Logo
Print this page

بسم الله الرحمن الرحيم

ایک ملک کے بعد اگلے کی باری یوں آ رہی ہے، جیسے ہر گزرتے دن کے بعد اگلا دن آ جاتا ہے

 

(ترجمہ)

https://www.alraiah.net/index.php/political-analysis/item/9893-the-succession-of-nations-is-like-the-succession-of-days 

از: الأستاذ خالد علي – أمريكہ

اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا  :

 

﴿قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاء وَتَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاء وَتُعِزُّ مَن تَشَاء وَتُذِلُّ مَن تَشَاءُ بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلَىَ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ * تُولِجُ اللَّيْلَ فِي الْنَّهَارِ وَتُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ وَتُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَتُخْرِجُ الَمَيَّتَ مِنَ الْحَيِّ وَتَرْزُقُ مَن تَشَاء بِغَيْرِ حِسَابٍ

 

”آپ کہہ دیجئے اے اللہ! اے تمام جہان کے مالک! تو جسے چاہتا ہے بادشاہی عطا فرماتا ہے اور جس سے چاہتا ہے، چھین لیتا ہے اور تو جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اورجسے چاہتا ہے ذلت دیتا ہے، تیرے ہی ہاتھ میں سب بھلائیاں ہیں، بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے ٭ تو ہی رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں لے جاتا ہے، تو ہی بے جان سے جاندار پیدا کرتا ہے اور تو ہی جاندار سے بے جان پیدا کرتا ہے، اورتو ہی ہے کہ جسے چاہتا ہے بے شمار رزق عطا فرماتا ہے“۔ [آل عمران؛ 3:26،27]

 

6یہ روایت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جس میں ان آیات کے شانِ نزول کے بارے میں بیان ہوا ہے، کہ انہوں نے فرمایا: "لَمَّا افْتَتَحَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مَكَّةَ وَعَدَ أُمَّتَهُ مُلْكَ فَارِسَ وَالرُّومِ فقَالَ الْمُنَافِقُونَ وَالْيَهُودُ: هَيْهَاتَ هَيْهَاتَ مِنْ أَيْنَ لِمُحَمَّدٍ ﷺ مُلْكُ فَارِسَ وَالرُّومِ؟" ”جب رسول اللہ ﷺ نے مکہ فتح کیا اور اپنی امت کو فارس اور روم پر حکمرانی کا وعدہ دیا، تو منافقین اور یہودیوں نے کہا: یہ ناممکن بات ہے! محمد ﷺ آخر کیسے فارس اور روم پر غلبہ حاصل کر سکتے ہیں؟“، چنانچہ یہ آیات اس حقیقت کو واضح کرنے کے لیے نازل ہوئیں کہ بادشاہت، قوت کے ذرائع، قیادت اور حکمرانی صرف اللہ ﷻ کے ہاتھ میں ہے۔ وہ ﷻ جسے چاہتا ہے اور جب چاہتا ہے، عطا فرما دیتا ہے اور ، جس کسی سے بھی اور جب چاہتا ہے، واپس لے لیتا ہے۔ بعض علماء کرام نے فرمایا ہے کہ یہ (اقتدار و حکمرانی کا عطا ہونا یا سلب کیا جانا) اعمال کے معیار پر مبنی ہوتا ہے، یعنی اللہ ﷻ بادشاہت اور اختیار اُن کو عطا فرماتا ہے جو اسے عدل و حق کے ساتھ قائم رکھتے ہیں، اور اُن سے چھین لیتا ہے جو اپنے رب ﷻ کے احکام کی نافرمانی کرتے ہیں۔ یہ اللہ ﷻ کی سنت ہے جو نظامِ حیات میں ہمیشہ سے قائم و دائم ہے، نہ تو اس میں کوئی تبدیلی آ سکتی ہے اور نہ ہی اس میں کوئی تغیر ہو سکتا ہے۔

