا مِّنۡهُۚ)،

 

" اور اللہ نے  اپنی طرف سے ،جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب  تمہارے تابع کر دیا   ہے"۔  (سورۃ الجاثیۃ: آیت 13)

 

اسلام نے وضاحت کی ہے کہ کس طرح افراد تجارت ، زراعت ، صنعت ، حصہ داری ، منافع میں شراکت داری ، شکار ، بنجر زمین کو قابلِ استعمالبنانے ،کسی چیز کو لیز پر دینے اور  زمین میں پائے جانے والے خزانے کے ذریعے دولت حاصل کرتے ہیں ۔نیز  ملکیت   وراثت ، تحائف ،  وقف، خیراتی اداروں ،  وصیت، حق مہر ، خون  بہا کی رقم ، اور ریاست کی طرف سے اسے دیئے گئے فنڈز کے ذریعے بھی حاصل کی جاتی ہے ۔

 

مذکورہ بالا سے ہمارے لیے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ جب اسلام ملکیت کی اقسام تقسیم کرتا ہے تو اس نے لوگوں کی دولت کی حفاظت کی اور کسی کو اس سے محروم نہیں کیا ۔ جب اسلام اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ آپ کو کس چیز کے مالک ہونے کی اجازت ہے ، تو یہ آپ کو دوسروں کی دولت پر تجاوز کرنے سے روکتا ہے ، اور یہ عوام کے کسی مخصوص گروہ  یا فرد کو اجارہ داری کی اجازت دیے بغیر،  جیسا کہ سرمایہ دار ممالک میں ہوتا ہے ،  امت کے فائدے کے لیے عوامی دولت کو محفوظ رکھتا ہے ۔

 

نجکاری اور غیر ملکی سرمایہ کاری

 

اب ہم ایک انتہائی اہم مسئلے کی طرف آتے ہیں: کہ غیر ملکی سرمایہ کاری جس کے عملی دائرہ کار میں عوامی ملکیت ، عوامی سہولیات ، اور ہر وہ چیز شامل ہے جس کی معاشرے کو ضرورت  ہوتی ہے اور وہ اجتماعی طور پر اس کی متلاشی ہوتی ہے ۔ یہ غیر ملکی سرمایہ کاری پٹرولیم ، گیس ، فاسفیٹ جیسے عوامی اثاثوں اور زیر زمین دولت سے متعلق تمام اثاثوں پر قبضہ کر لیتی ہے ۔ ایسی سرمایہ کاری لالچی سرمایہ دار کمپنیوں کی طرف سے آتی ہے جن کی واحد دلچسپی لوٹ مار اور غارت گری ہے۔ اور جو بدعنوانی ، لالچ ، اور حکومتوں اور عہدیداروں کو رشوت دینے کے لیے بدنام ہیں تاکہ وہ ملک کو لوٹنے میں  ان کےشراکت دار بنیں ۔سرمایہ کاری کے نظام کی بدترین قسم Build-Own-Operate (BOO) نظام ہے، جس میں حکومت کو ملکیت منتقل کرنے کا عزم شامل نہیں ہوتا، جیسا کہ Build-Operate-Transfer (BOT) کے نظام میں ہوتا ہے۔

 

یہ صورتِ حال  ملک کی خودمختاری کی خلاف ورزی کا سبب بنتی ہے، ریاست کو اپنے اہم قومی اثاثوں پر اختیار سے محروم کر دیتی ہے، اور عوام پر گہرے معاشی اثرات مرتب کرتی ہے۔یہ سرمایہ کاروں کو منصوبوں کی مستقل ملکیت عطا کرتا ہے اور طویل المدتی منافع کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔یہ معاشی پالیسی ریاست کو نجی شعبے، خصوصاً غیر ملکی کمپنیوں، کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتی ہے اور اس کے اہم وسائل پر خودمختاری کو خطرے میں ڈالتی ہے۔نجکاری اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے دروازے کھولنا ملک کو غیر ملکیوں کی آمد و قبضے کا گڑھ بنا دیتا ہے، جو بالآخر عوام کی غربت کا باعث بنتا ہے۔

 

سب سے بڑی اور سنگین مصیبت اُس وقت پیش آتی ہے جب ریاست عوامی سہولیات جیسے ہوائی اڈے، بندرگاہیں، سڑکیں، بجلی اور پانی کو نجی شعبے کے حوالے کر دیتی ہے۔ سب سے بڑی تباہی اُس وقت ہوتی ہے جب زیرِ زمین دولت — مثلاً تیل، گیس، فاسفیٹ اور دیگر معدنیات — کو اس بہانے نجی ہاتھوں میں دے دیا جاتا ہے کہ ریاست ان میں سرمایہ کاری یا ترقی نہیں کر سکتی۔

 

اس کے نتیجے میں ان اثاثوں اور سہولیات پر ریاست کا کنٹرول ختم ہو جاتا ہے، نجی اجارہ داریوں میں اضافہ ہوتا ہے، مہنگائی کی شرح بڑھتی ہے، امیروں اور غریبوں کے درمیان فاصلہ وسیع ہوتا ہے، اور بے روزگاری میں اضافہ ہوتا ہے۔