اللہ ﷻ نے فرمایا،

 

﴿وَكَأَيِّنْ مِّن قَرْيَةٍ عَتَتْ عَنْ أَمْرِ رَبِّهَا وَرُسُلِهِ فَحَاسَبْنَاهَا حِسَاباً شَدِيداً وَعَذَّبْنَاهَا عَذَاباً نُّكْراً

 

”اور کتنی ہی بستیاں ایسی تھیں جن (کے رہنے والوں) نے اپنے رب کے حکم اور اُس کے رسولوں سے سرکشی و سرتابی کی تو ہم نے اُن کا سخت حساب کی صورت میں محاسبہ کیا اور انہیں ایسے سخت عذاب میں مبتلا کیا جو نہ دیکھا نہ سنا گیا تھا“۔ [سورۃ الطلاق؛ 65:8]

اور ارشاد فرمایا،

 

﴿وكَأَيِّن مِّن قَرْيَةٍ أَمْلَيْتُ لَهَا وَهِيَ ظَالِمَةٌ ثُمَّ أَخَذْتُهَا

 

”اور کتنی ہی ایسی بستیاں ہیں جن کو میں نے مہلت دی۔ حالانکہ وہ ظالم تھیں۔ پھر میں نے انہیں پکڑ لیا اور (آخرکار) میری طرف لوٹ کر آنا ہے“۔ [سورۃ الحج؛ 22:48]

پس یہی سنتِ الہٰی ہے اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے کلام میں کوئی تبدیلی نہیں، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

 

﴿سُنَّةَ اللهِ فِي الَّذِينَ خَلَوْا مِن قَبْلُ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللهِ تَبْدِيلاً

 

 

”یہ اللہ کی سنت ہے، ان لوگوں میں جو پہلے گزر گئے، اور تم اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے“۔ [سورۃ الاحزاب؛ 33:62]

پھر اللہ تعالیٰ اگلی آیت میں بیان فرماتا ہے کہ وہ رات اور دن کو کیسے بدلتا رہتا ہے — رات کا آغاز اس وقت ہوتا ہے جب دن آہستہ آہستہ رخصت ہونے لگتا ہے، اور دن کا آغاز اس وقت جب رات اپنے اختتام کو پہنچتی ہے۔ یہ تبدیلی نہایت ہم آہنگ اور متوازن انداز میں ہوتی ہے، جیسے پانی کا بہاؤ — نرم، مسلسل اور تدریجی، جسے انسان ایک دم محسوس نہیں کرتا بلکہ بتدریج دیکھتا ہے کہ کس طرح رات روشن دن میں بدل جاتی ہے یا دن گہری رات میں ڈھل جاتا ہے۔

 

ان دونوں آیات میں جو چیز قابلِ غور ہے، وہ اللہ ﷻ کے ان آفاقی قوانین کے درمیان تعلق ہے جو اجرامِ فلکی اور سیاروں کی حرکات کو منظم کرتے ہیں، یعنی رات اور دن کے ایک دوسرے میں مدغم ہونے اور ایک ہی دن کے اندر ان کے مسلسل گردش کرنے کے نظام کو، اور اللہ ﷻ کی سنت نظامِ حیات میں بھی لاگو ہوتی ہے، جہاں ریاستوں اور سلطنتوں کے حالات بدلتے رہتے ہیں: یعنی کچھ عروج پاتی ہیں، کچھ زوال کا شکار ہوتی ہیں، اور کچھ مٹ جاتی ہیں، یہ سب اللہ ﷻ کے حکم سے ہوتا ہے۔ اللہ ﷻ نے فرمایا :

 

﴿تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاء وَتَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاءُ

 

”تو جسے چاہتا ہے بادشاہی عطا فرماتا ہے اور جس سے چاہتا ہے، چھین لیتا ہے“۔ [آل عمران؛ 3:26]

گویا اللہ تعالیٰ لوگوں سے فرما رہا ہے: کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ رات اور دن کو کس طرح بدلتا ہے؟ وہ دن کو رات میں داخل کرتا ہے ، اس کی ابتدائی علامتیں ظاہر ہونے لگتی ہیں، اس کے آثار لوگوں کی آنکھوں کے سامنے آ جاتے ہیں، یہاں تک کہ رات کی تاریکی پوری طرح چھٹ جاتی ہے، اور روشن صبح نمودار ہوتی ہے، یہاں تک کہ دن مکمل ہو جاتا ہے اور اس کا سورج واضح اور تابناک طور پر چمکنے لگتا ہے۔ پھر کچھ ہی دیر بعد سورج غروب ہونے لگتا ہے، دن ماند پڑنے لگتا ہے، یہاں تک کہ وہ اپنے اختتام کو پہنچتا ہے، اس کی روشنی دھندلا جاتی ہے، پھر ختم ہو کر غائب ہو جاتی ہے، اور رات دوبارہ لوٹ آتی ہے۔ زندگی کا یہ روزمرّہ چکر، جسے ہر آنکھ دیکھتی ہے اور ہر عقل سمجھتی ہے، بالکل وہی چکر ہے جو قوموں، لوگوں، سلطنتوں اور بادشاہتوں کی زندگی میں بھی کارفرما ہے۔ جیسے ہی بعض سلطنتوں اور طاقتوں کا ستارہ اُفق پر طلوع ہو کر چمکنے لگتا ہے، ویسے ہی وہ اللہ ﷻ کے حکم سے ڈوبنے اور فنا ہونے لگتا ہے۔

 

امام ابن عاشور رحمہ اللہ نے فرمایا: وهذا رَمْزٌ إلى ما حَدَثَ في العالَمِ مِن ظُلُماتِ الجَهالَةِ والإشْراكِ، وإلى ما حَدَثَ بِظُهُورِ الإسْلامِ مِن إبْطالِ الضَّلالاتِ، ولِذَلِكَ ابْتُدِئَ بِقَوْلِهِ ﴿تُولِجُ اللَّيْلَ في النَّهارِ﴾، لِيَكُونَ الِانْتِهاءُ بِقَوْلِهِ: ﴿وتُولِجُ النَّهارَ في اللَّيْلِ" ”یہ اس بات کی علامت ہے کہ دنیا میں جہالت اور شرک کی تاریکیاں کیسے پھیلیں، اور پھر اسلام کے ظہور کے ساتھ گمراہیوں کا خاتمہ کیسے ہوا۔ اسی لیے اللہ ﷻ نے اپنی بات کی ابتدا یوں فرمائی: ”تو رات کو دن میں داخل کرتا ہے“ تاکہ بات کا اختتام اس پر ہو: ”اور تو دن کو رات میں داخل کرتا ہے““۔

 

جو چیز آج ہمارے زمانے میں بالکل واضح ہے، اور کسی صاحبِ بصیرت سے پوشیدہ نہیں، وہ یہ ہے کہ ہم ایک ایسے ستارے کے غروب ہونے کے لمحے کا مشاہدہ کر رہے ہیں جس کی طاقت اور بالادستی نے طویل عرصے تک زمین کے مشرق و مغرب کو ظلم و جبر کے سائے میں رکھا، یعنی وہ سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی، جس کا آغاز سترہویں صدی میں ہوا اور جس نے رفتہ رفتہ پوری دنیا پر غلبہ حاصل کر لیا۔ اس نے زمین میں سرکشی کی اور تکبر کے ساتھ ظلم وجبر برپا کیا، اور وہاں شروفساد کو بڑھا دیا۔ اگرچہ وہ بنیادوں پر کھڑا مضبوط ہی کیوں نہ نظر آتا ہو، تو بھی اس پر عنقریب اللہ ﷻ کا غضب نازل ہوگا، اور ظالم ہی خسارہ پانے والے ہوں گے۔ اور آج جب ہم اس آئیڈیالوجی اور اس سے وابستہ ریاستوں کے زوال کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں، اور اللہ کی اٹل سنت کے مطابق ان کے سقوط کی حتمیت کا مشاہدہ کر رہے ہیں، ہم دیکھتے ہیں کہ کئی مغربی مفکرین بھی جو حقیقت شناس اور دور اندیش ہیں، وہ خود اس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ اس نظام کا انجام قریب آن پہنچا ہے اور اس کا زوال یقینی ہے۔