 

نجکاری کے سیاسی سطح پر منفی اثرات میں سے ایک یہ ہے کہ ریاست کی خودمختاری غیر ملکی سرمایہ داروں یا بیرونی اداروں جیسے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) اور عالمی بینک کے ہاتھوں متاثر ہوتی ہے۔ہمیں نجکاری کی ناکامی اور اس کے تباہ کن اثرات کی کئی مثالیں ملتی ہیں، جیسا کہ نوّے کی دہائی میں لاطینی امریکہ کا تجربہ — جو ناکام معاشی تجربات میں سے ایک نمایاں مثال ہے۔

 

نوّے کی دہائی کے مشہور واقعات میں سے ایک بولیویا میں پانی کے شعبے کی نجکاری تھی۔ حتیٰ کہ یورپی یونین کے ممالک بھی نجکاری کے نقصانات سے دوچار ہیں۔

 

عوامی سہولیات اور عوامی ملکیت کی نجکاری مالی و تجارتی سرمایہ داروں کے حکمرانی پر قابو پانے کا باعث بنتی ہے۔ اُس وقت اقتدار لالچی اور مفاد پرست طبقے کے ہاتھوں میں چلا جاتا ہے۔

 

نتیجہ :

سرمایہ دارانہ  ریاستوں کے ایوانوں میں، خصوصاً امریکہ کی قیادت میں، مسلم ممالک کے خلاف جو سیاسی اور معاشی منصوبے بنائے جا رہے ہیں، ان کی بنیادی وجہ ان ممالک کی بے پناہ دولت، قدرتی وسائل، اور وسیع سرمایہ کاری کے مواقع ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ ان ممالک کو مغربی سرمایہ دار طاقتوں کے لیے دولت کی کان اور اپنی مصنوعات کے لیے منڈی میں تبدیل کر دیا جائے۔

 

یہ طاقتیں مسلم ممالک کی دولت اور صلاحیتوں پر قبضہ جمانے کے لیے انہیں سود پر مبنی، ناپاک اور لالچی سرمایہ دارانہ معیشت میں ضم کرنا چاہتی ہیں، تاکہ سرمایہ کاری، نجکاری، اور ترقی کے نام پر مغربی منصوبوں کو نافذ کیا جا سکے۔

 

اسی مقصد کے تحت مغربی کمپنیوں کو متعارف کرایا جا تا ہے تاکہ وہ پیداوار کے ذرائع، دولت، اور عوامی سہولیات پر قبضہ حاصل کر سکیں، اور اس کوشش میں وہ دونوں جانب کے تاجروں اور مسلم ممالک کی حکمران سیاسی اشرافیہ کا سہارا لیتی ہیں۔

 

یہ عمل بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) کے دباؤ کے تحت ان ممالک کو سرمایہ کاروں کے لیے کھول دیتا ہے، جو ایسی پالیسیاں اور سفارشات پیش کرتا ہے جو معیشت کی تباہی اور بربادی کا باعث بنتی ہیں، یہاں تک کہ ریاست اپنی عوام کی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہو جاتی ہے۔

 

اس کے بعد عالمی بینک اپنے مشروط قرضوں اور سود (ربا) کے ذریعے میدان میں آتا ہے، اور ممالک کو اپنے ہاتھوں کی کٹھ پتلی بنا دیتا ہے۔ وہ نجکاری اور سرمایہ کاری سے متعلق اپنے بدنیت منصوبے نافذ کرتا ہے، جن کے ذریعے یہ ممالک الجھاؤ میں مبتلا ہو جاتے ہیں، اور سرمایہ دار کمپنیوں کی راہ ہموار ہو جاتی ہے تاکہ وہ ان پر معاشی اور سیاسی غلبہ حاصل کر سکیں۔

 

یہی صورتحال آج بیشتر مسلم ممالک میں نظر آتی ہے، جہاں دولت اور قدرتی وسائل کی بے دریغ لوٹ مار جاری ہے۔

اس المیہ کی اصل جڑ یہ ہے کہ نظامِ حکومت سے اسلام کو عملاً خارج کر دیا گیا ہے، اور مسلمانوں نے اللہ تعالیٰ کے  نظامِ  شریعت  کے قیام کے لیے حقیقی جدوجہد کرنے میں کوتاہی برتی ہے۔

 

مرض کی صحیح تشخیص ہی اس بات کی بنیاد ہے کہ علاج اسلام اور اس کےعطاء کردہ حل کے مطابق تجویز کیا جا سکے، تاکہ ہماری دولت، جائیدادیں اور وسائل استعماری کفار کے ہاتھوں گروی نہ ہوں، اور یوں ملک کی خودمختاری، اس کے فیصلوں اور ترقی کی سمت پر ان کا قبضہ نہ ہو سکے۔

Last modified onبدھ, 19 نومبر 2025 21:34

Latest from

Template Design © Joomla Templates | GavickPro. All rights reserved.