 

چنانچہ امریکی مفکر پال کینیڈی (Paul Kennedy) نے 1987ء میں اپنی کتاب ”عظیم طاقتوں کا عروج و زوال“ "The Rise and Fall of the Great Powers" میں یہ بات بیان کی تھی: ”امریکہ کا عالمی طاقت میں حصہ گزشتہ چند دہائیوں کے دوران روس کے مقابلے میں نسبتاً تیزی سے کم ہو رہا ہے… امریکہ کے لئے دنیا میں اپنا مقام برقرار رکھنے کا واحد راستہ یہ رہ گیا ہے کہ وہ بیرونی سرمایہ بڑے پیمانے پر درآمد کرتا رہے، اور اس حقیقت نے امریکہ کو چند ہی برسوں میں دنیا کے سب سے بڑے قرض دینے والے ملک سے دنیا کے سب سے بڑے مقروض ملک میں تبدیل کر دیا ہے… اگر امریکہ یونہی اس وقت اپنی مجموعی قومی پیداوار (GNP) کا سات فیصد یا اس سے زیادہ دفاعی اخراجات پر صرف کرتا رہا، تو یہ ناگزیر دکھائی دیتا ہے کہ عالمی صنعت میں امریکہ کا حصہ مسلسل کم ہوتا جائے گا، اور اس کی اقتصادی ترقی کی رفتار اُن ممالک کے مقابلے میں سست رہے گی جو مارکیٹ کی معیشت پر زیادہ توجہ دیتے ہیں اور دفاع پر کم وسائل خرچ کرتے ہیں“۔

 

فرانسیسی مفکر ایمانوئل ٹوڈ (Emmanuel Todd) نے اپنی کتاب "After the Empire: The Breakdown of the American Order (2001)"  میں کہا: ”اگرچہ امریکہ نے اقتصادی طاقت کے لحاظ سے نسبتاً کمی کا سامنا کیا ہے، لیکن اس نے عالمی معیشت سے دولت ہڑپ کرنے کی اپنی صلاحیت کو بے پناہ بڑھانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ امریکہ کا داخلی اقتصادی اور معاشرتی بکھراؤ، زوال کی علامات میں سے ایک ہے، اور امریکہ طاقت کے اظہار کے لیے نہیں بلکہ اپنی کمزوری کو چھپانے کے لیے تشددکا استعمال کرتا ہے۔ حقیقی طور پر دیکھا جائے تو امریکہ ایک شکار کرنے والا بن گیا ہے؛ لیکن کیا اس صورتحال کو طاقت کی علامت سمجھا جائے یا کمزوری کی؟ اس پر بحث ہو سکتی ہے، لیکن بہرحال یہ بات یقینی ہے کہ امریکہ کو اپنی بالادستی قائم رکھنے کے لیے سیاسی اور عسکری محاذ پر لڑنا پڑے گا، کیونکہ یہ بالادستی اس کے معیارِ زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے لازمی ہو گئی ہے“۔

 

نوم چومسکی نے اپنی کتاب "Hegemony or Survival: America's Quest for Global Dominance (2003)" میں لکھا ہے: ”آئکن بیری (Ikenberry) کہتے ہیں: ”نئی سامراجی گرینڈ اسٹریٹیجی امریکہ کو ایک ایسی نظر ثانی پسند ریاست کے طور پر پیش کرتی ہے جو اپنے عارضی فوائد کو ایسی عالمی حکمرانی میں بدلنا چاہتی ہے جہاں کا کرتا دھرتا وہی رہے“، اس سے دیگر ممالک ایسے طریقے تلاش کرنے پر مجبور ہوتے ہیں تاکہ وہ امریکہ کی طاقت کے اثرات کو کم کریں، اسے محدود کریں، یا اس کے خلاف ردعمل ظاہر کریں۔ یہ حکمت عملی ”دنیا کو زیادہ خطرناک اور تقسیم درتقسیم ہونے کا خطرہ رکھتی ہے — اور امریکہ کو کم محفوظ بناتی ہے“، یہ وہ نقطہ نظر ہے جو خارجہ پالیسی کے ماہرین میں وسیع پیمانے پر قبول کیا جاتا ہے“۔یعنی ”امریکہ اندرونی طور پر زوال پذیر ہے، اور اسے گرانے کے لیے کسی بیرونی دشمن کی ضرورت نہیں“۔

 

کریس ہیجز (Chris Hedges) نے اپنی کتاب "Empire of Illusion: The End of Literacy and the Triumph of Spectacle" (2009) میں لکھا: ”امریکہ محض ایک ظاہری پردہ بن کر رہ چکا ہے۔ یہ وہ سب سے بڑا فریب بن گیا ہے جو فریبوں کی ثقافت میں چھپا ہوا ہے“۔ ”امریکی تاریخ میں کبھی بھی ہماری جمہوریت اس قدر خطرے میں نہیں رہی، اور مُطلق العنانیت (totalitarianism) کا امکان کبھی بھی اتنا حقیقی نہیں رہا“۔ اور اس نے مزید کہا: ”ہم کسی بھی تہذیب کے آخری مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں؛ انکار کا مرحلہ، جہاں حقیقت کی جگہ تفریح آ جاتی ہے، اور سوچ و فکر کی جگہ لغو اور فضول باتیں لے لیتی ہیں“۔

 

مصنف اینڈریو جے. بیسوِچ (Andrew J. Bacevich) اپنی کتاب "The Limits of Power: The End of American Exceptionalism" (2009) میں لکھتا ہے : ”امریکی طویل عرصے سے خود کو ایک سپر پاور سمجھنے کے عادی رہے ہیں، مگر اب تک وہ یہ ادراک نہیں کر پائے کہ انہوں نے اپنی تقدیر پر اختیار کھو دیا ہے۔ توسیع پسندی، فراوانی، اور آزادی کے درمیان جو باہمی تعلق تھا — جس میں ہر ایک دوسرے کو تقویت دیتا تھا — اب وہ تعلق موجود نہیں رہا۔ بلکہ، اگر حقیقت دیکھی جائے تو معاملہ اس کے برعکس ہے: توسیع پسندی امریکی دولت اور طاقت کو کھائے جا  رہی ہے، اور آزادی کو خطرے میں ڈال رہی ہے“۔ ”امریکہ اب نہ تو وہ وسائل رکھتا ہے اور نہ ہی وہ اخلاقی یا قانونی جواز، جس کے ذریعے وہ دنیا پر اپنی مرضی مسلط کر سکے“۔

 

اور ایسی سینکڑوں کتابیں اور تصنیفات لکھی جا چکی ہیں جن میں امریکی عالمی نظام کے زوال کو ناگزیر قرار دیا گیا ہے۔ اور یہ اس آفاقی حقیقت کی تصدیق ہے جو ظالم اور متکبر حکومتوں کے فنا ہونے سے متعلق ہے۔ آج ہم اسی تبدیلی کے لمحے کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں، اور اس کی نشانیاں ہمارے سامنے واضح طور پر ظاہر ہیں۔ اس زوال کی ابتدائی علامتیں پہلی خلیجی جنگ سے ظاہر ہونا شروع ہوئیں، جب امریکہ نے عراق پر جارحیت کی، بے گناہوں کا قتل عام کیا، زمینوں پر قبضہ کیا، افغانستان کو تباہ کیا، اور ظلم و زیادتی کا ایک ایسا منظرپیش کیا جو انصاف اور انسانیت سے عاری تھا۔ اس نے اقوام کے وسائل لوٹے، دنیا بھر میں فساد، گمراہی، بے راہ روی اور بدکاری کو پھیلایا۔ معیشت بگڑ گئی، مالیاتی نظام زوال کا شکار ہوا، یہاں تک کہ کرپشن اپنی انتہا کو پہنچ گئی، اور امریکہ نے فلسطین میں صیہونی فاشسٹ وجود کی کھلی حمایت کے ذریعے غزہ کے عوام پر قتل و غارت، تباہی، جبری بے دخلی، نسل کشی، اور بھوک سے مارنے کے وہ مظالم روا رکھے جن سے جنگل کے درندے بھی شرمندہ ہوں۔ پس یہ کرپشن، زوال اور غیر انسانی رویہ یقیناً ظالموں کے لیے تباہی کا پیش خیمہ اور ان کے اختتام کا اعلان ہے۔

اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا،

 

﴿وَكَمْ قَصَمْنَا مِن قَرْيَةٍ كَانَتْ ظَالِمَةً وَأَنشَأْنَا بَعْدَهَا قَوْماً آخَرِينَ

 

اور ہم نے کتنی ہی بستیوں کو تباہ و برباد کر ڈالا جو ظالم تھیں اور ان کے بعد ہم نے اور قوموں کو پیدا فرما دیا“ (سورۃ الأنبياء: 11)۔

 

 

آج جو ہم زوال اور انحطاط کی صورت میں دیکھ رہے ہیں، وہ درحقیقت ایک عہد کے اختتام کے سوا کچھ نہیں۔ یہ اُس رات کا انجام ہے جس کی تاریکی طویل ہو گئی تھی، جس کے دن بھی اندھیرے میں ڈوب گئے تھے۔ مگر اب اس کی سیاہی چھٹنے لگی ہے، اور اندھیرا بکھر رہا ہے کیونکہ ایک الہامی فکر کی روشنی دوبارہ طلوع ہو رہی ہے، جس کی کرنیں افق پر نمودار ہو چکی ہیں۔ یہ ایک پاکیزہ اور خالص فکر ہے، جسے وہ امت اٹھائے ہوئے ہے جو اس پر ایمان رکھتی ہے، اور جس نے اس کے لیے اپنے قیمتی ترین مال تک بھی قربان کر دئیے ہیں۔ اب اس زمانے کے ظالم فرعون اس فکر کو جھٹلا نہیں سکتے۔ وقت کا پہیہ گھوم چکا ہے، اس کی مقررہ گھڑی آن پہنچی ہے، اور ظلم وجبر کی کوئی طاقت اب اسے روک نہیں سکتی۔ یہ بس دن کی ایک گھڑی کی بات ہے، یا نیند کے بعد ایک بیداری یہاں تک کہ وقت کا چکر مکمل ہو جائے۔ اللہ ﷻ اس کی فجر کے طلوع کی اجازت دے گا، اور یہ اللہ ﷻ کے لئے ہرگز دشوار نہیں۔ اے اللہ ﷻ! ہماری آنکھوں کو اس کے آفتاب کا نور دیکھنے کی ٹھنڈک نصیب فرما، اس کے عدل کی رحمت اور اس کے وقار کی عظمت کا مشاہدہ کرنے کی سعادت عطا فرما۔ آمین یا رب العالمین۔

 

Last modified onجمعرات, 13 نومبر 2025 21:57

Latest from

Template Design © Joomla Templates | GavickPro. All rights reserved.